اہل بیت (؊) کی امامت و ولایت کا تذکرہ تمام علمائے اسلام نے اپنی معتبر کتابوں میں کیا ہے ان کے فضائل و مناقب کے بارے میں مستقل کتابیں تحریر فرمائی ہیں ہمارے علماء رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے اس موضوع پر بہت ہی جامع کتابیں تحریر فرمائی ہیں اور ایسی مستحکم دلیلیں پیش کی ہیں جن کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے حقیقت اور انصاف پسند ان دلیلوں کو پڑھ کر سن کر ولایت و امامت اہل بیت (؊)سے وابستہ ہو گئے ان کے مخالفین سے بری الذّمہ ہو گئے۔کچھ لوگ ان دلیلوں کا جواب تو نہیں دے سکے مگر دنیوی مجبوریاں قبول حق کے راستے میں حائل ہو گئیں۔
(۱)یہ ایک حقیقت ہے کہ اہل بیت (؊) کو سب سے بہتر خود اہل بیت (؊) جانتے ہیں ان سے زیادہ کسی کو ان کی معرفت نہیں ہے۔ اس بناء پر اہل بیت (؊) کو خود ان کی روایتوں میں دیکھنا اور پہچاننا چاہئے۔
(۲)تاریخ گواہ ہے حضرت رسول خدا (ﷺ) کے بعد اہل بیت (؊) کو پوری طرح آزاد زندگی بسر کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اہل بیت (؊) کی زندگی کا زیادہ تر حصّہ ظالم حکومتوں کی پابندیوں اور نگرانی میں گذرا۔ جس بناء پر حقائق کو بیان کرنے کی آزادی فراہم نہیں تھی۔
(۳)اہل بیت (؊) کی مخالفت کی بنیادی وجہ ان کی امامت و ولایت کا عقیدہ تھا۔ ورنہ ان کے کردار اور اخلاق سے کسی کو کوئی شکایت نہیں تھی۔حکومتوں کو ہمیشہ یہ خوف ستاتا رہا کہ اگر اہل بیت (؊) کی امامت و ولایت باقاعدہ لوگوں کی نظروں میں واضح ہو گئی تو ہمارا کیا ہو گا۔ ان صاحبان فضیلت کے مقابلے میں ان ظالموں اور ستمگروں کو کون پوچھے گا۔
(۴)اس بناء پر یہ بات کیونکر ممکن ہے کہ اہل بیت (؊) کھل کر امامت کے موضوع پر لوگوں سے گفتگو کر سکتے تھے۔اور جن لوگوں سے بیان بھی کرتے تھے وہ اس ماحول میں کیونکر دوسروں سے آزادی سے بیان کر سکتے تھے۔ان حالات میں امامت اور ولایت کے تعلق سے تمام روایتوں کے صحیح السند کی توقع رکھنا بہت زیادہ معقول نہیں ہے۔ پھر بھی ہر باب میں اتنی روایتیں ہیں کہ ان کے مضامین کو صحیح و معتبر قرار دیا جا سکتا ہے۔
(۵)ان پابندیوں کے علاوہ ایک بات غالی افراد کی موجودگی بھی ہے اس زمانہ میں ایسے لوگ بھی تھے جو اہل بیت(؊) کی شان میں غلو کرتے تھے۔ان کو رسول اور خدا کا درجہ دیتے تھے اہل بیت (؊) نے ان حضرات کی بہت زیادہ مذمت کی ہے اس ماحول میں اگر اہل بیت (؊) بہت زیادہ کھل کر اہل بیت (؊) کی شان ومنزلت بیان فرماتے تو ان لوگوں کو اور زیادہ مواقع مل جاتے۔ اس بناء پر اہل بیت (؊) نے احتیاط سے حدیثیں بیان فرمائی ہیں۔
(۶)اس کے علاوہ لوگوں میں اتنی ظرفیت بھی نہیں تھی کہ وہ اہل بیت (؊) کے تمام فضائل و کمالات کو قبول کر سکیں۔ حضرت رسول خدا (ﷺکی) ایک روایت ہے۔ جس میں آنحضرت (ﷺ)نے فرمایا۔’’یاعلی ؑاگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ لوگ تمہارے بارے میں وہی باتیں کہنے لگیں گے جو حضرت عیسیٰ ؈ کے بارے میں کہتے ہیں تو میں تمہارے وہ فضائل بیان کرتا لوگ تمہاری خاک قدم کو سرمہ بنا کر استعمال کرتے۔‘‘
(۷)اس مضمون کی روایتیں بھی اہل بیت (؊) سے نقل ہوئی ہیں۔ ’’امرنا صعب و مستصعب‘‘،ہمارا امر سخت ہے اور سختی طلب ہے اس کو صرف نبی مرسل یا ملک مقرب یا وہ مومن جس کے دل کا امتحان ایمان سے خدا نے لیا ہو بس وہ قبول کر سکتا ہے اور اس کا متحمل ہو سکتا ہے۔
(۸)اس وقت جو حدیثیں کتابوں میں موجود ہیں یہ وہ تمام حدیثیں نہیں ہیں جو ائمہ (؊) نے بیان فرمائی ہیں ہمارے بہت سے علماء کے کتب خانہ جلا دئے گئے جن میں بہت زیادہ خطی اور نایاب کتابیں تھیں ان احادیث کا ایک اچھا خاصا سرمایہ دشمنوں اور حاسدین کی دشمنی اور حسد کا نذر ہو گیا وہ ۴۰۰کتابیں جن کو ’’اصول اربع مائۃ‘‘کہا جاتا ہے جو راویان حدیث کی لکھی ہوئی تھیں ان میں سب کتابیں اس وقت موجود نہیں ہیں۔ ان حالات میںاس قدر حدیثوں کا محفوظ رہ جانا خدا کی عنایت اور کرم کی بناء پر ہے۔ اہل بیت (؊) کی حقانیت اور مظلومیت کی دلیل ہے۔
(۹)اگر کچھ صاحبان علم و تحقیق ان حدیثوں پر باقاعدہ کام کریں تحقیق کریں جو اہل بیت (؊ )کے فضائل و مناقب سے متعلق ہیں حدیثوں کو مقرر کردہ معیار پر پرکھیں اور ان میں بیان کردہ مطالب پر غوروفکر کریں موشگافیاں کریں تو ایک اہم خدمت ہو گی۔اور جب اہل بیت (؊)کی واقعی شان و شوکت کسی حد تک واضح ہو جائے گی تو اہل بیت (؊) کے تعلق سے بہت سے سوالات خود بخود حل ہو جائیں گے اور یہ برابری و ہمسری و قرب و منزلت کے مسائل بھی آسان ہو جائیں گے اس وقت واضح ہو گا سارے عالم کے تمام علماء متقی پرہیزگار با اخلاق اور اپنے تمام فضائل و کمالات کے ساتھ بھی اہل بیت (؊) کے ایک ناخن یا بال کے برابر بھی نہیں ہو سکتے ہیں۔
(۱۰)اصول کافی کتاب الحجۃ میں اہل بیت (؊) کے علم کے بارے میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں ان کی ایک اجمالی تصویر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے خدا کرے یہ ناقابل اور نہایت حقیر کوشش خاندان رسالت و امامت میں قبول ہو جائے۔ امیدہے کہ کریم کی بارگاہ میں ایک لئیم کی کوشش رَد نہیں ہو گی۔دعائے افتتاح میں ہے۔’’فَلَمْ اَرٰی مَوْلاًکَرِیْمًا اَصْبِرُ عَلٰی عَبْدٍ لَئِیْمٍ مِنْک‘‘اہل بیت (؊) اس خداوندکریم کے نمائندہ ہیں۔
خداوند عالم نے تمام انبیاء و مرسلین کو اپنے خزانہ علم سے خاص علم مرحمت فرمایا ہے۔ کسی بھی الٰہی نمائندہ نے انسانوں سے تعلیم حاصل نہیں کی ہے سب کو خدا نے اپنا علم عطا فرمایا ہے۔ ملاحظہ ہو
جناب آدمؑ:
خداوندعالم نے لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے جناب آدم (؈) کو اس زمین پر اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا تو ان کو علم کے ذریعہ تمام ملائکہ پر برتری دی اور جب ملائکہ نے یہ اعتراض کیا کہ ’’تو زمین میں اس کو اپنا خلیفہ اور نمائندہ قرار دے گا جو خونریزی اور فساد برپا کرے گا‘‘ خدا نے اس اعتراض کے جواب میں یہ نہیں فرمایا کہ وہ خوں ریزی نہیں کریں گے بلکہ جواب میں فرمایا۔
وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ کُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَہُمْ عَلَى الْمَلَائِکَۃِ فَقَالَ أَنبِئُونِي بِأَسْمَاءِ ہَٰؤُلَاءِ إِن کُنتُمْ صَادِقِينَ ۔ قَالُوا سُبْحَانَکَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ۖ إِنَّکَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَکِيمُ ۔قَالَ يَا آدَمُ أَنبِئْہُم بِأَسْمَائِہِمْ ۖ فَلَمَّا أَنبَأَہُم بِأَسْمَائِہِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّکُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا کُنتُمْ تَکْتُمُونَ۔{ FR 952 }
’’اور جناب آدمؑ کو تمام اسماء تعلیم دئے پھر ان کو ملائکہ کے سامنے پیش کیا اور کہا اگر تم سچے ہو تو ان کے نام بتا دو۔اس پر ملائکہ نے کہا خدایا تو پاک و پاکیزہ ہے ہم تو بس اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تو نے سکھایا ہے تو علم و حکمت والا ہے۔‘‘
پھر آدمؑ سے کہا تم ان لوگوں کو ان کے نام بتا دو جب آدمؑ نے ان کے نام بتا دئے خدا نے کہا۔ کیا میں نے نہیں کہا تھا آسمانوں اور زمین کا غیب میں جانتا ہوں اور وہ تمام باتیں جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو یا چھپاتے ہو۔‘‘
اس طرح خداوندعالم نے ملائکہ پر جناب آدمؑ کی علمی برتری کو خلافت کا معیار قرار دیا۔یعنی صرف وہی خدا کی نمائندگی کر سکتا ہے جو علم میں نمایاں ہو اس آیت میںخداوندعالم نے ’’الاسماء‘‘ کے ساتھ ’’کلھا‘‘کا ذکر کرکے یہ بھی واضح کر دیا کہ تمام اسماء کا علم دیا گیا تھا یعنی یہ علمی برتری تمام علوم کی بناء پر تھی۔
جناب خضرؑ:
قرآن کریم کی دیگر آیتوں میں انبیاء (؊) کے علم کا تذکرہ کیا گیا ہے جناب خضرؑ سے جب جناب موسیٰ ؈ کی ملاقات ہوئی اس کا تذکرہ قرآن کریم نے اس طرح فرمایا ہے۔
فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاہُ رَحْمَۃً مِّنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَاہُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا ۔ { FR 953 }
’’وہاں اِنھیں ہمارے بندوں میں ایک بندہ ملا۔جس کو ہم نے اپنی طرف سے رحمت عطا کی تھی اور اپنی طرف سے اس کو علم عطا کیا تھا۔‘‘
اس آیت میں خداوندعالم نے جناب خضر (؈) کے علم کا تذکرہ کیا ہے۔اس علم کی بناء پر جناب موسیٰ (؈) جیسے اولوالعزم نبی ان سے ملاقات کرنے تشریف لے گئے تھے۔
جناب یوسفؑ:
جناب یوسف (؈) کے بارے میں ہے۔
وَکَذَٰلِکَ يَجْتَبِيکَ رَبُّکَ وَيُعَلِّمُکَ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ……{ FR 954 }
’’(جناب یعقوبؑ نے یوسفؑ سے کہا)اس طرح خدا نے تم کو منتخب کیا ہے اور تم کو خواب کی تعبیر کا علم دیا ہے۔‘‘
یہاں بھی علم کی بات ہے۔
جناب عیسیٰؑ:
جناب عیسیٰ (؈) کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے۔
إِذْ قَالَ اللہُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْکُرْ نِعْمَتِي عَلَيْکَ وَعَلَىٰ وَالِدَتِکَ إِذْ أَيَّدتُّکَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُکَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَہْدِ وَکَہْلًا ۖ وَإِذْ عَلَّمْتُکَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَالتَّوْرَاۃَ وَالْإِنجِيلَ ……{ FR 955 }
’’جب خدا نے فرمایا۔اے عیسیٰؑ بن مریم خود پر اور اپنی والدہ پر میری نعمتوں کو یاد کرو جب میں نے روحُ القدس کے ذریعہ تمہاری مدد کی تم گہوارہ میں اور سن رسیدہ ہونے پر لوگوں سے گفتگوکرتے تھے۔ اور جب ہم نے تم کو کتاب و حکمت اور توریت و انجیل کا علم عطا کیا۔‘‘
یہاں بھی تعلیم کتاب اور حکمت کی گفتگو ہے۔
جناب داؤدؑ:
جب جناب طالوت (دائود)کو حکمران قرار دیا اس وقت لوگوں نے یہ اعتراض کیا وہ کیونکر بادشاہ اور حکمراں ہو سکتے ہیں جب کہ ان کے پاس کوئی زیادہ مال ودولت نہیں ہے تو اس کے جواب میں نبی نے فرمایا!
قَالَ إِنَّ اللہَ اصْطَفَاہُ عَلَيْکُمْ وَزَادَہُ بَسْطَۃً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ{ FR 956 }
’’خدا نے ان کو تمہارے لئے منتخب کیا ہے اور ان کو علم اور جسم میں بڑی وسعت عطا کی ہے۔‘‘
یہاں بھی خداوندعالم نے انتخاب کا معیار وسیع علم اور شجاعت کو قرار دیاہے اور جب جناب دائود نے جالوت کو قتل کر دیا اور ان کو نمایاں فتح ملی تو اس کی وجہ بھی قرآن نے علم قرار دیا۔
فَہَزَمُوہُم بِإِذْنِ اللَّہِ وَقَتَلَ دَاوُودُ جَالُوتَ وَآتَاہُ اللہُ الْمُلْکَ وَالْحِکْمَۃَ وَعَلَّمَہُ مِمَّا يَشَاءُ………{ FR 957 }
’’اور دائودؑ نے جالوت کو خدا کی اجازت اور مدد سے قتل کر دیا اور خدا نے ان کوبادشاہت و حکمت عطا کی اور جو چاہا ان کو تعلیم دیا۔‘‘
علم ہی انتخاب کا سبب ہے اور علم ہی نصرت و کامیابی کا سبب ہے۔
حضرت ختمی مرتبتؐ:
خداوندعالم نے سردار انبیاء اشرف مرسلین حضرت محمد مصطفی (ﷺ)کے بارے میں فرمایا۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر مختلف انداز سے حضرت محمد مصطفی (ﷺ)کے علم کا تذکرہ ہے۔ہم یہاں صرف دو آیتوں کا تذکرہ کرتے ہیں سورۂ نساء کی آیت ۱۱۳؍میں ارشاد خداوندی ہے۔
……وَأَنزَلَ اللَّہُ عَلَيْکَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُن تَعْلَمُ ۚ وَکَانَ فَضْلُ اللَّہِ عَلَيْکَ عَظِيمًا ۔
’’اور خدا نے آپ پر کتاب و حکمت نازل کی اور آپ کو ان باتوں کی تعلیم دی جو آپ نہیں جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا فضل عظیم ہے۔‘‘
سورۂ نجم کی ۳؍۴؍اور ۵؍میں ارشاد ہوتا ہے۔
وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْہَوَىٰ۔ إِنْ ہُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ۔ عَلَّمَہُ شَدِيدُ الْقُوَىٰ ۔
’’وہ اپنی خواہش نفس سے کچھ کلام نہیں کرتے ہیں وہ تو بس وہی کہتے ہیں جو ان پر وحی ہوتی ہے ان کو بہت طاقتور نے تعلیم دی ہے۔‘‘
ان چند آیتوں پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انبیاء (؊) کی برتری کی ایک اہم وجہ ان کا ’’علم‘‘ہے۔ ان تمام آیتوں میں اس حقیقت کو بھی باقاعدہ واضح کیا گیا ہے کہ خداوندعالم نے انبیاء (؊) کو تعلیم دی ہے کسی بھی ایک نبی کو کسی بشر نے تعلیم نہیں دی ہے۔ان کا معلم صرف خدا ہے اور خدا کے نمائندہ۔ ان کے علاوہ انبیاء (؊) نے کسی ایک سے ذرہ برابر تعلیم حاصل نہیں کی ہے۔ اس بناء پر انبیاء (؊) زندگی کے کسی بھی مسئلہ اور مرحلہ میں کسی ایک کے بھی محتاج نہیں ہیں زندگی کے تمام مسائل ان کے لئے واضح اور روشن ہیں۔
ائمہ معصومین (؊) کا علم:
ائمہ اہل بیت (؊) تمام انبیاء (؊) کے وارث اور جانشین ہیں حضرت رسول خدا (ﷺ) کے علاوہ سب سے افضل و برتر ہیں اب اس حدیث پر غور فرمائں۔
قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ ع يَمُصُّونَ الثِّمَادَ وَ يَدَعُونَ النَّہَرَ الْعَظِيمَ قِيلَ لَہُ وَ مَا النَّہَرُ الْعَظِيمُ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ ص وَ الْعِلْمُ الَّذِي أَعْطَاہُ اللَّہُ إِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَ جَلَّ جَمَعَ لِمُحَمَّدٍ ص سُنَنَ النَّبِيِّينَ مِنْ آدَمَ وَ ہَلُمَّ جَرّاً إِلَى مُحَمَّدٍ ص قِيلَ لَہُ وَ مَا تِلْکَ السُّنَنُ قَالَ عِلْمُ النَّبِيِّينَ بِأَسْرِہِ وَ إِنَّ رَسُولَ اللَّہِ ص صَيَّرَ ذَلِکَ کُلَّہُ عِنْدَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ع-فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّہِ- فَأَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ أَعْلَمُ أَمْ بَعْضُ النَّبِيِّينَ فَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ ع اسْمَعُوا مَا يَقُولُ إِنَّ اللَّہَ يَفْتَحُ مَسَامِعَ مَنْ يَشَاءُ إِنِّي حَدَّثْتُہُ أَنَّ اللَّہَ جَمَعَ لِمُحَمَّدٍ ص عِلْمَ النَّبِيِّينَ وَ أَنَّہُ جَمَعَ ذَلِکَ کُلَّہُ عِنْدَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ع وَ ہُوَ يَسْأَلُنِي أَ ہُوَ أَعْلَمُ أَمْ بَعْضُ النَّبِيِّينَ.{ FR 958 }
حضرت امام محمد باقر (؈) نے فرمایا۔لوگ قلیل پانی کو چاٹ رہے ہیں اور نہر عظیم سے منھ موڑے ہوئے ہیں۔دریافت کیا گیا۔یہ نہر عظیم کیا ہے؟فرمایا!رسول اللہ (ﷺ)اور وہ علم جو خدا نے ان کو عطا فرمایا۔ یقینا خداندعالم نے جناب آدم سے حضرت محمد مصطفی (ﷺ)تک تمام انبیاء کی سنتیں حضرت محمد (ﷺ)میں جمع کر دی ہیں۔ دریافت کیا گیا۔ یہ سنتیں کیا ہیں؟ فرمایا ۔ انبیاء (؊) کے تمام علوم اور یقینا حضرت رسول اللہ( ﷺ)نے سب کا سب علم امیرالمومنین(؈) کے حوالہ کر دیا ہے۔
اس وقت ایک شخص نے یہ سوال کیا۔ اے فرزند رسولؐ کیا امیرالمومنینؑ زیادہ علم رکھتے ہیں یا بعض انبیاء؟
’’حضرت امام محمد باقر( ؈) نے فرمایا۔ سنو یہ کیا کہہ رہا ہے۔ خداوندعالم جس کے کان چاہتا ہے کھول دیتا ہے۔میں نے یہ بیان کیا خداوندعالم نے تمام انبیاء کے علوم حضرت محمد (ﷺ) میں جمع کر دئے ہیں اور انھوں نے یہ سب کچھ امیرالمومنین(؈) کو دے دیا ہے۔اور یہ مجھ سے یہ سوال کرتا ہے وہ زیادہ جانتے ہیں کہ بعض انبیاء۔‘‘
اس حدیث کے بعد اس شخص نے سوال کیا امیرالمومنین(؈) اعلم و افضل ہیں یا بعض انبیاء۔ امام(؈) نے تعجب فرماتے ہوئے جواب ارسال فرمایا۔ جب تمام انبیاء (؊) کے تمام علوم حضرت علی( ؈) کے پاس ہیں تو بعض انبیاء (؊) کیونکر افضل و اعلم ہو سکتے ہیں۔
جناب ابو بصیر ؒنے حضرت امام جعفر صادق (؈) سے یہ روایت نقل فرمائی ہے:
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّہِ ع قَالَ: قَالَ لِي يَا أَبَا مُحَمَّدٍ إِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَ جَلَّ لَمْ يُعْطِ الْأَنْبِيَاءَ شَيْئاً إِلَّا وَ قَدْ أَعْطَاہُ مُحَمَّداً ص قَالَ وَ قَدْ أَعْطَى مُحَمَّداً جَمِيعَ مَا أَعْطَى الْأَنْبِيَاءَ وَ عِنْدَنَا الصُّحُفُ الَّتِي قَالَ اللَّہُ عَزَّ وَ جَلَّ- ’’صُحُفِ إِبْراہِيمَ وَ مُوسى‘‘ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاکَ ہِيَ الْأَلْوَاحُ :قَالَ نَعَمْ.{ FR 959 }
حضرت امام جعفر صادق (؈) نے فرمایا۔ اے ابو محمد خداوندعالم نے انبیاء (؊) کو کوئی ایسی چیز عطا نہیں فرمائی جو محمد ﷺکو عطا نہ فرمائی ہو حضرت محمد ﷺکو وہ تمام چیزیں عطا فرمائی جو انبیاء (؊) کو عطا فرمائی ہیں۔ ہمارے پاس وہ صحیفہ ہیں جن کا ذکر خداوندعالم نے فرمایا ہے صحف ابراھیم وموسیٰ‘‘
میں نے دریافت کیا۔ کیا وہ الواح یعنی تختیاں ہیں …؟
فرمایاہاں۔‘‘
ایک روایت حضرت امام موسیٰ کاظم (؈) سے ہے روایت ذرا طولانی لہٰذا اس کے ترجمہ پر اکتفا کرتے ہیں۔یہ روایت اصول کافی جلد اوّل صفحہ ۲۲۶ میں ہے اور یہ ساتویں روایت ہے۔
راوی نے حضرت امام موسیٰ کاظم (؈) سے دریافت کیا۔
آپ مجھے حضرت نبی اکرم (ﷺ)کے علم کے بارے میں بتائیں کیا وہ تمام انبیاء کے وارث ہیں؟
فرمایا۔ہاں
دریافت کیا۔ جناب آدم سے اپنی ذات تک (یعنی تمام انبیاء کے وارث ہیں)؟
فرمایا! خداوندعالم نے کسی نبی کو مبعوث نہیں کیا مگر یہ کہ محمد (ﷺ)ان سب سے اعلم ہیں۔
عرض کیا۔جناب عیسیٰ بن مریم خدا کے اذن سے مردوں کو زندہ کرتے تھے۔
فرمایا۔سچ کہا جناب سلیمان بن دائود پرندوں کی گفتگو سمجھتے تھے۔
حضرت رسول خدا (ﷺ)ان سب پر قدرت رکھتے تھے۔
پھر فرمایا۔جناب سلیمان بن دائود نے جب ہدہد کو نہیں دیکھا اور اس کے بارے میں شک ہوا تو فرمایا۔’’میں ہدہد کو نہیں دیکھ رہاہوں کیا وہ غیر حاضروں میں ہے۔تو اس پر ناراض ہوئے اور فرمایا۔’’میں اس کو سخت ترین سزا دونگا یا اس کو ذبح کر دوں گا یا کوئی واضح خبر لے کر آئے۔وہ اس بناء پر ناراض ہوئے کہ وہ پانی کی نشاندہی کرتا تھا۔یہ ایک پرندہ ہے خدا نے اس کو وہ علم عطا کیا جو سلیمان کے پاس نہیں تھا جب کہ ہوا، چیونٹی، انسان، جنات، شیاطین اور سرکش سب آپ کے مطیع و فرنبردار تھے لیکن ان کو ہوا کے نیچے پانی کا علم نہیں تھا لیکن اس پرندہ کو اس کا علم تھااور خداوندعالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔
وَلَوْ أَنَّ قُرْآنًا سُيِّرَتْ بِہِ الْجِبَالُ أَوْ قُطِّعَتْ بِہِ الْأَرْضُ أَوْ کُلِّمَ بِہِ الْمَوْتَىٰ { FR 960 }
’’اگر قرآن کے ذریعہ پہاڑوں کو چلایا جا سکتا ہے زمین کی مسافت طے کی جا سکتی ہے یااس کے ذریعہ مردوں سے گفتگو ہو سکتی ہے۔‘‘
ہم اس قرآن کے وارث ہیں جس کے ذریعہ پہاڑوں کو چلایا جا سکتا ہے شہروں کی مسافت کو طے کیا جا سکتا ہے اور مردوں کو زندہ کیا جا سکتا ہے۔
اور ہم جانتے ہیں ہوا کے نیچے پانی کہاں ہے۔خدا کی کتاب میں آیتیں ہیں جب ان سے کوئی چیز مراد لی جاتی ہے تو خدا اس کو اجازت دے دیتا ہے جس طرح گذشتہ لوگوں کو اجازت دی تھی۔
خداوندعالم نے ہمارے لئے ’’ام الکتاب‘‘قرار دیا ہے خداوندعالم فرماتاہے۔
وَمَا مِنْ غَائِبَۃٍ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِلَّا فِي کِتَابٍ مُّبِينٍ { FR 961 }
’’آسمان اور زمین میں کوئی پوشیدہ چیز نہیں ہے مگر وہ کتاب مبین میں ہے‘‘
اور یہ بھی فرماتا ہے
ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْکِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا…… { FR 962 }
’’ہم نے ان لوگوں کو کتاب کا وارث قرار دیا جن بندوں کو ہم نے منتخب کر لیا ہے)۔ہم ہی وہ لوگ جن کو خداوندعالم نے منتخب کیا ہے اور ہمیں اس کتاب کا وارث قرار دیا ہے جس میں ہر چیز کا بیان ہے۔
اس طرح ہمارے ائمہ (؊) کے پاس تمام انبیاء (؊) کے تمام علوم ہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی ہیں، ائمہ (؊) کے علوم کا خزانہ انبیاء (؊) سے زیادہ ہے۔
جناب ابو بصیر ؒحضرت امام جعفر صادق (؈) کی خدمت میں شرفیاب تھے حضرت امام جعفر صادق (؈) نے فرمایا!
إِنَّ دَاؤُدَ وَرِثَ الْأَنْبِيَاءَ وَ إِنَّ سُلَيْمَانَ وَرِثَ دَاوُدَ وَ إِنَّ مُحَمَّداً وَرِثَ سُلَيْمَانَ وَ مَا ہُنَاکَ وَ إِنَّا وَرِثْنَا مُحَمَّداً وَ إِنَّ عِنْدَنَا صُحُفَ إِبْرَاہِيمَ وَ أَلْوَاحَ مُوسَى فَقَالَ لَہُ أَبُو بَصِيرٍ إِنَّ ہَذَا لَہُوَ الْعِلْمُ فَقَالَ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ لَيْسَ ہَذَا ہُوَ الْعِلْمَ إِنَّمَا ہَذَا الْأَثَرُ إِنَّمَا الْعِلْمُ مَا حَدَثَ بِاللَّيْلِ وَ النَّہَارِ يَوْماً بِيَوْمٍ وَ سَاعَۃً بِسَاعَۃٍ۔{ FR 963 }
جناب داؤد علوم انبیاء کے وارث ہوئے جناب سلیمان داؤد کے وارث ہوئے حضرت رسول اللہ (ﷺ)کو جناب سلیمان کی میراث ملی اور ہم محمد (ﷺ)کے وارث ہیں اور ہمارے پاس جناب ابراہیم کے صحیفہ اور جناب موسیٰ کی الواح ہیں۔
اس وقت ابو بصیرؒ نے کہا۔ واقعاً یہ علم ہے۔
امامؑ نے فرمایا۔ اے ابو محمد! یہ مکمل علم نہیں ہے۔ علم تو وہ ہے جو ہر دن و رات روز بروز اور لمحہ بہ لمحہ دیا جاتاہے۔
اس روایت سے واضح ہوتا ہے کہ خداوندعالم نے ہمارے ائمہ (؊) کو ان تمام علوم کے علاوہ جو تمام انبیاء (؊) کو عطا فرمائے ہیں، کچھ اور علوم عطا فرمائے ہیں اور یہ علوم خداوندعالم ہر دن رات روز بروز اور لمحہ بہ لمحہ ائمہ (؊) کو عطا فرماتا رہتا ہے۔ ہے کوئی جو ائمہ (؊) کے علوم کا اندازہ کر سکے۔ اور ہے کسی میں یہ جرأت و مجال جو کسی کی ائمہ (؊) سے برابری کر سکے۔ نہیں ہرگز نہیں۔
علم قرآن:
انبیاء (؊) کے تمام علوم کے وارث ہونے کے ساتھ ساتھ اہل بیت (؊) تمام قرآن کا علم رکھتے ہیں اور قرآن وہ کتاب ہے جس میں خداوندعالم نے اول و آخر کی تمام باتیں بیان فرما دی ہیں کوئی ایک بات بھی فروگذاشت نہیں کی ہے قرآن کی جامعیت کے سلسلے میں صرف چند آیتیں پیش کرتے ہیں۔
……وَنَزَّلْنَا عَلَيْکَ الْکِتَابَ تِبْيَانًا لِّکُلِّ شَيْءٍ وَہُدًى وَرَحْمَۃً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ { FR 964 }
’’اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی جس میں ہر چیز کا بیان ہے۔ یہ ہدایت ہے رحمت ہے اور بشارت ہے مسلمانوں کیلئے۔
وَعِندَہُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُہَا إِلَّا ہُوَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۚ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَۃٍ إِلَّا يَعْلَمُہَا وَلَا حَبَّۃٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي کِتَابٍ مُّبِينٍ { FR 965 }
اور غیب کی کنجیاں اس کے پاس ہیںاس کے علاوہ کسی اور کو ان کا علم نہیں ہے۔ وہ ان تمام باتوں کو جانتا ہے جو خشکی میں ہے اور تری میں ہیں درخت سے کوئی ایک پتہ نہیں گرتا مگر اسے اس کا علم ہے۔ زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ ایسا نہیں ہے جس کا اسے علم نہ ہو۔کوئی خشک و تر ایسا نہیں ہے مگر وہ کتاب مبین میں ہے۔
……عَالِمِ الْغَيْبِ ۖ لَا يَعْزُبُ عَنْہُ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَلَا أَصْغَرُ مِن ذَٰلِکَ وَلَا أَکْبَرُ إِلَّا فِي کِتَابٍ مُّبِينٍ { FR 966 }
’’وہ غیب کو جانتا ہے آسمانوں اور زمین میں کوئی ایک ذرہ نہیں جس کاوزن اس سے پوشیدہ ہو نہ اس سے چھوٹا اور نہ اس سے بڑا مگر یہ کہ وہ سب کتاب مبین میں ہے۔‘‘
ان چند آیتوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کائنات کے ایک ایک ذرہ کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید میں یہ بھی ہے کہ:۔
اِنَّہُ لَقُرْآنٌ کَرِيمٌ۔ فِي کِتَابٍ مَّکْنُونٍ۔ لَّا يَمَسُّہُ إِلَّا الْمُطَہَّرُونَ۔ تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ۔{ FR 967 }
’’یقینا یہ قرآن کریم ہے ایک پوشیدہ کتاب ہے اس کو مس نہیں کر سکتے ہیں مگر پاک و پاکیزہ افراد یہ رب العالمین کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔‘‘
قرآن کریم میں کائنات کے تمام حقائق اپنی جزئیات کے ساتھ موجود ہیں اور یہ تمام حقائق اس قرآن کریم میں ہیں جو کتاب مکنون ایک پوشیدہ کتاب میں ہیں جن تک صاحبان تطہیر کے علاوہ کسی اور کی رسائی نہیں ہے اس سلسلہ میں چند روایتیں ملاحظہ فرمائیں:۔
عَنْ جَابِرٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ ع يَقُولُ مَا ادَّعَى أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ أَنَّہُ جَمَعَ الْقُرْآنَ کُلَّہُ کَمَا أُنْزِلَ إِلَّا کَذَّابٌ وَ مَا جَمَعَہُ وَ حَفِظَہُ کَمَا نَزَّلَہُ اللَّہُ تَعَالَى إِلَّا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ع وَ الْأَئِمَّۃُ مِنْ بَعْدِہِ ۔{ FR 968 }
جابر ؒکی روایت ہے۔میں نے حضرت امام محمد باقر (؈) کو فرماتے ہوئے سنا۔’’ کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا ہے جس طرح قرآن نازل ہوا ہے اس طرح اس نے پورا جمع کر لیا ہے۔ جو اس طرح کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ہے۔جس طرح خداوندعالم نے نازل کیا اس طرح نہ کسی نے جمع کیا اور نہ اس طرح کسی نے حفاظت کی مگر علی بن ابی طالب (؈) اور ان کے بعد کے ائمہ(؊)۔‘‘
عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ أَنَّہُ قَالَ: مَا يَسْتَطِيعُ أَحَدٌ أَنْ يَدَّعِيَ أَنَّ عِنْدَہُ جَمِيعَ الْقُرْآنِ کُلِّہِ ظَاہِرِہِ وَ بَاطِنِہِ غَيْرُ الْأَوْصِيَاءِ۔ { FR 969 }
’’کسی میں اتنی مجال نہیں کہ وہ یہ دعویٰ کر سکے اس کے پاس مکمل قرآن ہے اس کا ظاہر و باطن۔ مگر اوصیاء۔‘‘
قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّہِ ع يَقُولُ وَ اللَّہِ إِنِّي لَأَعْلَمُ کِتَابَ اللَّہِ مِنْ أَوَّلِہِ إِلَى آخِرِہِ کَأَنَّہُ فِي کَفِّي فِيہِ خَبَرُ السَّمَاءِ وَ خَبَرُ الْأَرْضِ وَ خَبَرُ مَا کَانَ وَ خَبَرُ مَا ہُوَ کَائِنٌ قَالَ اللَّہُ عَزَّ وَ جَلَّ فِيہِ تِبْيَانُ کُلِّ شَيْء۔{ FR 970 }
میں نے حضرت امام جعفر صادق (؈) کو فرماتے ہوئے سنا۔’’ خدا کی قسم میں خدا کی کتاب کو اول سے آخر تک خوب اچھی طرح سے جانتا ہوں۔ اس طرح جانتا ہوں گویا میری ہتھیلی میں ہے۔ اس میں آسمان کی خبریں ہیں زمین کی خبریں ہیں جو کچھ ہو چکا ہے اس کا ذکر ہے اور جو کچھ ہونے والا ہے اس کا تذکرہ ہے۔‘‘خداوندعالم فرماتا۔’’اس میں ہر چیز کا کا بیان ہے۔‘‘
أَبَا عَبْدِ اللہِ ع يَقُولُ إِنِّي لَأَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ وَ أَعْلَمُ مَا فِي الْجَنَّۃِ وَ أَعْلَمُ مَا فِي النَّارِ وَ أَعْلَمُ مَا کَانَ وَ مَا يَکُونُ قَالَ ثُمَّ مَکَثَ ہُنَيْئَۃً فَرَأَى أَنَّ ذَلِکَ کَبُرَ عَلَى مَنْ سَمِعَہُ مِنْہُ فَقَالَ عَلِمْتُ ذَلِکَ مِنْ کِتَابِ اللَّہِ عَزَّ وَ جَلَّ إِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَ جَلَّ يَقُولُ فِيہِ تِبْيَانُ کُلِّ شَيْءٍ۔{ FR 971 }
حضرت امام جعفر صادق (؈) نے اپنے چند اصحاب سے فرمایا:۔
’’میں وہ سب جانتا ہوں جو آسمانوں میں ہے اور وہ سب جانتا ہوں جو زمین میں ہے اور وہ بھی جانتا ہوں جو جنت میں ہے اور وہ بھی سب جانتا ہوں جو جہنم میں ہے اور وہ سب باتیں جانتا ہوں جو گذر چکی ہیں اور وہ تمام باتیں جانتا ہوں جو آئندہ ہونے والی ہیں اس کے بعد امام (؈) کچھ دیر خاموش رہے۔ انھوں نے محسوس کیا یہ بات سامعین پر گراں ہے۔ اس کے بعد فرمایا۔میں نے ان باتوں کا علم خداوندعالم کی کتاب سے حاصل کیا ہے۔خداوندعالم فرماتا ہے۔اس میں ہر ایک چیز کا بیان ہے۔
اس مضمون کی اور بھی روایتیں کتابوں میں موجود ہیں جن سے پوری طرح واضح ہو جاتا ہے کہ اہل بیت (؊) کا علم کس قدر وسیع ہے یہ پوری کائنات اپنی تمام وسعتوں، گہرائیوں، باریکیوں اور عجائبات و غرائبات کے ساتھ ان کے سامنے اس طرح ہے جس طرح ہاتھ کی ہتھیلی۔
اس طرح کی روایتیں ایک دو نہیں ہیں اور ایک دو راویوں سے نہیں ہیں جنہیں روشن فکری کے زعم میں ضعیف قرار دے کر لوگوں کے ذہنوں کو مشکوک کیا جائے۔ اس مضمون کی متعدد روایتیں ہیں۔ اہل بیت (؊) کے پاس کبھی بھی حکومت نہیں رہی ہے اور نہ ان کا مزاج تملق پسند تھا تا کہ یہ کہا جا سکے لوگوں نے حکومت اور حکمرانوں کی تعریف میں اس طرح کی روایتیں بیان کر دی ہیں اس طرح کی باتیں مکتب خلافت و دربار بنی امیہ اور بنی عباس سے تو منسوب کی جا سکتی ہیں اہل بیت عصمت و طہارت سے ہرگز نہیں جن حضرات کو خداوندعالم نے ’’خلق عظیم‘‘کا لقب دیا ہو۔ ان کی شان میں اس طرح کی باتیں وہی کہہ سکتا ہے جسے اہل بیت (؊) کی ذرا بھی معرفت نہیں ہے۔
اعمال پر گواہ
قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے خدا،رسولؐ اور اہل بیت (؊) ہمارے تمام اعمال پر گواہ ہیں۔نہ صرف ہمارے اعمال پر گواہ ہیں بلکہ تمام گذشتہ امتوں پر گواہ ہیں اختصار کے پیش نظر صرف چند آیتوں کو نقل کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
فَکَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن کُلِّ أُمَّۃٍ بِشَہِيدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلَىٰ ہَٰؤُلَاءِ شَہِيدًا { FR 972 }
’’اس وقت کیا ہو گا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور آپ کو ان سب پر گواہ قرار دیں گے۔‘‘
إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْکُمْ رَسُولًا شَاہِدًا عَلَيْکُمْ کَمَا أَرْسَلْنَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ رَسُولًا ۔{ FR 1030 }
’’ہم نے تمہاری طرف ایک رسولؐ بھیجا جو تم پر گواہ ہے جس طرح ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا تھا۔‘‘
وَکَذَٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَسَطًا لِّتَکُونُوا شُہَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَکُونَ الرَّسُولُ عَلَيْکُمْ شَہِيدًا۔{ FR 973 }
’’اور اس طرح ہم نے تم کوامت وسط قرار دیا تا کہ تم لوگوں پر گواہ رہو اور رسول تم پر گواہ رہیں۔‘‘
يَعْتَذِرُونَ إِلَيْکُمْ إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَيْہِمْ ۚ قُل لَّا تَعْتَذِرُوا لَن نُّؤْمِنَ لَکُمْ قَدْ نَبَّأَنَا اللَّہُ مِنْ أَخْبَارِکُمْ ۚ وَسَيَرَى اللَّہُ عَمَلَکُمْ وَرَسُولُہُ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَىٰ عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّہَادَۃِ فَيُنَبِّئُکُم بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ ۔ { FR 974 }
جب آپ مدینہ واپس آئیں گے یہ منافقین آپ کی خدمت میں جنگ میں شرکت نہ کرنے کا عذر پیش کریں گے آپ ان سے فرما دیں تم عذرخواہی مت کرو ہم ہرگز تمہاری باتیں تسلیم کرنے والے نہیں ہیں تمہاری تمام باتیں خدا نے ہم کو بتا دی ہیں۔خدا اس کا رسولؐ تمہارے عمل کو دیکھ رہے ہیں۔’’ پھر تم غیب و شہود کے جاننے والے کی طرف پلٹائے جاؤ گے کہ تم نے جو کچھ انجام دیا ہے اس سے تم کو باخبر کیا جائے گا۔‘‘
وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّہُ عَمَلَکُمْ وَرَسُولُہُ وَالْمُؤْمِنُونَ ۖ وَسَتُرَدُّونَ إِلَىٰ عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّہَادَۃِ فَيُنَبِّئُکُم بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ { FR 975 }
’’آپ فرما دیں عمل کرو تمہارے عمل کو خدا اس کا رسولؐ اور مومنین دیکھیں گے پھر تم کو عالِم غیب و شہادت کی طرف پلٹایا جائے گا اور تم نے جو کچھ انجام دیا ہے اس سے تم کو باخبر کیا جائے گا۔‘‘
ان آیتوں میں اعمال پر گواہی اور اعمال کو دیکھنے کی بات بیان کی گئی ہے یہاں یہ بیان نہیں کیا گیا ہے خدا اور رسولؐ اور مومنین کو تمہارے اعمال کا علم ہے یاخبر ہے بلکہ گواہی اور دیکھنے کی بات بیان کی گئی ہے۔
واقعی اور حقیقی گواہی اس وقت ہوتی ہے جب گواہ اس جگہ پر خود موجود ہو اور ہر ایک بات پر اس کی مکمل نگاہ ہو۔ جس کو اصطلاح میں کہتے ہیں’’چشم دیدگواہ‘‘ورنہ گواہی پہ گواہی کا مطلب یہ ہے کہ گواہ خود اس جگہ موجود نہ تھا جو اس جگہ موجود تھا وہ اس گواہ کی تصدیق کر رہا ہے۔ اس طرح کی گواہی کو براہ راست گواہی نہیں کہتے ہیں۔ قرآن کریم نے ان آیتوں میں گواہوں پر گواہ کی بات نہیں کہی ہے بلکہ خود رسول کو گواہ قرار دیا ہے۔ رسول کی گواہی کو خدا نے اپنی گواہی کے ساتھ ذکر فرمایا ہے۔خدا اور رسول تمہارے عمل کو دیکھ رہے ہیں ایک ہی فعل کا استعمال ہوا ہے یعنی جس طرح خدا کی نگاہیں تمہارے اعمال پر ہیں اور تم اس کی نگاہوں کے سامنے ہو اسی طرح اس کے رسولؐ کی بھی نگاہیں تمہارے اعمال پر ہیں۔
اعمال پر مکمل گواہی اسی صورت میں کامل ہو گی جب اعمال کی ظاہری شکل و صورت کے ساتھ ساتھ عمل کرنے والے کی نیت اور جذبہ پر بھی باقاعدہ نظر ہو۔ کیونکہ دین مقدس اسلام میں’’انما الاعمال بالنیات‘‘اعمال کا سارا دارو مدار نیت پر ہے خلوص اور اخلاص یہ سب غیب ہیں جن پر صرف ان لوگوں کی نگاہ ہو سکتی ہے جو انسان کی نیتوں اور مافی الضمیر سے باخبر ہوں۔
اس طرح کی آیتیں جہاں رسول خدا (ﷺ) اور اہل بیت اطہار( ؊) کے وسیع علم پر دلالت کر رہی ہیں وہیں ان کے ’’عالم الغیب‘‘ہونے پر بھی دلالت کر رہی ہیں کیونکہ خدا کی بارگاہ میں اعمال اسی وقت قبول یارَد ہوں گے جب وہ خلوص یا ریاکاری سے انجام دئے گئے ہوں اب سلسلہ کی چند روایتیں ملاحظہ فرمائیں۔
قَالَ أَبُو عَبْدِ اللهِ (ع) فِی قَوْلِ اللهِ عَزَّ وَ جَلَّ فَکَیْفَ إِذا جِئْنا مِنْ کُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِیدٍ وَ جِئْنا بِکَ عَلی هؤُلاءِ شَهِیداً قَالَ نَزَلَتْ فِی أُمَّةِ مُحَمَّدٍ ص خَاصَّةً فِی کُلِّ قَرْنٍ مِنْهُمْ إِمَامٌ مِنَّا شَاهِدٌ عَلَیْهِمْ وَ مُحَمَّدٌ (ص) شَاهِدٌ عَلَیْنَا۔{ FR 976 }
حضرت امام جعفر صادق ؈ نے قرآن کریم کی اس آیت ’’اس وقت کیا ہو گا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور آپ کو ان سب پر گواہ قرار دیں گے‘‘ فرمایا یہ آیت حضرت محمد ﷺکی امت سے مخصوص ہے ہر زمانہ میں ہمارا ایک امام ان پر گواہ ہے اور محمد ﷺہم پر گواہ ہیں۔
یعنی ہر زمانہ کا امام اپنے زمانہ کی امت کے تمام اعمال پر گواہ ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اور جو شخص جو بھی عمل انجام دے رہا ہے کہیں بھی انجام دے رہا ہے وہ امام زمانہ حضرت حجۃ بن الحسن العسکری ارواحنالہٗ الفداء کی نگاہوں کے سامنے ہے امام وقت اس پر گواہ ہیں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ امام زمانہ (؈) کی گواہی حقائق پر مبنی ہے اس کو کسی بھی صورت میں جھٹلایا نہیں جا سکتا ہے۔
عَنْ بُرَيْدٍ الْعِجْلِيِّ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي جَعْفَرٍ ع قَوْلَ اللَّہِ تَبَارَکَ وَ تَعَالَى- وَ کَذلِکَ جَعَلْناکُمْ أُمَّۃً وَسَطاً لِتَکُونُوا شُہَداءَ عَلَى النَّاسِ وَ يَکُونَ الرَّسُولُ عَلَيْکُمْ شَہِيداً۔{ FR 977 } قَالَ نَحْنُ الْأُمَّۃُ الْوَسَطُ وَ نَحْنُ شُہَدَاءُ اللَّہِ تَبَارَکَ وَ تَعَالَى عَلَى خَلْقِہِ وَ حُجَجُہُ فِي أَرْضِہِ قُلْتُ قَوْلُہُ تَعَالَى يا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْکَعُوا وَ اسْجُدُوا وَ اعْبُدُوا رَبَّکُمْ وَ افْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ وَ جاہِدُوا فِي اللَّہِ حَقَّ جِہادِہِ ہُوَ اجْتَباکُمْ{ FR 978 }۔ قَالَ إِيَّانَا عَنَى وَ نَحْنُ الْمُجْتَبَوْنَ وَ لَمْ يَجْعَلِ اللَّہُ تَبَارَکَ وَ تَعَالَى فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ فَالْحَرَجُ أَشَدُّ مِنَ الضِّيقِ- مِلَّۃَ أَبِيکُمْ إِبْراہِيمَ إِيَّانَا عَنَى خَاصَّۃً وَ سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِينَ اللَّہُ سَمَّانَا الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَبْلُ فِي الْکُتُبِ الَّتِي مَضَتْ وَ فِي ہَذَا الْقُرْآنِ- لِيَکُونَ الرَّسُولُ شَہِيداً عَلَيْکُمْ وَ تَکُونُوا شُہَداءَ عَلَى النَّاسِ فَرَسُولُ اللَّہِ ص الشَّہِيدُ عَلَيْنَا بِمَا بَلَّغَنَا عَنِ اللَّہِ تَبَارَکَ وَ تَعَالَى وَ نَحْنُ الشُّہَدَاءُ عَلَى النَّاسِ فَمَنْ صَدَّقَ يَوْمَ الْقِيَامَۃِ صَدَّقْنَاہُ وَ مَنْ کَذَّبَ کَذَّبْنَاہُ. { FR 979 }
برید العجلی کا بیان ہے۔ میں نے حضرت امام محمد باقر (؈) سے خدا کے اس قول کے’’ اور اس طرح ہم نے تم کو امت وسط قرار دیا تا کہ تم لوگوں پر گواہ رہو اور رسول تم پر گواہ رہیں‘‘بارے میں دریافت کیا۔ امام نے فرمایا! امت وسط ہم ہیں اور ہم خدا کی طرف سے اس کی مخلوق پر گواہ ہیں اور ہم زمین پر اس کی حجت ہیں۔
ان کی خدمت میں خدا کے اس قول کے بارے میں دریافت کیا۔’’اے ایمان لانے والو رکوع کرو سجدہ کرو اور اپنے رب کی عبادت کرو اور نیک کام انجام دو تا کہ تم کامیاب ہو۔ خدا کی راہ میں اس طرح جہاد کرو جو جہاد کرنے کا حق ہے اس نے تم کو منتخب کیا ہے‘‘ فرمایا! اس سے ہم مراد ہیں ہم خدا کے منتخب کردہ ہیں خداوندعالم نے دین میں کوئی ’’حرج‘‘(تنگی)نہیں قرار دی ہے حرج’’ضیق‘‘سے زیادہ شدید ہے(حرج یعنی شدید ترین تنگی اور دباؤ)’’یہ تمہارے باپ ابراھیم کی ملت ہے۔‘‘اس سے خاص طور سے ہم مراد ہیں’’اس نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے۔ خدا نے ہم کو مسلمان اپنے سامنے سراپا تسلیم ہونے والا قرار دیا ہے’’اس سے قبل‘‘گذشتہ کتابوں میں اس قرآن میں بھی تا کہ رسول تم پر گواہ رہیں اور تم لوگوں پر گواہ رہو۔
لہٰذا رسول اللہ( ﷺ)ہم پر گواہ ہیں ان تمام باتوں پر جو انھوں نے خدا کی طرف سے ہم تک پہونچائی ہیں اور ہم لوگوں پر گواہ ہیں۔ تو جو قیامت میں اس کی تصدیق کرے گا ہم اس کی تصدیق کریں گے اور جو اس کی تکذیب کرے گا ہم اس کی تکذیب کریں گے۔
اس مضمون کی ایک روایت حضرت امام جعفر صادق (؈) سے بھی نقل ہوئی ہے۔{ FR 980 }
ان روایتوں سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ائمہ معصومین (؊) خداوندعالم کی طرف سے پوری مخلوقات پر گواہ ہیں یعنی مخلوقات کے تمام اعمال ان کی نگاہوں کے سامنے ہیں۔ پوری مخلوقات کے تمام ظاہری اور باطنی اعمال پر صرف اس کی نگاہ ہو سکتی ہے جس کا علم اور جس کی نگاہ زمان و مکان کی حدود و قیود میں محدود نہ ہو۔ خداوندعالم جس کو زمین اور مخلوقات پر اپنا گواہ اور اپنی حجت قرار دیتا ہے اس کو اس قدر وسیع علم بھی عطا فرماتا ہے۔
ان روایتوں کے علاوہ اور بھی متعدد روایتیں ہیں جن میں قرآنی آیت کی تفسیر بیان فرماتے ہوئے ائمہ معصومین (؊) نے بیان فرمایا ہے۔ ہمارے تمام اعمال ان کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں اس سلسلہ کی صرف چند روایتیں پیش کرتے ہیں۔
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّہِ ع قَالَ سَمِعْتُہُ يَقُولُ مَا لَکُمْ تَسُوءُونَ رَسُولَ اللَّہِ ص فَقَالَ رَجُلٌ کَيْفَ نَسُوؤُہُ فَقَالَ أَ مَا تَعْلَمُونَ أَنَّ أَعْمَالَکُمْ تُعْرَضُ عَلَيْہِ فَإِذَا رَأَى فِيہَا مَعْصِيَۃً سَاءَہُ ذَلِکَ فَلَا تَسُوءُوا رَسُولَ اللَّہِ وَ سُرُّوہُ۔{ FR 981 }
راوی کا بیان ہے میں نے حضرت امام جعفر صادق (؈) کو فرماتے ہوئے سنا کہ فرماتے تھے:۔ تم لوگ رسول خدا (ﷺ)کو کیوں رنجیدہ کرتے ہو؟ ایک شخص نے سوال کیا ہم کس طرح ان کو رنجیدہ کرتے ہیں۔فرمایا:۔ کیا تمہیں نہیں معلوم تمہارے اعمال ان کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں جب وہ اس میں گناہ دیکھتے ہیں تو رنجیدہ ہوتے ہیں لہٰذا ان کو رنجیدہ مت کرو اور ان کو خوش اور مسرور کرو۔
راوی نے سوال شاید اس لحاظ سے کیا ہو کہ اس وقت تو حضرت رسول خدا (ﷺ)دنیا میں نہیں ہیں تو ان کو رنجیدہ کرنے کا کیا سوال……امام (؈) نے جواب میں فرمایا۔ تمہارے اعمال ان کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں یعنی اس وقت آج بھی حضرت رسول خدا (ﷺ)ہمارے تمام اعمال سے پوری طرح باخبر ہیں۔
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَبَانٍ الزَّيَّاتِ وَ کَانَ مَکِيناً عِنْدَ الرِّضَا ع قَالَ: قُلْتُ لِلرِّضَا ع ادْعُ اللَّہَ لِي وَ لِأَہْلِ بَيْتِي فَقَالَ أَ وَ لَسْتُ أَفْعَلُ وَ اللَّہِ إِنَّ أَعْمَالَکُمْ لَتُعْرَضُ عَلَيَّ فِي کُلِّ يَوْمٍ وَ لَيْلَۃٍ قَالَ فَاسْتَعْظَمْتُ ذَلِکَ- فَقَالَ لِي أَ مَا تَقْرَأُ کِتَابَ اللَّہِ عَزَّ وَ جَلَّ- وَ قُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّہُ عَمَلَکُمْ وَ رَسُولُہُ وَ الْمُؤْمِنُونَ قَالَ ہُوَ وَ اللَّہِ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ۔{ FR 982 }
’’عبداللہ بن ابان الزیات کی روایت ہے وہ حضرت امام علی رضا (؈) کی خدمت میں تھے ان کا بیان ہے۔ میں نے حضرت امام رضا (؈) کی خدمت میں عرض کیا۔’’آپ میرے لئے اور گھروالوں کے لئے دعا فرمائیں‘‘۔ امام نے فرمایا۔ کیا میں دعا نہیں کرتا ہوں خدا کی قسم ہر روز صبح و شام تمہارے اعمال ہمارے سامنے پیش کئے جاتے ہیں۔‘‘
مجھے یہ بات کچھ ذرا عجیب سی معلوم ہوئی؟
’’امام نے فرمایا۔ کیا تم نے خدا کی کتاب نہیں پڑھی ہے۔ آپ ان سے کہہ دیجئے عمل کرو تمہارے عمل کو خدا رسولؐ اور مومنین دیکھ رہے ہیں۔ خدا کی قسم اس سے علی بن ابی طالب ؈ مراد ہیں۔‘‘
حضرت علی (؈) کا ذکر خاص طور سے اس لئے فرمایا کہ نزول آیت کے وقت وہ موجو د تھے ورنہ اس سے تمام ائمہ (؊) مراد ہیں۔ روایات میں تمام ائمہ (؊) فضائل و کمالات میں یکساں ہیں البتہ بعض کو بعض پر خصوصیت ضرور حاصل ہے۔