اس تاریخی حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ’’شیخین‘‘ یعنی خلیفہٴ اول و دوم دونوں کا شمار ہجرت کرنے والوں میں ہوتا ہے، یعنی وہ گروہ جس نے حضورؐ کی ہجرت سے پہلے ہی مکہ میں اسلام قبول کرلیا تھا۔ اس گروہ کا اسلامی سماج میں شروع سے ہی ایک الگ احترام رہا ہے۔ اس گروہ میں وہ افراد تھے جنھوں نے دین کے لیے بہت سی قربانیاں پیش کیں۔ اپنے گھر بار، خاندان، وطن، تجارت سب کچھ قربان کرکے اللہ کے رسولؐ کا ساتھ دیا۔ یہ مہاجرین غزوہء بدر و احد میں آنحضرتؐ کے ہم رکاب رہے۔ اس گروہ میں یہ دونوں افراد بھی تھے جن کی(کسی بھی شکل میں ہو ) رسولؐ اکرم سے رشتہ داری بھی تھی۔ یہ دونوں حضورؐ کے خاندان سے نہ تھے، ہاں ان کی بیٹیاں رسولؐ اکرم کی زوجیت میں تھیں۔ اس کے علاوہ رسولؐ اللہ کے ساتھ ابوبکر کا مکہ سے مدینہ ہجرت کرنا بھی بیان کیا جاتا ہے۔ اس طرح کی نسبتوں نے شیخین کو رسولؐ خدا سے ایک طرح کی قربت دلا دی تھی۔ اور یہی رشتہ داری ایک ایسا ’’چیک‘‘ تھی، جسے دونوں نے سقیفہ کے ’’بینک‘‘ میں بھناکر بحسن و خوبی خلافت و حکومت حاصل کرلی۔ جب سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار کے بڑے بڑے سردار مدینے کی حکومت پر اپنی اپنی دعوے داری پیش کررہے تھے، انصارِ مدینہ کے اس ہجوم میں صرف تین مہاجروں نے بازی مارلی۔ کیوں؟ کس طرح؟ صرف اس بناء پر کہ ابوبکر رسولﷺ کے ہم وطن ہیں اور ان کے رشتہ دار ہیں اس لیے خلافت پر حق ان کا ہے۔ اس طرح اسلام میں حکومت کا معیار رسولؐ اللہ سے قرابتداری بن گیا۔ ایسا نہیں کہ کوئ اور رسولؐ سے اتنا قریب نہ تھا۔ سب سے پہلے اسلام کا اعلان کرنے والے حضرت علیؐ ہیں، سب سے پہلے رسولؐ کے ساتھ نماز ادا کرنے والے علیؑ بن ابی طالب ہی ہیں، آغوشِ پیغمبرؐ کے پروردہ بھی علیؑ ہیں، نبی اکرمؐ کے چچازاد بھائی، رسولؐ کی بیٹی فاطمہ زہراؐ کے شوہر حضرت علیؑ ہیں، بنصِّ قرآن نفسِ رسولؐ بھی علیؐ ہیں۔ ان سے زیادہ کسی کو کیا رسولؐ کی قرابتداری ملے گی ،ایک نور، ایک خاندان۔ لا یسبق بقرابۃ فی رحم و لا بسابقة فی دین نہ کسی کو دین میں علیؑ سے زیادہ سبقت حاصل ہے نہ کوئ قرابت داری میں رسولؐ کے اتنا قریب ہے، جتنا علیؑ ہیں، مگر افسوس جب مولا علیؑ نے از طرف خدا بذریعہ پیغمبرؐ اعلان ولایت و وصایت کا حوالہ دینے کے بعدخلیفہ کےاسی معیار قرابت کو بنیاد بنا کر اپنے حق کا دعویٰ پیش کیا تو اس کو قبول نہیں کیا گیا۔ بہرحال وفات نبی اکرمؐ سے قبل یعنی حیات پیغمبرﷺ میں بھی ان لوگوں کے کئی ایسے کارنامے ہیں جو ان کے کردار پر آج بھی سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں ،مگرجوایک سوال ذہنوں میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ جب سرورِ عالمؐ کو اس بات کی خبر تھی کہ یہ لوگ ان کے بعد دین میں بدعتیں ظاہر کریں گے تو کیوں کر ان کو اس قدر اپنے قریب آنے دیا؟ کیوں آپؐ نے ان دونوں کی بیٹیوں سے شادی کی؟ کیوں شیخین کو اپنے ساتھ رکھا؟ اس طرح کے سوال کچھ لوگ نادانی میں کرتے ہیں تو کچھ اس لیے کرتے ہیں تاکہ مولا علیؑ کے ماننے والوں کے دل میں شکوک پیدا کردیں۔ اہل سنت ان سوالات سے یہ نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں کہ حضورؐ کی یہ منشا تھی کہ شیخین ان کے قریب آئیں تاکہ ان کے بعد یہ دونوں خلافت کے اہل ہوجائیں۔ ان کا یہ نتیجہ نکالنا اس وجہ سے بے بنیاد ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے ان دونوں سے کہیں زیادہ قریب اپنے داماد علیؐ ابن ابی طالب کو رکھا تھا۔ اس لیے رسولؐ اللہ کی نیابت اور خلافت کا حقدارصرف حضرت علی بن ابی طالب ہی ہیں ۔آیئےاب ہم اس اعتراض کا جائزہ لیتے ہیں۔
۱۔ سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اسلام میں نبی سے قربت کا معیار نہ رشتہ داری ہے اور نہ ہی ان کی صحبت ہے۔ قرآن مجید میں متعدد انبیاء کے واقعات موجود ہیں۔ ان انیباء کی داستانوں میں ان کی قربانیوں کا ذکر ہے، ان کے اقوال اور ان کی ہدایات کا ذکر ہے۔ اسی طرح دین خداکے ان مخلص افراد کا دشمنانِ خدا سے مقابلہ کرنا اور دین کی حفاظت میں ثابت قدم رہنے کی جو حکایات قرآن مجید میں موجود ہیں یہ تمام اہل ایمان کے لیے نمونہ عمل ہیں۔ ان انبیاء و مرسلین کی تعلیمات، ان کی زندگی کے مختلف واقعات جو جگہ جگہ بیان ہوے ہیں، سب کے سب ہماری ہدایت کیلئے مشعل راہ ہیں۔ اب ذرا غور فرمائیں: جناب ابراہیمؑ کی داستان میں یہ بتانا کیوں ضروری سمجھا گیا کہ ان کی پرورش کرنے والے ان کے چچا ’’آذر‘‘ بت پرست تھے مگر ان کے چچا کی بخشش نہیں ہوگی؟ قرآن نے جناب لوطؑ کی کہانی میں ان کی بیوی کے کردار کا ذکر کرنا کیوں ضروری سمجھا ؟آخر اس بات کا تذکرہ کیوں ہو رہا ہے کہ لوطؑ تو نبئ برحق تھے مگر ان کی بیوی جہنمی ہے (’’کانت من الغابرین‘‘)؟ جناب نوحؑ کی داستان میں یہ بتانا کیوں ضروری سمجھا گیا کہ ان کی زوجہ اور ایک بیٹا کشتی میں سوار نہ ہونے کی وجہ سے ڈوب گئے اور ہلاک ہوگئے؟ اور پھر اس کے مقابلہ میں زن فرعون جناب آسیہ کونہ صرف جنتی بلکہ سردار زنان بہشت قرار دیا جانا، و۔۔۔۔ ان سب کا ذکر اس لئے قرآن نے ضروری سمجھا تاکہ یہ بات مسلمانوں کے لیے واضح ہوجائے کہ کسی بھی نبی سے قربت کا معیار صرف ان سے رشتہ داری نہیں قرار دی جا سکتی. جناب نوحؐ کی داستان میں ہم پڑھتے ہیں کہ جب طوفان آیا تو جناب نوحؐ خدا سے فریاد کرتے رہے ‘ پرودگار میرا بیٹا ڈوب رہا ہے اسے بچالے۔ وہ میرے اہل میں سے ہے” جواب آیا:”نہیں ، وہ تمھارے اہل سے نہیں ہے کیوں کہ اس کا عمل برا ہے۔ (اِنّہُ لیْس مِنْ اھْلِک اِنّہُ عمل غیْرُ صالِح)۔ اسی طرح ایک مقام پر قرآن جناب ابراہیمؑ کا یہ فرمان نقل کرتا ہے۔ فمن تبعنی فھو منی۔ جو میرا اتباع کرے گا وہ مجھ سے ہے”یہی سبب ہے کہ جناب موسیٰؑ کی پرورش فرعون کے محل میں تو ہوئ مگر خود فرعون کافر ہی رہا اور اس کی بیوی مومنہ اور جنّتی قرار پائ۔ اسی طرح کا فرمانِ الٰہی خود سرورِ کائنات کے چچا ابولہب اور اس کی زوجہ ام جمیل کے لیے آیا۔ ان کے کردار کی بنا پر ہی قرآن نے ان دونوں کے جہنمی ہونے کا اعلان کردیا۔ لہٰذا یہ بات طے ہے کہ نبیؐ سے قربت کا معیار رشتہ داری اور صحابیت نہیں بلکہ خدا پر سچا ایمان اور نبی کی صحیح طور سے پیروی ہے۔ یہی سبب ہے کہ کسی کی ہم نشینی یا رشتہ داری کو رسولؐ سے قربت کی دلیل نہیں سمجھا جاسکتا۔ اگر یہ دیکھنا ہے کہ شیخین کس قدر رسول خداﷺ سے قریب تھے تو یہ دیکھنا ہوگا کہ کس قدر ان دونوں نے رسولؐ اللہ کے فرامین پر ان کی زندگی میں اور آنحضرتؐ کی رحلت کے بعد عمل کیا ہے۔ اس لیے پہلے تو اسی بات کا جائزہ لیا جائے کہ کیا واقعًا شیخین رسولؐ اللہ کے قریب تھے؟ اس لیے کہ یہ امت کے لیے ایک امتحان ہے کہ وہ کس طرح رسولؐ کی پیروی کرتی ہے۔ آیا امت رسولؐ کے اعلانِ غدیر کو اہمیت دیتی ہے یا اعلان سقیفہ کو جہاں نہ پیغام خدا ہے نہ نزول وحی اور نہ جبرئیل کا آنا ؟
۲۔ بات یہ ہے کہ خود پیغمبرؐ اکرم نے یہ پیشنگوئی کی ہے کہ میری امت کے حالات بھی ویسے ہی ہوں گے جیسے بنی اسرائیل کے حالات تھے حتی کہ اگر ان کا کوئ فرد کسی وادی میں داخل ہوا ہے تو اس امت سے بھی ایک فرد اس وادی میں داخل ہوگا۔ آنحضرتؐ کا یہ قول شیعہ سنی دونوں کی مستند کتابوں میں منقول ہے اور دونوں اس کے قائل ہیں۔ جناب موسیٰؑ کی داستان میں ہم پڑھتے ہیں کہ جب جناب موسیٰؑ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو آپ کی اہلیہ سفرا نے ان کے وصی سے جنگ کی۔ یہی حال ہم نے جنگ جمل میں دیکھا، جب رسولؐ کی ایک زوجہ ان کے خلیفہٴ برحق اور وصی حضرت علیؑ سے جنگ کرنے کے لیے ایک بڑا لشکر لیکر پہونچ گئیں۔ اگر جناب موسیٰ اس عورت سے شادی نہ کرتے تو حضور بھی اس سے شادی نہ کرتے۔اسی طرح اعلان غدیر کو فراموش کر کے سقیفائی سامریوں کا مسلمانوں کو جانشینِ رسولؐ اللہ سے منحرف کردینا ایسا ہی ہے، جیسے سامری کا جناب موسیٰؑ کی غیر موجود گی میں بنی اسرائیل کو فریب دینا ہے کہ وہ ان کے خلیفہ جناب ہارونؑ سے منحرف ہو جائیں۔ اگر جناب موسیٰ سامری کو اپنے قریب نہ آنے دیتے اور اس کو بنی اسرائیل سے نکال باہر کرتے تو پیغمبرؐ اسلام بھی اپنی قوم کے سامریوں کو قریب نہ آنے دیتے۔
۳۔ تیسری بات جو اس شبہ کے جواب میں کہی جا سکتی ہے وہ یہ کہ پیغمبر اسلامﷺ کو لوگوں کے ظاہر پر اعتبار کرنے کا حکم تھا۔ یعنی اگر کوئ منافق ان کے سامنے آکر اپنے کو صاحب ایمان ظاہر کرتا تو ان کے لیے ضروری تھا کہ وہ اس کو مومن شمار کرلیں اور اس کی حقیقت کو پوشیدہ رکھیں۔ اس کی دلیل قرآن کی متعدد آیات ہیں جن میں سورہ منافقون کی ابتدائی آیت بھی ہے۔ اس کے علاوہ آپؐ نے کئ مرتبہ منافقین کے نام اپنے قابل اعتماد اصحاب کو بتاے مگر ان کو حکم دیا کہ کسی اور پر ظاہر نہ کریں۔ سنت الٰہی اور سنت رسولؐ یہی رہی ہے کہ وہ سب کچھ جاننے کے بعد بھی ظاہر کو قبول کرتے اور منافق کو اپنی بزم میں آنے دیتے تھے یہ الگ بات ہے کہ جب نبی کو حد درجہ اذیت ہوتی ہے تو اسے باہر بھی نکال دیتے ہیں۔
۴۔ شیطان ایک جن ہے۔ اس نے سالہا سال زمین پر اللہ کی عبادت اس شدت سے کی کہ اس کو آسمانوں پر اٹھالیا گیا اور ملائکہ کی بزم میں جگہ دی گئ۔ پھر جب جناب آدمؐ کو زمین پر اللہ کی خلافت ودیعت کی گئ اور تمام اہل آسمان کو جناب آدمؑ کو سجدہ کرنے کا حکم ہوا تو تمام ملائکہ نے سجدہ کیا مگر شیطان نے انکار کردیا۔ اس نے اپنی اکڑ ظاہر کی اور خدا سے لڑ پڑا یہاں تک کہ اسے جنت سے نکل جانے کا فرمان جاری کیا گیا۔ اس پر اس نے اپنی بدبختی کا اظہار کیا اور آدمؑ سے بدلہ لینے کے لیےان کی اولاد کو گمراہ کرنے کی اجازت مانگی۔ اس راہ میں جو کچھ اختیارات اس کو چاہیے تھے، سارے مل گئے۔ ان تمام باتوں کا علم اللہ کوجو عالم الغیب و الشہادة ہے،ازل سے تھا کہ شیطان یہ سب کرے گا اور اس کے بندوں کی گمراہی کا سبب بنے گا۔ شیطان کی خلقت سے پہلے خدا اس بات کو جانتا تھا کہ اس ملعون کے فریب میں آکر لاتعداد انسان جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ سوال یہ ہے کہ جب خدا کو ان تمام باتوں کا علم پہلے سے تھا تو پھر کیوں اس نے شیطان کو ملائکہ کی بزم میں شامل ہونے دیا۔ دوسرے لفظوں میں کیوں اللہ نے اسے اپنی قربت کا موقع فراہم کیا؟ جب خدا کے علم میں تھا کہ شیطان ایک دن بغاوت کر بیٹھے گا تو اس کو اپنی جنت میں کیوں داخل کیا؟ جب خدا جانتا تھا کہ شیطان بنی آدم کا دشمن بن کر ان کو صراط مستقیم سے بھٹکائے گا تو کیوں اس کو اتنے اختیارات دیے گئے؟ ان تمام سوالات کا جو جواب ہے وہی اس سوال کا جواب بھی ہے کہ جب رسولؐ اللہ جانتے تھے کہ یہ لوگ ان کی امت کو گمراہ کریں گے تو پھر ان کو اس قدر قریب کیوں آنےدیا؟ یقینًا اس سوال کا جواب یہی ہے کہ خدا اس امت کا امتحان لینا چاہتا ہے کہ پتہ چلے کون حقیقی معنوں میں رسولؐ کی پیروی کرتا ہے اور کون اس سے بھٹک جاتا ہے جو آج بھی مسلمانوں کو یہ قرآنی و تاریخی حقائق پر غور کرنے کی دعوت فکر دیتے ہیں۔
Load/Hide Comments