رسول الله ﷺکی رحلت کے بعد اسلامی معاشرہ میں جو تبدیلیاں آئیں ان میں ایک یہ تھی کہ آلِ پیغمبر کو کنارہ کش کردیا گیا۔ اہلبیتؑ اطہار کو حیاتِ پیغمبرؐ میں مرکزی حیثیت حاصل تھی، مگر دور خلافتِ شیخین میں انھیں فراموش کردیا گیا۔ آلِ محمدؐ کو نہ صرف یہ کہ حکومتی امور سے دور کردیا گیا،بلکہ ان کی بابت آنحضرتؐ کے جو اقوال و ارشادات احادیث کی شکل میں تھے،انھیں بیان کرنے پر پابندیاں عایدکردی گئیں تاکہ عوام الناس ان کے فضائل و مناقب سے بے خبر اور انجان رہیں اور امت مسلمہ میں ان کے اثر کو کم کیا جاسکے ساتھ ہی ساتھ ان کے حق کو غصب کر کے ان کو کمزور بنادیا گیا۔ رسول الله ﷺنے حج آخر کی واپسی میں غدیر خم کے میدان میں حضرت علی علیہ السلام کو اپنا خلیفہ، وصی و جانشین ہونے کا اعلان کردیا تھا۔ اس بات کو تمام اہل اسلام قبول کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ نے مولا علیؑ کے متعلق یہ اعلان کیا تھا کہ :
’’جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علیؑ بھی مولا ہیں‘‘۔
اہل تسنن اس بات کو تو تسلیم کرتے ہیں، مگر ان کو پہلا خلیفہ نہیں مانتے،ان کا ماننا ہےکہ علی علیہ السلام کا خاموشی اختیار کرنا دوسروں کی خلافت کی تائید کرنا ہے۔ قول رسولؐ ہے کہ :
’’علیؑ حق کے ساتھ اور حق علیؑ کے ساتھ ہے۔‘‘
اس لیے علی علیہ السلام کا شیخین کے خلاف خاموش رہنا اس بات کی علامت ہے کہ وہ شیخین کی خلافت سے راضی تھے۔ اہل تسنن اور ان کی طرح فکر رکھنے والے مولا علیؑ کی خاموشی کو شیخین کی حکومت کی حمایت سمجھتے ہیں جبکہ شیعہ اس بات کے قائل ہیں کہ خلافت ان کا حق ہے اور وہ ان سے غصب کر لیا گیا۔ یہ خلافت ان کو بحکم خدا و رسولؐ خدا نے عطا کی ہے جو کوئی ان سے چھین نہیں سکتا۔ اس لیے مولا علیؑ کو کیا ضرورت ہے کہ کسی سے اپنی خلافت کا اقرار کروائیں۔
بہر حال امیرالموءمنین علیہ السلام کی خاموشی اور تلوار نہ اٹھانا ان کے مخالفین کے حق پر ہونے کی دلیل نہیں بنتا۔ حق ہمیشہ علیؑ کے ساتھ ہے چاہے ان کے مقابل میں کوئ بھی ہو۔ پھر بھی آپؑ نے اپنے حق کو حاصل کرنے کے لیے تلوار کا استعمال نہیں کیا۔ اس خاموشی کی بہت ساری وجہیں رہی ہیں جن میں سے کچھ پر ہم طائرانہ نگاہ اس مقالے میں ڈال رہے ہیں۔
اسے صیاد نے کچھ ،گل نے کچھ، بلبل نے کچھ سمجھا
چمن میں کتنی معنی خیز تھی اک خامشی میری
حضرت علی علیہ السلام نے خلافت حاصل کرنے کے لیے اپنے مخالفین کے خلاف تلوار کیوں نہیں اٹھائ، اس کی متعدد وجوہات کتابوں میں درج ہیں۔ ان میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کو خود رسول الله صلی الله علیہ والہ وسلم نے اس بات سے روکا تھا۔ بحار الانوار اور دیگر شیعہ کتب کے علاوہ اہل تسنن علماء نے بھی اس بات کو اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ بطور نمونہ ایک روایت پیش ہے۔
قال رسول الله ؐ : یاعلی انت بمنزلة الکعبة توءتی ولاتاتی، فان اتاک ھٰوءلاءالقوم فسلموھا الیک -یعنی الخلافة- فاقبل منہم وان لم یاتوک فلا تاتہم حتی یاتوک۔{ FR 277 }
پیغمبر اکرم ﷺ نے مولا علی علیہ السلام سے فرمایا:
’’اے علی تمھاری منزلت کعبہ کی سی ہے، لوگ اس کے پاس جاتے ہیں وہ لوگوں کے پاس نہیں جاتا۔پس اگر یہ امت تم کو اپنا خلیفہ مان لے تو تم قبول کر لینا اور اگر یہ تمھارے پاس نہ آئے تو تم بھی اس کے پاس نہ جانا تاوقتیکہ لوگ خود تمھارے سامنے تسلیم ہوں۔‘‘
اسی طرح کی ایک روایت اہل تسنن کی کتاب غایة المرام میں اس طرح نقل ہوئ ہے:
قال رسول الله ﷺ:
یاعلی انما انت بمنزلة الکعبة توءتی ولا تاتی، فان اتاک ھٰوءلاء القوم فمکنوالک ھٰذاالامر فاقبلہ منہم وان لم یاتوک فلا تاتہم { FR 278 }
رسول خدا ﷺ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:
اے علی تمھاری منزلت تو بس کعبہ کی سی ہے، لوگ اس کے پاس جاتے ہیں وہ لوگوں کے پاس نہیں جاتا۔پس اگر یہ قوم اس امر(خلافت) کو تمھارے حوالے کردے تو قبول کر لینا اور اگر یہ لوگ تمھارے پاس نہ آئیں تو تم بھی ان کے پاس نہ جانا۔
ان روایات سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ امیرالموءمنین علیہ السلام نے رسول الله ﷺ کی نصیحت پر عمل کیا اور خاموشی اختیار کرلی۔ مگر وقتاً فوقتاً وہ اپنے حق کو لوگوں پر واضح کرتے رہے اور ان کو وہ واقعات اور احادیث بھی یاد دلاتے رہے،جن میں آنحضرت ﷺ نےان کی خلافت کا ذکر کیا ہے،مگر لوگوں نے ان کی بات کو قبول نہیں کیا۔ اس لیے آپؑ نے پیغمبرِ اکرم کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے خاموشی اختیار کرلی اور تلوار نہیں اٹھائی۔
کعبہ کے پاس نہ جانے سے نہ کعبہ کی اہمیت و عظمت کم ہوتی ہے اور نہ ہی کعبہ کی طرف نہ جانے والوں کی حقانیت ثابت ہوتی۔ بلکہ کعبہ سے دوری خود اپنی ضلالت و گمراہی کی علامت ہے۔ کعبہ کی حقانیت لوگوں کے طواف کرنے کی مرہون منت نہیں ہے بلکہ کعبہ ایک حقیقت ثابت ہے۔ کعبہ لوگوں کے پاس جاکر اپنا طواف نہیں کراتا۔ تو حضرت علی علیہ السلام لوگوں کے پاس کیوں جاتے۔
دوسری وجہ جس کا ذکر احادیث میں ملتا ہے وہ یہ ہے کہ خود امیرالموءمنین کو اس بات کا خدشہ تھا کہ کہیں مسلمان مرتد نہ ہوجائیں۔ اس وقت اسلام اپنے ابتدائ دور میں تھا اور بہت سے لوگوں کو اسلام قبول کیے ہوئے بمشکل پانچ سال یا اس سے بھی کم کی مدت ہوئی ہوگی۔ ان حالات میں خلافت کے لیے دو مسلمان گروہوں میں آپسی جنگ ان لوگوں کو اسلام سے متنفر اور منحرف کردیتی۔ نہ صرف یہ کہ یہ نئے مسلمان پھر سے کفر اختیار کرلیتے بلکہ جو لوگ اسلام کی طرف مائل تھے وہ بھی اسلام سے دور ہوجاتے۔ کتاب علل الشرائع میں شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے ایک باب میں اس موضوع پر احادیث جمع کی ہیں۔ ان میں ایک روایت کے مطابق جب چھٹے امام کےصحابی جن کا نام زرارہ بن اعین تھا،نے جب ان سے سوال کیا کہ کیا سبب تھا کہ امیرالموءمنین نے لوگوں کو اپنی خلافت کی طرف دعوت نہیں دی تو امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ انھیں اس بات کا خوف لاحق تھا کہ کہیں لوگ مرتد نہ ہوجائیں۔
عن زرارة قال: قلت لأبي عبد الله ’’ع‘‘ ما منع أمير المؤمنين عليه السلام ان يدعو الناس إلى نفسه، قال خوفا ان يرتدوا۔{ FR 279 }
شائد یہی سبب رہا ہو کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے بھی امیر الموءمنین کو غاصبین خلافت کے خلاف تلوار اٹھانے سے روکا ہو۔ خود مولائے کائنات علیہ السلام کو بھی یہ بات ناگوار تھی کہ لوگ ان کی وجہ سے اسلام سے بد ظن ہوجائیں۔ ان افراد کا شہادتین ‘لاالہ الا الله محمد رسول الله کا اقرار کرلینا کم ازکم انھیں مسلمان تو بناہی رہاتھا۔ ورنہ خلافت کی جنگ میں شائد یہ لوگ اس کلمہ سے بھی قطع تعلق کرکے کافر ہوجاتے۔ دوسرے یہ بھی ممکن تھا کہ مسلمانوں کی آپسی جنگ کا فائدہ ان کے مخالفین اٹھاتے اور اسلام کے پودے کو پنپنے ہی نہ دیتے۔
تیسری وجہ جس کی بنا پر امیرالموءمنین علیہ السلام خاموش رہے وہ ہم خیال مددگاروں کی کمی۔ کسی بھی مہم کے لیے مخلص انصار کی ضرورت پڑتی ہے،مولائے کائنات کو بھی غاصبانِ خلافت سے نبرد آزما ہونے کے لیے مخلص معین و مددگار چاہیے تھے۔ ان کو اپنے ہدف تک پہنچنے کے لیے ایسے اصحاب کی ضرورت تھی جو نہ صرف یہ کہ آپ کا ساتھ دیں بلکہ ایسے افراد جو آپ کے مقصد کو بھی بخوبی پہچانتے ہوں۔ ایسا ہرگز نہ تھا کہ علی علیہ السلام کے لیے ایک لشکر تیّارکر پانا محال ہو مگر جس طرح کے مخلص افراد آپ کو درکار تھے وہ دستیاب نہیں تھے۔ اس حقیقت کا اظہار مولا علیؑ نے ابوسفیان سے بھی کیا تھا جب وہ ان کی مدد کرنے کا ارادہ لے کر آیا۔ ابوسفیان نے یہ پیشکش رکھی تھی کہ ’’اگر آپ چاہیں تو میں آپ کی حمایت میں بنی امیہ اور ان کے ساتھی قبیلوں کا ایک لشکر کھڑا کردوں جن کی مدد سے آپ ان دونوں (شیخین) سے اپنے چچازاد بھائی کی حکومت کو دوبارہ حاصل کرلیں۔‘‘ حضرت علی علیہ السلام نے اس کو ایک جواب یہ بھی دیا:
’’لَوْ وَجَدْتُ اَعْوَانًا اَربَعِینَ رَجُلاً مِنَ المُھَاجِرِینَ وَ الاَنصَارِ مِن السَّابِقَةِ لَناھَضْتُ ھٰذا الرَجُلَ۔ ‘‘{ FR 280 }
اگر مہاجرین اور انصار میں پہلے ایمان لانے والے افراد میں سے چالیس افراد بھی میرا ساتھ دیتے تو میں اس شخص سے ضرور جنگ کرتا…
اس جملہ سے یہ بات ظاہر ہورہی ہے کہ علی علیہ السلام کو صرف ان دونوں سے حکومت حاصل کرنی نہیں تھی، بلکہ ایسے افراد کی بھی ضرورت تھی جو مخلص مسلمان ہوں، جنھوں نے دین میں سبقت حاصل کی ہو اور جو دین کا درد سمجھتے ہوں۔ آپؑ کی نصرت کے لیے ایک لشکر تو آمادہ ہوجاتا مگر یہ حکومت طلبی اسلام کو نقصان پہنچاتی۔ اب اگر امیرالموءمنین قلتِ انصار کے باوجود بھی خلافت کی حصولیابی کے لیے جنگ کرتے تو یقیناً مخالفین آپ پر غالب آجاتے اور آپ اور آپ کے ساتھیوں کو قتل کر دیتے۔ پھر یہ مخالفینِ دین اسلام کی شکل کو اس قدر بگاڑ دیتے کہ اس میں حقیقی اسلام کا کوئ عنصر باقی نہ رہتا۔ امیر الموءمنین علیہ السلام کی خاموشی نے اسلام کو اس بہت بڑے نقصان سے بچالیا۔ آج دنیا یہ تو ضرور جانتی ہے کہ اسلام کی دو صورتیں ہیں ایک علیؑ اور ان کے گھرانے کا اسلام اور ایک ان کے مخالفین کا اسلام۔
اسی سے جڑی ایک اور وجہ یہ ہے کہ آپؑ نہیں چاہتے تھے کہ اپنے اہلبیت اور مخلص شیعوں کی زندگی کو خطرے میں ڈالیں۔ نہج البلاغہ میں مولائے کائنات کا یہ جملہ ملتا ہے۔
…فَنَظَرتُ فَاِذَا لَیسَ لِی رَافِد وَلاَ ذَابّ وَلَا مُسَاعِد اِلَّا اَہلَ بَیتِی فَضَنِنتُ بِہِم عَن المَنِیَّةِ…
پس میں نے دیکھا کہ میرے گھر والوں کے علاوہ کوئی میرا یارومددگار نہیں ہےکہ میرا دفاع کرے۔ پس میں نے نہیں چاہا کہ انھیں موت کے حوالے کردوں(اس لیے میں خاموش ہوگیا اور میں نے صبر کیا)….{ FR 281 }
مسلمانوں نے آل رسول کے ساتھ کیسا رویہ رکھا،اس بات کا اعلان تاریخ پکار پکار کر کر رہی ہے۔ تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ اقتدار کی حصولیابی کے لیے اہلبیت رسول کو کیسے کیسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، ان میں سے کسی کو زہر دیا گیا تو کسی کو تلوار سے شہید کر دیا گیا۔ اگر امیرالموءمنین خلافت کے لیے تلوار اٹھاتے تو ان کے مخالفین یقینًا تمام اہلبیت کو اس بہانے قتل کر دیتے اور شمع ہدایت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گل کردیتے۔
ان چند اہم وجوہات کے علاوہ اقوال معصومین میں امیرالموءمنین علیہ السلام کی خاموشی کی اور بھی وجوہات بیان کی گئ ہیں۔ آپؑ نے اس پرآشوب ماحول میں جو بھی قدم اٹھایا،وہ اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی کے لیے تھا۔ علیؑ جیسے سورما کے لیے جنگ کرلینا آسان تھا مگر آپؑ نے اپنے لیے اس قدر مشکل راستہ کو منتخب کیا اور رسولؐ اکرم کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے آپؑ نے صبر کیا۔ اس انتخاب نے نہ صرف یہ کہ آپؑ کے اہلبیت اور شیعوں کی اس وقت جان کی حفاظت کی بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آپ کے شیعوں کو ان کے دشمنوں کے شر سے ان کے تحفظ کی راہ پیدا کردی۔ یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ آپؑ شیخین کی خلافتوں سے راضی نہ تھے۔ آپؑ کی خاموشی کا یہ مطلب بالکل نہیں ہے کہ آپ اپنے مخالفین کے عمل سے راضی تھے یا آپؑ نے اپنی خلافت کی دعوے داری کو فراموش کردیا تھا۔ بلکہ آپؑ نے بارہا غاصبین خلافت کو ظالم اور خود کو مظلوم بتایا ہے۔ اس کا ثبوت آپؑ کا مشہور خطبہ – خطبہء شقشقیہ نہج البلاغہ میں موجود ہے۔
Load/Hide Comments