ضرورت و انتخاب امام – توحید در انتخاب – دوسرا حصہ

ایک اور دلیل
یہ بات پہلے عرض کردیں اگر امام علیہ السلام کے سامنے کوئی بات بیان کی جائے امام علیہ السلام اس کی تصدیق کردیں ’’روایت کا درجہ رکھتی ہے اسی طرح وہ بات بھی معتبر و مستند ہے جو امام علیہ السلام کے سامنے انجام دی جائے اور امام علیہ السلام اس کی تردید نہ کریں۔\
منصور بن حازم کی روایت ہے۔ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت اقدس میں عرض کیا:
خداوند عالم اس سے کہیں بلند و برتر ہے کہ وہ اپنی مخلوق کے ذریعہ پہچانا جائے بلکہ مخلوقات خداوند عالم کے ذریعہ پہچانی جاتی ہیں۔
امام علیہ السلام نے فرمایا۔ تمہارا کہنا درست ہے۔
میں نے عرض کیا: جو یہ معرفت رکھتا ہے اس کا ایک رب ہے اس کو یہ جاننا چاہئے اس خدا کے لئے خوشنودی بھی ہے اور ناراضگی بھی ہے۔ اس کی خوشنودی اور ناراضگی وحی اور رسول کے علاوہ کسی اور ذریعہ سے معلوم نہیں کی جاسکتی ہے۔ جس کے پاس وحی نہیں آئی ہے اس کو رسول کی تلاش کرنا چاہئے اور جب رسول سے ملاقات ہوجائے اور یہ معلوم ہوجائے۔ یہ حجت خدا ہیں اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری لازم و ضروری ہے۔
میں نے لوگوں سے کہا۔ کیا آپ جانتے ہیں حضرت رسول خدا ﷺ مخلوقات پر خدا کی طرف سے حجت تھے۔
ان لوگوں نے جواب میں کہا۔ ہاں یقیناً
میں نے کہا۔ حضرت رسول خدا ﷺ کے دنیا سے چلے جانے کے بعد مخلوقات پر خدا کی حجت کون ہے؟
کہنے لگے۔ قرآن کریم
میں نے قرآن کو دیکھا تو دیکھا مرجئہ قد\ری، زندیق— ہر ایک قرآن سے استدلال کررہا ہے اور کامیاب ہورہا ہے۔ مجھے یقین ہوگیا قرآن کریم بغیر کسی سرپرست اور محافظ کے حجت نہیں ہے وہ جو قرآن کے بارے میں بتائے وہ حق ہے؟
میں نے لوگوں سے دریافت کیا۔ اس وقت قرآن کریم کا سرپرست و محافظ کون ہے؟
کہنے لگے۔ ابن مسعود قرآن کے بارے میں جانتے ہیں۔ عمر بھی جانتے ہیں۔ حذیفہ بھی جانتے ہیں۔
میں نے کہا — کیا یہ لوگ قرآن کریم کا مکمل علم رکھتے ہیں؟
کہنے لگے — نہیں (قرآن کریم کا مکمل علم تو نہیں رکھتے ہیں)
کہنے لگے ہماری نظر میں ان میں تو کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جس کے پاس قرآن کریم کا مکمل علم ہو سوائے علی بن ابی طالب علیہ السلام کے۔
جب قوم میں کوئی مسئلہ پیش آتا ہے ان سے دریافت کرو، کہتے ہیں۔ ’نہیں معلوم‘ دوسرے سے دریافت کرو۔ وہ کہتے ہیں ’’نہیں معلوم‘‘ جب ان سے (علیہ السلام) سے دریافت کرو تو فرماتے ہیں ہاں مجھے معلوم ہے۔
میں گواہی دیتا ہوں قرآن کے سرپرست محافظ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں ان کی اطاعت واجب ہے اور حضرت رسول خدا ﷺ کے بعد وہی خدا کی طرف سے لوگوں پر حجت ہیں۔ وہ جو کچھ قرآن کریم کے بارے میں بیان فرمائیں وہ حق ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا۔ خدا تم پر رحم کرے۔{ FR 444 }
ان دونوں روایتوں میں غور کرنے سے چند باتیں واضح ہوتی ہیں۔
(۱) عقیدہ امامت (حجت خدا) کی گفتگو ان لوگوں سے ہے جو خدا کا اقرار کرتےہیں اس کی وحدانیت کو تسلیم کرتے ہیں۔
(۲) وہ لوگ جو خدا کے قائل نہیں ہیں ان سے رسالت و امامت کی گفتگو بے کار ہے جب وہ خدا ہی کو تسلیم نہیں کرتے تو اس کے نمائندوں کا کیا سوال۔
(۳) خداوندعالم کی ذات ایسی ہے جو لوگوں کے درمیان آنہیں سکتی ہے لوگ کسی بھی طرح اپنی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ نہیں کرسکتے ہیں۔
(۴) لوگوں کے مصالح و منافع ضرر و نقصان خدا کے علاوہ کوئی اور بیان نہیں کرسکتا ہے یعنی لوگوں کی کامیاب زندگی کے لئے قانون بنانے کا حق صرف خدا کو ہے۔
(۵) جب خدا ہے تو یقینا کچھ باتیں ایسی ہیں جو اس کی خوشنودی کا سبب ہیں اور کچھ باتیں ایسی ہیں جو اس کی ناراضگی کا سبب ہیں۔
(۶) جب ہم خدا کے وجود پر یقین رکھتے ہیں اور اس کی نعمتوں سے استفادہ کررہے ہیں تو ہماری ذمہ داری ہے کہ ہمیشہ ان باتوں پر عمل کریں جو خدا کی خوشنودی کا سبب ہیں اور ان باتوں سے پرہیز کریں جو اس کی ناراضگی کا سبب ہیں۔
(۷) خداوند عالم اپنی لا محدود عظمتوں کی بنا پر مخلوقات کے درمیان آ نہیں سکتا ہے۔
(۸) ضروری ہے اس کی طرف سے نمائندے آئیں جو لوگوں تک اس کا پیغام پہونچائیں۔
(۹) یہی نمائندے حجت خدا ہیں جن کا ہر دور میں ہونا ضروری ہے۔
(۱۰) دوسری حدیث میں اس حقیقت کو پیش کیا گیا ہے قرآن کریم اکیلے حجت نہیں ہے ہر ایک شخص اپنی باتیں قرآن سے ثابت کرتا ہے۔
(۱۱) جو لوگ قرآن کے علم کا دعویٰ کرتے ہیں ان میں سے کوئی ایک پورے قرآن سے پوری طرح واقف نہیں ہے۔
(۱۲) قرآن کریم کے لئے ایک محافظ و سرپرست کی ضرورت ہے جو قرآن کریم سے پوری طرح واقف ہو قرآن کریم کا مکمل علم رکھتا ہو۔ تاکہ قرآن کریم کے اپنے مطالب بیان کرسکے۔
(۱۳) ان صفات کی حامل صرف ایک ذات سے جس کا نام حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام ہے۔
(۱۴) بس وہی حجت خدا ہیں۔
(۱۵) ان کی اطاعت ہر ایک پر لازم و ضروری ہے۔
ان باتوں کی روشنی میں یہ بات نہایت درجہ واضح ہے ہر دور میں ہر زمانہ میں ایک ایسے شخص کا وجود ضروری ہے۔
الف۔ جو لوگوں کو ان تمام چیزوں سے آگاہ کرسکے جو ان کے لئے فائدہ مند یا نقصان دہ ہیں۔
ب۔ ان باتوں کی وضاحت کرے جس میں خدا کی خوشنودی یا ناراضگی ہے۔
ج۔ وہ قرآن کے حقیقی مطالب بیان کرسکے۔
د۔ تاکہ لوگ خدا کی عبادت کرسکیں اور وہ بھی اس طرح عبادت کرسکیں جو پوری طرح خدا کی مرضی کے مطابق ہو۔ اور اپنی خلقت کے مقصد کو پورا کرسکیں۔
ھ۔ تاکہ لوگ دنیا و آخرت میں سعادت مند اور کامیاب زندگی بر کرسکیں۔
ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام صاحبان عقل و خرد سے سوال کرتے ہیں حضرت رسول خدا ﷺ کے بعد وہ کون شخص ہے جس میں یہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ اور کون ہے جو ان تمام ضرورتوں کو بالکل اچھی طرح پورا کرسکتا ہے؟
کیا تاریخ کے دامن میں حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے علاوہ کوئی اور ہے جس کی ذات میں یہ تمام خصوصیات اپنی کمال کی منزلوں تک پائی جاتی ہوں۔
وہ شخص جو لوگوں کے سامنے خدا کے احکام بیان کرے ان کوخدا کی خوشنودی اور ناراضگی سے آگاہ کرے۔ جس کے پاس قرآن کریم کا مکمل علم ہو۔
کیا ساری دنیا کے لوگ بلکہ دنیا کے تمام دانشور مل کر کسی ایسے شخص کا انتخاب کرسکتے ہیں جس میں یہ خصوصیات پائی جاتی ہوں۔
اس طرح کا انتخاب لوگوں کے بس میںنہیں ہے۔
کیونکہ
دنیا کے تمام عقلاء دانشوروں کی رسائی انسان کے ظاہر تک ہے وہ بس ایک حد تک اسکے باطن کو بتا سکتے ہیں۔ جبکہ ان خصوصیات کا تعلق انسان کے باطن سے ہے وہ بھی ایسی معلومات جس میں کبھی بھی کسی بھی صورت میں خطاء کا امکان نہ ہو۔
یہ انتخاب صرف اور صرف خدا کے ذریعہ ممکن ہے۔ کسی کا ایک کا بھی اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔
لہٰذا حضرت رسول خدا ﷺ کے بعدان کے جانشین حجت خدا، نمائندہ خدا بس وہی ہوگا جس کو خدا منتخب کرے گا۔
جب ہم امامت کی تعریف میں سرحدوں کی حفاظت اور عام فلاحی امور کی بات کریں گے تو اس شخص کو منتخب کریں گے جو یہ ذمہ داریاں نبھا سکتا ہو۔ لیکن اگر امامت بیان احکام ہے۔ تفسیر قرآن سے، تبیین شریعت، رفع اختلاف ہے۔ تو اس کے لئے ایک ایسے فرد کی ضرورت ہوگی جو شریعت کے تمام احکام کلی و جزئی سے پوری طرح واقف ہو قرآن کریم کے تمام علوم و معارف اس کے سامنے ہوں۔ وہ شریعت کی ہر ایک باریکیوں سے خوب واقف ہو۔ رفع اختلاف کے لئے ہر ایک مسئلہ کی گہرائی تک نظر رکھتا ہو۔ ایسے فرد کے انتخاب کا راستہ جداگانہ ہوگا۔
عام لوگ اس دوسری صورت حال کو کیوں قبول نہیں کرتے ہیں؟
اس کی وجہ یہ ہے اگر لوگ اس دوسری صورت حال کو تسلیم کریں گے تو حاکم کے انتخاب میںان کا کردار پوری طرح ختم ہوجائیگا کیونکہ ان خصوصیات کے حامل فرد کا انتخاب انسانوں کے بس میں نہیں ہے۔ اس کے علاوہ دوسری اہم وجہ یہ ہے جو شاید اصلی وجہ ہو۔ وہ یہ کہ وہ تمام افرد جن کو لوگوں نے منتخب کیا ہے ان میں سے کسی ایک میں بھی یہ تمام خصوصیات موجود نہیں ہیں۔ نتیجہ میں ان تمام افراد سے لوگوں کو دست بردار ہونا پڑے گا تو برسوں سے جن کو دلوں میں تقدس و احترام سے سجا کر رکھا ہے ان کو کس طرح دل سے نکال دیں توحید کی راہ میں یہی مشکل ان لوگوں کے ساتھ بھی تھی جو مدتوں بلکہ نسلوں سے، غیروں کو دل میں سجا کے بیٹھے تھے جب ان کو توحید کی حقانیت کی طرف دعوت دی جاتی تھی تو کہتے تھے:
’’ہم نے اپنے آباو اجداد کو اسی راستہ پر پایا ہے ہم انھیں کے راستہ پر چلتے رہیں گے۔‘‘\
اگر انسان ذرا بھی عقل و انصاف سے کام لے اور امامت کی حقیقی ضرورت سے واقف ہو۔ تو وہ اہل بیت علیہم السلام کے علاوہ کسی اور کی امامت کا قائل نہیں ہوسکتا۔
باب معرفت و عبادت
خداوند عالم نے انسان کو اپنی معرفت و عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ یہی معرفت و عبادت انسان کا کمال ہے۔ مادیت اور جہالت میں گھرا انسان خود سے خداوند قدوس کی معرفت و عبادت حاصل نہیں کرسکتا ہے۔ اگر خود سے پہونچنے کی کوشش کرے گا تو کہیں اور پہونچے گا خدائے حقیقی و واقعی تک نہیں پہونچے گا۔ یہ وہ حقیقت سے جو اس وقت ہم سب کی نگاہوں کے سامنے ہے اس کے لئے کسی خاص دلیل و بیان کی ضرورت نہیں ہے۔
خداوند عالم نے انسان کی اس کمزوری کو مد نظر رکھتے ہوئے انبیاء و مرسلین بھیجے تاکہ وہ انسانوں کو خدائے واقعی و حقیقی کی معرفت بھی عطا کریں اور ان کو خدا کی عبادت کے طریقے بھی بتائیں۔ تمام انبیاء مرسلین علیہم السلام نے انسانوں کو خدا کی معرفت اور عبادت کی ہدایت کی اور باقاعدہ ہدایت کی۔
سوال اب یہ ہے — کیا یہ ضرورت حضرت رسول خدا ﷺ کے انتقال کے بعد ختم ہوگئی — یا صبح قیامت تک باقی ہے؟؟
اگر یہ ضرورت ختم ہوگئی تو لوگوں نے حضرت رسول خدا ﷺ کے انتقال کے فوراً بعد ان کے دفن سے پہلے ان کے جانشین کے انتخاب کی کوشش کیوں کی؟ دین تو مکمل ہوچکا تھا۔
یہ فوراً کوشش اور منظم کوشش اس بات کی واضح دلیل ہے کہ حضرت رسول خداﷺ کے انتقال کے بعد رسالت تو ختم ہوگئی مگر معرفت و عبادت کی راہ میں ہدایت کی ضرورت باقی ہے۔
سوال: اب اس ضرورت کو کون پورا کرے؟
جواب: بس وہی اس ضرورت کو پورا کرسکتا ہے جو خداوند عالم کی بھر پور معرفت رکھتا ہو اور عبادت کے تمام طریقے ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ ترین درجات عبادت سے نہ صرف واقف ہو بلکہ ان تمام درجات کو طے کرچکا ہو۔
یہ بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے جس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں ہے۔ اہلبیت علیہم السلام کے علاوہ کوئی اور اس ضرورت کو پورا نہیں کرسکتا ہے۔ جن کی فرد اول حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام اور آخری حضرت حجۃ بن الحسن العسکری علیہ السلام ہیں جو اس وقت زندہ ہیں اور وہی خدا اور مخلوق کے درمیان رابطہ و واسطہ اور حجت ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں