خدا کے کامل ترین دین ’’اسلام‘‘ کی بہت ہی واضح خصوصیت جس میں وہ دنیا کے تمام آسمانی اور غیر آسمانی ادیان سے ممتاز ہے کوئی ایک بھی اس خصوصیت میں اسلام کے ساتھ شریک نہیں ہے وہ ’’توحید‘‘ ہے۔ دین مقدس اسلام نے توحید کا جو تصور پیش کیا ہے وہ کہیں اور نظر نہیں آتا ہے۔ یہ تصور توحید صرف خیالی نہیں ہے بلکہ حقیقی ہے۔ اصول دین کے تمام اصول اور عقیدہ میں توحید کا تصور واضح اور نمایاں ہے۔
۱۔ توحید – یعنی خدا کے علاوہ کوئی اور خدا نہیں ہے صرف اور صرف بس وہی خدا عبادت کے لائق ہے۔ اس کی ذات اور عبادت میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔
۲۔ عدل- وہ اپنے عدل و انصاف میں اور تمام دیگر صفات میں منفرد ہے کوئی بھی اس جیسا نہیں ہے۔
۳۔ نبوت- شریعت خداوندی بس نبوت کے ذریعہ لوگوں تک پہونچتی ہے۔ بس خدا ہی ہے جو نبی قرار دیتا ہے۔ شریعت نبوت میں منحصر ہے۔
۴۔ امامت- اطاعت،ولایت، رہبری بس ان لوگوں سے مخصوص ہے جن کو خدا نے امام قرار دیا ہے۔ ان کے علاوہ کسی اور کی اطاعت و امامت و رہبری قابل قبول نہیں ہے۔
۵۔ قیامت – سب کا انجام ایک ہے۔ یہاں کامیابی کا معیار خلوص و اخلاص ہے۔{ FR 442 }
اب اگر کوئی خدا کے فرستادہ نبی اور خدا کے منتخب کردہ امام کے علاوہ کسی اور کی شریعت کی پابندی کررہا ہے اور اطاعت کررہا ہے تو وہ خدا کے علاوہ کسی اور کو اس حق میں خدا کا شریک قرار دے رہا ہے یعنی خدا کے علاوہ کسی اور کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ بھی نبی و امام معین کرسکتا ہے یہ دوسرے چند افراد ہوں یا پوری ایک امت۔ خدا کے بنائے ہوئے نبی کے علاوہ کسی اور کی نبوت کا عقیدہ رکھنا خدا کے منتخب کردہ امام کے علاوہ کسی اور کی اطاعت کرنا یہ اس دوسرے کو خدا کے ساتھ شریک کرنا ہے۔
تعریف امامت:
امامت کا موضوع روز اول سے بحث و گفتگو کا مرکز رہا ہے۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ امامت کی تعریف کیا ہے۔ ساتھ ساتھ یہ بات بھی ذکر کرنا چاہتے ہیں کبھی مصداق معین کرنے سے پہلے تعریف کی جاتی ہے اور اس تعریف کی روشنی میں مصادیق تلاش کئے جاتے ہیں اس صورت میں مصادیق تعریف سے ہماہنگ اور مطابق ہوتے ہیں اور کبھی مصادیق پہلے معین کئے جاتے ہیں پھر ان کے مطابق تعریف کی جاتی ہے۔ اس صورت میں معیار بدلتے رہتے ہیں کیونکہ مصادیق ایک معیار کے نہیں ہوتے ہیں۔ لہٰذا تعریف بھی بدلتی رہتی ہے۔
کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ امامت ایک دنیاوی ریاست و حکومت ہے جس کی ذمہ داری ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنا۔ عوام الناس کے امور کی دیکھ ریکھ کرنا ، شہروں میں امن و امان برقرار رکھنا وغیرہ — یعنی دنیا کے دیگر سیاسی و ملکی سربراہوں کی طرح ایک سربراہی ہے ایک رہنمائی ہے جس کا دائرہ کار دنیاوی امور میں محدود ہے۔
جبکہ بعض لوگوں نے تعریف امامت میں دنیاوی ریاست کے ساتھ ساتھ دینی ریاست، قیادت کی بھی شرط لگائی ہے۔ جس میں مذکورہ مقاصد کے علاوہ دین کی تبلیغ و اشاعت بھی شامل ہے۔
لیکن حقیقت امامت ان دو باتوں اور ان دو تعریفوں میں منحصر نہیں ہے یہ دونوں باتیں حقیقت کا بس ایک جزو ہیں اصل حقیقت نہیں ہیں —– کیونکہ ان دو امور کی ادائیگی کے لئے نہ عصمت ضروری ہے اور نہ علم الٰہی و لدنی۔ یہ کام تو دنیا میں ہوہی رہا ہے چاہے اچھے طریقہ سے انجام پائے چاہے غلط طریقہ سے۔ چاہے حکمران اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں۔
جبکہ امامت میں عصمت اور علم الٰہی و لدنی شرط ہے اتنی بڑی شرط اس قدر عظیم صفت اور اتنا معمولی کام۔ کیا عقل اس بات کو قبول کرتی ہے کہ مکتب کے ایک معمولی سے بچہ کو الف، ب پڑھانے کی خاطر دنیا کے استاد اول اور معلم لاثانی کو منتخب کیا جائے۔ ایک کام جو معمولی سے آدمی سے ہوسکتا ہو اس کے لئے شہنشاہ آعظم کو معین کیا جائے — ہوسکتا ہے ان تعریفوں کے ماوراء اس زمانہ کے حالات ہوں ظالم حکمرانوں کی جاسوسیاں ہوں — یہ بات بالکل واضح ہے اگر امامت میں دنیاوی ریاست و حکومت شامل ہے۔ یعنی وہی امام ہوگا جو حکومت کا سربراہ ہو۔ لوگوں پر اس کی حکومت ہو تو اس صورت میں اکثر انبیاء علیہم السلام کی نبوت و رسالت اور اکثر ائمہ علیہم السلام کی امامت مورد سوال ہوگی۔ جبکہ ان تمام حضرات کی نبوت، رسالت اور امامت اس قدر یقینی ہے جس پر ایمان لائے بغیر انسان مسلمان نہیں ہوسکتا ہے۔ تو اب سوال یہ ہے کہ امامت کیا ہے اور کیوں ضروری ہے۔
ذیل کی دلیلیں امامت کی ضرورت نہایت واضح الفاظ میں ثابت کرتی ہیں اس دلیل سے یہ بھی واضح ہوجائیگا یہ وہ ضرورت ہے جو ہمیشہ باقی ہے۔ یعنی امامت مسلسل رہنمائی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔
ہشام بن حکم کی روایت ہے۔ ایک زندیق (دین کا انکار کرنےوالا) نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا۔
ضرورت امام:
آپ نے نبی اور رسول کہاں سے ثابت کئے۔ (یعنی کس دلیل کی بنا پر رسول و نبی کی ضرورت ہے۔)
امام علیہ السلام نے فرمایا:
’’جب یہ طے ہوگیا کہ ہمارا ایک خالق ہے وہ ایک ہے جس نے ہمیں بنایا ہے وہ ہم سے اور تمام مخلوقات سے بہت بلند و برتر ہے۔ یہ صانع، خالق حکیم ہے بلند ہے لوگ اس کامشاہدہ نہیں کرسکتے ہیں نہ اس کو لمس کرسکتے ہیں۔ نہ وہ ان کے پاس بیٹھ سکتا ہے اور نہ یہ اس کے پاس جاسکتے ہیں۔ تاکہ وہ ایک دوسرے پر دلیل قائم کرسکیں۔ تو ضروری ہے کہ اس کی مخلوقات میں اس کے نمائندے ہوں جو اس کی باتیں اس کے احکام اس کی مخلوقات اور اس کے بندوں تک پہونچائیں اور ان کو یہ بتائیں کونسی باتیں ان کے لئے مفید ہیں اور کس میں ان کی مصلحت ہے کس چیز میں ان کی بقا ہے اور کس چیز کے ترک کرنے میں ان کی فنا و نابودی ہے۔
لہٰذا ضروری ہوا کہ اس خداوند حکیم و علیم کی جانب سے کچھ لوگ معین ہوں جو لوگوں کو حکم دیں اور منع کریں۔ اور خدا کا پیغام پہونچائیں۔ یہ یہی حضرات انبیاء علیہم السلام ہیں اس کی مخلوقات میں اس کے منتخب بندہ ہیں۔ حکیم ہیں اور حکمت کے ادب یافتہ ہیں حکمت کے ساتھ مبعوث کئے گئے ہیں — یہ لوگ شکل و صورت میں لوگوں سے مشابہ تو ہیں لیکن حقیقت میں لوگوں سے بالکل مختلف ہیں۔ خداوند حکیم و علیم کی جانب سے حکمت کے ذریعہ ان کی تائید کی جاتی ہے۔ یہ دلیل واضح کرتی ہے کہ ہر دور اور ہر زمانہ میں انبیاء و مرسلین کا ہونا ضروری ہے۔ تاکہ زمین حجت خدا سے خالی نہ رہے۔ ہر زمانہ میں ایک حجت کا ہونا ضروری ہے جس کے پاس ایسا علم ہو جو اس کی صداقت و عدالت پر گواہ ہو۔‘‘{ FR 443 }
Load/Hide Comments