واقعہ قرطاس، وصیت لکھنے کی مخالفت

واقعہ غدیر سے دو مہینہ بعد آنحضرت(ﷺ) بیمار ہوئے اور یہ بیماری روز بروز بڑھتی جارہی تھی آپ بستر بیماری پر زندگی کے آخری ایام گذاررہے تھے انھیں دنوں میں ایک دن آپ نے اصحاب سے کاغذ و قلم طلب فرمایا تا کہ ایک تحریر لکھ کر وصیت کر دیں مگر بخاری نے تین جگہوں پر اور صحیح مسلم میں دو جگہوں پر آیا ہے کہ اس پر عمر بن خطاب نے کہا ؛ ہمارے لئے کتاب کافی ہے۔ اور پھر اصحاب میں جھگڑا شروع ہو گیا ۔ نبیٴ رحمت نے اپنے پاس سے اٹھکر چلے جانے کا حکم دیا کہ میرے پاس نزاع سزاوار نہیں ہے۔ { FR 946 }
۲) نبیٴ رحمت کی شان میں ہذیان کی نسبت ؛
مسلم نے واقعہ قرطاس سے متعلق جو روایت نقل کی ہے وہ بخاری کی روایت سے زیادہ سخت اور توہین آمیز ہے ؛
ابن عباس جمعرات کے دن کا ذکرکرکے افسوس بھی کرتے تھے اور گریہ بھی کرتے کہ ہائے جمعرات کا دن ! رسول اللہ نے فرمایا ؛ گوسفند کی ہڈی اور دوات یا کوئی تختی اور دوات لے آؤ تاکہ تمہارے لئے ایک نوشتہ لکھ دوں جس کے بعد ہر گز گمراہ نہ ہوگے ، مگر بعض نے کہا ؛ پیغمبر (ﷺ) (نعوذ باللہ ) ہذیان بک رہے ہیں۔{ FR 947 }
یہ اس قدر عظیم جسارت اور نہایت توہین آمیز نسبت ہے جس کی بنا پر علماء عمر بن خطاب کی طرف نسبت دینے سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں روایت میں ’’بعض نے کہا ‘‘ آیا ہے، مگر حسب ذیل روایت ملاحظہ فرمائیں ، یہ شبہ بھی ختم ہو جائیگا؛ ۔
۳) پیغمبرﷺ کی شان میں ایک اور بڑی جسارت
اسی واقعہ قرطاس میں آنحضرت(ﷺ) کی طرف سے وصیت لکھنے کیلئے دوات و قلم طلب کئے جانے کوعمر بن خطاب نے بیماری کی شدت کا نتیجہ قرار دیا ہے ۔
’’جب آنحضرت (ﷺ) بستر احتضار پر تھے آپ کے گرد کچھ اصحاب منجملہ عمر بن خطاب حاضر تھے نبیٴ خدا نے فرمایا؛ لاؤجلدی میں تمہارے لئے ایک نوشتہ لکھ دوں جس کے بعد ہر گز گمراہ نہ ہوگے ! عمر بن خطاب نے کہا ؛ پیغمبر(ﷺ) پر بیماری کا غلبہ ہے (معاذاللہ) تمہارے پاس قرآن ہے وہی ہمارے لئے کافی ہے۔ وہاں موجود افراد نے شور و ہنگامہ شروع کردیا ۔ بعض عمر کی حمایت تو بعض مخالفت کررہے تھے اور جب نزاع حد سے بڑھا تو پیغمبر(ﷺ) نے فرمایا؛ اٹھو اور میرے سامنے سے دور ہوجاؤ !{ FR 948 }
یہ جسارتیں اس قدر سنگین اور اتنا بڑا حادثہ تھا کہ آج عالم اسلام کی مصیبتوں اور بدبختیوں کا آغاز اسی نکتہ سے ہوتاہے۔ اگر کل کی یہ تحریر آنحضرت کے دست مبارک کی امت کے درمیان ہوتی تویقیناََ بطور تبرک امت مسلمہ اسے محفوظ رکھتی اور رکھنا بھی چاہئے ، جب آنحضرت (ﷺ) کے احتمالی ’’بال مبارک ‘‘ کی زیارت و حفاظت کا اہتمام ہوسکتا ہے تو آپ کی تحریر کی حفاظت کا اہتمام کیوں نہ ہوتا اور اگرچہ اس بات کا قوی امکان بھی ہوتاکہ جانشینی امیر المومنین ؑ سے تعلق ہونے کی بنا پر انکار کردیا جاتا یا اسے مشتبہ قراردیا جاتا اور دیگر کمالات کی طرح اس پر بھی پردے ڈالے جاتے …۔ مگر خدا و رسول کی جانب سے یہ
آخری حجت بھی پوری ہوجاتی اور امتِ مسلمہ میں اس قدر اختلاف نہ ہوتا۔
۴) لشکر اسامہ سےگریز
حضور سرورکائنات (ﷺ) نے حالتِ بیماری میں اسامہ بن زید (جو حضور (ﷺ) کے آزاد کردہ غلام کے فرزند تھے) کو جو اس وقت ۱۸؍ سال کےتھے ایک لشکر کا سردار بنایا اور حکم دیا کہ ابوبکر ، عمر ، ابوعبیدہ جراح ، سعد بن عبادہ اور دیگر مہاجرین و انصار کے بزرگان بھی اس لشکر میں شرکت کریں۔{ FR 949 }
اس کے علاوہ بہت ساری کتابیں ہیں جن میں تصریح ہے کہ یہ افراد لشکر اسامہ کے جزء تھے ، جیسے کنزالعمال ج۵/ ص۳۱۲، انساب الاشراف ج۱/ ص۴۷۴، تہذیب ابن عساکر تاریخ یعقوبی کامل ابن اثیر وغیرہ ۔
آنحضرت(ﷺ) نے تاکید کے ساتھ فرمایا کوئی بھی لشکر اسامہ میں جانے سے گریز نہ کرے اورجب مدینہ سے باہر لشکر کو خبر ملی کہ حضور اکرم(ﷺ) حالت احتضار میں ہیں تووہ لوگ مدینہ واپس آگئے۔ آنحضرت(ﷺ) نے فرمایا تھا ؛ خدا لعنت کرے اس شخص پر جو اسامہ کے لشکر سے گریز کرے اور ساتھ نہ جائے۔ { FR 950 }
۵۔ نبی ﷺ کے نہ چاہتے ہوئے بھی نماز صبح پڑھانے کی کوشش
لکھا ہے پیر کے دن اذان صبح کے وقت جب بلال حسب معمول حضوراکرم(ﷺ)کے گھر پر آئے اس دن پیغمبراکرمﷺ عائشہ کے گھر شدت مرض کے عالم میں تھے اور آپ (ﷺ) کا سرِ اقدس حضرت علی ؈ کے زانو پر تھا ، وہ دروازہ کے اوٹ میں آئیں اور بلال سے کہا؛ میرے باپ (ابوبکر ) سے کہو وہ آکر نمِاز صبح پڑھادیں ، آخر وہ آئے اور محراب میں کھڑے ہوئے ، جب نبی (ﷺ) کو شدت مرض سے افاقہ ہوا اور متوجہ ہوئے کہ مسجد میں جماعت برپا ہے اور علیؑ گھر میں پیغمبر(ﷺ) کے سرہانے موجود ہیں تو نبی(ﷺ )اس عالم میں کھڑہوئے اور وضو کیا ، فضل بن عباس اور حضرت علی ؑ کے شانوں پر سہارا لیا اور مسجد تشریف لائے کہ شدتِ بیماری سے رسول اللہ(ﷺ) کے پائے مبارک زمین پر خط کھینچ رہے تھے۔ اس وقت ابوبکر نماز کی نیت کرکے محراب میں کھڑے ہوچکے تھے ، پیغمبراسلام ان کے سامنے آکر ان کی نماز توڑ دی اور بیٹھ کر نماز پڑھی اور صحابہ نے پیغمبر کی اقتداء میں نماز صبح ادا کی۔{ FR 951 }اس سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ کے مخالفین کی ٹولی مسند رسالت پر قبضہ کیلئے کس قدر بےچین تھی۔
تاریخ و سیرت اور حدیث کی کتابوں سے یہ چند مقامات تھے جنھیں پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی اور اصحاب پیغمبر(ﷺ) کی جسارتوں کے سلسلوں کا یہ اجمالی خاکہ تھا۔ یہ کسی بھی منصف مزاج اور غیر جانبدار محقق اور حق کے متلاشی کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے کہ جب حیات پیغمبر (ﷺ) میں اصحاب کے درمیان ایسے نام نہاد مسلمان تھے جن کے دلوں میں خدا و رسول (ﷺ) کی محبت ذرہ برابر نہیں پائی جاتی تھی اور وہ اپنے طے شدہ منصوبہ تک پہونچنے کیلئے خود آنحضرت کے ساتھ کسی بھی طرح کا برتاؤ کر سکتے ہیں تو وفات پیغمبر(ﷺ) کےبعد ان کے ارشادات و فرمودات اور خود اہلبیت آنحضرت(ﷺ) کے ساتھ کیا نہیں کر سکتے ہیں، اور کیا نہیں کیا؟ ! آنکھ بند ہوتے ہی اہلبیتؑ کے حقوق غصب کر لئے، مسند خلافت پر قابض ہو گئے، آنحضرت کی جانشینئ امیرالمؤمنین ؈ کی ساری تاکیدات و نصوص کا انکار کردیا اور اپنی اس سازش میں کامیاب ہوکر آخرت میں ناکام ہوگئے۔ جس کیلئے برسوں سے ہر ہتھکنڈے اپنائے جارہے تھے … مگر مخلص توحید پرستوں اوررسالت و امامت کی دل سے تصدیق کرنے والوں کے وجود سے دنیا کل بھی خالی نہ تھی اور آج بھی خالی نہیں ہے اور کل بھی خالی نہ ہوگی بلکہ راہِ راست کی طرف آنے والوں کا سلسلہ روز بروز بڑھتا جارہاہے اور بڑھتا جاتا رہیگا۔ اس لئے کہ حق نور ہے اور باطل تاریکی اور جب تک کائنات نورِحق سے پورے طور سے روشن نہ ہوجائے گی اس وقت تک یہ سلسلہ چلتا رہیگا اور و ہ دن آخر آنے ہی والا ہے جس کاقرآن نے وعدہ کیا ہے ۔ ’’جاءالحق وزہق الباطل‘‘ ، حق آگیا اورباطل مٹ گیا باطل تو مٹنے ہی والا تھا ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں