علامہ حلیؒ اور کتاب ’’الفین‘‘

دین اسلام میں عقیدہ کو جو مقام و منزلت حاصل ہےوہ کسی دوسرے موضوع کو حاصل نہیں ہے۔ قرآن کریم نے سب سے پہلے توحید اور عقیدۂ قیامت کو انسانوں کے سامنے پیش کیا ہے اور انبیاء و مرسلین علیہم السلام نے بھی لوگوں سے سب سے پہلے ایک خدا اور عقیدہٴ توحید قبول کرنے کی دعوت پر زور دیا ہے۔ اس کے بعد دوسرے عقائد نبوت وغیرہ جیسے اعتقادات اور انبیاء و مرسلین کے بعد ان کے جانشینوں اور اوصیاء الٰہی کی ولایت و سرپرستی اور ان کی رہنمائی میں اعمال کی بجا آوری ہے۔ اگر کوئی عبادت پروردگار بجا لائے اور خوب بجا لائے نماز و روزہ و حج اور اسی طرح دیگر دستورات الٰہی کی پابندی کرے مگر صحیح عقائد کے ساتھ نہ ہو تو اس کا کوئی عمل بارگاہ پروردگار میں شرف قبولیت اختیار نہیں کرے گا۔ اور منجملہ وہ اعتقادات جن کے بغیر کوئی بھی عمل قابل قبول نہیں ہے وہ ہے عقیدہ امامت و ولایت اہلبیت علیہم السلام اسی لئے علماء نے بھی اس عقیدہٴ امامت و ولایت کے لئے بے شمار کتابیں تحریر کی ہیں تاکہ کسی کو اہلبیتؑ کی امامت و امت کی رہبری میں شک و شبہ نہ پیدا ہو۔ اس میدان میں انتہائی معرکۃ الآراء کتابیں وجود میں آئیں ہیں۔ انھیں میں ایک عظیم الشان کتاب ’’الفین ‘‘ ہے۔ جسے زبردست، فقیہ، متکلم، مفسر، اصولی حسن بن یوسف بن مطہر حلّی معروف بہ علامہ حلّیؒ نے تحریر کیا ہے۔

علامہ حلیؒ کون ہیں؟

حسن بن یوسف بن مطہر حلی معروف بہ علامہ حلی ۶۴۸؁ھ میں حلہ شہر میں پیدا ہوئے ایک سو بیس سے زیادہ کتابیں مختلف علوم جیسے اصول، فقہ، تفسیر، منطق، علوم رجال وغیرہ میں تحریر فرمائیں ہیں جو آج بھی شیعہ حوزۂ علمیہ عراق و ایران میں تحقیق و تدریس کا اصل حصہ ہیں۔ عقائد میں انتہائی عظیم الشان کتابیں جیسے باب حادی عشر‘ کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد خواجہ نصیر الدین طوسیؒ کی شیعہ اعتقادات کے مطالعہ و تحقیق میں اہم ترین کتابیں شمار ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ نہج الحق و کشف الصدق، خلاصۃ الاقوال، الجوہر النضید، تذکرۃ الفقہاء، قواعد الاحکام و مختلف الشیعہ کتابیں معروف اور اہم آثار میں شمار ہوتی ہیں۔ آپ فقیہ ہونے کے ساتھ اچھے شاعر و ادیب بھی تھے۔

ابتدائی تعلیم آبائی وطن میں اور اپنے والد گرامی سے حاصل کرکے اتنی سرعت سے تمام علوم و فنون میں مہارت حاصل کرلی کہ بالغ ہونے سے قبل درجہٴ اجتہاد حاصل کرلیا تھا۔

یہاں تک کہ محقق حلی جو شیعہ مرجعیت کے منصب پر فائز تھے سن ۶۷۶ھ؁ میں ان کی وفات کے بعد ۲۸؍ سال کی عمر میں شیعی مرجعیت و زعامت کا اہم ترین منصب سنبھال لیا تھا۔ آپ زبردست فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ متکلم بے مثال بھی تھے۔ آپ کے مناظرے اور آثار نے سلطان محمد خدا بندے کو مذہب شیعہ اختیار کرنے اور اسے ایران میں رواج دینے پر آمادہ کردیا تھا۔

انھیں کمال و خوبیوں اور دینی خدمات کی بنا پر آپ کو گھر والے بہت پہلے سے جمال الدین کے لقب سے پکارنے لگے تھے۔

آپ کی بے شمار تالیفات میں ایک اہم کتاب ’’الفین‘‘ ہے۔

کتاب الفین

علامہ حلّی کی مشہور کتاب الفین کا یہ نام ’’الفین الفارق بین الصدق و المین‘‘ سے ’’مین‘‘ کے معنی جھوٹ کے ہیں۔ یعنی امامت علی بن ابی طالب پر دو ہزار دلیلیں صحیح و غلط میں فرق قائم کرنے والی کتاب ہے۔

یہ کتاب عربی میں تحریر کی گئی ہے۔ شیعہ امامیہ علم کلام میں یہ اہم ترین کتاب شمار ہوتی ہے جو امیر المؤمنین اور دیگر ائمہ معصومین علیہم الصلاۃ والسلام کی امامت منجانب اللہ کے موضوع پر عظیم الشان اور انتہائی  معرکۃ الاراء کتاب ہے۔

علامہ حلی نے اس کتاب میں اثبات امامت امیر المؤمنینؑ کے لئے ایک ہزار دلیلیں اور مخالفین کی رد میں بھی ایک ہزار دلیلیں درج کی ہیں۔

علامہ حلی نے اپنے بیٹے فخر المحققین کے لئے یہ کتاب تحریر کی ہے۔ اصل کتاب دو جلدوں میں لکھی گئی ہے۔ اور علامہ حلی کے بعد ان کے بیٹے فخر المحققین نے جمع کرکے مرتب کیا ہے۔ فخر المحققین نے آخر میں تحریر کیا ہے: سن ۷۵۴ھ؁ میں نجف اشرف میں مرتب کیا ہے اور علامہ حلیؒ نے آخر کتاب میں لکھا ہے: یہ آخری مطلب ہے جسے بطور دلیل نقل کیا ہے۔ جن کی کل تعداد ایک ہزار اڑتیس دلیلیں ہیں لیکن امامت امیر المؤمنین علیہ السلام کے لئے دلیلیں بہت زیادہ ہیں۔ ہم نے اتنی دلیلوں پر اکتفا کیا ہے۔

علامہ حلی نے پوری کتاب الفین کو ایک مقدمہ دو مقالے اور ایک خاتمہ میں مرتب کیا ہے۔ دو مقالہ میں ایک ہزار دلیلیں امامت علی بن ابی طالب علیہما السلام اور ایک ہزار دلیلیں مخالفین کے رد شبہات میں قائم کی ہیں۔ جیسا کہ خود علامہ حلی نے مقدمہ میں یہ بات تحریر کی ہے۔

مرحوم علامہ نے اپنے مقدمہ کتاب میں مندرجہ ذیل مطالب کو نقل کیا ہے:

پہلی بحث: امام کون ہے؟

دوسری بحث: وجود امام لطف عام ہے اور وجود پیغمبرؐ لطف خاص ہے۔

تیسری بحث: برہان امامت کے ۱۸ مبادی کا بیان ہے۔

چوتھی بحث: نصب وتعین امام لطف ہے۔

پانچویں بحث: امامت قابل تبدیل نہیں ہوتی ہے۔

چھٹی بحث: وجوب تعین امام‘ اور کیسے امام معین ہوتا ہے۔ اور اس بات کو بھی ثابت کیا ہے کہ امام کو معین کئے جانے کا واحد راستہ نص پیغمبرؐ ہے جسے ۲۹ ؍طریقہ سے ثابت کیا ہے۔

ساتویں بحث: امام کے لئے اثبات عصمت، اور اسی بحث میں ایک ہزار بائیس دلیلیں سو سو دلیلیں کرکے نقل کی ہیں یعنی ایک سے سو تک شمار کرکے پھر دوسرے مرحلہ میں دوبارہ ایک سے گنتی شروع کرتے ہیں پہلا سو، دوسرا سو، تیسرا سو، اس طرح پڑھنے والے کے لئے آسانی فراہم کرتے ہوئے نمبروں کو سو سو مرحلوں تک قرار دے کر ایک ہزار مکمل کیا ہے جو انتہائی دقیق اور محنت طلب کام ہے۔

ایک بات یہاں قابل توجہ ہے کہ جیسا کہ علامہ حلی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ ایک ہزار دلیلیں اثبات امامت کے لئے اور ایک ہزار دلیلیں مخالفین کے اعتراضات کے رد میں مگر وہ بات جو علامہ نے آخر کتاب میں بیان کی ہے کہ یہ وہ آخری دلیل ہے جسے میں نے نقل کیا ہے جن کی تعداد ۱۰۳۸؍ ہے۔ مگر ہم نے اسی پر اکتفا کیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ علامہ حلیؒ آخر میں اپنے قصد و ارادہ سے منصرف ہوگئے تھے۔ محض اتنی ہی دلیلوں پر اکتفا کریں یا پھر فخر المحققین علامہ کے فرزند کو کتاب مرتب کرتے وقت بقیہ دلائل نہیں دستیاب ہوسکے اور تقریباً نو سو کچھ دلیلیں مفقود ہوگئی ہیں۔

مگر ’’الفین‘‘ کی آخری عبارت کے موجود ہونے سے معلوم ہوتا ہے وہ دلیلیں آخر کتاب سے مفقود نہیں ہوئی ہیں بلکہ درمیان کتاب کی دلیلیں تھیں جو شاید روز گار زمانہ نے انھیں ناپید کردیا ہے۔

اور علامہ حلی نے ابتداء کتاب میں مفصل مقدمہ تحریر کرنے کے بعد دو مقابلے بھی لکھے ہیں مگر آغاز کتاب میں جو خاتمہ کتاب کے ذکر کا وعدہ کیا تھا وہ کتاب میں موجود نہیں ہے۔

مرحوم علامہ حلی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے پوری کتاب میں عقلی و نقلی دلیلوں سے بیک وقت استفادہ کیا ہے یعنی ان میں کسی عنوان سے ترتیب یا کسی طرح کے امتیازات کا خیال نہیں کیا ہے۔ اور چونکہ علامہ حلیؒ کا اصل مخاطب یعنی خصم منصب امامت کے مخالفین ہیں اس لئے اپنے استدلال میں قرآن کریم کی زیادہ سے زیادہ آیتوں سے استفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ سواد آعظم ہی کی احادیث و روایات سے شواہد پیش کئے ہیں ائمہٴ معصومین علیہم السلام کی روایتوں کو خاص طرق سے نقل نہیں کیا ہے۔

چونکہ علامہ کی شخصیت ایک عظیم علمی شخصیت ہے اس لئے استدلالی بحث و گفتگو میں مختلف علوم و فنون کی جھلکیاں نظر آتی ہیں اور مختلف و متنوع استدلال کے ساتھ حصہ کے سامنے استدلال قائم کیا ہے۔ خواہ عقلی دلیلوں میں انواع قضایا، منطقی قیاس جیسے ضررویہ، ممکن بالامکان الخاص والعالم ہو یا نقلی استدلال کے دیگر معانی و بیان کے مفاہیم ہوں۔ ہر علم کے فن سے استفادہ کیا۔ جہاں دشمن کے لئے جواب دینے یا سوچنے کی گنجائش تک نہیں رکھی ہے۔ اور وہ اس میں خوب کامیاب بھی نظر آتے ہیں۔

کتاب ’’الفین‘‘ کے بیشتر مطالب امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہما الصلاۃ والسلام کی امامت و خلافت کو ثابت کرنے کے استدلال پر مشتمل ہیں غاصبین حق کی صلاحیت کو باطل کرنے یا رد کرنے کے استدلال میں نہیں ہیں۔ اس لئے کہ جب حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی امامت و ولایت ثابت ہوجائے گی تو غیر کے لئے خلافت و امامت وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگی۔

یہ عظیم الشان کتاب چونکہ اپنے موضوع اور طریقۂ استدلال میں منفرد کتاب رہی ہے اس لئے یہ ہمیشہ لائق توجہ اور مکرر زیور طبع سے آراستہ ہوتی رہی ہے‘ اور ایران و عراق و دیگر جگہوں سے یہ مسلسل چھپتی رہی ہے۔

جو ۱۴۰۹ھ؁ میں طبع ہوئی ہے اس میں اگرچہ آخر کتاب میں ڈھنگ کی فہرست قرار نہیں دی گئی ہے مگر کتاب کے حاشیہ میں جو تعلیقات اور مطالب کا اضافہ کیا گیا ہے وہ انتہائی مفید اور اہم ترین معلومات فراہم کرتی ہے۔ کیوںکہ متن کتاب میں جو پیچیدہ اور دقیق استدلال قائم کئے گئے ہیں انھیں بڑی  خوبصورتی اور عمدہ طریقہ سے واضح کرکے پیش کیا گیا ہے جس نے کتاب کی افادیت میں چار چاند لگا دیا ہے۔

ہم سب کو خدا سے اس کے مطالعہ کی توفیق کی دعا طلب کرنی چاہیئے‘ اگر ان دلیلوں کو سمجھ کے کوئی مطالعہ کرے تو بحث امامت میں کافی حد تک تسلط قائم ہوسکتا ہے۔ یہ کتاب امیر المؤمنین علی علیہ السلاام کی امامت کے دفاع میں گرانقدر اور عظیم ترین اسلحہ اور سرمایہ ہے جو کبھی ختم یا کہنہ ہونے والا نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے خدایا! صاحب کتاب علامہ حلی اور ان کے فرزند فخر المحققین رضوان اللہ تعالیٰ علیہما اور دیگر مدافعان ولایت امیرالمؤمنین علیہ السلام کی پاکیزہ ارواح کو ان کے آقا و مولا امیر المؤمنینؑ کے ساتھ محشور فرما اور وارث تاجدار غدیر امیرالمؤمنین حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف علیہ السلام کے ظہور میں تعجیل فرما اور غدیری اسلام کی حکومت کے قیام کا وعدہ پورا فرما۔ اور ہم سب کو ان کے اعوان و انصار میں شمار فرما۔

آمین

اپنا تبصرہ لکھیں