عظیم الشان آیات قرآنی امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی امامت عظمی اور خلافت بلافصل کو ثابت کرنے والی

امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی امامت عظمی اور خلافت بلافصل کو ثابت کرنے والی عظیم الشان آیات قرآنی میں ایک آیت سورہ مائدہ آیت ۳ بھی ہے۔ جسے آیہ اکمال دین بھی کہتے ہیں۔ جو ۱۸ ذی الحجہ غدیر
کے دن اعلان ولایت امیر المؤمنین علیہ السلام کے بعد نازل ہوئی ہے:
الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن دِينِكُمْ فَلَا
تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا.
آج کا فر تمہارے دین ( کی نابودی سے مایوس ہو گئے ہیں۔ اس بنا پر ان سے نہ ڈریں۔ میری ( مخالفت) سے ڈریں، آج کے دن تمہارے دین کو کامل اپنی نعمت کو تمام کر دیا۔ اور اسلام کو تمہارے
دین و آئین کے عنوان سے پسندیدہ قرار دیا۔
وہ کون سا دن تھا؟
سوره مائده، آیت ۳
جس دن کے بارے میں آیت اکمال نے صراحت
کی ہے اس کی چار خصوصیتیں ہیں:
ا۔ وہ دن جس سے کا فر مایوس ہوا۔
۔ وہ دن جس میں دین کامل ہوا۔
۔ وہ دن جس میں خداوند عالم نے مسلمانوں پر اپنی
نعمت تمام کی ہے۔
۴۔ وہ دن جس میں اللہ تعالٰی نے لوگوں کے لئے دائمی
طور سے دین اسلام کو پسندیدہ قرار دیا۔ یہ عظیم الشان دن واقعی طور سے ان خصوصیتوں کے
ساتھ کون سا دن ہو سکتا ہے؟
اسے بہر حال علمائے اسلام کی تفاسیر و احادیث کی کتابوں اور مفسرین کی آراء و نظریات سے طے کر سکتے ہیں۔ جس کی تفصیل اس مقام پر پیش نہیں کریں گے۔ وسیع مطالعہ رکھنے والے اور اہل علم و دانش اسے بہتر سمجھتے ہیں کہ اگر یہ آیت ۱۸ رذی الحجہ روز غدیر خم نازل نہیں ہوئی بلکہ روز عرفہ ۹ رذی الحجہ ہجرت کے دسویں سال نازل ہوئی ہے تو یہ بات ہر ایک سمجھتا ہے کہ اگر بالفرض عرفہ کا دن مان بھی لیا جائے تو یہ بات ضرور ماننا پڑے گی کہ دسویں سال ہجرت
کے عرفہ کا دن، نویں، آٹھویں ہجرت کے عرفہ کے دن سے بہر حال مختلف ہے تبھی اسے خاص دن اللہ تعالیٰ نے قرار دیا ہے، ورنہ عرفہ کا دن تو اس کے پہلے بھی آیا تھا، اللہ نے اسے خاص دن قرار نہیں دیا، بس یہی صاحبان فہم و عقل کی ہدایت کے لئے کافی ہے کہ وہ مخصوص دن کوئی اور دن نہیں ہے وہی دن ہے جسے جمہور مفسرین اور تمام علمائے شیعہ نے صراحت و تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے اس دن کو محور بناتے ہوئے تکمیل دین اسلام کی
سند کا اعلان فرمایا ہے۔
تکمیل دین سے کیا مراد ہے؟
دین کے کامل ہونے کی گفتگو ایک طرف اہم ہے تو تکمیل دین کے معنی و مفہوم کی بحث کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کر سکتے ہیں اور اس بحث کے بعد امامت امیر المؤمنین علیہ السلام کی عظمت و منزلت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ اس بارے میں تین نظر یہ ہیں :
(۱) تکمیل دین سے مراد اس دن دین اسلام کے اصول وضوابط اور قانون اسلام کے مکمل ہونے کا اعلان ہے کہ اب اس کے بعد اسلام میں قانون کے نقطہ نگاہ سے کوئی خلاء یا نقص نہ ہوگا۔
اس نظریہ کی اساس و بنیا د اس وقت بالکل ختم ہو جاتی ہے۔ جب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس دن کون سا اہم قانون یا کون سا مخصوص حادثہ رونما ہوا ہے جس کی بنا پر دین کامل ہوا ہے؟ آیہ کی صراحت اور اس کے واقعی مفہوم میں
اس کا صحیح جواب پوشیدہ ہے۔
(۲) بعض لوگوں کا خیال ہے اس سے حج ” مراد
ہے۔ یعنی اس دن خدا نے تمہارے حج کو کامل کر دیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا واقعی دین کے معنی کسی لغت کی
کتاب میں ”حج “ لکھا ہوا ہے؟
یا پھر مخصوص اعمال و عقائد کے مجموعہ کا نام دین ہے۔ حج دین اسلام کا ایک جزء ہے یا تمام دین ہے؟ دین کے سارے اعمال و عقائد حج پر موقوف ہیں؟ یا دین حقیقی کومحور بنا کر حج و دیگر اعمال انجام دیئے جانے کی سفارش کی گئی ہے۔ دین کے جملہ اعمال کیا توحید پروردگار کی پزیرش بھی ناممکن ہے جب تک عقیدہ توحید میں انا من شروطھا“ کو شامل نہ کیا جائے جسے علمائے اہلسنت کے کثیر تعداد میں محدثین وفقہاء نے امام رضا علیہ السلام سے نقل کیا ہے۔
(۳) دین کے کامل ہونے اور اتمام نعمت کا مفہوم یہ ہے کہ خداوند عالم نے اس دن مسلمانوں کو دشمن کے مقابلہ
میں غالب بنایا اور ان کے شر سے محفوظ قرار دیا۔
یہ بات بھی اس وقت درست ہوتی کہ اس کے پہلے دشمن مغلوب نہ ہوا ہوتا۔ تاریخ شاہد ہے سن ۸ ہجری میں عرب کے دشمن فتح مکہ کے موقعہ پر یہودی، اور قبیلہ بنی قریظہ وقینقاع والے تو بہت پہلے جنگ خیبر و احزاب میں اپنی شکست قبول کر چکے تھے، یا پھر اسلامی حکومت کی سرحدوں سے باہر جاکر زندگی گزار رہے تھے۔ دوسری طرف عیسائیوں نے بھی مسلمانوں سے صلح کر کے قرارداد پر
دستخط کر دیا تھا۔ تو سن ۱۰ ہجری سے پہلے سارے دشمنان اسلام تو تسلیم ہو چکے تھے۔ ہاں جو خطرہ باقی تھاوہ منافقوں کی طرف سے جو آستین میں خنجر لئے موقعہ کے تلاش میں تھے کہ کس طرح پشت اسلام کو اپنے خنجر سے زخمی کر کے تمام مسلمانوں کو شکست دے دیں اور یہ خطرہ واقعی بہت عظیم تھا۔ لیکن وہ کیسے مغلوب اور نا امید ہوئے یہی سمجھنے کی بات ہے۔ اس سوال کا جواب بھی مسلمانوں کے پاس امیر المؤمنین کی امامت و ولایت کے اہتمام و اعلان کے سواء ہرگز نہیں ہوسکتا
ہے۔
واقعہ غدیر خم اور امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہما السلام کی خلافت بلافصل ہی بہترین بلکہ واحد صحیح تفسیر ہے۔ اس لئے کہ اس اعلان کے بعد منافقوں پر مایوسی اور نا امیدی کے بادل چھا گئے تھے۔ آیت کی تفسیر میں کثیر روایتیں وارد ہوئی ہیں جن میں اس بات کی صراحت ہے کہ میدان غدیر میں اعلان ولایت و جانشینی کے بعد آیتہ الکمال نازل ہوئی جس سے واضح ہوتا ہے کہ اکمال دین، اعلان ولایت و امامت امیر المؤمنین کے سواء اور کچھ نہیں ہے، آنحضرت
نے خطبہ غدیر فرمایا ہے:
معاشر الناس! إِنَّمَا أَكْمَلَ اللهُ عَزَّوَجَلَّ دِينُكُمْ بِأَمَامَتِه .
اے لوگو! خدائے تعالیٰ نے تمہارے دین کو بس حضرت علی کی امامت کے ساتھ کامل فرمایا ہے۔
خطبہ تقدیر
علامہ امینی نے کتاب الغدیر میں ۱۱۰ صحابہ ۸۰ تابعین سے حدیث غدیر کو ۳۶۰ کتابوں سے نقل کیا ہے۔ جو صاحبان فہم کے لئے تحقیق کا عظیم سرمایہ اورلمحہ فکریہ ہے۔
فخر الدین رازی کا اعتراف:
آیہ کریمہ کے روز نزول کے بارے میں فخر الدین رازی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں : قال اصحاب الاثار انه لما نزلت هذه الآية….. الخ مورخین و محدثین اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ آیہ اکمال نازل ہونے کے بعد پیغمبر اسلام لای ۱۸ یا ۸۲ دنوں سے زیادہ با حیات نہیں رہے۔ تین ماہ بھی پورے نہیں ہوئے ) اور اس مدت میں (تین ماہ میں احکام اسلام سے کوئی حکم اضافہ نہیں ہوا۔ اور احکام اسلام سے کوئی چیز فسخ اور کسی چیز کی کمی بھی نہیں ہوئی ہے تشریع قانون کا سلسلہ ختم ہو گیا تھا۔
( تفسیر کبیر، ج ۱۱ ص ۱۳۹)
مفسر کبیر فخر الدین رازی کے بقول آیہ کریمہ آنحضرت ملی یتیم کی رحلت جانگداز کے ۸۱ یا ۸۲ روز قبل نازل ہوئی ہے۔ اس قول کے مطابق اگر حساب و کتاب کریں تو آیت اکمال کے نازل ہونے کا دن پتہ چل سکتا
ہے۔
دلچسپ تحقیق
فخر الدین رازی کے بیان کی حقیقت تک پہونچنے کے لئے تاریخ رحلت آنحضرت صلی اینم کی طرف توجہ کرنی
ہوگی۔
اہلسنت کا عقیدہ ہے ختمی مرتبت ۱۲ ربیع الاول کو دنیا
میں تشریف لائے اور اتفاق سے ۱۲ ربیع الاول ہی کو
دنیا سے رخصت ہوئے۔
اس لحاظ سے ۸۱ یا ۸۲ دن، ۱۲ ربیع الاول سے پیچھے کی طرف پلٹیں مگر یہ تو جہ رہے کہ مسلسل تین ماہ ۳۰ دونوں کے نہیں ہوتے جس طرح پے در پے تین ماہ ۲۹ دنوں کے نہیں ہوتے تو دو ماہ کو ۳۰ دنوں اور ایک ماہ کو ۲۹ روز یا دو ماہ کو ۲۹ دنوں اور ایک ماہ ۳۰ دنوں کا حساب کریں۔
اس اعتبار سے اگر محرم وصفر دو ماہ کو ۲۹ دنوں کا نگاہ میں رکھیں تو مجموعی طور سے ۵۸ دن ہوتے ہیں اس میں ۱۲ دن ربیع الاول کے شامل کر دیئے جائیں تو ۷۰ دن ہو جاتے ہیں اور ماہ ربیع الاول کو تیس دنوں کا حساب کریں اور ۱۲ دن عقبی تاریخ ( پیچھے کی تاریخ) رخ کریں تاکہ ۸۲ دن ہو سکے بقول فخر الدین رازی ، اور جب ماہ ربیع الاول سے ۱۲ دن کم کریں گے تو ذی الحجہ کی ۱۸ تاریخ جو روز عید غدیر ہے سامنے آجاتی ہے۔ لہذا اہل سنت علماء کے محققین کے اس نظریہ کے لحاظ سے تاریخوں کا محاسبہ کرتے ہیں تو آیت اکمال کے نازل ہونے کا دن، روز غدیر
ہے۔ روز عرفہ نہیں ہے۔
اور اگر ۸۱ دنوں کو معیار قرار دے کر محاسبہ کیا جائے تو یہ ۱۹ ذی الحجہ قرار پائے گا جس کا روز عرفہ سے اور زیادہ فاصلہ ہو جاتا ہے۔ اسی حساب کے ساتھ ہم اگر دو ماہ کو ۳۰
دنوں کا حساب لگائیں اور ماہ ذی الحجہ کو ۲۹ دن قرار دیں تو ۸۲ دنوں کی روایت کے مطابق آیت کے نزول کا دن ۱۹ ذی الحجہ اور ۸۱ دنوں کی روایت کی بنیاد پر ۲۰ ذی الحجہ کا دن ہو جاتا ہے، یعنی آیہ شریفہ واقعہ غدیر اور اعلان جانشینی امیر المؤمنین علیہ السلام کے ایک یا دو دنوں کے بعد نازل ہوئی ہے۔ روز عرفہ کسی بھی پہلو سے ثابت نہیں ہوتا ہے۔ اس طرح یہ آیت ۱۸ غدیر کی مناسبت سے اہم ترین تاریخی واقعہ کی طرف توجہ دلاتی ہے جس کا روز عرفہ سے کسی طرح کا رابطہ یا کوئی نسبت نہیں ہوتی ہے۔
اس کے بعد تاریخی شواہد اور مضبوط قرائن و دلائل کے ساتھ یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی تکلف نہیں ہونا چاہئے کہ میدان غدیر میں روز غدیر خم اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کے ذریعہ حضرت علی علیہ السلام کی امامت و ولایت عظمی کے اعلان سے دین کامل فرمایا اور اب تا قیامت دین کے جملہ اعمال و اعتقادات و اصول اور احکام کے قبولیت کا معیار حضرت علی اور ان کی پاکیزہ ذریت کی امامت و خلافت کو قرار دیا ہے یعنی ولایت اہلبیت علیہم السلام کے بغیر دین پیش خدا قابل قبول نہیں ہوگا ۔ یہی اکمال دین کا صحیح اور واحد
معنی ہے۔
خدایا! ہم سب کو اسی دین کامل پر ثابت قدم قرار دے اور اسی دین کی تبلیغ و ترویج کی توفیق عنایت فرما۔ اور وارث دین کامل حضرت حجت بن الحسن العسکری عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور پرنور میں تعجیل فرما۔ آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں