نبیٴ رحمت کی مخالفت غدیر سے پہلے غدیر کے بعد

وہی انسان ہوتا ہے جو دل سے محبت رکھتا ہے، زبان سے محبت و ہمدردی کا اظہار کرنے والے کوکوئی جلد اپنا ہمدرد سچا محب نہیں مان لیتا ، جب تک اس کے دعوے کی سچائی آزمایشوں سے ثابت نہیں ہو جاتی اس وقت تک اسے سچی محبت کی سند نہیں دی جاتی اور نہ ہی اسے سچی محبت کرنے والوں کا درجہ دیا جاتا ہے … خدا وند عالم نے اپنے دین کے معاملات میں بھی اسی حقیقت کو صحیح اطاعت اور سچی محبت کا معیار قراردیا ہے ۔ جس کی مثال آسمان پر سجدہ آدم ؑ کیلئے ابلیس کو حکم دیکر پیش کی ہے، مگر اس نے تکبر کیا اور خدا سے یہ درخواست کی کہ مجھے اس حکم کی بجاآوری سے معاف کردے اس کے بدلے میں تیری ایسی عبادت کروں گا جیسی کسی نے نہ کی ہوگی۔ مگر خدا نے جواب دیا ؛ میرے حکم کے مطابق عمل کرنے کو عبادت کہتے ہیں ۔ اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنا میری عبادت نہیں ہے۔{ FR 932 } یعنی سمجھایا گیا کہ حکم خداوندی کی بھر پور اطاعت اورتسلیم ہوجانا ہی سچی محبت کا ثبوت ہے۔ صرف سجدے کرتے رہنا یا انتہائی خضوع و خشوع کرنا نہ عبادت ہے اور نہ ہی سچی محبت ہے …
جو خدا اپنی توحید و اطاعت کے معاملہ میں اخلاص و صداقت کو معیارِ محبت مانتا ہو وہ اپنے محبوب پیغمبر (ﷺ) اور نبیٴ رحمت کی رسالت پر ایمان لانے والوں کو اس اصول سے الگ کیسے رکھ سکتا ہے۔ جبکہ ایک نہیں کئی کئی جگہوں پر قرآن کریم میں اس پر تاکید فرمائی ہے۔
يٰاَيُّهَا ٱلَّذِينَ آمَنُوٓا۟ أَطِيعُوا۟ ٱللهَ وَأَطِيعُوا۟ ٱلرَّسُولَ وَأُو۟لِى ٱلْأَمْرِ مِنكُمْ{ FR 1028 }
اے ایمان لانے والو! اللہ اور رسول(ﷺ) کی اطاعت کرو…
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ ٱللَّهَ فَٱتَّبِعُونِى ……{ FR 1029 }
اے (پیغمبر(ﷺ))! کہہ دیجئےاگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اطاعت کرو …
اس آیت نے تو اس خدشہ کو بھی دور کر دیا ہے کہ خبر دار کوئی یہ گمان نہ کرے کہ خدا سے محبت کرنے والوں کی سچائی کا معیار کچھ اور ہے اور رسول(ﷺ) سے محبت کرنے والوں کی سچائی کا معیار کچھ اور ۔ واضح ہوا کہ توحید پر ایمان رکھنے والوں کی صداقت کا جو معیار ہے وہی آنحضرت (ﷺ) کی سچائی پر ایمان لانے والوں کی سچائی و صداقت کامعیار ہے ۔اس سے ہٹکر نہ کوئی مومن ہو سکتا ہے نہ سچا مسلمان، ایمان اس وقت تک مکمل ہی نہیں ہوسکتا ہے جب تک انسان دل سے خدا کو قبول نہ کرے اور اس کے احکام کے سامنے مطیع و فرمانبردار نہ ہو اور صحیح معنوں میں انسان اسی وقت خدا کا مطیع بن سکتا ہے جب انسان قرآن کریم اور نبیٴ رحمت کی نبوت کو مانتا ہو اوردل سے قبول کرتا ہو ۔ اگر کوئی شخص پیغمبر اکرم(ﷺ) کی نبوت کو نہ مانتا ہو اور دل سے تسلیم نہ کرتا ہو تو وہ خدا کا مطیع و فرمانبردار بھی نہیں ہو سکتا ہے … جس کے نتیجہ میں اس کی زندگی میں عملی طور سے تو حید نافذ نہیں ہوگی … اور یہی اصول آگے بڑھتا جایگا جو اللہ ورسول کی طرف سے بنائے جانے والے نبیٴ رحمت کے برحق جانشین کو تسلیم نہ کرے وہ خود کو نبیٴ رحمت کا سچا اطاعت گذار اور محبت کرنے والا نہیں کہہ سکتا ہے … یوں کہنے کو تو لاکھوں کی تعداد میں آنحضرت(ﷺ) کے اصحاب ہیں مگر ان میں سچے اطاعت گذار اور سچی ہمدردی رکھنے والے کتنے صحابی ہیں؟ عالم اسلام کیلئے قابل غور پہلوہے، اور اس کی تحقیق و جستجو کی ضرورت ہے … اس لئے کہ ہمیں اپنے اور آنے والی نسلوں کیلئے توحید پرستوں اور رسالت پر ایمان لانے والوں کی صداقت و اخلاص کاواضح نمونہ پیش کرکے ہدایت و رہنمائی کاسامان فراہم کرنا ہے۔ اور یہ بتانا ہے کہ خدا ورسول (ﷺ) کاواقعی اطاعت گذار کون تھا اور صرف دعوائے اسلام و صحابیت کرنےوالا کون؟؟ ہمیں شریعت محمدی کے آئین و ضوابط کے مطابق زندگی گذارنا ہے۔ قرآن و اسلام کی تعلیمات پر جس طرح خدا ورسول(ﷺ) چاہتے ہیں اُس طرح عمل کرنا ہے۔ خدا و رسول(ﷺ) جسے چاہتے ہیں اس سے محبت کریں اور جسے نہیں چاہتے اس سے برأت کریں ، کسی سے دوستی ودشمنی کی بنیاد خداورسول سے سچی محبت و اطاعت کے معیار پر ہوگی اور اسی لئے خداوند عالم نے ہر دور کے نبیوں کی امت کے برتاؤ کو ہمیشہ کیلئے قرآن کریم میں ذکرکردیا تاکہ دونوں کردار انسان کے سامنے ہو ں اور وہ ان سے اپنی سعادت و کامیاب زندگی کی راہ کا تعین کر سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں