حدیث غدیر میں معنی ولایت اُدباء اور شعراء کی نظر میں (۲)

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ سَلَامٌ عَلٰی عِبَادِ الَّذیْن اِصْطَفٰی
خدا کا شکر کہ اس نے ہمیں موقع فراہم کیا اور گذشتہ چند برسوں سے میگزین ‘‘آفتاب ولایت’’ کے ذریعہ حضرت امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہما السلام کی ولایت و وصایت اور اُن حضرت علیہ السلام کے فضائل و کمالات پر مبنی مضامین پیش کرنے کی سعادت مرحمت فرمائی۔
گذشتہ سال یعنی ۱۴۴۰؁ھ ذی الحجہ کے شمارہ میں مذکورہ عنوان کے تحت ایک مضمون آفتاب ولایت صفحہ ۱۲ تا ۲۱ شائع ہو چکا ہے اور اب اُسی مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے دوسری قسط حاضر خدمت ہے۔
بات کو آگے بڑھانے سے پہلے گذشتہ مضمون کا خلاصہ چند سطروں میں ملاحظہ فرمائیں:
ء ائمہ ہدیٰ علیہم السلام اور علماء امامیہ نے مولیٰ کے معنی صدر اسلام کے عرب اور بعد کی نسلوں کے عرب نے جو سمجھا ہے’ اُسے بیان کیا ہے۔
ء مولیٰ کے معنی نامور ادباء اور شعراء نے اپنے اشعار و بیان میں وہی بیان کیا ہے جسے پیغمبر اکرم ﷺ نے خدا کے حکم سے بیان کیا ہے۔
ء شعراء نے حدیث غدیر کو مناسب قافیہ کے ساتھ شعر کی شکل میں اتارا ہے جو حدیث غدیر کے مستند ہونے کو ثابت کرتے ہیں۔
ء اس مضمون کا ماخذ و مدرک کتاب ‘‘الغدیر فی الکتاب والسُّنۃ وَالْاَدَب’’ ہے جو کتاب ‘الغدیر’ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے مؤلف الشیخ عبدالحسین احمد الامینی النجفی قدس سرّہ ہیں جو علامہٴ امینی کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ کتاب عربی زبان میں لکھی گئی ہے۔ فارسی’ اردو اور انگریزی زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے۔
ء علامہ امینی اور کتاب الغدیر کا یہ مختصر تعارف ہے گزشتہ شمارہ ملاحظہ کریں۔
ء شعر اور شعراء کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ائمہ علیہم السلام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ شعر و شعراء کی قدر کرتے تھے اور بعض موقعوں پر تو شعر اء سے شعر کہنے اور پڑھنے کی فرمائش کرتے تھے۔ شعراء کی تشویق و ترغیب کے لئے ائمہ کی زبان مبارک سے اس طرح کے جملے نظر آتے ہیں:
’’جو ایک شعر ہمارے بارے میں کہے خداوندعالم بہشت میں اس کے لیے ایک گھر بناتا ہے۔‘‘
ء پہلی صدی ہجری کے شعرا کا تذکرہ کرتے ہوئے سب سے پہلے امیر المومنین علیہ السلام کے شعر بیان کئے گئے ہیں امیر المومنین علیہ السلام نے من کُنْتُ مَوْلَاہُ فَہٰذَا علِیٌّ مَولا میں مولیٰ کے معنی کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیغمبرؐ کی اطاعت کی طرح ان کی اطاعت بھی تمام لوگوں پر واجب ہے۔
ء دوسرے شاعر حسان بن ثابت انصاری ہیں۔ حسان بن ثابت کے اشعار کو ترجمہ و تجزیہ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
اب اس مضمون میں دیگر شعرا اور ان کے اشعار کا تذکرہ کیا جائے گا۔
بزرگان دین کی نظر میں شعر اور شعراء کا مقام:
گذشتہ شمارہ میں ہم نے شعر و شعراء کی اہمیت کو پیغمبر اسلام ﷺ اور ائمہ ہُدیٰ علیہم السلام کی نظر میں اشارہ کیا اور اب ہم یہاں اختصار کے ساتھ بزرگان دین کی نظر میں اس کی طرف اشارہ کریں گے اور پھر اصل مطلب کی طرف پلٹیں گے۔
فقہاء امت اور زعماءِ مذہب نے بھی معصومین علیہم السلام کی سیرت کی پیروی کی ہے اور دین کی خدمت کی راہ میں، اور مذہب کی عزت و تکریم کی حمایت میں اوراہل بیت علیہم السلام کے آثار کی حفاظت میں قیام کیا اور عوام کے درمیان ائمہ علیہم السلام کے نام کو رواج دینے کے لئےشعراء کی ہمت افزائی کی اور انہیں انعامات سے نوازا اور جہاں فقہی کتابوں کی تالیف اور معارف اسلامی کو اہمیت دی وہیں شعری کتابوں اور ادبی فنون کی تشریح کی تدوین میں کتابیں تحریر کی تاکہ شعر و ادب کے اصول کو تقویت پہنچائیں۔
ہمارے عظیم الشان عالم بزرگوار مرحوم شیخ کلینیؒ جنہوں نے کتاب کافی لکھی ہے، ان کی ایک کتاب اشعار پر مشتمل ہے اور یہ اشعار اہلبیت علیہم السلام کی شان میں کہے گئے ہیں۔ اسی طرح ہمارے بزرگ عالم عیاشی جنہوں نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں، ایک کتاب معاریض الشعر لکھا ہے۔ مرحوم شیخ صدوق نے اشعار پر مشتمل ایک کتاب لکھی ہے۔ مرحوم جلودی بصرہ کے ایک معروف شیعہ عالم کی ایک کتاب ہے جس میں آپ نے علی علیہ السلام کے بارے میں جو بھی شعر ہیں انہیں جمع کیا ہے۔
ابوالحسن شمشاطی مؤلف کتاب ’’مختصر فقہ اہل بیت‘‘ نے ایک کتاب فنون شعر پر لکھی ہے، شیخ مفید نے بھی شعر و شاعری سے مربوط مسائل پر ایک کتاب لکھی ہے۔ سید مرتضی (علم الہدی) کا ایک شعری دیوان موجود ہے۔
ان فقہاء کے علاوہ دیگر فقہاء و علماء شیعہ نے بھی شعر و شاعری کی تشویق کی ہے اور مختلف عیدوں مثلاً ائمہ علیہم السلام کی ولادت اور عید غدیر وغیرہ پر مجالس و محافل کا انعقاد کرتے رہے ہیں اور ائمہ علیہم السلام کی شہادت کے موقع پر شعراء کو اپنی مجالس میں جمع کرتے رہے ہیں تاکہ وہ مرثیہ سرائی کریں اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کو زندہ رکھیں۔
یہ طریقہ ہر زمانے میں رائج رہا ہے اور اسے رونق ملتی رہی ہے۔ ہمارے بزرگ عالم آیت اللہ بحرالعلوم اور استاد گراں قدر مرحوم کاشف الغطاء کو خاص اہمیت حاصل ہے۔
بات کو ختم کرتے ہوئے ایک چھوٹا سا واقعہ نقل کرتے ہیں۔
روشن دل شاعر اہل بیت عصمت ’سید حیدر حلّی‘نے ایک مذہبی مجلس میں ایک قصیدہ پڑھا اور سید شیرازی کو متاثر کیا۔ مجلس کے ختم ہونے کے بعد سید شیرازی نے قصد کیا کہ ۲۰ لیرہ عثمانی صلہ کے طور پر سید حیدر حِلّی کو دیں گے۔ لیکن جب انہوں نے اس بات کو اپنے چچا حاج مرزا اسماعیل{ FR 696 } کے سامنے رکھا تو انہوں نے اسے مناسب نہیں سمجھا اور کہا کہ یہ رقم بہت کم ہے اور فرمایا وہ اہل بیت علیہم السلام کے دربار کے شاعر ہے اور رقم کی یہ مقدار ان کے شایان شان نہیں ہے سید حیدر دعبل و حمیری کی طرح ہیں اور ان دونوں کی طرح بلند مرتبہ ہیں۔ ائمہ ھدیٰ علیہم السلام اپنے زمانے کے شعراء کو سونے کے سکوں سے پُر تھیلی دیا کرتے تھے اور مناسب ہے کہ تم ایک سو لیرا انھیں دو۔‘‘ اس بنا پر آیت اللہ بزرگ اور مرجع عالی قدر سید حیدر کی زیارت کو پہنچے اور مبلغ سو لیرا بعنوان صلہ تجلیل و احترام کے ساتھ انہیں مرحمت کیا اور شاعراہل بیت کے ہاتھوں کو بوسہ دیا۔
گزشتہ شمارے میں ہم نے پہلی صدی کے شاعر حضرت امیر المومنین علیہ السلام اور صحابی معروف حسان بن ثابت اور ان کے اشعار کا تذکرہ کیا۔ اب ملاحظہ ہو پہلی ہی صدی کے شاعر قیس انصاری کے حالات اور ان کے اشعار۔
قیس بن عبادہ انصاری:
قیس بن عبادہ بن دلیم (دلیھم) بن حارث بن حُزیمہ (خُزیمہ) ابن ثعلبہ بن ظریف بن خزرج بن ساعدہ بن کعب بن خزرج الاکبر{ FR 697 } ابن حارثہ اور آپ کی ماں کا نام فقیہہ بنت عبید بن تعلیم بن حارثہ ہے۔
آپ قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتے تھے اور آپ کا خاندان زمانہ جاہلیت میں بھی اور اسلام کے ظہور کے بعد بھی عظمت و جلالت کا حامل رہا ہے۔
قیس کی کنیت ابو القاسم ابوالفضل ابو عبداللہ ابو عبدالملک بھی تھی۔
قیس ایک شجاع اور سخی انسان تھے قیس علی علیہ السلام کے شیعوں اور ان کے طرفداروں میں تھے امیرالمومنین علیہ السلام نے انہیں صفر کے مہینے ۳۶ ہجری میں مصر کا حاکم بنا کر بھیجا تھا اور حضرت امیر علیہ السلام نے فرمایا: مصر جاؤ میں تمہیں وہاں کا حاکم بنا تا ہوں مدینہ کے باہر ٹھہرو اور اپنے دوستوں اور جو بھی تمہارے لئے مورد اعتماد ہیں‘ اپنے ساتھ یہاں سے لے جاؤ تاکہ جب مصر میں داخل ہو، تو ایک بڑی جماعت کے ساتھ داخل ہو اور شکوہ و عظمت کا مظاہرہ‘ ہو یہ کام دشمن کی آنکھوں میں خوف پیدا کرے گا اور دوستوں کے دلوں کو خوش کرے گا اور یہ ان کی عزت و شوکت کا باعث ہوگا۔جب تم انشاءاللہ مصر پہنچو تو نیک لوگوں کے ساتھ نیکی کرو اور مشکوک لوگوں کے ساتھ سختی سے پیش آؤ اور تمام افراد خاص و عام کے ساتھ نرم و ملائم مہربان رہو کیوں کہ نرمی و مہربانی میں برکت و امن ہے۔
قیس نے جواب میں کہا: اے امیرالمومنین خدا آپ پر رحمت کرے جو کچھ آپ نے فرمایا میں سمجھ گیا لیکن لشکر اور سپاہ لشکر کو آپ کی خدمت میں لاتا ہوں اور حسب ضرورت ان کی اصلاح فرمائیں تاکہ وہ فورا روانہ ہو ں اور میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ مصر روانہ ہو جاؤں اور آپ نے جو خوش خوئی اور نرمی و مہربانی کے بارے میں سفارش کی ہے خدا سے مدد طلب کرتا ہوں کہ اسی طرح کر سکوں۔
قیس اپنے خاندان کے ساتھ لوگوں کے ہمراہ مصر کی طرف چلے اور پہلی ربیع الاول کو مصر میں داخل ہوئے اور ممبر پر پہنچے اور ایک خطبہ پڑھا اور خدا کی حمد و تعریف کی اور کہا خدا کا شکر ہے کہ اس نے حق کو ظاہر اور باطل کو مٹا دیا اور ظالمین کو سرکوب کیا۔ اے لوگو !ہم نے رسول خدا ﷺ کے بعد بہترین فرد کو پہچانا اور اس کی بیعت کی، تم بھی آؤ خدا اور سنت رسول خدا کی بنیاد پر بیعت کرو اور اگر ہم خود اس روش پر نہ ہوں تو تمہاری گردن پر کوئی بیعت نہ ہوگی۔ لوگ کھڑے ہوئے اور بیعت کی اور مصر کے حاکموں نے اہل مصر کے ساتھ قیس کے سامنے اپنے سروں کو تعظیم سے جھکا دیا۔
قیس مخصوص سوجھ بوجھ کے انسان تھے آپ چار مہینہ اور پانچ روز مصر کی ولایت کے عہدے پر تھے اور پھر۵؍ رجب کو مصر سے نکلے اور اس کے بعد آپ کوفہ آئے اور پھر حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے آپ کو آذربائیجان کی ولایت سونپی اور اس کے بعد آپ جنگ جمل میں شریک ہوئے۔ آپ کی تکنیکی مہارت اور ہوشیاری کی وجہ سے حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے آپ کو شرطۃ الخمیس{ FR 698 } کا سالار بنایا تھا۔
تذکر:
جناب قیس امیرالمومنین علیہ السلام کے ایک مخصوص صحابی تھے اور ساری زندگی حضرت کے ساتھ رہے اور اپنی مہارت و ہوشیاری اور نظامی اور جنگی فنون پر تسلط کی بنا پر سالاری و گورنری کے عہدوں پر فائز رہے۔ علامہ امینی قدِّس سرُّہٗ نے تفصیل کے ساتھ ان کے حالات درج کیا ہے۔ ملاحظہ ہو الغدیر{ FR 699 } ، ہمارا موضوع فی الحال ان تفصیلات سے مربوط نہیں ہے۔
توجہ:
امام امیرالمؤمنین علیہ السلام کی شہادت کے بعد آپ امام حسن علیہ السلام کی ولایت میں تھے جناب قیس کی معاویہ کے ساتھ صلح کے واقعات تاریخ میں موجود ہیں۔ لیکن توجہ رہے کہ جناب قیس نے معاویہ کو کبھی بھی خلیفہ یا ولی نہیں مانا بلکہ حضرت امیر علیہ السلام اور خاندان اہل بیت کو خلیفہ برحق جانا اس لئے قارئین محترم مغالطہ میں نہ پڑیں۔قیس کی وفات ۶۰ھ؁ یا ۵۹ھ لکھی گئی ہے۔بعض لوگوں نے ۸۵ھ لکھا ہے۔
اشعارِ قیس بن عبادہ
جناب قیس نے علانیہ اور واضح طور پر امامت امیرالمومنین علیہ السلام پر گواہی دی ہے اور دشمن امیر المؤمنین علیہ السلام کی مذمت کی ہے اور خاص طور پر معاویہ لعنت اللہ علیہ کو جگہ جگہ لتاڑا ہے۔ یہاں ہم قیس انصاری کے چند شعر نقل کررہے ہیں۔ یہ اشعار قیس بن سعد نے جنگ صفین کے موقعہ پر امام امیر المؤمنین علیہ السلام کے سامنے پیش کئے تھے۔ یہ قصیدہٴ ’’لامیّہ‘‘ سے ہے۔ اس قصیدہ کی ابتدا یہ ہے:
قُلْتُ لمَّا بَغٰی العَدُوُّ عَلَیْنَا
حَسْبُنَا رَبُّنَا وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ
یعنی میں نے کہا اُس وقت جب ستم کیا دشمنوں نے ہم پر ہمارا خدا ہمارے لئے کافی ہے اور اچھا وکیل ہے (حفاظت کرنے والا ہے۔)
حَسْبُنَا رَبُّنَا الَّذِیْ فَتَحَ الْبَصرۃَ
بِالْاَمْسِ وَ الْحدِیْثُ یَطُوْلُ
ہمارے لئے کافی ہے وہ خدا جس نے بصرہ کو فتح کرایا۔ اور اُس کی داستان طولانی ہے۔
مزید تین شعر ملاحظہ ہوں۔
۱۔ وَ عَلِیٌّ اِمَامُنَا وَ اِمَامُ
لِسِوَانَا اَتَی بِہ التَّنْزِیْلُ
۲۔ یَوْمَ قَالَ النَّبِیُّ مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ
فَہٰذَا مَوْلَاہُ خَطَبٌ جَلِیْلٌ
۳۔ اِنَّ مَا قَالَہُ النَّبِیُّ عَلَی الْاُمَّۃِ
حَتَمٌ ما فِیْہِ قَالَ وَ قِیْلَ
(۱) علی ہمارے امام و پیشوا ہیں اور ہمارے علاوہ افراد کے، قرآن نے اس معنی کو (اپنے اندر) بیان کیا ہے،
(۲) اُس روز کہ پیغمبر اکرم ﷺنے فرمایا کہ میں جس کا مولیٰ ہوں پس اس کے یہ علی بن ابی طالب علیہ السلام مولیٰ ہیں۔ یہ بات بہت عظیم ہے اور بڑی عظمت والی ہے۔
(۳) جو کچھ پیغمبر اکرم ﷺنے فرمایا ہے، حتمی اور مُسلَّم ہے اور اُس میں چوں چرا کی گنجائش نہیں ہے۔
تجزیہٴ اشعار:
– قیس بن سعد بن عبادہ نے جنگ صفین میں امام امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے حضور میں پیش کیا۔
– شاعر نے غدیر کے دن، رسول اکرم ﷺ کے خطبہ کا مفہوم یہی سمجھا ہے کہ رسول خدا نے حضرت علی علیہ السلام کو سب کا مولیٰ قرار دیا ہے اور ا سلامی دنیا کے تمام لوگوں پر پیشوائی و ولایت کو واجب جانا ہے۔
– ابتدائے کلام میں شاعر نے اپنے اور امیر المؤمنین علیہ السلام کے دشمنوں کے مقابلہ میں خدا کو وکیل اور حفاظت کرنے والا قرار دیا ہے۔
اسناد و منابع
۱۔ اس قصیدہ کو سید رضی قدس سرّہ متوفّی ۴۰۶؁ھ نے خصائص الائمہ میں نقل کیا ہے۔
۲۔ شیخ مفید ؒ متوفیٰ ۴۱۳؁ھ نے اپنی کتاب ‘‘الفُصُول المختارہ’’ جلد دوم صفحہ ۸۷ پر ان اشعار کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: یہ اشعار امیر المؤمنین علیہ السلام کی امامت و پیشوائی پر دلیل ہونے کے ساتھ اس بات کی بھی دلیل پیش کرتے ہیں کہ شیعہ امیر المؤمنین علیہ السلام کے زمانہ میں موجود تھے اور معتزلہ جو عناد و دشمنی کی بنا پر کہتے ہیں کہ رسول خدا اور امیر المؤمنین علیہ السلام کے دور میں شیعہ کے عنوان سے کوئی وجود نہیں تھا’ اسے یہ اشعار ردّ کرتے ہیں۔
شیخ مفیدؒ نے ایک رسالہ ولایت کے معنی و مفہوم پر لکھا ہے اُس میں بھی ان شعار کو نقل کیا ہے۔ اور قیس کے بارے میں لکھا ہے کہ: قیس کا قصیدہ ایسا ہے کہ مؤرخین اور راویوں میں سے کوئی بھی ان اشعار کے بارے میں اُن پر شک اور کوئی تردید نہیں کی ہے اور یقین کی بنیاد پر اُسے قبول کیا ہے اور بالکل اُسی طرح ہے کہ جسے جنگ جمل و صفین میں امیرالمؤمنین علیہ السلام کی مدد کرنے میں شک و شبہ نہیں ہے۔ اور قصیدہ کا پہلا شعر یہ ہے:
قُلْتُ لَمَّا بغیٰ العدوُّ عَلَیْنَا
حَسْبُنَا رَبُّنَا وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ
یعنی جب دشمنوں نے ہم پر ستم کیا تو میں نے کہا، ہمارا خدا ہمارے لئے کافی ہے اور اچھا وکیل ہے حفاظت کرنے والا ہے۔ { FR 700 }
۳۔ علامہ کراجکی متوفیٰ ۴۴۹؁ھ نے کنز الفوائد صفحہ ۲۳۴ پر روایت کی ہے اور کہا: یہ قصیدہ قیس بن سعد کے منجملہ اشعار میں سے ہے کہ جو آج تک محفوظ ہے اور اسے انہوں نے جنگ صفین میں حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کے حضور میں پیش تھا۔
۴۔ ابوالمظفّر سبط ابن جوزی حنفی متوفیٰ ۶۵۴ھ؁ نے کتاب ‘‘التذکرہ’’ کے صفحہ ۲۰ پر اس قصیدہ کو مکمل سند کی تحقیق کے ساتھ نقل کیا ہے اور فرماتےہیں: قیس نے ان اشعار کو امیر المؤمنین علیہ السلام کے سامنے جنگ صفین میں پڑھا ہے۔
۵۔ مفسّر کبیر شیخ ا بوالفتوح رازی نے اپنی تفسیر کی جلد ۲ کے صفحہ ۱۹۳ پر ان اشعار کو بیان کیا ہے۔
۶۔ ہمارے بزرگ ہبۃ الدین راوندی نے ‘‘المجموع الرائق’’ میں اس قصیدہ کو نقل کیا ہے۔
۷۔ آقای بزرگوار’ قاضی نور اللہ مرعشی شوستری، شہید ثالث نے اپنی کتاب مجالس المؤمنین ص ۱۰۱ پر نقل کیا ہے۔
۸۔ علامہ مجلسی ؒ متوفیٰ ۱۱۱۱؁ھ نے بحار الانوار جلد ۹/۲۴۵ (قدیم) میں ان اشعار کو بیان کیا ہے۔
۹۔ سید علی خان متوفیٰ ۱۱۲۰؁ھ نے ‘‘الدرجات الرفیعہ’’ میں جنگ صفین کے ذیل میں ان اشعار کو نقل کیا ہے۔
اور دوسرے بہت سے شیعہ علمائے متاخرین نے ان اشعار کو قیس بن سعد بن عبادہ سے روایت کیا ہے۔ { FR 701 }
قیس اپنےامام کے سامنے پوری طرح تسلیم تھے:
آپ کا مقام و مرتبہ حضرت امیر علیہ السلام کے سامنے ایسا تھا کہ بارہا امیر المؤمنین علیہ السلام کی خدمت میں عرض کرتے تھے کہ معاویہ سے مقابلہ کیا جائے اور اُسے قتل کردیا جائے اور مشورہ دیتے کہ مخالفین کے خلاف قیام کریں اور اس طرح کہتے:
’’اے امیر المؤمنین! پوری زمین پر آپ سے زیادہ کسی کو محبوب نہیں رکھتا جو ہمارے امور کی نگرانی اپنے ہاتھ میں لے اور عدل و انصاف کے قائم کرنے اور احکام ا سلامی کو جاری کرسکے کیونکہ آپ چمکتے ہوئے ستارہ ہیں اور تاریک راتوں میں ہمارے راہنما ہیں، آپ ہمارے پناہ گاہ ہیں کہ سختیوں میں آپ کی پناہ میں آجاتے ا ور اگر آپ کو چھوڑ دیں تو ہمارے لئے زمین و آسمان تاریک ہوجائیں گے’ لیکن خدا کی قسم اگر معاویہ کو اُس کے حال پر چھوڑ دیا تو وہ جو چاہے ہر مکر و فریب انجام دے‘ وہ مصر کی طرف جائے گا اور یمن کے حالات کو درہم برہم کردے گا اور ملک عراق کی لالچ کرے گا، اس کے ہمراہ یمن کے کچھ لوگ ہیں جو قتل عثمان کو‘ بہانہ بناکر ظلم و ستم کے طور پر اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں اور عثمان کے قاتلوں سے کینہ جوئی اور انتقام لینے کو تُلے ہوئے ہیں۔ وہ لوگ بجائے علم و یقین کی پیروی کرنے کے اور حقائق کو چشم واقعی سے دیکھنے کے بجائے گمان پر اکتفا کرتے ہیں اور یقین کے بجائے شک میں گرفتار ہیں اور خوبیوں کے بجائے ہوائے نفس کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ حجاز و عراق کے لوگوں کو اپنے ساتھ لیجئے اور اس (معاویہ) کی راہوں کو تنگ کردیں اور اس کا محاصرہ کرکے اور ایسا کام کریں کہ وہ خود اپنےاندر احساس ناتوانی کرے اور خود سے مایوس ہوجائے۔
امیر المؤمنین علیہ السلام نے ا ُن کے جواب میں فرمایا: خدا کی قسم اے قیس تم نے اچھی بات کہی اور خوبصورت مطلب اور موقع و محل سے بات پیش کی ہے۔ { FR 702 }
تذکر:
قیس بن عبادہ ایک شاعر و ادیب، ایک ماہر جنگ، ایک متفکر و مدبّر، ایک شجاع و بہادر اور عاشق علی ؑ تھے نادان اور جاہل نہ تھے۔ ان تمام کمالات کے ساتھ بہترین مبلغ و مناظر بھی تھے۔ اپنی دلیلوں سے سامنے والے کو بے بس کردیتے تھے۔ ایک مختصر واقعہ نقل کررہے ہیں اور بس۔
امیر المؤمنین علیہ لسلام نے قیس کو اپنے پاک و پاکیزہ فرزند امام حسن مجتبیٰ اور عمار یاسر کے ہمراہ کوفہ بھیجا تاکہ وہاں کے لوگوں کو اپنی مدد کے لئے دعوت دیں، ابتداء میں امام حسن علیہ السلام اور پھر جناب عمار یاسر نے تقریریں کیں اور پھر ان دونوں بزرگوار کے بعد قیس کھڑے ہوئے اور حمد و ثناءِ پروردگار کے بعد اس طرح فرمایا:
طلحہ و زبیر نے حسد کیا:
اے لوگو! اگر خلافت و پیشوائی کے موضوع میں شوریٰ کو قبول کرلیں اور اُسے معیار و ملاک قرار دیں تو جان لو کہ علی علیہ السلام تمام لوگوں کے مقابلہ میں اسلام لانے میں سبقت لیجانے میں اور رسول خدا کے ساتھ ہجرت کرنے میں اور علم و دانش کے معاملہ میں‘ سب سے زیادہ ہیں اور اس منصب کے لئے حقدار ہیں۔ جو بھی اس حقیقت و واقعیت کا منکر ہو اس کا قتل مباح اور حلال ہے، اور کس طرح حلال نہ ہو؟ اور اب یہ طلحہ و زبیر کے لئے جو خود اُن حضرت کی بیعت کی اور حسد کی بنا پر اپنے شانہ کو بیعت کے بوجھ سے جھٹک لیا اور اُن حضرت کو چھوڑ دیا اور ان کے لئے اتمام حجت ہوئی اور پھروہ کوئی دلیل نہیں رکھتے۔ (یعنی طلحہ و زبیر کیا دلیل رکھتے ہیں کہ ابتداء میں بیعت کرلی اور بعد حسد کی بنا پر حضرت سے کناررہ کش ہوگئے جبکہ دیندار مہاجر و انصار علی علیہ السلام کے رکاب میں حاضر ہوگئے اور ان کا سابق روشن و درخشاں تھا)۔
کوفہ کے مقررین اور خطباء اپنی جگہ سے اٹھے اور بڑی تیزی کے ساتھ قیس کی آواز پر لبیک کہی اور مکمل حمایت کی تو قیس نے یہ شعر پڑھا:
رَضِیْنَا بِقسْمِ اللہِ اِذَ کَانَ قَسَمْنَا
عَلِیَّا وَ ابناءِ الرَّسُوْلِ مُحَمد
ہم اُس چیز سے راضی ہیں جو خدا نے ہمارے حصہ میں رکھی۔ اس موقعہ پر کہ علی اور فرزندان حضرت محمدﷺ کو ہمارے حصہ میں رکھا۔
(یعنی ہم راضی ہیں خدا کی تقسیم سے کہ اُس نے ہماری قسمت میں محبت علی رکھی)
قیس نے اس کے بعد جو شعر پڑھے’ اُن کا ترجمہ نقل کررہے ہیں:
’’ہم نے اُن کے مقدم کا خیر مقدم کیا’ اور اُن کے ہاتھوں کو عشق و محبت کی بنا پر بوسہ دیا۔‘‘
’’پھر زبیر وعدہ شکن کے لئے کوئی احترام نہیں ہے اور اُس کے بھائی طلحہ کے لئے بھی کوئی خصوصیت و احترام نہیں ہے۔‘‘
’’فرزند پیغمبرؐ اور اُن کے وصی تمہارے پاس آئے اور تم تو پروردگار کی حمد و ثنا سے عاری ہو۔‘‘
’’ہمارے درمیان ایسے افراد ہیں جو کہ اپنے تند و تیز رو گھوڑوں کو معرکہٴ جنگ تک پہونچایا اور بلند نیزوں اور کاٹنے والی برہنہ تلواروں کے ساتھ آمادہٴ جنگ ہیں۔‘‘
’’جسکو بھی آپ (اے امیر المؤمنین) ہمارے لئے حاکم و آقا چنیں بغیر کسی چوں چرا کے اُس کی حاکمیت و آقائیت کو قبول کرلیں گے‘ اگرچہ وہ شخص ہم پر آقائی و بزرگی نہ رکھتا ہو۔‘‘
کوفہ کے لوگوں نے جب حمایت کی تو قیس نے کہا:
جزی اللہُ اھل الکوفۃ الیومَ نضرۃ
اَجَابُوا وَلَمْ یَابُوْا بخذلان من خَذَلَ
خدا کوفہ کے لوگوں کو مدد کے لئے نیک اجر عنایت کرے، مثبت جواب دیا اور اُن لوگوں کی طرف کوئی توجہ نہ دی جنہوں نے مدد نہیں کی:
’’طلحہ اور زبیر نے پیغمبر کی بیوی کو عمداً جنگ پر اُکسایا اور گھر سے باہر نکالا اور اونٹ پر سوار کرکے اُس کے اونٹ کو دوڑا یا۔‘‘
’’تمہارے پیغمبرؐ کی وصیت و سفارش اس طرح کی نہ تھی’ یہ انصاف نہیں ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی نا انصافی نہیں ہے۔‘‘
’’کیا اس روداد کے بعد’ کسی کے لئے جائے سخن ہے جو کہے؟ خدا بُرا کرتا ہے خائنوں کی آرزوؤں پر اور اُن کی مخالفتوں پر‘‘
شیخ الطائفہ شیخ طوسی نے اپنی کتاب امالی کے صفحات ۸۷ و ۹۴ پر اور شیخ مفید نے اپنی کتاب ‘‘النصرۃِ لسید العترہ’ میں ان واقعات کو نقل کیا ہے اور اِن کو ‘ابیات دالیّہ’ کہا ہے۔ { FR 703 }
قیس معلّم دین:
قیس کو معالم دینیہ میں مہارت، قرآن و سنت پر عبور اور ابہام کلام کی معرفت تھی۔ وہ یا وہ گوئی میں شگاف پیدا کردیتے تھے، نظریاتی وکالت مسترد کرنے کا اچھا سلیقہ تھا۔ کلام کو اصل سرچشمہ سے سنوارتے تھے، اُن کی خطابت وقیع ہوتی تھی، بات کو توڑ کر ربط پیدا کرتے تھے، صلابت بیان’ حسن تقریر، احتجاج اور مناظرہ کی برجستہ گوئی کا دل آویز اسلوب تھا۔ تمام باتوں کو پورے استدلال کے ساتھ سننے والے تک پہونچاتے تھے۔ وہ تلوار کے ساتھ زبان کے بھی دھنی تھے۔ وہ انصار و خزرج کے خطیب، شیعیت کے بلند قامت متکلم اور عترت طاہرہ کی بولتی زبان تھے۔
دشمن امیر المؤمنین معاویہ بن ابوسفیان نے صفین میں کہا تھا: اصل میں انصار کا خطیب قیس ہے، وہ روزانہ نئے آہنگ کے ساتھ گفتگو کرتا ہے۔ { FR 704 }
اور امیر المؤمنین علیہ السلام نے ان کی شعلہ بیانی پر فرمایا تھا: خدا کی قسم! واہ تم نے نفیس ترین بات کہی، اب مجھے کسی دوسرے مشورہ کی ضرورت نہیں ہے۔ { FR 705 }
تذکر:
امیر المؤمنین علیہ السلام کی ایسی تائید کے بعد دوسری گنجائش ہی کہاں رہ جاتی ہے۔
خدایا! ہمیں خدمت و تبلیغ امامت کی توفیق عطا کر ا ور امام زمانہ علیہ السلام کے سامنے سرخرو ہونے کی توفیق مرحمت فرما۔
قیس بن سعد کے حالات کے لئے ایک مفصل کتاب کی ضرورت ہے۔ اختصار کے تقاضہ کے تحت اتنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ بقیہ ادباء و شعراء جنہوں نے غدیر کے دن لفظ ‘مولا’ کے معنی علی علیہ السلام کی ولایت سمجھا ہے’ نقل کریں گے انشاء اللہ
یہ مضمون ایسے حالات میں لکھا گیا ہے جبکہ ساری دنیا کرونا جیسی وباء میں گرفتار ہے۔ دنیا کے اکثر حصہ میں اس وباء نے سب کو خائف کردیا ہے۔ اس سال حج نہیں ہوگا اور زیارت عتبات عالیات کے راستہ بھی بند ہیں غدیر اور ایام محرم قریب ہیں۔ خدایا! حق غدیر کے انعقاد اور عزائے سید الشہداء کے قیام کے لئے حالات کو امن و امان میں بدل دے۔ وارث مولائے غدیر و سید الشہداء کے ظہور میں تعجیل فرما۔
خدایا! شب اول قبر نور امیر المؤمنین علیہ السلام سے میری قبر کو منور فرما۔آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں