انتخاب یا انتصاب

یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ امت کے لئے ایک رہنما کا وجود ضروری ہے۔کوئی بھی اس ضرورت سے انکار نہیں کر سکتا ہے۔کیونکہ یہ زندگی کا مسئلہ ہے۔
اسلام نے اس رہنما کو معین کرنے کے کچھ اصول وقوانین مرتب کئے ہیں یا نہیں یعنی ان اصول وقوانین کا تذکرہ قرآن وسنت میں ہے یا نہیں؟
سواد اعظم کا کہنا ہے قرآن وحدیث میں اس سلسلہ میں کوئی واضح قوانین موجود نہیں ہیں بلکہ یہ مسئلہ امت کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
اگر یہ امت کے حوالہ کیا گیا ہے تو اس سلسلہ میں امت کو کیا ہدایات دی گئی ہیں؟
رہنما کے انتخاب کے سلسلے میں امت نے جو عملی روش اختیار کی ہے اس سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ کوئی واضح طریقہ نہیں ہے۔اس لئے کوئی ایسا طریقہ نہیں ہے۔ جس پر سب متفق ہوں ۔
ذیل میں ان طریقوں کا جائزہ لیتے ہیں:
اجماع
کچھ لوگوں کا خیال ہے رہنما کا انتخاب اجماع سے ہونا چاہئیے اجماع یعنی ساری امت کا اجماع۔
مگر یہ بات عملی طور پر محال ہے۔کیونکہ پوری امت کا کسی ایک پر بلا اختلاف رائے متفق ہونا عملاً ناممکن ہے۔ لہٰذا کچھ لوگوں نے اس مشکل کے پیشِ نظر ساری امت کی قید کو ہٹا کر کچھ لوگوں کے اجماع کو ضروری قرار دیا ہے۔ یعنی ہر شہر کے فاضل افراد کے اجماع کو ضروری قراردیا ہے۔
یہاں بھی وہی مشکل ہے ہر شہر کے تمام فاضل افراد کا جمع ہونا آسان نہیں ہے۔اور اگر جمع ہو بھی جائیں تو کسی ایک بات پر سب کا متفق ہونا آسان نہیں ہے۔بہرحال اہلِ سنت کے یہاں خلیفہ کے انتخاب کے لئے مندرجہ ذیل طریقے بیان کئے گئے ہیں۔
(۱) اجماع
(۲) انتخاب ارباب حل وعقد
(۳) ارباب حل وعقد میں چند افراد کا کسی ایک کی بیعت کرنا۔
(۴) گذشتہ خلیفہ کی جانب سے معین کرنا۔(استخلاف)
(۵) قہر وغلبہ۔
آئیے ایک ایک کا جائزہ لیتے ہیں:
(۱)اجماع:
اجماع عملی طور پر ممکن نہیں ہے اور نہ کوئی اس حقیقت کا دعویدار ہے کہ ساری امت کسی ایک پر متفق ہوئی ہو۔ لہٰذا یہ آئیڈیل فکر ضرور ہے مگر عملی نہیں ہے۔
(۲)-(۳)ارباب حل وعقد کے ذریعہ انتخاب
اس صورت کو’’شوریٰ‘‘ سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
لیکن ’’شوریٰ‘‘ کے تمام حدود وشرائط روشن نہیں ہیں۔
الف: کتنے افراد کا ہونا ضروری ہے۔ یعنی اس کا کورم کیا ہے؟
ب: ان افراد میں کن شرائط کا ہونا ضروری ہے۔؟ ان کا انتخاب کون کرے گا؟
ج: خود اپنے درمیان سے منتخب کرنا ضروری ہے یا کسی دوسرے فرد کا انتخاب بھی کر سکتے ہیں۔
د: اختلاف رائے کی صورت میں حل کی کیا صورت ہو گی؟
ھ: کتنے دن میں کام مکمل کرنا ضروری ہے۔
و: اس کی شرعی حیثیت کیا ہے۔
ز: شوریٰ کا دائرہ کار صرف خلیفہ کا انتخاب ہے یا امت کے دوسرے امور میں بھی رائے دے سکتا ہے۔
ح: انتخاب خلیفہ کے بعد اِس کی قانونی حیثیت باقی رہے گی یا ختم ہو جائے گی۔
اس طرح کے اور بھی سوالات ہیں جو اس ضمن میں کئے جا سکتے ہیں۔
اگر اہلِ سنت کی کتابوں کا مطالعہ کریں تو واضح ہوگا اس کا خدوخال واضح نہیں ہے۔کوئی ایسی جامع تصویر نہیں ہے جس پر سب متفق ہوں۔
کچھ لوگ کہتے ہیں ۵؍افراد کا ہونا ضروری ہے۔ دلیل ابوبکر کی بیعت ۵؍افراد نے کی تھی ۶؍ افراد کا ہونا ضروری ہے۔
دلیل:عمر نے شوریٰ میں ۶؍افراد معین کئے تھے۔ ۲؍ افراد کا ہونا کافی ہے۔
دلیل: نکاح میں ایک ولی اور دو شاہد(گواہ) کا ہونا ضروری ہے۔صرف ۱؍فرد کا ہونا کافی ہے۔
دلیل: جناب عباس نے حضرت علی علیہ السلام سے کہا۔ ہاتھ بڑھائیں تا کہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کروں۔ تا کہ لوگ کہیں رسول خدا کے چچا نے اپنے بھتیجے کے ہاتھوں پر بیعت کی ہے۔ پھر کوئی اختلاف نہیں کرے گا۔
ان سب پر ’’ابن حزم‘‘ کا یہ تبصرہ پوری طرح صادق آتا ہے۔ ’’ہر وہ بات جس کے لئے قرآن، سنت رسول اور یقینی اجماع امت سے کوئی دلیل نہ ہو وہ یقیناً باطل ہے۔ اس لئے کہ قرآن کریم میں ہے:
’’قُلْ ھَاتُوْابُرْھَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ‘‘
لہٰذا جس بات کی صداقت پر کوئی دلیل وبرہان نہ ہو وہ صحیح نہیں ہے۔‘‘
(۴)گذشتہ خلیفہ کی جانب سے معین کرنا:
جس طرح ابوبکر نے عمر کو معین کیا۔ یا عمر نے ایک جماعت کو معین کیا کہ یہ لوگ خلیفہ کا انتخاب کریں۔ یا خلیفہ یکے بعد دیگرے خلفاء کا انتخاب کرے جس طرح سلیمان بن عبدالملک نے اپنے بعد عمر بن عبدالعزیزکو معین کیا اور عمر بن عبدالعزیز کے بعد یزید بن عبدالملک کو نامزد کیا۔{ FR 1160 }
یہاں سب سے اہم سوال یہ ہے ۔ خلیفہ کو نامزد کرنے کا اختیار کس نے دیا ہے؟ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟! اس کی دلیل کیا ہے؟ کوئی آیت کوئی روایت ۔
اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ حضرت رسولؐ خدا نے اپنے بعد کسی کو معین نہیں کیا تو آنحضرت کے خلفاء کو اپنا جانشین معین کرنے کا حق کس نے دیا؟
(۵)قہر وغلبہ:
جو غالب آ جائے وہی خلیفہ۔ امام احمد کا قول ہے’’الامامۃ لمن غلب‘‘ اور اِس کی دلیل عبداللہ بن عمر کا یہ عمل ہے زمانہ حرہ میں ابن عمر نے اہل مدینہ کے ساتھ نماز پڑھی اور یہ کہا۔’’نَحْنُ مَعَ مَنْ غَلَب‘‘ جو غالب آئے ہم اس کے ساتھ ہیں۔
اگر قہر وغلبہ ہی دلیل امامت وخلافت ہے۔ تو یہ فتنہ وفساد کا سبب ہے خوں ریزی وقتل وغارت گری کا وسیلہ ہے۔ ہر ظالم وجابر اور اقتدار پرست کے لئے راہ ہموار کر دینا ہے۔
ان تمام صورتوں پر غور کرنے سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے۔ خلیفہ کے انتخاب کا کوئی طریقہ کار پہلے سے معین نہیں ہے۔ اور ان میں سے کوئی ایسا طریقۂ کار نہیں ہے جس پر قرآن و سنت سے واضح دلیل موجود ہو۔ بلکہ یہ سب واقع شدہ کام کو درست اور شرعی ثابت کرنے کی کوششیں ہیں۔ لہٰذا ہر وہ طریقہ جس کے ذریعہ کوئی بھی تخت خلافت پر بیٹھا وہی طریقہ شرعی ہو گیا۔
ان باتوں سے ایک نہایت تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اسلام جو آخری آسمانی دین ہے۔ جس نے اپنے کامل ہونے کا اعلان کیا ہے اس میں زندگی کے اتنے اہم مسئلہ کے لئے کوئی واضح قانون وضع نہیں کیا ہے اور اتنے حساس مسئلہ کو امت کے حوالہ کر دیا۔ جو چیز (رہنما) امت سے اختلافات دورکرنے کا سبب تھی وہی اختلافات کا سبب ہو گئی۔
ان تمام اختلافات کی وجہ یہ ہے کہ یہ سب قاعدے اور معیار بعد میں تیار کئے گئے ہیں جب کہ واقعات پہلے ہی رونما ہو چکے ہیں یہ ساری کوششیں صرف اس لئے ہیں گذشتہ بزرگوں کے اعمال کسی نہ کسی طرح درست ہو جائیں۔ لہٰذا جہاں شوریٰ کا امکان تھا وہاں شوریٰ معیار قرار پایا اور جہاں قہر وغلبہ سے اعمال درست ہو سکتے تھے وہاں قہر وغلبہ کو معیار قرار دے دیا گیا۔ دوسرے لفظوں میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے یہ سارے واقعات اسلامی قوانین کی روشنی میں وجود میں نہیں آئے ہیں بلکہ ان واقعات کے مطابق اسلامی قوانین کی تشریح وتفسیر کی گئی ہے۔ سب سے زیادہ لطف کی بات تو یہ ہے کہ رونما شدہ واقعات خود ساختہ معیار وضوابط پر بھی پورے نہیں اترتے ہیں۔ ذیل میں ایک ایک کاجائزہ لیتے ہیں۔
یہ بات بہت زیادہ قابل غور ہے کہ خلیفہ ثالث کی حقانیت اس بات پر موقوف ہے کہ خلیفہ ثانی کی خلافت درست ہو اس لئے کہ انھوں نے ہی شوریٰ تشکیل دیا تھا اور انھوں نے ہی اس کے شرائط بیان کئے تھے۔اگر خود ان کی خلافت درست نہ ہوتو پھر شوریٰ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ اس لئے کہ شوریٰ اس شخص نے معین کیا ہے جس کو کوئی اختیار نہیں ہے۔ چونکہ خلیفہ ثانی کو خلیفہ اول نے وصیت کے ذریعہ خلیفہ بنایا تھا لہٰذا خلافت ثانی خلافت اولیٰ کی حقانیت پر موقوف ہے۔ اگر خلیفہ اول ہی کی خلافت غیر اسلامی ہو تو وہ جس کو بھی خلیفہ بنائیں گے وہ غیر قانونی ہوگا۔ یہ تو بالکل اس طرح ہے جو شخص خود گھر کا مالک نہ ہو وہ دوسرے کو کیونکر اس کا مالک بنا سکتا ہے؟
اس بنا پر سب سے پہلے خلافت اول کا جائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں جس کو لوگ ’’اجماع‘‘یا’’شوریٰ‘‘قرار دے رہے ہیں اُس کی حقیقت کیا ہے۔
سقیفہ:
حضرت رسول خدا ﷺکی آنکھ بند ہوتے ہی موقع کے منتظر افراد اپنی اپنی کاروائی میں لگ گئے۔حضرت رسولؐ خدا نے دعوت ذوالعشیرہ سے زندگی کے آخری لمحات تک جس خلافت وامامت کی باقاعدہ وضاحت فرمائی تھی اور غدیر کے موقع پر ہر ایک سے بیعت لی تھی۔ اصحاب رسول تمام تر وضاحتوں کو پائمال کرتے ہوئے اپنے سوچے سمجھے منصوبوں کو عملی کرنے لگے۔
جب تک ابوبکر آ نہیں گئے اس وقت تک عمر رسولؐ خدا کی وفات کا انکار کرتے رہے’’اور کہتے رہے کہ منافقین یہ خیال کر رہے ہیں کہ رسولؐ خدا انتقال فرما گئے ہیں۔ رسولؐ خدا کو موت نہیں آئی ہے بلکہ وہ جناب موسیٰ کی طرح چالیس رات کے لئے قوم سے غائب ہو گئے ہیں ۔ خدا کی قسم رسول خدا واپس آئیں گے اور جو لوگ ان کو مردہ خیال کر رہے ہیں ان کے ہاتھ پیر کاٹیں گے۔ جو یہ کہے گا کہ رسولؐ خدا کا انتقال ہو گیا میں اس کا سر اس تلوار سے جدا کر دوں گا۔‘‘{
لوگوں نے اس آیت کی تلاوت کی:
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلىٰ أَعْقَابِكُم۔
مگر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ بلکہ غصہ اتنا زیادہ تھا کہ منھ سے جھاگ نکل رہا تھا۔
لیکن جب ابوبکر نے آکر اس آیت کی تلاوت کی تو عمر نے کہا کیا یہ آیت خدا کی کتاب میں ہے۔ ابوبکر نے کہا ہاں۔ اس وقت عمر خاموش ہوگئے۔
ابوبکر کے آنے سے پہلے وفات رسول میں شک کرنا ۔(گرچہ شک کرنا سیرت عمر ہے) اور ابوبکر کی زبانی آیت سننے کے بعد خاموش ہو جانا کسی طے شد ہ منصوبہ کا پتہ دے رہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں