خلافت بلا فصل کا ذکر قرآن میں کیوں نہیں؟

مکتب خلفاء کے پیروکار چونکہ حضرت علیؓ کو رسول اسلام کا بلافصل جانشین اور خلیفہ نہیں مانتے لہذا وہ یہ سوال کرتے ہیں کہ امیر المومنین کی خلافت کو قرآن سے ثابت کیا جائے وہ کہتے ہیں کہ اگر مسئلہ امامت اتنا ہی اہم ہے کہ ایمان و کفر کا دارو مدار اسی پر ہے، تو قرآن کریم میں اس کا ذکر کیوں نہیں ہے؟ ان کا کہنا یہ ہے کہ جب شیعہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت علی اور دیگر گیارہ ائمہ کی ولایت کے بغیر نہ کسی کا ایمان قبول ہوگا اور نہ ہی عمل ، تو ان کے لیے ضروری ہے کہ اپنے دعوے کی دلیل میں قرآن کی کوئی آیت پیش کریں۔
ان کے اس اعتراض کا جواب ہم چند مرحلوں میں پیش کر رہے ہیں۔
پہلی بات تو یہ کہ باوجود یکہ یہ سوال حق بجانب ہے مگر اہل تسنن کو یہ سوال کرنا زیب نہیں دیتا۔ اس لیے کہ جب بھی قرآن کی صریح آیتوں نے ان کے خلفاء کی کسی بات کی رد کی ہے تو انھوں نے الٹ کر فرمانِ قرآن کی ہی مخالفت کر دی ہے اور خلفاء کی بات کو اوپر رکھا ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں بطور نمونہ یہاں پر کچھ کا ذکر کیا جارہا ہے۔ (۱) قرآن میں انبیائے کرام کی میراث کا ذکر موجود ہے مگر دختر رسول کو ان کے بابا کی میراث سے محروم کر دیا گیا۔ اس معاملے میں قرآن کی صریح دلیل کو رد کرتے
ہوئے خلیفہ کی بات کو قبول کیا گیا۔
(۲) قرآن کی آیت میں وضو کے باب میں صریحاً یہ حکم دیا گیا ہے کہ پیر پر مسح کیا جائے مگر اہل تستن اس کے بر
خلاف پیروں کے دھونے پر عمل پیرا ہیں۔
(۳) قرآن میں آل رسول کو شمس ادا کرنے کو فرض قرار
دیا گیا ہے مگر اہل تسنن قرآن پاک کی اس ہدایت پر عمل نہیں کرتے۔
(۴) اسی طرح قرآن کی آیتوں میں تقیہ اور رجعت کا بھی ذکر ہے ، مگر اہل تستن اس کی بھی رد کرتے نظر
آتے ہیں۔
قصہ مختصر اگر ہم ان کے سامنے ان قرآنی آیات کا انبار بھی لگادیں، جن سے حضرت علی کی بلا فصل ولایت ثابت ہوتی ہے، تو کیا وہ خلفاء کی خلافت کو چھوڑ دیں گے اور امیر المومنین کو
اپنا پہلا خلیفہ تسلیم کرلیں گے؟؟
دوسرے یہ کہ کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ یہ شرط عائد کرے کہ ہمیں قرآن میں دکھاؤ ، ورنہ ہم اس عقیدے کو قبول نہیں کریں گے یا یہ کہے کہ ہمیں قرآن میں دکھاؤ ، ورنہ ہم اس حکم پر عمل نہیں کریں گے۔ کیونکہ خود سرور کائنات صلی یہ تم نے امت کے لیے قرآن کو کافی نہیں جانا ہے۔ آنحضرت سلیم نے اسی لیے حدیث ثقلین اور خلیفتین کو ارشاد فرمایا تھا کہ صرف قرآن امت کی
حدیث
ہدایت کے لیے ناکافی ہے۔ اسلام کے بہت سے اہم مسائل ایسے ہیں جن کی تصریحات کتاب خدا میں موجود نہیں ہیں۔ مثلاً نماز، نماز دین کی اساس ہے، اگر کسی کی نماز قبول نہیں تو اس کا کوئی عمل قبول نہیں۔ کیا نماز کی رکعات، اوقات، شرائط، مقدمات، تعقیبات وغیرہ کے بارے میں قرآن میں تفصیلات موجود ہیں؟ نہیں۔ اسی طرح بہت سے دیگر اہم امور کی تفصیلات قرآن میں موجود نہیں ہیں۔ تو کیا ان احکامات پر عمل
نہیں کرنا چاہئے؟
اس کے علاوہ سامنے کی ایک بات اور ہے، آپ کے نزدیک حضرت علی چوتھے خلیفہ ہیں، تو کیا ان سے پہلے والے تین خلفاء کی خلافت کے لیے آپ کے پاس قرآن سے دلیل موجود ہے؟ اگر نہیں ( اور بلاشبہ کوئی دلیل نہیں ہے ) تو پھر کسی کو کیا حق ہے کہ امیر المومنین کی بلا فصل خلافت کے لیے ہم سے دلیل طلب کرے۔ جیسے ان کے لیے بغیر قرانی استدلال کے. دوسروں کی خلافت کو قبول کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے، اسی طرح حضرت علی کی امامت کو بغیر قرانی دلیل کے قبول کرنے میں ان کے لیے کیا دشواری ہے؟ جبکہ حضرت علی کے لیے رسول اللہ صلی یتیم کی متواتر احادیث موجود ہیں کہ علی ولی
66 وو
من بعدى، من كنت مولاه فعلى مولاه وغیرہ۔ سقیفائی خلفاء کے لیے تو ان کے پاس اس طرح کی کوئی حدیث موجود نہیں ہے۔ مگر پھر بھی ان کی خلافت بغیر کسی دلیل کے قبول کر لیتے ہیں۔
شواہد التنزیل میں ہے کہ رسول خدا صل للہ یہی تم نے فرمایا:
یقینا قرآن چار حصوں میں ہے، جس کے چاروں حصے
چار چیزوں سے مزین ہیں ، ( قرآن ) کا ایک چوتھائی حصہ ہم اہل بیت سے مخصوص ہے ، (دوسرا) چوتھائی حصہ ہمارے دشمنوں کے بارے میں ہے ، تیسرے چوتھائی حصے میں حرام و حلال بیان کیے گئے ہیں اور چوتھا حصہ خدا نے اپنے فرائض و احکام سے مخصوص قرار دیا ہے، بے شک خدا نے علی کے بارے میں قرآن کا
افضل ترین حصہ نازل کیا ہے۔“
اس کے باوجود کہ اہل تسنن علماء اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ حضرت علی کے متعلق قرآن میں تین سو (۳۰۰) سے زیادہ آیتیں موجود ہیں مگر پھر بھی ( تعجب ہے کہ ) ان کو ان میں سے کسی میں امیر المومنین کی خلافت نظر نہیں آتی۔ ان میں سے چند ایک کا یہاں پر ذکر کیا جارہا ہے۔
ا۔ آیة الولاية
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمُ
رَاكِعُونَ ”
” (اے ایمان لانے والو!) بلاشبہ تمھارا ولی صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ ایمان لانے والے افراد ہیں جو نماز کو قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکات دیتے
ہیں۔“
اہل تسنن کی دس سے زیادہ تفاسیر میں اس بات کا ذکر
شواہد التنزیل ج ۱ ص ۴۲
سوره مائده (۵)، آیت ۵۵
ہے کہ یہ آیت حضرت علی کی ولایت پر دلالت کرتی ہے۔ ان میں سے دو کا ذکر ہم یہاں کر رہے ہیں۔ جار اللہ محمود بن عمر زمخشری (متوفی سنته : ۵۲۸ ہجری) نے اس آیت کی شان نزول میں امیر المومنین کے حالت رکوع میں ایک سائل کو انگوٹھی دینے کے واقعے کو ذکر کیا ہے۔
اسی آیت کے ذیل میں اہل تسنن کے بہت بڑے امام فخر الدين الرازي (المتوفى : ۶۰۴ ھ ) نے بھی جناب ابوذر غفاری سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے جس سے اس آیت میں حضرت علی کی ولایت کا واضح اعلان نظر آتا ہے۔ ۲
۲- آیت انذار
إِنَّمَا أَنتَ مُنذِدٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ یعنی ‘ (اے حبیب) آپ اپنی قوم کو ڈرانے والے ہیں
اور ہر قوم کے لیے ہم نے بادی بھیجے ہیں۔“
اس آیت کے متعلق حضرت علی کا یہ قول نقل ہوا ہے کہ رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا فرمان ہے کہ میں اس
امت کا ڈرانے والا ہوں اور علی اس کے ہادی ہیں ۔
– آیت بلغ :
66
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغُ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن
الكشاف : ۱/ ۳۴۷ التفسير الكبير : ٢٦/٢
(سورۃ الرعد (۷)، آیت ۱۳ مستدرک علی الصحیحین : ۱۲۹/۳
“اے رسول! اس بات کی تبلیغ فرمادیجیے جسے آپ کے
رب نے آپ پر نازل فرما دیا ہے…
66
حج آخر سے واپسی کے موقع پر میدان غدیر میں یہ آیت رسول اکرم منی تم پر نازل ہوئی تھی ۔ اس کے بارے میں اہل تسنن عالم علامہ جلال الدین سیوطی نے رسول اللہ سلام کے صحابی ابوسعید خدری کا یہ قول نقل کیا ہے کہ یہ آیت
( حضرت ) علی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد پیغمبر اکرم نے اصحاب کے درمیان ایک طویل خطبہ ارشاد فرمایا جس میں آپ
نے اعلان فرمایا:
فَأَوْحَى إِلَى: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَانِ الرَّحِيمِ، يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلغ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَيك فى على يعنى فِي الْخِلَافَةِ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ. وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ
من الناس
پس اللہ نے میری طرف وحی فرمائی ہے کہ اے رسول ! علی کی خلافت کی تبلیغ فرماد بی.”
حوالہ جات:
فتح القدير ١٠/٢
تاریخ مدینہ دمشق ۲/۸۶۴۳۷/۴۲ ۵۸۹) .
سوره مانده ۶۷
الدر المخور :٣/ ١١٧






شواہد التنزیل ۱/۲۵۰ ح ۲۴۴، وص ۲۵۱ ح
۲۴۵ ، وص ۲۵۲ ح ۲۴۷
عمدة القاری ۲۰۶۲۰۶/ ۱۸، کتاب تفسیر قرآن ، شماره ۱۳۴، کتاب التفسير الكبير ٢٩/١٢
غرائب القرآن ( تفسیر النیشاپوری) ۶۱۶/۲ مفتاح النجاء: ورق ۳۴، باب سوم فصل یازده الفصول المہمۃ ۴۲ فصل اول ۔ الكشف والبيان ( تفسير الثعلبی): ورق ۷۸ توضیح الدلائل : ورق ۱۵۷ قسم دوم، باب دوم ۔ مودة القربي : مودۃ پنجم ۔ السبعین فی مناقب امیر المؤمنین: ح۵۶
بینابیع المودة ۲۹۷ ، باب ۵۶ ، ح ۸۱۲، وص ۲۸۳،
باب ۵۶ ، ح ۶۹۹ ۔
-۴- آیه را کمال
33
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَثْمَمتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسلام
دينا ..!
” آج کے دن میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمتوں کو تمام کر دیا اور تمہارے دین اسلام
سے میں راضی ہو گیا ..
66
جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر الدر المنصور میں اللہ کے اس قول اليَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ
( سورة المائدة (۵): آیت ۳
وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسلام دِینًا …. کے ذیل میں لکھا ہے کہ ابن مردویہ ، خطیب بغدادی اور ابن عسا کرنے ابو ہریرہ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے کہا :
لمّا كان يوم غدير خم ، و هو يوم ثماني عشرة من ذى الحجة قال النبي ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) : من كنت مولاه فعلی مولاه ، فأنزل الله … الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ ….
”وہ دن غدیر کا دن تھا، ۱۸ ذی الحجہ جب رسول اللہ سلیم نے فرمایا جس کا میں مولا ہوں، اس کے علی بھی مولا ہیں ۔ پس اللہ نے اس آیت کو نازل فرمایا ۔”
الدر المنشور في تفسير القران (جلال الدين السيوطي
الشافعي ) :۲۵۹/۲
تاریخ دمشق ( ابن عساکر الشافعي ) : ۷۵/۲ شواہد التنزيل ( حاکم حسکاني الحنفي ) : ۱/ ۱۵۷ مناقب علي بن أبي طالب ( ابن المغازلي الشافعي ) :
۱۹ الحدیث ۲۴
تاریخ بغداد (خطیب البغدادي ) : ۲۹۰/۸ وغیرہ۔
اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے مشہور قرآنی آیات میں سے کچھ ہی کا ذکر کرنے پر اکتفا کی ہے، ورنہ اس موضوع پر اور بھی آیات پیش کی جاسکتی ہیں۔
یادر ہے، مندرجہ بالا آیات کی تفاسیر کے لئے ہم نے صرف مخالفین کی کتابوں سے استفادہ کیا ہے ورنہ اہلبیت کی روایات میں بھی اس طرح کی متعدد آیات ہیں جو امیر المومنین کی ولایت و خلافت بلا فصل کو ثابت کرتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں