خَیْرُ الْبَرِیَّہ قرآن اور احادیث کی روشنی میں

صدر اسلام سے لے کر اب تک قرآن کے اس نقطہ نظر کے بارے میں مختلف نظریات اور مختلف معانی اور مصداق بتائے جاتے ہیں اور مفسرین کے درمیان بھی اختلاف نظر پایا جاتا ہے لیکن ہمیشہ سے شیعیان اہل بیت علیہم السلام کے پیروکاروں کے لئے اہل بیت اور قرآن ہمیشہ مشعل راہ رہے ہیں۔ اس لئے ہم اس آیت کے مصداق کو قرآن اور احادیث کی روشنی میں تلاش کرتے ہیں اور جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس آیت کا اول اور آخر مصداق کون ہے؟
شان نزول:
یہ آیت کریمہ علی علیہ السلام کے دور کے شیعوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے وہ احادیث جو اس آیت کے شان نزول کو مولائے متقیان اور آپ کے شیعوں کے لئے بتاتی ہیں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور شیعہ اور سنی علماء نے اپنی اپنی کتابوں میں تحریر کیا ہے۔ غایۃ المرام میں سنیوں کے طرف سے احادیث اور شیعہ طریقے سے احادیث الگ الگ مضامین کے ساتھ اس آیت کے شان نزول میں متصل سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ شیخ طوسی نے اپنی کتاب امالی اور صاحب کتاب الاربعین اپنی اسناد سے جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت کرتے ہیں۔
قَالَ کُنَّا عِنْدَالنَّبِیْ فَاقْبَلَ عَلِیُّ ابْنِ اَبِیْ طَالِبٍ، فَقَالَ النَّبِی، قَدْ اَتَاکُمُ اَخِیْ۔ ثُمَّ التَفت الٰی الْکَعْبَۃ فَضَرِبَہَا بَیْدِہٖ فَقَالَ: وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ اَنَّ ھٰذَا وَ شِیْعَتَہٖ ہُمُ الْفَائِزُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ ثُمَّ قَالَ: اِنَّہٗ اَوَّلَکُمْ اِیْمَانًا مَعِیَ وَ اَوْفَاکُمْ بِعَہْدِاللہِ وَ اَقْوَمَکُمْ بِاَمْرِاللہِ وَاعْدَلَکُمْ فِی الرَّعِیَّۃِ اَقْسَمَکُمْ بِالسَّوِیْۃِ وَاعْظَمَکُمْ عِنْدَاللہِ مَزِیَّۃ: قَالَ وَ نَزَلَتْ: اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ اُولٰئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِ۔ قَالَ کَانَ اَصْحَاب – مُحَمَّدْ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اِذَا اَقْبَلَ عَلِی علیہ السلام قَالُوا: جَائَ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِ۔
جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے رسول کے محضر میں تھے کہ اچانک حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام تشریف لائےتو رسول خدا نے فرمایا میرا بھائی تمہارے درمیان آیا اور پھر اپنا رخ کعبہ کی طرف کیا اور اپنے ہاتھوں کو کعبہ پر رکھ کر فرمایا اس اللہ کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے یقینا صرف یہ شخص اور اس کے شیعہ کامیاب ہیں اور قیامت میں نجات پانے والے ہیں اور پھر آپ نے فرمایا : صرف یہ میرے ساتھ سب سے پہلے ایمان کو ظاہر کرنے والے ہیں۔ اور سب سے زیادہ اللہ کے عہد و پیمان کو پورا کرنے والے ہیں اور تم میں سب سے زیادہ ثابت قدم ہیں۔ اور امت میں سب سے زیادہ برحق فیصلہ کرنے والے اور تمہارے درمیان سب سے زیادہ عادلانہ تقسیم کرنے والے اور اللہ کے نزدیک مقام و مرتبے کے لحاظ سے سب سے زیادہ بلند۔جابر کہتے ہیں پھر یہ آیت پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہوئی۔اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ اُولٰئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِ۔ یقینا جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح انجام دیتے ہیں یہی لوگ بہترین مخلوق ہیں، جابر کہتے ہیں۔ پس جب بھی علی علیہ السلام وارد ہوتے تھے تو اصحاب رسول کہتے تھے جاء خیر البریہ اس دنیا کا سب سے بہترین شخص وارد ہوا۔
اس طرح محمد ابن عباس کے طریقے سے جعفر ابن محمد حسینی مرحوم سید بحرانی حدیث کی سند کوابو رافع سے ذکر کرتے ہیں حضرت علی علیہ السلام نے بعینہ یہی حدیث عمر نے جو شوری تشکیل دیا تھا اس کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے پیش کیا اور فرمایا : میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں اس دن کو جانتے ہو جب تم رسول اللہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور میں تمہاری طرف آیا تو رسول اللہ نے فرمایا یہ میرا بھائی اور آپ نے اپنا ہاتھ کعبہ پر رکھا اور فرمایا: اللہ کی قسم اور اس تعمیر شدہ گھر کی صرف اور صرف یہ اور اس کے شیعہ قیامت کے دن کامیاب ہیں اور پھر آپ نے اپنا چہرہ تمہاری طرف کیا اور فرمایا: جان لو کہ یہ شخص میرے ساتھ پہلا مومن ہے۔ اور تم میں سے اللہ کے معاملے میں سب سے سچا ہے اور سب سے زیادہ اللہ کے عہد و پیمان کو پورا کرنے والا ہے۔
اور پھر جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ نے تکبیر بلند کی اور تم لوگوں نے بھی تکبیر کہی۔ اے شوریٰ کے لوگوں کیا تم جانتے ہو کہ حقیقت یہی تھی اس وقت تمام لوگوں نے کہا ہاں ہم جانتے ہیں؟
اہل سنت کی بہت سی حدیثیں اس آیت کی تفسیر میں کہ خَیْرُالْبَرِیَّۃ امیر المومنین اور ان کے شیعہ ہیں، دلالت کرتی ہیں۔ اس حدث کو امام خوارزمی نے بعینہ (موقف ابن احمد نے اپنی مناقب میں نویں فصل ص ۶۲ اور حموینی نے فرائدالسمطین میں پیش کیا ہے۔سید بحرانی شیعوں کے طریقے سے اعمش سے اور اعمش نے عطیہ سے اور عطیہ نے ابن خدری سے اور اسی طرح صاحب کتاب اربعین نے اپنی کتاب کی چالیسویں جلد میں ۲۸ حدیث کو اس کتاب میں اور خطیب خوارزمی نے اپنی سند جابر ابن عبداللہ انصار ی سے نقل کرتے ہیں۔
سیوطی اپنی تفسیر میں اس آیت کے ذیل میں چار حدیثیں علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور ان کے شیعوں کے تعلق سے نقل کرتے ہیں اور اس سے پہلے کہتے ہیں۔
وَاَخْرَجَ ابْنِ مَرْدَوَیَّۃ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللہِ مَنْ اَکْرَمَ الْخَلْقَ عَلَی اللہِ قَالَ یَا عَائِشَۃ اَمَّا تَقْرَئِیْنَ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ اُولٰئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِ۔
ابن مردویہ عائشہ سے متصل سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ عائشہ کہتی ہیں میں نے رسول اکرمﷺ سے سنا میں نے عرض کیا اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا شخص کون ہے؟ آپ نے فرمایا: اے عائشہ کیا تم نے یہ آیت نہیں پڑھی وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں اور نیک اعمال انجام دیتے ہیں یہی لوگ کائنات کے سب سے بہتر افراد ہیں!؟
پہلی حدیث:
اَخْرَجَ اِبْنُ عَسَاکَر عَنْ جَابِر بْنِ عَبْد اللہِ قَالَ: کُنَّا عِنْدَ النَّبِیْ فَقَال النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ اِنَّ ھٰذَا وَ شِیْعَتُہٖ ھُمُ الْفَائِزُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃَ وَ نَزَلَتْ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ اُولٰئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِ۔ فَکَانَ اَصْحَابُ النَّبِی اِذَا اَقْبَلَ عَلٰی قَالُوْا : جَاءَ خَیْرَ الْبَرِیَّۃ۔
ابن عساکر نے جو حدیث ذکر کی ہے یہ وہی حدیث ہے جو اس سے پہلے امالی، اربعین، مناقب خوارزمی اور فرائدالسمطین اور امیر المومنین علیہ السلام نے شوری کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے پیش کی ہے۔ ابن عساکر کا سنیوں کے بڑے علماء میں شمار ہوتا ہے۔
دوسری حدیث
وَ اَخْرَجَ ابنُ عَدِیْ وَ اِبْنُ عَسَاکَر عن ابی سعید مرفوعاً: عَلِیٌّ خَیْرُالْبَرِیَّۃ۔
ابن عدی اور ابن عساکر ابی سعید خدری سے حدیث مرفوع سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا علی کائنات کی سب سے بہتر فرد ہیں۔
تیسری حدیث
وَ اَخْرَجَ ابنُ عَدِیْ وَ اِبْنُ عَسَاکَر عن ابی سعید مرفوعاً: اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ اُولٰئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِ۔ قَالَ رَسُولُ اللہ لعلی: ہُوَ اَنْتَ وَ شِیْعَتُکَ یَوْمَ الْقِیَامَۃَ رَاضِیْنَ مَرْضِیِیْنَ۔
ابن عدی اپنی سند سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ابن عباس نے رسول اللہ سے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا تم اور تمہارے شیعہ قیامت کے دن اس حالت میں کہ تم لوگ ’’اللہ‘‘ سے راضی ہو اور اللہ تم لوگوں سے راضی ہے، وارد ہونگے۔
چوتھی حدیث
وَ اَخْرَجَ ابنُ مردویۃ عَنْ عَلیٍّ عَلْیِہِ السَّلَام قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ (ص)، اَلَمْ تَسْمَعْ قَوْلَ اللہِ: اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ اُولٰئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِ؟ اَنْتَ وَ شِیْعَتُکَ وَ مَوْعِدِیْ وَ مَوْعِدُکُمُ الْحَوْضَ اِذَا جِئْتَ الْاُمَمْ لِلْحِسَابِ تَدْعُوْنَ غَرُّالْمُحَجَّلِیْنَ۔
امیر المومنین علیہ السّلام روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے مجھ سے فرمایا: کیا آپ نے اس آیت کو نہیں سنا ہے؟ خیر البریہ اس آیت میں تم اور تمہارے شیعہ ہیں۔ میرا اور تمہارا وعدہ حوض کوثر کا کنارہ ہوگا جب میں امتوں کا حساب لینے آؤں گا اور آپ اس وقت سفید چہرے والے اور پاکیزہ افراد کے نام سے بلائے جاؤ گے۔
خوارزمی نے مناقب کی سترہویں فصل میں اسے کو امیر المومنین علیہ السلام سے نقل کیا ہے۔
لیکن اس حدیث کے ذیل میں جاءت الامم للحساب ذکر کیا ہے۔
اسی طرح کچھ روایات میں، شیعہ اور سنی کتابوں میں اس آیت کا مصداق بیان کیا گیا ہے۔
امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت علی علیہ السلام رسول اللہ ﷺسے ام سلمہ کے گھر ملنے گئے، جب رسول اللہ ﷺ نے آپ کو دیکھا تو آپ نے فرمایا اے علیؑ آپ کی حالت اس وقت کیا ہو گی جب ساری امتوں کو جمع کیا جائے گا اورعدل و انصاف کا ترازو نصب کیا جائے گا اور لوگ حساب و کتاب کے لئے آمادہ ہوں گے یہ سن کر امیر المومنین علیہ السلام کی آنکھوں سے موتیوں کی جھڑی لگ گئی رسول اللہ نے سوال کیا اے علیؑ آپ کیوں رو رہے ہیں اللہ کی قسم اس دن آپ اور آپ کے شیعہ سفید چہروں اور سیراب ہوکر میدان محشر میں حاضر ہوں گے ان کے چہرے شاداب اور مسکراتے ہوئے ہوں گے اور اس دن آپ کے دشمنوں کو حاضر کیا جائے گا جبکہ ان کے چہرے سیاہ اور وہ لوگ شقی اور ان کی آخرت خراب ہوگی اور ان پر اللہ کا عذاب نازل ہو گا کیا تم نے نہیں سنا ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ اُولٰئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِ۔
اس کا مصداق آپ اور آپ کے شیعہ ہیں لیکن وہ لوگ کافر ہوگئے ہیں اور ہماری فضیلتوں کا انکار کرتے ہیں وہ بدترین لوگ ہیں۔ اُولٰئِکَ ھُمْ شَرُّالْبَرِیَّۃ؟ اور یہ گروہ تمہارے دشمن ہے۔
یہاں پر ایک قابل ذکر نکتہ پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ایمان اور اس کے ساتھ مومنین مختلف مراتب کے حامل ہیں ان میں سے ہر ایک خاص رتبے پر فائز ہیں اور ہر ایک کے لئے ایک خاص جگہ معین ہے ان روایتوں کو دیکھتے ہوئے امیر المومنین علیہ السلام اور آپ کے شیعہ اس گروہ کے صدر نشین نبوت کے بعد ہیں یعنی جب نبی اکرم رسالت پر مبعوث ہوئے اور اسلام نے اپنے سے پہلے دین کو نسخ کر دیا۔ تو مسلمان واقعی مومن بن گئے اور انھیں میں حضرت علی علیہ السلام اور آپ کے شیعہ ہیں جنہیں صرف ہم واقعی طور پر خیر البریہ کہہ سکتے ہیں۔
بعض حضرات یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ اس آیت کے شان نزول میں یہ بات درج کی گئی ہے کہ آیت اللہ کے گھر میں نازل ہوئی جبکہ یہ سورت مدنی ہے اس کا جواب یہ ہے کہ بہت سی سورت اور آیت متعدد بار نازل ہوئی ہیں اور اہل سنت کے بڑے بڑے علماء اس بات کا اعتراف کرتے ہیں اس لیے ممکن ہے کہ یہ آیت مصداق کو واضح طور پر بتانے کے لئے نازل ہوئی ہو اس کے علاوہ یہ بھی ممکن ہے کہ اس آیت کا نزول پیغمبر کے کسی سفر میں ہوا جو آپ نے مدینہ سے مکہ کی طرف کیا ہے خاص طور پر جب اس کے راوی جابر ابن عبداللہ انصار ی ہیں۔ جو آنحضرت سے مدینہ ہی میں ملحق ہوئے ہیں۔ اس بنا پر اس طرح کی کئی آیتوں کو مدنی مطلق طور پر کہہ دینا بعید ہے۔
ان احادیث میں سے کچھ حدیثوں کو ابن حجر نے اپنی کتاب صواعق محرقہ میں اور کچھ کو محمد شبلنجی نے نورالابصار میں ذکر کیا ہے جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر درالمنثور میں بھی کچھ احادیث کا ذکر کیا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اوپر ذکر کی گئی احادیث بہت مشہور اور معروف ہیں جنہیں عام طور سے علماء، اسلامی اسکالر نے قبول کیا ہے اور یہ عظیم فضیلت اور کمال حضرت علی علیہ السلام کے لئے ہے۔ ضمنا ان روایتوں سے یہ حقیقت بہت اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ لفظ شیعہ رسول اللہ کے زمانے میں خود رسول اللہ کے ذریعے مسلمانوں کے درمیان نشر کیا گیا ہے اور علی علیہ السلام کے فرماں برداروں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
خداوندعالم کی بارگاہ میں دست بدعا ہیں کہ اللہ تعالی مجھے اور تمام مومنین کو علی علیہ السلام کے شیعوں میں قرار دے او روارث زہرا کے ظہور میں تعجیل فرما اور ہم سب کو آقا کے حقیقی غلاموں میں شمار فرما آمین یا رب العالمین۔

اپنا تبصرہ بھیجیں