اہل بیت علیہ السلام کی امامت دین اسلام کا وہ ستون ہے س پر دین کی تمام عمارت قائم و برقرار ہے

اہل بیت علیہ السلام کی امامت دین اسلام کا وہ ستون ہے جس پر دین کی تمام عمارت قائم و برقرار ہے۔ امامت وخلافت اہل بیت علیم ال وہ اہم مسئلہ ہے جس کی بنا پر سب سے پہلا اختلاف حضرت رسول خدا صلی یتیم کی وفات کے فوراً بعد شروع ہوا جس کا سلسلہ آج تک کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ اس سلسلہ میں بہت سی باتیں ہیں، بخشیں ہیں، فی الحال صرف ایک مسئلہ پر نہایت مختصر گفتگو کی کوشش کی جارہی ہے۔ حضرت رسول خداسی یتیم کے بعد کسی ایسے شخص کی موجودگی ضروری ہے جس کو خداوند عالم نے خاص علم عطا کیا ہو۔ یعنی جس نے دنیا میں رائج طریقوں سے علم حاصل نہ کیا ہو جس کو خداوند عالم نے علم عطا کیا ہو؟
بات شروع کرنے سے پہلے یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں مکتب اہل بیت علیم ان کی تعلیم کردہ توحید میں تمام کمالات اپنی لا محدود در لا محدود شکل میں ذاتا اور استقلالاً خداوند عالم کی ذات سے مخصوص ہے۔ اس سلسلہ میں چند آیتیں ملاحظہ
ہوں۔
خداوند عالم نے جب انبیاء علیم 10 کے علم کا تذکرہ کیا تو
فرمایا ”ہم نے ان کو علم عطا کیا۔ ہم نے ان کو تعلیم دی۔
جناب خضر عل السلام کے بارے میں فرمایا:
وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَا عِلْمًا –
سوره کهف، آیت ۶۵
اور ہم نے ان کو علم عطا کیا۔
جناب داؤد الاسلام کے بارے میں فرمایا :
وَعَلَّمْنَاهُ صَنْعَةٌ لَبُوس ۲
ہم نے ان کو زرہ بنانے کی تعلیم دی۔
حضرت رسول خداصلی یا یہ تم کے بارے میں فرمایا:
وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ .
آپ کو وہ باتیں تعلیم دیں جن کا علم آپ حاصل
نہیں کر سکتے۔
انبیاء علیہ اسلام نے بھی اپنے علم کو خداوند عالم کا عطا کردہ
قرار دیا ہے۔
جناب نوح اور جناب یعقوب علیہ السلام نے فرمایا :
وَأَعْلَمُ مِنَ اللهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ”
میں خداوند عالم کی جانب سے وہ باتیں جانتا ہوں جن
سے تم واقف نہیں ہو۔
جناب یوسف علیہ السلام نے قید خانہ میں اپنے ساتھیوں کو خواب کی تعبیر بیان فرمائی تو اس کے بعد فرمایا:
مَا عَلَّمَنِي رَبِّي ٥
۲ سوره انبیاء، آیت ۸۰
سوره نساء، آیت ۱۱۳
سوره اعراف ۶۲ سوره یوسف ۸۶
سوره یوسف ، آیت ۳۷
یہ بات میرے رب نے مجھے تعلیم دی ہے۔ ان آیتوں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ خداوند عالم جن کو اپنی نمائندگی کے لئے منتخب کرتا ہے امت کی ہدایت و رہنمائی جن کے سپرد کرتا ہے ان کو خداوند عالم خود تعلیم سے آراستہ کرتا ہے۔ خدا کے نمائندہ خدا کے علاوہ کسی اور سے تعلیم حاصل
نہیں کرتے ہیں۔
ان چند سطروں کے بعد یہ عرض کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت رسول خداصلی یہ یتیم کے بعد امت کے درمیان اس
طرح کے علوم کے حامل خدائی نمائندہ کا وجود ضروری ہے کہ
نہیں؟
اہلسنت اس بات کے قائل ہیں حضرت رسول خدا سلام کے بعد امت کی رہنمائی و رہبری و ہدایت کے لئے اس طرح کے کسی فرد کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ امت کے جملہ مسائل اپنے علم کی روشنی میں قرآن وسنت سے حاصل کر سکتا
ہے۔
شیعہ اس بات کے قائل ہیں حضرت رسول خدا ستایشیا کی ہستم
کے جانشین کے لئے اس طرح کا علم لازم و ضروری ہے یعنی حضرت رسول خدا صلی ا یتیم کے بعد صرف وہی ان کا جانشین ہوسکتا ہے جن کو خدا اور اس کے رسول نے تعلیم دی ہو جس نے دنیا میں کسی اور سے تعلیم حاصل نہ کی ہو۔ شیعہ اپنی بات مندرجہ ذیل مستحکم دلیلوں سے ثابت کرتے ہیں۔
ا اختلاف فہیم
ہر ایک اس بات سے خوب اچھی طرح واقف ہے ہر ایک خداوند عالم سے براہ راست رابطہ میں نہیں ہے۔ ہر ایک
شخص اپنی ذمہ داریاں بلا واسطہ خداوند عالم سے دریافت نہیں کر سکتا ہے۔ اب سوال یہ ہے۔ آیا یہ ضرورت صرف ایک خاص وقت اور زمانہ سے مخصوص ہے یا ہر زمانہ میں یہ ضرورت
باقی ہے؟
انسان کبھی اصل دین و شریعت میں الہی نمائندہ کا
محتاج ہے اور کبھی دین کی تفصیل و تشریح میں نیازمند ہے۔ خداوند عالم نے دین اور اس کی تشریح حضرت رسول
خد اصلی لیا کہ یتیم کے ذمہ قرار دی ہے۔
وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكُرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ
إِلَيْهِمُ.
اور ہم نے آپ پر ذکر نازل کیا تا کہ لوگوں کے لئے ان باتوں کی وضاحت کریں جو ان کے لئے نازل کی گئی
ہیں۔
حضرت رسول خدا صلی یتیم کی زندگی میں اگر چہ غدیر میں دین کامل ہو گیا تھا مگر دین کا مکمل علم اصحاب کے پاس نہیں تھا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ ہر ایک اپنے علم و فہم کے مطابق قرآن و سنت کی تشریح کر رہا تھا اس کی بہترین دلیل صحابہ اور ان کے بعد مسلمانوں کے درمیان دین کے مسئلہ میں باہمی اختلافات ہیں حضرت رسول خدا صلای یتیم کے انتقال کو ابھی بہت زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا کہ صحابہ کے درمیان مزید اختلافات رونما ہو چکے تھے۔ یہ اختلافات اس قدر شدید و عمیق تھے کہ ایک دوسرے کے قتل کو دینی فریضہ قرار دیتے تھے۔ ان اختلافات کی واحد وجہ یہ تھی یہ لوگ حضرت رسول خدا اصلی ما این
سور محل ، آیت ۴۴
کے بعد اس شخص کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھے جس کو خدا و رسول نے تعلیم دی تھی۔ اس واقعہ پر توجہ فرما ئیں:
ایک دن عمرا کیلے فکر میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ابن عباس کو بلایا اور کہا۔ اس امت میں کس قدر اختلاف ہے جبکہ
ان کا رسول، کتاب اور قرآن ایک ہے۔ ابن عباس نے
جواب دیا:
جس وقت قرآن نازل ہوا ہم نے اس کو پڑھا ہم
جانتے تھے کہ کس کے بارے میں نازل ہوا۔ ہمارے
بعد ایسے لوگ آئیں گے جو قرآن کو پڑھیں گے لیکن ان کو یہ نہ معلوم ہوگا کہ کس کے بارے میں نازل ہوا ہے اس بنا پر ہر گروہ اپنے اعتبار سے اس کی تفسیر کرے گا۔ اس صورت میں اختلافات رونما ہوں گے اور جب آپس میں اختلافات ہوں گے تو آپس میں جنگ
ہوگی۔
یہ جواب سن کر عمر کو غصہ آیا اور ابن عباس کو بھگا دیا۔ کچھ دیر کے بعد پھر ابن عباس کو بلایا اور کہا جو بات
بیان کی تھی اس کو پھر سے بیان کرو ۔
جناب ابن عباس نے اپنے انداز سے عمر کو یہ بات سمجھا دی کہ صرف قرآن کے ذریعہ اختلافات دور نہیں ہو سکتے ہیں جب تک کوئی ایسا فرد موجود نہ ہو جو قرآن کا مکمل علم رکھتا ہو۔
اسی بنا پر تو عمر کو غصہ آیا تھا۔
اس سے واضح ہوگیا کہ قرآن کریم تنہا امت کے اختلافات کو دور نہیں کر سکتا ہے۔ ہر ایک کی فکر و سمجھ کو کنٹرول
شعب الایمان بیہقی ، جلد ۳ صفحه ۵۴۲
نہیں کر سکتا ہے۔
حدیث اور سنت رسول اکرم منی پہ تم بھی اختلافات کو ختم نہیں کر سکتی ہے کیونکہ ہر ایک اپنے اعتبار سے حدیث کی تشریح کرتا ہے۔ اس کے علاوہ تمام حدیثیں معتبر اور مستند بھی نہیں ہیں۔ جو حدیثیں مستند اور معتبر ہیں ان کی تشریح تفسیر میں علماء متفق القول نہیں ہے۔ ہر گروہ اپنے مطلب کی حدیث سے دلیل پیش کرتا ہے کیا اسلام اس لئے آیا تھا کہ ہر ایک اپنے اعتبار سے دین کی تشریح و تفسیر بیان کرتا رہے اور امت شدید ترین اختلافات کا شکار رہے اور ایک دوسرے سے برسر پیکار
رہے۔
ایک سوال:۔
آیا یہ اختلافات خدا و رسول کو پسند ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان ہمیشہ ایک دوسرے سے برسر پیکار رہیں؟ یا خدا و رسول تمام مسلمانوں کو ایک دیکھنا چاہتے ہیں؟ جب قرآن و حدیث ان اختلافات کو دور نہیں کر سکتے ہیں تو وہ کون ہے جو ان اختلافات کو دور کر سکتا ہے۔
اہلسنت کے پاس اس کا کوئی معقول جواب نہیں ہے۔ شیعہ کا یہ عقیدہ ہے کہ ان تمام اختلافات کو صرف اور صرف امام معصوم دور کر سکتا ہے جس کو خدا نے اپنے خاص علم سے آراستہ کیا ہے۔ حضرت امام جعفر صادق علیم کی روایت ہے۔ إنَّ اللهَ أَحْكَمُ وَأَكْرَمُ وَأَجَلُ وَأَعْلَمُ مِنْ أَنْ يَكُونَ احْتَجَّ عَلَى عِبَادِهِ بِحُجَّةٍ ثُمَّ يُغَيِّبُ عَنْهُمْ شَيْئاً مِنْ أَمْرِهِمْ ۲
بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد علیہم السلام، ج ۱، ص ۱۲۲، ۱
یقیناً خداوند عالم اس بات سے زیادہ حکیم تر، عزیز تر ، عالم تر ہے کہ اپنے بندوں پر کسی کو اپنی حجت قرار دے اور لوگوں کے امور کو اس سے پوشیدہ رکھے۔
عقل کی روشنی میں یہ بات بہت زیادہ روشن و واضح ہے۔ یہ بات عدل و رحمت خداوندی سے بعید ہے کہ خداوند عالم کسی کو لوگوں کا رہنما اور رہبر قرار دے اور اس کو لوگوں کی ضروریات اور ان کے مسائل سے ناواقف رکھے۔
اس بنا پر حضرت رسول خدا استیل ایک یتیم کے بعد امت میں ایک ایسے شخص کا موجود رہنا لازم وضروری ہے جو دین و شریعت کے تمام کلی و جزئی امور سے پوری طرح سے تعلیم خداوندی کی بنا پر واقف ہو۔ تا کہ ہر ایک اپنی پسند سے دین کی من مانی تفسیر و تشریح نہ کر سکے۔ امت اسلامیہ اس طرح کے تمام فکری اور مکتبی اختلاف سے محفوظ رہے۔
اہل سنت اس طرح کے کسی شخص کے وجود کے قائل نہیں ہے چونکہ ان کے پاس ان خصوصیات کا حامل کوئی شخص موجود نہیں ہے اس بنا پر وہ ان خصوصیات کے حامل کسی شخص کے وجود کو ضروری قرار نہیں دیتے ہیں۔
جبکہ شیعہ حضرات خداوند عالم کے عدل و رحمت ، لطف وکرم پر یقین رکھتے ہوئے اس بات کے قائل ہیں خداوند عالم نے حضرت رسول خداصلی یا یہ تم کی اس امت کو آزاد نہیں چھوڑا ہے بلکہ ایسے فرد کو منتخب کیا ہے جس کو اپنی طرف سے دین و شریعت کا مکمل علم عطا فرمایا ہے اور وہ امیر المؤمنین حضرت علی ابن ابی طالب علیم اور ان کے گیارہ معصوم فرزند ہیں۔ ایک سوال یہ ہو سکتا ہے شیعوں کے مطابق جب ان خصوصیات کے حامل افراد موجود ہیں تو پھر اتنے سارے
اختلافات کیوں؟
اس کا جواب یہ ہے:۔ کہ اسکول و کالج بنا دینے سے اساتذہ معین کر دینے سے جہالت دور نہیں ہوگی اسپتال بنا دینے اور ڈاکٹر معین کر دینے سے شفا نصیب نہ ہوگی۔ جہالت اس وقت دور ہوگی جب لوگ با قاعدہ اسکول کالج جائیں گے اور خوب قاعدے سے پڑھیں گے۔ شفا اس وقت ملے گی جب اسپتال جائیں گے ڈاکٹر کی ہدایتوں پر پوری طرح عمل
کریں گے۔
خداوند عالم نے اہل بیت علیم اسلام کو تمام اختلافات دور کرنے کے لئے معین فرمایا تھا ان کو اپنے علم سے آراستہ کیا تھا مگر امت نے ان کی طرف رجوع نہیں کیا بلکہ ان کی موجودگی میں دوسروں سے مسائل دریافت کئے اہلبیت علیم عام کو قید و بند میں رکھا اور ان سے مسائل دریافت کئے جن کو خداوند عالم کی بارگاہ سے ذرہ برابر بھی علم عطا نہیں کیا گیا تھا۔
اس بنا پر دین کو اختلاف فہم سے محفوظ رکھنے کے لئے ایک ایسے شخص کا وجود ضروری ہے جس کو خدا کی بارگاہ سے
خاص علوم عطا کئے گئے ہوں۔
۲ – تحریف دین
دین اس صورت میں دنیا و آخرت کی نجات کا ضامن
ہے جب وہ تحریف سے محفوظ رہے تحریف شدہ دین ہلاکت کا
سبب ہے نجات کا سبب نہیں ہے۔
یہ فہم وسمجھ کا اختلاف صرف گروہ بندی اور جنگ و جدال
تک منحصر نہیں رہے گا بلکہ رفتہ رفتہ دین کے مفاہیم بھی تحریف
ہو جائیں گے۔ جس طرح گذشتہ ادیان تحریف کا شکار ہو گئے الہی نمائندہ کے علاوہ کوئی بھی دین کو تحریف سے محفوظ نہیں رکھ سکتا ہے۔ قرآن کریم الفاظ کے اعتبار سے ہر طرح کی تحریف سے محفوظ ہے مگر تشریح و تفسیر کے لحاظ سے نہیں اس سلسلہ میں
خود قرآن کریم کا ارشاد ہے۔
ما
هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ محكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمُ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَ تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلة وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَد وَمَا يَلٌ كُرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ !
وہ خدا ہے جس نے آپ پر کتاب (قرآن) نازل کیا اس میں کچھ آیتیں بہت ہی واضح اور روشن و محکم ہیں اور یہی کتاب کی بنیاد ہیں بعض دوسری آیتیں متشابہ ہیں (جن کے مفاہیم بہت زیادہ واضح نہیں ہیں) وہ لوگ جن کے دل میں کنجی ہے (جن کے دل صاف نہیں ہیں) وہ فتنہ و فساد کی خاطر ان متشابہ آیتوں کی پیروی کرتے ہیں اور من مانی تاویل کرتے ہیں جبکہ اس کی تاویل اور واقعی معانی اللہ جانتا ہے اور وہ لوگ جانتے ہیں جو علم میں راسخ ہیں وہ کہتے ہیں ہم ان سب پر ایمان لائے ہیں اور سب ہمارے رب کی طرف سے ہے اس بات کی طرف صرف صاحبان عقل سلیم متوجہ
ہوتے ہیں۔
سورہ آل عمران، آیت ۷
اس آیت اور اس طرح کی آیتوں سے یہ بات پوری طرح واضح ہے۔ کچھ لوگ موجود ہیں جو قرآنی آیتوں کی اس
طرح تشریح و تفسیر کریں گے جس سے فتنہ وفساد برپا ہو سکے اس مزاج کے لوگ دین میں تحریف کا سبب بنتے ہیں۔
تاریخ کے اوراق گواہ ہیں حضرت رسول خدا صلی لایا کہ تم
کی وفات کے بعد کس طرح دین اسلام میں تحریف کی گئی۔ اہل سنت کے بزرگ مرتبہ عالم زہری جو تابعین میں
شمار کئے جاتے ہیں ان کا یہ بیان ذرا غور سے پڑھیں : میں دمشق میں (حضرت رسول صلی یوم کے خادم) جناب انس بن مالک کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت وہ تنہا تھے اور گریہ فرما رہے تھے۔ میں نے ان سے گریہ کا سبب دریافت کیا۔ فرمایا: جو کچھ اس وقت دیکھ
رہا ہوں ان کو نہیں پہچانتا مگر صرف یہ ایک نماز اس کو بھی
pec
لوگوں نے ضائع کر دیا ہے۔ ۲
حسن بصری کا بیان ہے۔
اگر اس وقت اصحاب رسول قبر سے باہر آئیں تو صرف قبلہ کے علاوہ کوئی اور چیز پہچان نہ سکیں گے۔ ۳
یہ دونوں بیان اس وقت کے مسلمانوں کے حالات بیان کر رہے ہیں یعنی اس زمانہ میں جو دین اسلام رائج تھا وہ پوری طرح تحریف ہو چکا تھا روزانہ ادا کی جانے والی نماز بھی حضرت رسول خداصلی یتیم کے زمانہ کی نماز نہ تھی اس میں بھی تحریف ہو چکی تھی۔
جامع بیان العلم ابن عبدالبر، جلد ۳ ص ۱۲۲۱
ماخذ سابق
کیا اس صورت میں ایک ایسے الہی نمائندہ کا وجود لازم وضروری نہیں ہے جس کو خدا نے خاص طور سے علم عطا کیا ہو۔ جو دین کو ہر طرح کی تحریف سے محفوظ رکھے۔ اہل سنت اس طرح کے کسی عالم کی ضرورت کو محسوس نہیں کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی ہے ہی نہیں جبکہ شیعہ اس طرح کے عالم کے وجود کے قائل ہیں اس سلسلے میں امیر المؤمنین حضرت علی بن ابی طالب علیہا کی یہ حدیث ملاحظہ فرمائیں اپنے عقیدہ پر فخر و مباہات کریں اختصار کے پیش نظر صرف ترجمہ پر اکتفا کرتے
ہیں۔
مولا فر ماتے ہیں:
خدایا حقیقت یہ ہے کہ زمین قیام کرنے والی حجت خدا سے خالی نہیں رہ سکتی ہے۔ چاہے وہ ظاہر و آشکار ہو یا پوشیدہ اور ناشناختہ ہوتا کہ خدا کی جتیں باطل نہ ہوں۔ یہ کتنے لوگ ہیں اور کہاں ہیں؟ خدا کی قسم یہ افراد تعداد میں کم ہیں مگر خدا کے نزدیک بڑی عظمت والے ہیں۔ خداوند عالم ان کے ذریعہ اپنی حجتوں اور روشن دلیلوں کی حفاظت کرتا ہے یہاں تک یہ افراد اپنی ذمہ داریاں اپنے جیسوں کے سپرد کرتے ہیں اور ان کے دلوں میں اتار دیتے ہیں علم اپنی تمام بصیرتوں کے ساتھ ان پر جلوہ نگن ہے روح یقین کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں جس سے دوسرے وحشت زدہ رہتے ہیں یہ اس سے مانوس رہتے ہیں۔ جسمانی طور پر یہ دنیا میں رہتے ہیں مگر روح ان بلند ترین منزل سے وابستہ رہتی ہے۔ یہی زمین پر خدا کے نمائندہ ہیں اور اس کے دین کی طرف دعوت
دینے والے ہیں۔
حضرت امام جعفر صادق علایم نے اس حقیقت کو اس
طرح بیان فرمایا ہے:
إِنَّ اللهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَمْ يَدَعِ الْأَرْضَ إِلَّا وَ
فِيهَا عَالِمُ يَعْلَمُ الرِّيَادَةَ والنُّقْصَانَ فَإِذَا زَادَ الْمُؤْمِنُونَ شَيْئاً رَدَّهُمْ وَإِذَا نَقَصُوا
شَيْئاً أَكْبَلَهُ لَهُمْ وَ لَوْ لَا ذَلِكَ لَا تَبَسَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أُمُورُهُمْ .
خداوند عالم نے زمین کو ایک ایسے عالم کے وجود سے خالی نہیں رکھا ہے، جو ہر اضافہ اور کمی سے واقف ہے تا کہ اگر مؤمنین دین میں کسی بات کا اضافہ کر دیں تو وہ ان کو روک دے۔ اگر کسی چیز کو کم کر دیں تو اس کو کامل کر دے (اگر اس طرح کے عالم) کا وجود نہ ہوتا تو مؤمنین کے لئے ان کا دین مشکوک ہو جاتا۔
اسی دینی انحراف اور تحریف دین سے محفوظ رہنے کی خاطر حضرت رسول خداصلی ہی ہم نے تقلین سے تمسک کا حکم دیا تھا اس وقت دین کی تمام تحریفات ثقلین سے تمسک نہ کرنے کی بنا پر ہیں۔ اگر لوگوں نے ثقلین سے واقعی تمسک کیا ہوتا تو شناخت دین اختلافات کا شکار نہ ہوتی اور نہ ہی دین تحریف
ہوتا۔
نهج البلاغه کلمات قصار، شماره ۱۴۷
۲ کمال الدین ج ۱ ص ۲۰۳
ناقص شناخت
اگر یہ بات تسلیم بھی کرلی جائے کہ قرآن کریم اور صحیح احادیث کے ساتھ ساتھ امت میں علماء کی موجودگی سے حجت تمام ہو جاتی ہے لہذا کسی ایسے شخص کی موجودگی ضروری نہیں ہے جس نے خداوند عالم کی بارگاہ میں تعلیم حاصل کی ہو۔ جس کے تمام علوم کا سر چشمہ خداورسول ہوں ۔
1
مگر جو علماء ہیں جب وہ خود اپنے علم کے نا تمام اور ناقص ہونے کا اعتراف کر رہے ہوں اس صورت میں ایسے علماء کی موجودگی میں حجت کیوں کر تمام ہوسکتی ہے۔ ابوحنیفہ سے یہ بات نقل کی گئی ہے:
یہ میرا نظریہ ہے اگر اس سے بہتر کوئی پیش کرے تو
اس کو قبول کرلوں گا ۔
مالک بن انس کا بیان ہے:
میں انسان ہوں کبھی غلطی کرتا ہوں اور کبھی صحیح بات تک پہونچ جاتا ہوں۔ میرے فتوؤں کو دیکھو جو قرآن و سنت کے مطابق ہو۔ ان کو لے لو جو موافق نہ ہوں اس کو
ترک کرد و ۲۴
اس کا مطلب یہ ہے یا قرآن وحدیث پر مکمل نظر نہیں ہے یا قرآن و حدیث میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں،
ان پر پوری دسترس نہیں ہے۔
محمد بن ادریس شافعی کا بیان ہے:
اگر میرے نظریہ کے خلاف کوئی صحیح حدیث ہو تو اس
فقه النوازل بکر بن عبد اللہ جلد ا ص ۷۸ مواہب الجلیل حطب ر عینی جلد ۳ ص ۴۰
پر عمل کرو میری بات کو چھوڑ دو ۔ “
اس واضح اعترافات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے۔ یہ حضرات دین کی تمام باتوں سے پوری طرح واقف نہیں ہیں یہ نہیں کہتے جو جانتے ہیں وہ غلط جانتے ہیں اشتباہ ہے مگر یہ حقیقت ہے دین کی بہت سی باتوں سے یہ افراد ناواقف ہیں۔ جو لوگ دین کی مکمل معلومات نہ رکھتے ہوں عقل کے نزدیک ان کی پیروی کیسی ہے؟
اسلامی فرقوں کے عقائد، اعمال، احکام …. میں باہمی اختلاف کی ایک وجہ علماء کا دین سے پوری طرح واقف نہ ہونا
ہے۔
جب خداوند عالم نے کامل ترین دین نازل فرمایا ہے تو کیا عقل کی روشنی میں یہ ضروری نہیں ہے وہ ہر دور میں ایک ایسے شخص کو معین فرمائے جو دین کی کامل شناخت رکھتا ہو جس کو خداوند متعال نے خود تعلیم دے کر منتخب کیا ہو۔
مسلمانوں کے تمام فرقہ اس طرح کے عالم ربانی کے فیض سے محروم ہیں ثقلین سے تمسک نہ کرنے کا ایک اثر یہ بھی
ہے۔
شیعہ چونکہ ہمیشہ تقلین سے متمسک رہے لہذا ان کے یہاں ہر دور میں خدا کی بارگاہ سے تعلیم یافتہ ایک امام معصوم موجود ہے: حضرت امام علی بن موسی الرضا صلوات اللہ وسلامہ
علیہ فرماتے ہیں:
الْإِمَامُ وَاحِدُ دَهْرِهِ لَا يُدَانِيهِ أَحَدٌ وَ لَا
الجموع ، نروی بینی، ج ۱ ص ۶۳
يُعَادِلُهُ عَالِمُ وَلا يُوجَدُ مِنْهُ بَدَل وَلا لَهُ
مِثْل وَلَا نَظِيرُ …… إِنَّ الْأَنْبِيَاءَ وَالْأَيْمَةَ
يُوَفِّقُهُمُ اللهُ وَ يُؤْتِيهِم مِن مَخَزُونِ عِلْمِهِ وَ
حِكَمِهِ مَا لَا يُؤْتِيهِ غَيْرَهُمْ فَيَكُونُ عِلْمُهُمُ فَوْقَ عِلْمٍ أَهْلِ الزَّمَان
امام یگانہ روزگار ہیں فضائل و کمالات میں کوئی ان کے قریب نہیں ہے کوئی بھی عالم ان کا ہم پایہ نہیں ہے ان کا کوئی متبادل نہیں ہے کوئی بھی ان کا مثل و نظیر نہیں ہے
یقیناً انبیاء اور ائمہ علم اسلام کو خدا توفیق دیتا ہے ان کو اپنے علم و حکمت کے خزانے سے، وہ عطا کیا جو کسی اور کو
نہیں دیا ہے اس بنا پر ان کا علم تمام اہل زمانہ پر فوقیت
رکھتا ہے۔“
حضرت رسول خداصلی یتیم کی وفات کے بعد سے آج
تک ایسی سیاست بر سر کار رہی کہ آج تک امت اسلامیہ ان الہی نمائندوں کے علوم الہی سے محروم ہے۔
اہل بیت علیہ السلام کی امامت و رہبری کی ضرورت کا احساس ضروری ہے اگر امت ان الہی نمائندوں کے علوم الہیہ سے بہرہ مند ہونا چاہتی ہے تو اس خاندان کے آخری فرد کے ظہور کے لئے زمین ہموار کرے تاکہ ان کی زبان مقدس سے
معارف الہی دریافت کر سکے۔
ان باتوں سے یہ بات خوب اچھی طرح واضح ہوگئی ہے کہ امت کو اختلافات سے دور رکھنے، دین کو تحریف سے محفوظ رکھنے اور دین کی صحیح و واقعی تعلیمات سے استفادہ کرنے
الکافی، ج ۱ص۲۰۱-۲۰۲
کے لئے ایک ایسے فرد کی ضرورت ہے جس کو خداوند متعال نے اپنے خزانہ غیب سے علوم عطا فرمائے ہوں ، جو قرآن وحدیث اور دین کی تمام جزئیات سے پوری طرح واقف ہو۔
ان علوم کا حامل کون؟
ایک نہایت اہم سوال یہ ہے کہ نظریاتی طور پر امت میں ان صفات کے حامل ایک عالم ربانی کا وجود ضروری ہے۔ کیا واقعاً ان خصوصیات اور صفات کا حامل کسی شخص کا خارجی دنیا میں کوئی وجود ہے بھی کہ نہیں؟
۲
خوش قسمتی سے اہل سنت کی معتبر کتابوں میں ایسی
متعدد معتبر و مستند روایتیں موجود ہیں جن میں ان صفات و خصوصیات کے حامل افراد کا با قاعدہ تعارف کرایا گیا ہے۔
جناب انس بن مالک کی روایت ہے:
اِنَّ النّي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ قَالَ لَعَلِي: انت تُبَيِّنُ الْأُمَّتِي مَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنْ
بَعْدِى – ۲
حضرت رسول خدا صلی یاتم نے حضرت علی سے فرمایا: میرے بعد امت کے اختلافات میں تم بیان کرو گے۔ حاکم نیشاپوری نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے۔ یہ روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے شرائط کے لحاظ ، بالکل صحیح حدیث ہے مگر ان دونوں نے اپنی
ނ
کتابوں میں اس کو ذکر نہیں کیا ہے۔
حضرت رسول خدا صلی یہ تم جانتے تھے کہ امت میں
المستدرک علی الصحیحین، ج ۳ ص ۱۳۳
اختلافات ہوں گے ان اختلافات کو دور کرنے و اختلافی مسائل کی وضاحت کے لئے حضرت علی بن ابی طالب علیا شام کو معین فرمایا تھا۔ مگر امت نے ان کی طرف رجوع نہیں کیا۔
جناب ابن عباس نے حضرت رسول اکرم صلی الہی تم سے
یہ روایت نقل فرمائی ہے:
قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ: انا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَعَلَى بَابُهَا فَمَنْ أَرَادَ الْمَدِينَةَ فَلْيَأْتِ الْبَابَ . !
میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں جو شہر تک آنا
چاہتا ہے وہ اس دروازہ پر آئے۔
حاکم نیشاپوری نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھا یہ حدیث صحیح مسلم اور صحیح بخاری کی شرائط پر صحیح ہے مگر ان لوگوں نے اس کا ذکر نہیں کیا۔
جس طرح خداوند عالم نے حضرت رسول خداصلی یا یہ ریت کو تمام علوم و اسرار تعلیم دیئے تھے وہ سب کے سب حضرت
رسول خدا صلای امام نے حضرت علی بن ابی طالب ملالی سلام دئے۔ اگر لوگ رسول خداصلی یتیم کے اس باب علم کی طرف رجوع کرتے اور ان کے علوم الہیہ سے استفادہ کرتے تو دین کی شناخت میں اس طرح حیران و سرگردان اور اختلافات کا
شکار نہ ہوتے۔
خداوند عالم نے حضرت رسول خدا صلی ا یہ تم کو وہ علوم و اسرار مرحمت فرمائے تھے جن کی بنا پر وہ لوگوں کے ظاہر کے ساتھ ساتھ ان کے باطن اور ان کی نیتوں سے بھی واقف تھے
المستدرک، ج ۳ ص ۱۳۷
وہ مؤمنین کے ساتھ ساتھ منافقین کو بھی خوب اچھی طرح پہچانتے تھے ان کو معلوم تھا ان کے بعد ان کی امت کس طرح اختلافات اور گمراہی کا شکار ہوگی کس طرح فرقوں میں تقسیم ہوگی جہاں ان کو امت کے درد و مرض کا علم تھا وہیں انھوں نے اس کا تیر بہدف علاج بھی بیان فرما دیا تھا۔ یہ علاج امت کے تمام درد و غم مرض و بیماری کے لئے اکسیر تھا۔ وہ علاج ثقلین سے تمسک تھا۔ حدیث ثقلین وہ حدیث ہے جس کو تمام علماء و
محدثین نے معتبر و مستند قرار دیا ہے۔
جناب زید بن ارقم سے روایت ہے۔
قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ: إِنِّي
تَارِكُ فِيْكُمْ مَا إن تمسكتم به لَن تَضِلُّوا
بَعْدِى أَحَدَهُمَا أَعْظَمُ مِنَ الْآخِر كِتَابَ الله
حبل ممدود مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ وَعِتْرَتي
أَهْلِ بَيْتِي وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَى الْحَوْضَ فَانْظُرُوا كَيْفَ تُخَلِفُونِي فِيهَا.
میں تمہارے درمیان دو چیز چھوڑے جا رہا ہوں جب تک تم ان سے متمسک رہو گے میرے بعد ہر گز گمراہ نہیں ہوگے، ایک دوسرے سے عظیم ہے۔ اللہ کی کتاب وہ اللہ کی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک برقرار ہے اور میری عترت و اہل بیت یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات نہ کر لیں تو دیکھو میرے بعد تم ان
سنن ترمذی ج ۵ ص ۶۶۲ – مسند احمد ج ۱۷ ص ۱۷۰ – المستدرک
ج ۲ ص ۱۳۲
دونوں سے کس طرح کا برتاؤ کرتے ہو۔
اس حدیث سے با قاعدہ واضح ہوتا ہے حضرت رسول خدا سلام کے بعد امت کی گمراہی کے امکانات بہت زیادہ ہیں اسی بات کو انھوں نے اس حدیث میں بیان فرمایا تھا۔ ”میرے بعد میری امت ۷۳ فرقوں میں تقسیم ہوگی جن میں صرف ایک جنت میں جائے گا۔ ان دونوں حدیثوں سے یہ نتیجہ بالکل صاف اور واضح ہے جو قرآن و اہل بیت سے متمسک رہے گا بس وہی نجات پائے گا۔ اس حدیث میں آنحضرت مایا تم نے گمراہی سے نجات کے لئے محبت و مودت کی بات نہیں فرمائی ہے بلکہ تمسک کی بات فرمائی ہے اور یہ بھی فرمایا جب تک متمسک رہو گے اس وقت تک گمراہ نہیں ہو گے یعنی وقتی وفعلی تمسک گمراہی سے نجات کا ضامن نہیں ہے تمسک یعنی اہل بیت کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہنا ان کی پیروی کرنا ان کے نقش قدم پر چلنا۔ وہ لوگ جو اہل بیت علیہ السلام کے علاوہ دوسروں کی فقہ پر عمل کر رہے ہیں وہ کس سے متمسک ہیں ! کیا وہ اہل بیت علیہم السلام سے؟ یا فقہ اربعہ سے؟؟ اس حدیث کی روشنی میں وہ تمام نظریات خود بخود باطل ہو جاتے ہیں جو قرآن مجید سے تمسک کو کافی قرار دیتے ہیں معاذ اللہ معاذ اللہ وہ خود کو خدا اور رسول سے زیادہ سمجھدار
سمجھتے ہیں۔
اہم بات یہ کہ عقائد، اخلاق، اعمال، احکام افکار….. مختصر یہ کہ ہر طرح کی گمراہی سے بس وہ نجات دے سکتا ہے جس کو قرآن مجید کی طرح خود خداوند متعال نے اپنے خاص علوم و اسرار تعلیم دئے ہوں جو قرآن مجید کے تمام اسرار و رموز سے پوری طرح واقف ہو، تاکہ پلک جھپکتے بھی قرآن کریم
سے جدائی نہ ہو۔ ہر لمحہ ہر آن ہر وقت صرف اور صرف وہی قرآن کریم کے ہمراہ رہ سکتا ہے اور ذرہ برابر جدائی نہیں ہو سکتی جس کو قرآن کریم کی طرح خدا نے منتخب کیا ہو۔ قرآن کریم کی
طرح تمام اسرار و رموز ودیعت فرمائے ہوں۔ اور وہ حضرت امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہم اور ان کے گیارہ فرزندوں کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے۔ حضرت رسول خداصلی یہ ایک یتیم کی اس
حدیث پر غور فرمائیں:
سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ يَقُول : عَلِيٌّ مَعَ الْقُرْآنَ وَالْقُرْآنِ مَعَ عَلِي لَنْ
يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَى الْحَوْضِ
علی قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی کے ساتھ ہے یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں۔
لہذا صرف اہل بیت علیم السلم وہ ہیں جن کو خداوند عالم نے قرآن کریم کی طرح اپنے مخصوص علم و اسرار و حکمت سے نوازا ہے۔ بس ان کی پیروی امت کو اختلاف سے، دین کو تحریف سے، اور دین کی غیر صحیح تفسیر و شناخت سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ اور اس وقت ان تمام خصوصیات وصفات کی حامل فرد حضرت حجت بن الحسن العسکری مال کی ذات والا صفات ہے۔ جو تمام گذشتہ انبیاء اوصیاء اور ائمہ علیہ سلام کے علم کے وارث ہیں خداوند عالم ان کے ظہور پر نور میں تعجیل فرمائے اور ہم سب کو قدم بہ قدم ان کی پیروی اور ان کی ذات اقدس سے استفادہ کی بہترین توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین
المستدرک ج ۳ ص ۱۲۴

اپنا تبصرہ بھیجیں