غدیر ، روح رسالت ہے، غدیر توحید و نبوت کا محور ہے، غدیر عبادت وا طاعت پروردگار کی جان ہے، غدیر مسلمان کیا عالم انسانیت کے اتحاد و یکجہتی کیلئے نایاب نسخہ ہے۔ تو پھر ہم منکرین غدیر کو بھلا نظرانداز کیسے کرسکتے ہیں۔ اس پر پردہ ڈالنے والوں کو پردے میں کیسے رہنے دیں ۔ غدیر کی خاطر خداورسول کی خفیہ و علنی مخالفت کرنے والوں کو پہچاننا ضروری ہے اور کب کب کہاں کہاں مخالفت کی ہے اسے بھی جاننا ضروری ہے تاکہ واضح ہوجائے کہ خداورسول سے سچی محبت و اطاعت کرنے والے کون ہیں؟ اور زبانی دعویٰ کرنے والے کون ہیں؟ یوں تو ایسےافراد و ایسے مقامات کی بہت طویل فہرست ہے ،جنھوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر خدا و رسول اور مسلمانوں کے سامنے ایمان کا مظاہرہ کیا مگر نہ جانے کتنی بار نبیٴ رحمت کی مخالفت سے خداورسول کو رنجیدہ کیا ہے اور یہ بات واضح کرتا چلوں کہ ان تمام مخالفتوں کا مقصد صرف اتنا تھا کہ وفاتِ پیغمبر(ﷺ) کے بعد اسلام کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لیں اور اس سے حقیقی وارث کو محروم کردیا جائے۔ خواہ اس مقصد سے نبیٴ رحمت کی مخالفتوں کا زمانہ غدیر سے پہلے رہا ہو یا غدیر کے بعد دونوں مخالفتوں کا مرکزی نکتہ غصبِ خلافت الہٰیہ اور اہلبیت علیہم السلام کو ان کے حقوق سے محروم کردینا ہے۔ ہم اس مقام پر کچھ ایسے واقعات کی نشان دہی کریں گے جسے عزیز قارئین خوب درک کریں گے؛
غدیرسے پہلے
اگر اصحاب پیغمبر(ﷺ) کی مخالفتوں کی فہرست تیار کی جائے جو غدیر سے قبل ہے تو اس کیلئے بھی ایک کتاب درکار ہوگی ۔ مگر ا س مقام پر صرف بطور اجمال ایک خاکہ پیش کرتے ہیں ۔ تفصیل کتابوں میں مل جائے گی ؛
۱۔ دعوتِ ذوالعشیرہ
سب سے پہلے حضور(ﷺ)نے جب اپنے قرابتداروں کو دعوت ِ اسلام دی اور اس میں مدد کرنے والے کو اپنا بھائی ، جانشین اور وزیر ہونے کا اعلان کیا تو اسی وقت سے مخالفت شروع ہو گئی، ہو سکتا ہے کوئی یہ اعتراض کرے کہ اس وقت مخالفت کرنے والے اگرچہ رشتہ دار تھے مگر وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے لہٰذا ان کی مخالفتوں کا راز کچھ اور ہو سکتا ہے۔
تو یہ بات درست ہے کہ وہ ابھی مسلمان نہیں ہوئے مگر بہرحَال حضوراکرم نے اسلام کی دعوت تو دے دی ہے ۔ اپنے کو اللہ کا رسول کہہ کر متعارف کرا چکے ہیں۔ اسلام قبول کرنا نہ کرنا انکا اختیاری فعل ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ حضرت ختمی مرتبت ﷺ کی مخالفت کرنے والا اگر مسلمان بھی ہے تو کیا وہ مخالفت سے اسلام و ایمان کے دائرے میں رہ سکتا ہےکیا …؟تو یہ پہلی مخالفت تھی جس کا تعلق بطورمستقیم نبیٴ رحمت سے ہے اور اس کی انتہا امِیرالمومنین ؈ کی جانشینی ووزارت پر ہوتی ہے۔
Load/Hide Comments