حدیث غدیر میں معنی ولایت اُدَباء اور شعراء کی نظر میں- (قسط ۴)

اَلْحَمْدُ للہ ِ وَسَلَامٌ عَلیٰ عباد الّذین اَصْطَفیٰ

بارگاہ خداوندی میں صد شکر کہ اُس نے زندگی عطا کی اور اس سال سنہ ۱۴۴۳ ہجری میں میگزین ’’آفتاب ولایت‘‘ میں مذکورہ عنوان کی چوتھی قسط پیش کرنے کی توفیق عطا کیا۔

گذشتہ سال یعنی۱۴۴۲ھ کے ’’آفتاب ولایت‘‘ کے صفحات ۲۴تا۳۰پر قسط ۳ملاحظہ فرمائیں۔

گذشتہ مضامین کا چند سطروں میں خلاصہ یہ ہے:

ائمہ ھُدیٰ علیہم السلام اور علمائے امامیہ نے مولیٰ کے معنی صدر اسلام کے عرب اور بعد کی نسلوں کے عربوں نے جو سمجھا ہے اُسے بیان کیاہے۔

مولیٰ کے معنی نامور ادباء اور شعراء نے اپنے اشعار وبیان میں وہی ذکر کیا ہے جسے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خدا کے حکم سے بیان کیا ہے۔

شعراء نے حدیث غدیر کو مناسب قافیہ کے ساتھ شعر کی شکل میں اتارا ہے جو حدیث غدیر کے مستند ہونے کو ثابت کرتے ہیں۔

اس مضمون کا ماخذ ومدرک کتاب ’’الغدیر فی الکتاب والسُّنَۃِ وَالْاَدب‘‘ ہے جو کتاب الغدیر کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے مولف الشیخ عبدالحسین احمد الامینی قُدّس سِرّہ ہیں جو علامۂ امینی کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ کتاب عربی زبان میں لکھی گئی ہے۔ فارسی زبان میں مکمل کتاب کاترجمہ اور اردو وانگریزی میں کچھ اختصار کے ساتھ ترجمہ ہو چکا ہے۔

علامہ امینیؒ اور کتاب الغدیر کا مختصر تعارف ’’آفتاب ولایت‘‘ کے ۱۴۴۰ھ؁کے شمارہ میں پیش کیا جا چکا ہے۔

گذشتہ شماروں میں شعر اور شعراء کی اہمیت ائمہ علیہم السلام اور حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ کی زبانی بیان ہو چکی ہیں۔ شعراء کی تشویق وترغیب کے لئے ائمہ علیہم السلام کی زبان مبارک سے اس طرح کے جملہ نظر آتے ہیں:

’’جو ایک شعر ہمارے بارے میں کہے خداوندعالم بہشت میں اس کے لئے ایک گھربناتا ہے۔‘‘

گذشتہ شماروں میں پہلی صدی ہجری کے شعراء مثلاً حسان بن ثابت کے اشعار اور قیس بن عبادہ انصاری کے اشعار کا ذکر ہوا۔آپ حضرت امیرعلیہ السلام کے خاص صحابی تھے۔ حضرت امیرعلیہ السلام کے اشعار بھی لکھے گئے۔پھر امیرالمومنین علیہ السلام کے ایک دشمن عمروبن عاص متوفیٰ ۴۳ ھجری کے اشعار قصیدۂ جلجلیہ کا ذکر کیا گیا ۔ البتہ قصیدۂ جلجلیہ کے تمام ۶۶؍اشعار کا ترجمہ اور شرح آفتاب ولایت کے ۱۴۳۴ ھجری کے اردو شمارہ میں ۱۴۳۵ھ کے انگریزی شمارہ میں لکھا جا چکا ہے۔ پھر پہلی صدی کے شاعر محمد حمیری کے اشعار کا تذکرہ ہوا۔

اب ملاحظہ ہو دوسری صدی ہجری کے شعراء اور اُن کے اشعار کا تذکرہ:

مرحوم علامہ امینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے دوسری صدی ھجری کے تین شعراء کا تذکرہ کیا ہے:

(۱)کمیت بن زید اسدی

(۲)سیداسماعیل بن محمد حمیری

(۳)عبدی سفیان بن مصعب کوفی

ہم یہاں اختصار کے ساتھ کمیت اسدی کے مختصر حالات اور اُن کے شعر کا تذکرہ کریں گے۔

ابوالمستہل کمیت (۶۰تا ۱۲۶ھ ق)

ابومستہل کمیت بن زید بن خنیس بن مخالد بن وھیب بن عمرو بن شبیع بن مالک بن سعد بن ثعلبہ بن دودان بن اَسد بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار۔

ابوالفرج نے الاغانی میں لکھا ہے کہ:کمیت ایک معیاری شاعر یعنی جس کے پیچھے لوگ چلیں اور جس کی اتباع کی جائے، ماہر لغات، عرب کی تاریخ سے آشنا تھے ۔ وہ’’مضر‘‘ کی نسل کے شاعروں اور زبان دانی کے ماہر تھے۔ وہ’’قحطانیہ‘‘ کے طرفدار تھے اور اُن لوگوں میں سے تھے جو شاعروں کے عیوب سے آگاہ ہوتے، اورایّام روزگارسے آشنا اور حیات کی کشمکش سے بھی آشنا تھے۔ بنی امیہ کے دور میں زندگی گذاری لیکن بنی عباس کا دور نہ پایا۔ کمیت ھاشمی تشیع کے لئے معروف تھے۔

معاذھراء سے پوچھا گیا: سب سے بڑا شاعر کون ہے؟ اُس نے سوال کیا: جاہلیت کے دور کا شاعر یا اسلامی دور کا شاعر؟ کہا: پہلے جاہلیت کے دور کا بیان کرو۔معاذ نے کہا:اُمراء ُالقیس، زھیر،عبیدبن الابرص۔پھر پوچھا اسلامی دور کے شعراء میں کون ہے؟ معاذ نے کہا: فرزدق،جریر،اخطل، راعی۔ اُس سے پوچھا گیا: اے ابومحمد!تم نے کمیت کا نام کیوں نہیں لیا؟ معاذ نے کہا کہ وہ تواگلوں اور پچھلوں میں سب سے بڑےشاعر تھے۔

اسی طرح فرزدق کا بیان بھی نقل کیا گیا ہے کہ خود انھوں نے کمیت سے کہا:خدا کی قسم!تم تمام گزرے اور آئندہ لوگوں میں سب سے بڑے  شاعر ہو۔

تعداد اشعار:

کمیت کے اشعار کی تعداد الاغانی اور معاھد التّنصص(۲)کے مطابق ۵۲۸۹؍ہیں اور کشف الظنون میں عیون الاخبار کے حوالہ سے نقل ہوا ہے کہ کمیت کے پانچ ہزار سے زیادہ قصیدہ ہیں جسے صمعی نے جمع کیا ہے اور ابن مسکیت نے مرتب کیا ہے۔

تذکر: علامہ امینیؒ قدس سرّۃ نے تعداد کی تفصیل کے لئے بعض راویوں کے حوالہ دئیے ہیں جنھوں نے کمیت کے اشعار کی تعداد بھی بیان کئے ہیں اور ان کی تعریف بھی کی ہے۔صاحبان تحقیق رجوع کریں الغدیر جلد ۲؍عربی اور جلد ۴؍فارسی۔

ھاشمیات کمیت

کمیت کے قصائد ھاشمیات کُمیت کہلاتے ہیں۔ ردیف کے اعتبار سے یہ مثلاً قصیدۂ عینیۂ ہاشمیات، قصیدۂ میمیۂ ہاشمیات، قصیدۂ بائیہ ہاشمیات قصیدہ لامیہ ہاشمیات وغیرہ کہلاتے ہیں۔

قصیدہ عینیہ ھاشمیات

وَیَوْمَ الْدّوح‘ دَوحِ غَدِیرِ خُمٍّ

اَبَانَ لَہُ الْوِلَایَۃَ، لَواَطِیعا

اور روزِ دَوح، دَوحِ غدیر خم کے موقعہ اُن کی ولایت کو آشکار وظاہر کیا، اے کاش ان کی اطاعت کی جاتی (تفصیلی ترجمہ آگے ملاحظہ ہو)

وَلٰکِنِ الرَّجال تُبایِعُوھا

فَلَم اَرَ مِثْلَھا خطراً  مبیعا

لیکن جن لوگوں نے پیمان ولایت توڑ دیا، میں نے ایسی خطرناک پیمان شکنی نہ دیکھی۔

یہ اشعار ہاشمیات کمیت کے تابندہ قصائد کا ایک حصہ ہے اور جیسا کہ صاحب ’’حدائقُ الْوَرْدیہ‘‘ کے مطابق یہ ۵۸۷؍اشعار پر مشتمل ہے، لیکن دشمنوں نے اس کی اشاعت وطبع میں خیانت کیا اور بیشتر حصوں کو حذف کر دیا۔ یہی مجرمانہ حرکت دیوان حسّان ودیوان فرزدق ودیوان ابونواس وغیرہ کے ساتھ بھی کی گئی۔ اب تو اس کے آثار بھی مٹ گئے ہیں۔ اب تو چاہیئے کہ کوئی محقق ان کی خباثتوں کے پردہ کو فاش کرے۔

حوالہ: یہ قصیدہ ۱۹۰۴ء میں لیدن میں طبع ہوا تھا جس میں پانچ سو چھتیس (۵۳۶) اشعار تھے۔ استاد محمد شاکر خیاط کی شرح کے ساتھ پانچ سو ساٹھ (۵۶۰)اشعار اور استاد رافعی کی شرح کے ساتھ ۵۴۸؍شعر باقی رہ گئے۔

یَومَ الدَوح کے معنی:

دَوح کے معنی بڑ ا درخت بہت سی شاخوں کے ساتھ جو ہر طرف پھیلی ہوئی ہو۔اس کو درختوں کا جھُنڈ بھی کہہ سکتے ہیں۔اس طرح یوم الدوح کا ترجمہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ ’’اُس دن کہ جب پیغمبر اکرم ﷺنے تبلیغ ولایت کے لئے درختوں کے جھُنڈ کے علاقہ میں خود کو ٹھہرایا یا اتارا۔ ایک مرتبہ شعر کا ترجمہ اس انداز میں ملاحظہ ہو:

وَیَومَ الدَّوحِ،دَوحِ غَدیرِ خم

وہ شاخوں سے لدے ہوئے درخت کے دن یعنی غدیر خم کے درخت کے جھنڈ میں ۔

اَبَان لَہُ الْوِلایَۃَ ، لَو اُطِیْعٰا

اُن کی ولایت کو آشکار کیا،بیان، کیا اے کاش اُن کی اطاعت کی جاتی۔

شیخ مفید قدس سِرّہ کا بیان

مرحوم شیخ مفید رضوان اللہ تعالیٰ علیہ اپنے رسالہ میں کلمۂ’’مولیٰ‘‘کے معنی کے ذیل میں فرماتے ہیں:کمیت کی شخصیت ان لوگوں میں ہے کہ ان کے اشعار کے ذریعہ قرآن کے معنی کو سمجھنے کے لئے استشہاد کیا گیا ہے اور علماء نے شعر میں ان کی فصاحت ولغت شناسی وبلاغت میں انہیں سردار مانا ہے، اور ان کی عظمت وبزرگی پر عربوں نے اجماع کیا ہے۔ اور ایسا شخص جو کہے:

وَیَومَ الدَّوحِ،دَوحِ غَدِیرِ خمٍ اَبَانَ لَہُ الوِلایَۃَ، لَواَطِیعٰا(ترجمہ اوپرگذرا)خبر غدیر کے ذریعہ امامت علی علیہ السلام کو واجب جانا ہے اور اُن حضرت کولفظِ مولیٰ کے ذریعہ ریاست وولایت کا حامل قرار دیا ہے۔ کمیت جیسے لغت وادبیات عرب کے جلیل القدر شاعر کے لئے روا اور جائز نہیں ہے کہ وہ عبارتوں اور لفظوں میں وضع سے کام لے اور لفظ کو اُس کے معنی میں استعمال نہ کرے اور اُن سے پہلے دوسرے عربی داں نے اُس لفظ کو اُس معنی میں استعمال نہ کیا ہو اور جس طرح عربوں نے سمجھا ہو اُسے نہ سمجھا ہو۔اگر کمیت کے لئے ایسا کام روا اور جائز تھا، دوسروں کے لئے بھی جو اُن کے جیسے یا بلند مرتبہ یا اُن سے کم مرتبہ تھے، اُن کے لئے بھی جائز تھا اور نتیجہ میں لغت کا حقیقی مفہوم ہی فوت ہوجاتا اور پھر لغت عرب کی حقیقت کو پہچاننے کا ہمارے لئے کوئی راستہ نہ رہ جاتا اور اس طرح یہ راستہ ہی بند ہو جاتا۔

امیرالمومنین ؑنے خواب میں اسی شعر کا مطالبہ کیا

کراجکی نے’’کنزالفوائد‘‘کے صفحہ ۱۵۴؍پر اپنی اسناد سے ’’ھنّاد بن سری‘‘کے حوالہ سے روایت کیا ہے کہ ھنّادنے کہا:امیرالمومنین علیہ السلام کو خواب میں دیکھا کہ مجھ سے کہہ رہے ہیں: اے ھنّاد!میں نے کہا: لبیک یا امیرالمومنین !آپ نے فرمایا:کمیت کے اُس شعر کو میرے لئے پڑھو جو کہ اس بیت سے شروع ہوتا ہے:

وَیَوم الدَّوح ، دَوح، غدیر خُمٍّ۔۔۔۔

میں نے پڑھا تو آپ نے فرمایا:اے ھنّاد!سنو، میں نے کہا: میرے آقا فرمائیے،تو حضرت نے فرمایا:

وَلَمْ اَرَ مِثْلَ ذَاکَ الْیَوْمَ یَوْماً

وَلَمْ اَرَمِثْلَہُ حَقّاً اَضیعٰا

میں نے ہرگز اس دن کی طرح دن نہ دیکھا اور ایسا حق کا ضائع ہونا کبھی نہ دیکھا۔

اسی طرح ’’شیخ ابوالفتوح‘‘ نے اپنی تفسیر کی جلد دوم صفحہ ۱۹۳؍پر ایک خواب کا ذکرکیا ہے۔ کمیت کہتے ہیں کہ: امیرالمومنین علیہ السلام کو خواب میں دیکھا کہ مجھ سے کہہ رہے ہیں اپنے قصیدۂ عینیہ کو میرے لئے پڑھو۔ میں نے پڑھنا شروع کیا اور یہاں تک پہونچا کہ:

وَ یَوْمَ الدَوح، دَوحَ غدیرِ خُمٍ

اَبانَ لَہُ الولایَۃُ لَو اَطِیْعٰا

اور حضرت(خدا کا مسلسل درود وسلام ہو اُن پر ) نے فرمایا: تم نے صحیح کہااور خود اس طرح پڑھا:

وَلَم اَرَمِثلَ ذَاکَ الیومَ یَوماً

وَلم اَرَ مِثلہُ حَقّاً اَضیعٰا

میں نے ہرگزاُس دن کی طرح دن نہ دیکھا اور ایسا حق کا ضائع ہونا کبھی نہ دیکھا ۔

پیغمبر اکرم نے بھی اس قصیدہ کی تعریف کی

’’بیاضی عاملی‘‘ نے اپنی کتاب ’’الصّراط المستقیم‘‘ میں نقل کیا ہے کہ کمیت کے بیٹے نے کہا کہ: پیغمبر کو خواب میں دیکھا کہ آپ اُس سے کہہ رہے ہیں: اپنے والد کے قصیدۂ عَینیّہ کو میرے لئے پڑھو‘ اور میں نے پڑھنا شروع کیا اور جب یہاں تک پہونچا:

وَیَومَ الدَوح، دَوحَ غَدِیرِ خُمٍّ۔۔۔۔

تو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ سخت گریہ کرنے لگے اور فرمایا:تمہارے والد نے صحیح کہا،خدا اُن پر رحمت کرے، بے شک خدا کی قسم:

لَمْ اَرَمِثلَہُ حَقّاً اَضِیعٰا

ایسا حق کا ضائع ہونا کبھی نہ دیکھا

تذکّر: اس مضمون میں مزید گنجائش نہیں ہے کہ کمیت کے قصائد کا مزید جائزہ لیا جائے ۔ مرحوم علامۂ امینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے پچاس صفحات سے زیادہ کمیت کے حالات نقل کئے ہیں۔ ان کے تمام قصائد مثلاً قصیدۂ عینیۂ ھاشمیات، قصیدۂ میمیۂ ھاشمیات، قصیدۂ بائیۂ ھاشمیات، قصیدۂ لامیہ ھاشمیات وغیرہ کے کچھ شعر کا تذکرہ اور اُن پر تبصرہ اور اُن کے حوالے نقل کئے ہیں اور ساتھ ہی کمیت کے حالات کا ذکر کیا ہے۔ ہم یہاں قارئین کی توجہ کے لئے بعض عنوان لکھ رہے ہیں۔

زندگیٔ شاعر، کمیت اور ان کی مذہبی زندگی ، کمیت اور ائمہ علیہم السلام کی دُعا اُن کے حق میں، کمیت وہشام بن عبدالملک، کمیت ویزید ابن عبدالملک، ولایت وشہادت کمیت وغیرہ۔

کمیت کے حق میں ائمہ علیہم السلام کی دُعا

جیسی دعائیں کمیت کے حق میں پیغمبر اور ائمہ علیہم السلام نے کی ہے دوسروں کے بارے میں کم ہی دکھائی دیتی ہیں۔ہم نے بیاضی کی حدیث میں دیکھا کہ پیغمبرؐ اُن کے لئے رحمت کی دعا کر رہے ہیں۔ اسی طرح نضربن مزاحم کے خواب میں اجر خیر کی دعا کرتے ہیں۔

امام سجاد علیہ السلام دُعا کرتے ہیں:خداوندا!انہیں خوش بختی کے ساتھ زندہ رکھ اور شہادت کے ذریعہ موت عطا کر اور اُن کے اجر دنیوی انہیں دکھا اور ثواب آخرت کو اُن کے لئے ذخیرہ کردے۔

امام باقر علیہ السلام نے نہ صرف ایک بار بلکہ کئی مرتبہ جیسے منیٰ میں ایام تشریق کے موقع اور کبھی کعبہ کے سامنے ان کے لئے رحمت ومغفرت کی دعا کیا اور فرمایا: ہمیشہ (اے کمیت) روح القدس کی تائید تمہیں حاصل ہو۔

خلاصہ یہ کہ امام صادق علیہ السلام نے بھی آپ کے حق میں دُعا کی ہے اور دیگر ائمہ نے بھی

خدایا!ہمیں بھی امام زمانہ علیہ السلام اور ائمہ علیہم السلام کی دعاؤں میں شامل فرما۔

ولادت وشہادت کمیت

کمیت سن ۶۰؍ھجری میں یعنی امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے سال میں پیدا ہوئے۔امام زین العابدین علیہ السلام کی دُعا کی برکت سے اُن کی تقدیر میں شہادت نصیب ہوئی ۔ آپ کی شہادت ’’مروان بن محمد‘‘ کے دور خلافت میں کوفہ میں سن ۱۲۶ ھجری میں واقع ہوئی۔

آپ کی شہادت کی وجہ بتائی گئی ہے کہ جعفریان نے خالد قسری پر خروج کیا اُسی زمانہ میں بہت سے لوگوں کوجلایا گیا، مارا گیا اور کمیت نے زیدبن علی کے مرنے کے بعد کچھ شعر اُن کی مدح میں کہے تھے کہ:(اے زید بن علی)!ظاہری طور پر لوگوں کے درمیان آئے، اور کوئی نہ تھا کہ اُس (خالد) کے محل کے بڑے دروازہ پر قفل لگائے۔

خالد کہ اپنے کھلے ہوئے منھ سے پانی طلب کر رہا تھا اور اُس کو قتل کرنے والے فریاد کر رہے تھے، وہ تمہاری طرح نہ ہوگا۔

اسی وقت آٹھ سپاہیوں نے اپنی تلوار وں سے کمیت کے شکم پر حملہ کیا اور انہیں گرا دیا اور کہا: امیر کی اجازت کے بغیر شعر پڑھتا ہے؟ اور اُن کے جسم سے مسلسل خون بہتا رہا اور آپ کی شہادت واقع ہو گئی۔

مستہل، کمیت کے بیٹے بھی ایک عظیم ومعروف شاعر تھے اور ان کا بھی دیوان موجود ہے، فرماتے ہیں کہ اپنے والد کی موت کے وقت میں اُن کے سرہانے تھا۔ وہ موت کے وقت بے ہوش ہوئے اور جب ہوش میں آئے تو تین مرتبہ فرمایا: بارِ خدایا!خاندانِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ۔پھر مجھ سے بنی کلب کے بارے میں کہا اور کہا کہ مجھے پشتِ کوفہ پر دفن نہ کرنا بلکہ’’مکران‘‘کے مقام پر دفن کرنا ۔ لہٰذا انہیں اُسی جگہ لے گئے جو آج تک قبرستان بنی اسد کے نام سے جانا جاتا ہے، سپرد خاک کیا۔

خدایا!ہمیں امیرالمومنین علیہ السلام کے حق کے دفاع کی توفیق عمر کے آخری لمحات تک عطا کر۔اللھُمَّ عجل لولیک الفرج۔

اپنا تبصرہ بھیجیں