غدیری اشعار

سید حمیری نے غدیر کے موقعہ رونما ہونے والے واقعہ کو اور خاص طور پر لفظ مولیٰ کے معنی کو جس طرح پیغمبر اکرم صلی اشیا کی تم نے بیان کیا ہے، اسی طرح بیان کیا ہے مرحوم علامہ امینی نے آپ کے تیئیس (۲۳) قصیدوں کا ذکر کیا ہے۔ نمونہ کے طور پر ہم یہاں چند غدیری اشعار کا تذکرہ کریں گے۔
الغدير ٤ / ۰ و ۱ ۸ فارسی
ا۔ پہلا غدیری شعر علامہ امینی نے نقل کیا ہے:
يا بالغ الدین بدنیاه ليس بهذا امر الله اے دنیا کے عوض دین بیچنے والے! خدا نے ایسے کام کا
حکم نہیں دیا ہے۔
تو علی وصی احمد سے کیوں کینہ رکھتا ہے جبکہ احمد ان سے راضی و خوشنود تھے۔ وہ کون ہے کہ احمد نے اسے غدیر خم کے دن کھڑے ہو کر پکارا اور صحابہ ان کے گرد تھے ؟ اُن کا نام لے کر فرمایا:
یہ علی بن ابی طالب اُس شخص کے مولا ہیں جس کا میں مولا ہوں پس اے آسمان والے (یعنی اے خدائے متعال ! اُس کو دوست رکھ جو اسے دوست رکھے اور اُسے دشمن رکھ جو اسے دشمن رکھے۔
تذکر : واضح ہے کہ سید حمیری نے مولا کے معنی وہی لکھا
جو پیغمبر نے بیان کیا یعنی پیغمبر جس کے مولا ہیں علی بھی اُس کے مولا علی سے دوستی و محبت خدا سے دوستی و محبت اور علی سے دشمنی
خدا سے دشمنی ہے۔
دوسرا غدیری شعر
جن اشعار کا تذکرہ کر رہے ہیں، تاریخ میں اسے قصیدہ مھذبہ کہا جاتا ہے یہ قصیدہ ۱۲ بیت پر مشتمل ہے۔ سید شریف قدس سرہ نے اس کی شرح لکھی ہے اور سن سالاھ میں مصر میں چھپا ہے۔ آپ نے درج ذیل بیت کی شرح فرمائی ہے۔ وانصب ابا حسن لِقَومِك انه
الغدیر، ج ۴، ص ۵۲ فارسی
هَادٍ وَمَا تُغَتَ إِنْ لَمْ تَنْصِبُ سید مرتضیٰ فرماتے ہیں: یہ لفظ ( نصب ) سوائے امامت و خلافت کے لئے مورد استعمال نہیں ہے۔ نیز شاعر کا یہ کہنا: جعل لولاية بعده المهذب امامت کی وضاحت کرتا ہے، کیونکہ پیغمبر کی رسالت کے بعد علی کو جو کچھ دیا گیا ہے، وہ امامت ہے کہ محبت و نفرت حال حاضرین میں حاصل ہے اور وفات کے بعد
سے مخصوص نہیں ہے۔
اب ذرا اس عقیدہ کے سیاق و سباق پر نظر ڈالیں کچھ اس
طرح ہے:
اور جب غدیر خم میں خداوند عالم نے تاکید کے ساتھ فرمایا: اے محمد ! لوگوں کے درمیان کھڑے ہو جاؤ اور لوگوں کے سامنے خطبہ کہو اور ابوالحسن کو امامت کے لئے نصب کرو کہ وہ ہادی وراہنما ہیں اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تبلیغ رسالت نہ
کی۔
پھر پیغمبر اکرم مالی تم نے علی علیہ السلام کو بلایا اور لوگوں کو بھی بلایا اور تصدیق کرنے والوں اور جھٹلانے والوں کے درمیان بلند کر کے اپنے بعد ہر مہذب انسان کے لئے علی علیہ السلام کی ولایت کا اعلان کردیا اور اب کسی غیر مہذب وغیر شائستہ کو ولی سمجھنا مناسب نہیں ہے۔
اس کے بعد شاعر علی علیہ السلام کے مناقب کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ علی کے ایسے مناقب ہیں کہ اُن کا کچھ حصہ بھی کتنی بھی کوشش کریں دوسروں کو نہیں مل سکتا۔
مدرک
علامہ امینی نے سید مرتضی علم الہدی اور حافظ نشا بہ تاج
العلی حسینی متوفی ۶۱۰ ھ کے حوالہ سے اس قصیدہ کا ذکر کیا ہے۔
تیسرا غدیری شعر
یہ اشعار دلچسپ داستان پر مشتمل ہیں۔ جیسا کہ ہم نے نقل کیا کہ سید حمیری کے ماں باپ اباضی مذہب سے تھے اور علی علیہ السلام پر سب وشتم کرتے تھے۔ سید حمیری نے انھیں خطاب کرتے ہوئے ولایت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کو ثابت کیا ہے اور اپنے والدین کو تشیع اور حضرت امیر علیہ السلام کی محبت و دوستی کی طرف بلایا ہے۔ ملاحظہ ہو سید اپنے باپ جن کا نام محمد تھا خطاب کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اے محمد اخدا سے ڈرو جو صبح کی کرنوں کا خالق ہے اپنے دین کو تباہ کرنے سے بچاؤ، کیا تم محمد صلای نم کے بھائی اور جانشین کو لعن کرتے ہو؟ پھر اس کے بعد اپنی نجات کی
امید کرتے ہو؟
افسوس! تمہاری موت آجائے عذاب اور ملک الموت تم
سے قریب ہو۔
اُن کے بارے میں پیغمبر نے بہترین وصیتیں اور واضح
ترین بیانات غدیر خم کے دن پیش کئے ہیں۔ اور ہر طرف یہ اعلان منتشر و واضح ہوا ہے آپ نے فرمایا:
میں جس کا مولا ہوں جان لو کہ یہ علی اُس کے مولا ہیں وہ میرے قرضوں کو ادا کرنے والے ہیں، اور تمہارے امام و پیشوا ہیں جس طرح میں نے تمہاری ہدایت و نجات کے لئے رہبری کی ہے۔“
اپنے باپ کو مزید خطاب کرتے ہوئے سید حمیری لکھتے
الغدیر، ج ۴ ص ۵۲ و ۵۳
ہیں:
(اے میرے باپ!) تم نے میری ماں کو جو بہت نا تواں کمزور تھیں، راہ سے در بدر کر دیا، اور وہ اُس امام پر جو پیغمبر کی میراث تھے اور سب سے زیادہ اُن سے تعلق رکھتے تھے لعنت کرنے سے قعر ضلالت میں چلی گئیں۔ یقیناً میں اُس خدا کے غضب سے ڈرتا ہوں جس نے محکم پہاڑوں کو پھیلی ہوئی زمینوں پر کھڑا کیا ہے۔
اے میرے ماں باپ! خدا سے ڈرو اور حق کا اعتراف
کرو…….
تذکر : واضح ہے کہ سید حمیری نے ان اشعار میں وہی بیان کیا ہے جو پیغمبراکرم نے غدیر خم کے میدان میں حکم دیا تھا۔ سید حمیری نے اپنے والدین کو امامت امیر المؤمنین علیہ السلام کی طرف دعوت دی ہے اور اباضیہ مذہب کی مذمت کی ہے۔ علامہ امینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے ۲۳ قصائد کا تذکرہ کیا ہے اور جن لوگوں نے ان قصائد کی شرح لکھی ہے اور اپنی کتابوں میں اس کو جگہ دی ہے ان سب کا تفصیل کے ساتھ تذکرہ کیا ہے۔ اور ہندوستان کے مشہور عالم مرحوم سید علی نقی نقوی ہندی (نقن صاحب) اعلی اللہ مقامہ کے اشعار کا ذکر بھی کیا ہے۔ ان شاء اللہ چودھویں صدی کے شعرا میں ان کا بھی ذکر
آئے گا۔
علامہ امینی قدس سرہ نے بڑی تفصیل کے ساتھ سید حمیری کا تذکرہ کیا ہے۔ فارسی میں تقریباً 9 صفحات پر تفصیلات موجود
ہیں۔
الغدیر، ج ۳ ص ۵۵٫۵۴ فارسی نقل از اخبار السهیل المیری جس ۱۵۵ الغد برج ۴ ص ۵۲ تا ۱۴۲ تفصیل تقریباً ۹۰ صفحات پرمش
مشتمل ہے۔
عبدی کوفی (۱۰۴ھ تا ۸ ۱۷ھ )
جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ علامہ امینی نے دوسری صدی کے تین غدیری شعراء کا تذکرہ کیا ہے۔ یہاں تیسرے شاعر کے مختصر حالات اور اُن کے اشعار کا تذکرہ کریں گے۔
ابو محمد سُفیان بن مصعب عبدی کوفہ کے رہنے والے تھے۔ علامہ امینی لکھتے ہیں کہ آپ نے مناقب و فضائل امیر المؤمنین علیہ السلام میں بہترین اور کثرت سے شعر کہے ہیں۔ مصائب اہل بیت علیہم السلام پر مرثیہ بھی کہے ہیں۔ اور ہم نے اُن سے سوائے آل محمد کے علاوہ کسی دوسرے کے بارے میں
اشعار نہیں دیکھے۔
عبدی کوفی کے شعر اپنے بچوں کو سکھاؤ
امام صادق علیہ السلام کا فرمان ہے کہ عبدی کے اشعار کو اپنے بچوں کو سکھاؤ۔ احضرت نے فرمایا: اے شیعوں کی جماعت عبدی کے شعر کو اپنے بچوں کو سکھاؤ۔ کیونکہ وہ خدا کے دین پر ہیں اور ان کے شعر اُن کی راست گوئی کی وجہ سے معنی کے اعتبار سے ہر طرح کے عیب و نقص سے محفوظ ہونے کی حکایت
کرتے ہیں۔ ۲
شاعر عبدی کا طریقہ کار
عبدی کا طریقہ کار یہ تھا کہ امام صادق علیہ السلام سے مناقب عترت سنتے رہتے تھے اور اسی پر شعر کہتے تھے اور پھر
الغدیر، ج ۴ ص ۱۶۸ فارسی
الغدیر، ج ۴ ص ۱۶۹
امام کی خدمت میں پیش کرتے تھے۔ ۳
ادب و حدیث میں عبدی کا رسوخ
جو بھی عبدی کی شعری خوبیوں اور الفاظ کے محکم استعمال اور روانی و مٹھاس اور فخامت و بزرگواری سے واقف ہے شعر میں اور فنون میں ان کی مہارت کی گواہی دیتا ہے۔ سید الشعراء حمیری اور عبدی کوفی ایک مجلس میں تھے۔ سید نے کچھ اس طرح
کہا:
الى ادين بمَا دَانَ الْوَصِيُّ به
يَوْمَ الْخَرِيبَةِ مِنْ قَتْلِ الْمُحَلِّينَا میں اُن سے جنگ کرنے میں جو خریبہ ” میں آئے تھے،
علی وصی رسول کے ساتھ ہم عقیدہ ہوں۔
وَ بِالَّذِي دَانَ يَوْمَ النَّهَروانِ بِه وَ شَارَكَتْ كَفَهُ كَفَى بِصِفْيْنَا اور روز شہروان بھی علی کے دین پر ہوں اور صفین کے موقعہ پر علی کے ہاتھوں میں میرا ہاتھ ہے۔
عبدی نے سید حمیری سے کہا: آپ نے صحیح نہیں کہا اگر علی کے ہاتھ میں تمہارا ہاتھ شریک ہے تو تم اُن کے مثل ہو گئے۔ شارکت گفۀ کھی۔ بلکہ تم کو کہنا چاہئے ۔ وَ تَابَعَتْ كَفَّهُ گھی ۔ مشارکت کے بجائے تا بعت کہنا چاہئے۔ اور میرا ہاتھ ان کے ہاتھ کا تابع ہے۔ یعنی تم امام کے پیرو اور تابع ہو۔
۴
سید حمیری نے اسے قبول کر لیا اور فرمایا کہ میں سید الشعراء
تو ہوں لیکن عبدی کے بعد ۔
الغدیر، ج ۴، ص ۱۶۹
خریبہ بصرہ میں اُس جگہ کا نام ہے جہاں جنگ جمل واقع ہوئی تھی۔
الغدیر، ج ۷۱ ۱و ۷۲ افارسی
غدیری اشعار
عبدی کوفی کے بارے میں اتفاق رائے کے ساتھ یہ کہا جاتا ہے کہ وہ پکے شیعہ اور علم و ادب اور حدیث اہلبیت علیہم السلام کے ماہر تھے۔ مدح اہلبیت میں تقریباً ہر آیت و حدیث کے ذیل میں شعر کہے ہیں ۔ ہم یہاں ان کے اشعار صرف واقعہ غدی اور آیت تبلیغ کے ذیل میں نقل کرتے ہیں۔
وَ كَانَ عَنْهَا لَهُمْ فى ثُمّ مُزْدَجَزَ لَمَّا رَقى احمد الهادى على فَتَب وَ قَالَ والنَّاسُ مَنْ دَانَ اليه وَ مَنْ تاولديه و من مُصغِ و مرتقب قم يا على فَإِنِّي قَد أُمِرْتُ بِأَن ابلغَ النَّاسَ وَالتَّبْلِيعُ اجددو بي اِنّى نصبتُ عليا هاديًا علماً بعدی و اِن عليًّا خيرُ مُنْتَصَبٍ اور ان لوگوں کے لئے روز خم ایک عبرت ہے جبکہ ہدایت کرنے والے پیغمبر اونٹ کے پالان سے منبر پر گئے اور لوگوں سے جو کہ اُن کے اطراف جمع تھے اور اُن کی خدمت میں حاضر تھے اور اُن کی باتوں کو سن رہے تھے اور وہ لوگ نگراں و پریشان تھے۔ پیغمبر نے فرمایا: اے علی کھڑے ہو جاؤ! مجھے حکم ملا ہے کہ لوگوں تک پہونچا دوں اور یہ تبلیغ ( پہونچانا ) میرے لئے شائستہ و بہتر ہے۔ میں علی کو ہدایت کرنے والا اور ایک راہنما اپنے بعد منصوب کرتا ہوں اور یقینا علی بہترین جانشین ہیں۔
الغدیر، ج ۴ ص ۱۶۴ فارسی
تذکر : پہلا مصرعہ براہ راست واقعه غدیر خم کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حجتہ الوداع میں پیغمبر نے مقام غدیر خم پر علی علیہا لسلام کو اپنا وصی و جانشین قرار دیا۔ اور اُبلغُ النَّاسِ ۔ آیہ
مبارکه ۵ سورہ مائدہ (آیت تبلیغ) کی طرف اشارہ ہے۔
توجه:
دیگر اشعار کی اس مضمون میں گنجائش نہیں ہے۔
عبدی کوفی کے معاصر عبدی ایک شیعہ شاعر اور بھی
گذرے ہیں۔ دونوں کی کنیت، لقب، نشونما اور مذہب میں یکسانیت ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ان کا پورا نام ابو محد یحیی بن ہلال عبدی کو فی تھا۔ البتہ اُن کا تذکرہ کم ہوتا ہے۔ ۲
مرزبانی نے اپنی منجم میں لکھا ہے کہ وہ کوفی تھے لیکن
ہمدان میں سکونت اختیار کر لی تھی ۔ ۳
دوسرے شاعر عبدی کا تذکرہ اس لئے کیا گیا ہے کہ بعض لوگوں نے نام میں مشابہت کی وجہ سے اشعار کو ایک دوسرے
سے ملا دیا ہے۔
دوسری صدی کے شعراء کا تذکرہ ختم کرتے ہیں اور انشاء اللہ زندگی رہی تو آئندہ شمارہ میں تیسری صدی ہجری کے شعراء
اور ان کے اشعار کا تذکرہ کریں گے۔
الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي جَعَلْنَا مِنَ الْمُتَمَسْكِينَ بولاية أمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَيْهِ الصَّلاةَ
وَالسَّلام.
r
الغدیر، ج ۴ ص ۲۱۳ فارسی
الغدیر، ج ۴ ص ۲۱۳ نقل از مجم مرزبانی ص ۴۹۹
شهید رابع دیله
اور

اپنا تبصرہ بھیجیں