اللہ تعالیٰ نے کائنات اور کائنات کی مخلوقات کو پیدا کر کے انھیں صحیح راہ پر چلنے اور محض اپنے خالق و مالک حقیقی کی عبادت و بندگی کرنے کی خاطر راہبر معین کئے اور بھیجے بھی، جنہوں نے ہر عہد میں اسی خدا کی پرستش کی دعوت دی اور وہ بھی اسی خدا کی اطاعت و بندگی کرتے رہے۔ اس دعوت میں بڑی بڑی رکاوٹیں آئیں ، طوفان آئے ۔ مگر ہر طوفان سے مقابلہ کرتے رہے اور انسانوں کو خدائے واحد کی عبادت کی طرف بلاتے رہے۔ انبیاء و اوصیاء الہی نے اس راہ میں کیا کیا جمتیں نہیں اٹھا ئیں، کسی کو شہر بدر کیا تو کسی کو قتل کیا، کسی کو آرے سے کاٹا گیا، بڑی بے دردی سے ان کی زندگی کا خاتمہ کیا گیا مگر کسی نبی یا وصی نے اپنی تحریک اور مشن سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ انبیاء و اوصیاء الہی کے بعد خاصان خدا اور وارثان علوم انبیاء اسی راستہ کی نشاندہی کرتے رہے۔ انھیں بھی اسی طرح کی مخالفتوں اور دشمنیوں کا سامنا ہوتا رہا۔ مگر کاروان ہدایت و ارشاد نے کبھی قدم پیچھے نہیں ہٹائے یہ سلسلہ آخری نبی ختمی مرتبت صلی یہ تم پر تمام ہوا اور خدا کی جانب سے اکمال دین و اتمام نعمت کا اعلان ہوا اور اسی کے ساتھ ایک اور اعلان ہوا کہ آج کے دن کا فردین سے مایوس ہو گیا ہے۔ اور بلا شبہ کا فر مایوس ہوئے مگر مایوسی کے باوجود دین خدا سے دشمنی اور اس کی
راہ پر چلنے والوں کو گمراہ کرنے کی سعی و کوشش کرتے رہے، اس
کے مقابلہ میں حق والے بھی دین اور اس کے اصول و اعتقادات کو تحریف و تبدیل ہونے سے تحفظ فراہم کرتے رہے ۔ یہ ہر دور میں رہا اس راہ میں انبیاء و ائمہ علیہم السلام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے غیبت میں علماء ربانی اور حکمائے الہی نے محاذ سنبھالا اور اپنے قلم ، زبان، حتی جان ونفس کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ اس سلسلہ کی تاریخ میں بڑی بڑی ہستیوں کے نام روشن ستاروں کی طرح جگمگا رہے ہیں، اور انھوں نے اپنی قربانی سے جو چراغ جلائے تھے وہ صدیوں سے تاریک راہوں کو روشن کئے ہوئے ہیں، اگر اللمعة الدمشقیہ” کی شکل میں میدان فقہ و فقاہت میں شہد اول رحمتہ اللہ کا عظیم کارنامہ ہے تو روضة البهیة“ کے عنوان سے شہید ثانی کی عظیم الشان خدمات تو دوسری طرف علم کلام و عقائد میں احقاق الحق و ابطال الباطل کی شکل میں شہید ثالث کے حیرت انگیز اسناد و دلائل اور برہان کا سلسلہ قائم ہے، اور اسی سلسلہ کا ایک اور عظیم الشان کارنامہ شہید رابع علامہ کلیم میرزا محمد بن عنایت احمد خان دہلوی کشمیری طاب ثراه کی ہر دشمن کو خاموش کر دینے اور مذہب حقہ اہل بیت علیہم السلام کو بے پناہ محکم دلائل اور واضح استدلال کے ساتھ صاف و شفاف انداز سے پیش کرنے والی گرانقدر کتاب “نزهه اثنا
عشریه در رد تحفہ اثنا عشریہ بھی ہے۔ قارئین اس مقام پر اس کتاب اور اس کے مؤلف کا مختصر تعارف پیش کریں گے تاکہ اندازہ ہو جائے کہ راہ انبیاء و اوصیاء کے محافظین اور ولایت اہلبیت کے مدافعین نے کس قدر زحمت اٹھائی ہیں۔
علامہ حکیم میرزا محمد بن عنایت احمد خان دہلوی کتاب نجوم السماء میں جو آپ کا تعارف پیش کیا ہے وہ اس طرح ہے: علامہ حکیم میرزامحمد بن عنایت احمد خان کشمیری، دہلوی ۱۲۵۳ ء متخلص بہ کامل، عظیم الشان متکلم اور ماہر و زبر دست طبیب و حکیم ہونے کے ساتھ ساتھ اجتہاد کا درجہ بھی حاصل تھا وہ فروعات کے مسائل میں کسی کے مقلد نہیں تھے۔
اساتذہ
ابتدائی علوم اپنے عہد کے افاضل علماء سے حاصل کیسے علم طب میں، قانون و شروح موجز علامه حکیم شریف خان طاب ثراہ کے محضر سے استفادہ کیا ، علوم نقلیہ سید اجل تحریر اکمل سلاله دودمان مرتضوی، خلاصه خاندان مصطفوی جناب مولوی سید رحم علی تغمده الله بلطفه الخفى والجلی ، صاحب کتاب بدرالدجی کہ جو محمد شاہ پاشاہ کے بھائی، اچھے میاں کے
استاد تھے، سے حاصل کیا۔
آپ کا علمی تجر اور علوم عقلیہ و نقلیہ کے مختصر تعارف میں سلطان العلماء مولانا سید محمد طاب ثراہ کے الفاظ نقل کرتے ہیں جس سے آپ کی شخصیت کا پورا پورا اندازہ ہو جاتا ہے:
وہ اپنے بعض افادات میں میرزا حکیم کے بارے میں لکھتے ہیں:
العالم مدقق والفاضل المحقق العريف
الأكمل، والتحرير ابجل، جامع المعقول والمنقول، حاوى الفروع والاصول حافظ
ثغور الملة القويمة الجعفريه، قالع قلاع
البدع المحدثة الما تريديه والاشعرية
المتوقد الاوحد الميرزا محمد طاب ثراه و
جعل الجنة مثواه
(صفحہ ۳/ الف / ۳ / ب ملاحظہ کریں)
مرحوم علامہ حکیم کی تالیفات و تصنیفات
مرحوم علامہ نے مختلف علوم میں تالیفات و تصنیفات کے علاوہ اہل سنت کی معتبر ترین کتابوں کی تلخیص فرمائی ہے مگر اسے نا اہلوں نے محض مسودہ سمجھ کر ضایع کر دیا جس کی آج کوئی
خبر نہیں ہے۔ آپ کی دیگر مصنفات!
ا تاريخ العلماء – رجال میں مبسوط و جامع کتاب
– رساله علم بدیع
رساله مصرف در فارسی
نہایۃ الدراية شرح عربی رسالہ وجیزه شیخ بہاء الدین
عاملی، جو علم درایت کے موضوع پر ہے جس میں تقریباً
پندرہ ہزار بیت تھے مختصر شرح سے مرحوم علامہ کی علمی مہارت وغزارت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
-۵ و تنبیہ اھل الکمال والانصاف علی اختلال رجال اہل الخلاف جس میں مصنف نے جھوٹے رواۃ ، مجہول و ضعیف اور خوارج و نواصب و قدریه و مرجه کرجال جنہیں ارباب صحاح ستہ نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے۔ انھیں ابن حجر عسقلانی کی تقریب سے استخراج
کیا ہے۔
– ایضاح المقال في توجيه اقوال الرجال …. مصنف نے اس کتاب میں شیعہ احادیث کے روایوں کے اقوال وحالات کی تاویل و توجیہ فرمائی ہے۔
۷۔ رساله در فلسفه فارسی
– ” منتخب فیض القدیر بر شرح جامع صغیر“ مناوی جسے مصنف نے چاروں جلدوں کو ایک جلد میں قرار دیا ہے جو تقریباً پندرہ ہزار بیت پر مشتمل ہے۔
– منتخب انساب سمعانی
-۹ منتخب کنز العمال ملا متقی ہندی، جس میں مصنف نے امامت امیر المؤمنین و دیگر ائمہ علیہم السلام پر دلالت کرنے والی حدیثوں اور خلفاء دیگر صحابہ کے معایب و مطاعن کو منتخب فرمایا ہے۔
-۱۰۔ رسالہ بداء
۱۱- رساله در مسئله رویت
اسی طرح اہل سنت کی فراوان کتابوں کو منتخب فرمایا جو
اکثر کتابیں آج نا اہلوں کے ہاتھوں سے ضایع ہو چکی ہیں۔ جنہیں مصنف نے منتخب فرمایاوہ حسب ذیل ہیں:
صحیح بخاری، صحیح مسلم، صحیح ترمذی، نسائی، سنن ابو
داؤد، موطا مالک، نقاوة التصوف، رجوع الفرع الى الاصل، اتقان سیوطی، طبقات حنفیہ رحمۃ الامۃ شمراوی، شرح مواقف، کتاب السیاسۃ والامامة ، تاریخ خميس فی احوال النفس النفیس ، تاریخ ابن خلکان، حلیة الاولیاء مدارج النبوة ، معارج
النبوة ، شرح مقاصد تفتازاني …. الخ
آپ کی شہادت:
مرحوم علامه حکیم رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کے شاگرد میرزا امیر علی خان شاہ جہاں آبادی کے نقل کے مطابق دہلی کے مضافات میں بادشاہ وقت کا ایک قریبی امیر رہتا تھا جو انتہائی درجہ علامہ حکیم سے تعصب رکھتا تھا۔ اسی ملعون نے مکر و حیلہ سے بغرض علاج علامہ حکیم کو بلایا اور زہر دے کر شہید کر دیا کیوں کہ آپ کی علمی شہرت اور معرکتہ الا را کتابیں مذہب حقہ کی حقانیت اور دیگر مذاہب کو باطل متعارف کرا رہی تھیں اور دنیا کے تمام اہل علم و شرف آگاہ ہو چکے تھے۔ مگر دشمن کو خبر نہیں تھی کہ شہید کے خون اور عالم کے قلم میں کتنی طاقت ہوتی ہے۔ آج دو سو سال سے زیادہ کا عرصہ گذر گیا امامت و ولایتِ اہل بیت کے عظیم الشان مدافع کے علمی شاہر کار آج بھی راہیان حق کے لئے روشنی عطا کر رہا ہے۔ پنجہ شریف دہلی میں آپ کا مزار شریف ہر خاص و عام کے لئے زیارت گاہ اور مرکز توجہ بنا ہوا ہے۔ جہاں اکثر مؤمنین وصالحین کی قبریں بھی موجود ہیں۔ قبر مطہر پر فارسی کا مصرعہ سنِ شہادت کی خبر دے رہا ہے۔ در شیونش به گریه بگو وا محمدا ،۱۲۳۵ علامہ حکیم نے کتاب تحفہ اثنی عشریہ کے تمام بارہ ابواب کے مکمل جواب اپنی کتاب نزهہ اثنا عشریہ میں درج کیا ہے۔ جس سے مصنف کا علمی مقام کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ مرحوم صرف علم کلام ہی نہیں بلکہ علم رجال و درایہ، ادب، فلسفہ حدیث، فقہ اصول اور دیگر تمام علوم پر مہارت رکھتے تھے، آپ نے اسے بارہ ابواب میں تحریر کیا تھا جو ہر باب،
تحفہ کے مقابلہ میں قرار دیا تھا۔
کتاب نزهه اثنا عشریه
ا
کتاب تحفہ اثنا عشریہ جو مذہب حقہ شیعہ کی مخالفت میں عبدالعزیز محدث دہلوی نے لکھی تھی کہ جو در اصل خواجہ نصر اللہ کابلی کی صواقع“ کا ترجمہ ہے اور اسے پہلے اپنے ایک مستعار نام پھر اپنے اصل نام کے ساتھ طبع کرائی، علامہ مرحوم نے اس کے مضامین اور استدلال و اسلوب کو دیکھ کر قابل جواب نہیں سمجھا کیونکہ وہ انتہائی درجہ استدلال کی سطح سے نیچے تھی ، مضامین غیر معقول اور روش انتہائی ، بچکانہ تھے مگر وہ جاہلوں کے درمیان شہرت پا رہی تھی اور مذہب حقہ پر الزام تراشی کے بازار گرم ہورہے تھے، بعض افاضل و علماء کے اصرار سے اس کا جواب لکھنا شروع کیا۔
مرحوم علامہ نے اس کتاب کا نام ” نزھہ اثنی عشریہ” جس کے اعداد، تاریخ آغاز تالیف کی خبر دیتے ہیں۔ اور مذہب حقہ اور اس کے اعتقادات کی نزہت وطہارت اور اہل عناد کے مفتریات و اعتراضات سے پاک ہونے کا اشارہ کرتی ہے، اور نصرة المؤمنین وزلۃ الشیاطین، سے ملقب فرمایا۔ اس کتاب نزھہ کی خصوصیت یہ ہے کہ مرحوم علامہ کے زمانہ میں ہی اس کی چند جلدیں طبع ہوکر منظر عام پر آگئیں تھیں اور اس کے بعض نسخہ خود عبدالعزیز صاحب تحفہ کے سامنے پیش بھی کئے گئے ۔ بلکہ خود انھوں نے اسے حاصل کرنے کی سعی و کوشش کی اور جب مطالعہ کیا تو دندان شکن جواب دیکھ کر مناظرہ و مقابلہ کرنے سے باز آگئے۔ کتاب نزھہ کی طباعت :
مرحوم علامہ نے تحفہ اثنا عشریہ کا مکمل جواب تو تحریر
فرمایا تھا مگر جو زیور طبع سے آراستہ ہوئے وہ پانچ ابواب تھے۔ شاید مصنف کو بقیہ جلدوں کے نشر کی مہلت نہیں ملی یا دیگر مجلدات کے مسودے غیر مرتب رہ گئے جس سے ان کی طباعت نہ ہوسکی۔ ناچیز نے تلاش بسیار اور سعی و کوشش کے بعد پٹنہ کے مدرسہ منصبیہ کے کتب خانہ میں موجود دو جلدیں اول، چہارم کی PDF حاصل کی جس کے بعد اس مقالہ کی توفیق
حاصل ہوئی ہے۔ الحمد للہ
مذکورہ جلدوں کی تفصیلات:
باب اوّل: مذہب شیعہ اور اس کے دیگر فرقہ کے وجود میں آنے کے بارے میں عبدالعزیز کے جھوٹے دعوؤں کی تردید پر مشتمل ہے جس میں واقعی مصنف کے کمال مطالعہ اور علمی وسعت و تبحر کا اندازہ ہوتا ہے۔
باب سوم : شیعہ اسلاف کے احوال میں جو غیر صحیح با تیں
پیش کی گئیں ان کے جواب میں یہ باب لکھا گیا ہے۔ باب چہارم: اصول حدیث ورجال اور رواۃ وروایت
کے حالات کے بارے میں ہے۔
واضح رہے کہ مرحوم علامہ نے فارسی زبان میں ہی اس کا جواب تحریر کیا ہے یہ چوتھی جلد قدیم روش کی کتابت کے ساتھ ۴۱۶ صفحات پر مشتمل ہے۔ مصنف علیہ الرحمۃ کا اسلوب تحریر یہ ہے کہ خصم کی پوری عبارت نقل کر کے ایک ایک بات کا مکمل و مستند جواب تحریر فرماتے ہیں۔
خصم کی عبارت : قال الفاضل الناصب، اور اپنے جواب کو اقول و به نستعین “ کے عنوان سے درج کیا ہے۔
کتاب نزھہ کی چوتھی جلد کے آخری صفحہ ۴۱۶ کی
آخری عبارت ملاحظہ ہو:
آنچه فاضل ناصب در راه غلط یا تغلیط عوام کالانعام بر کلام امامیه ایرادات آورده و اعتراضات غیر وارده در ضمن پنج باب تطویل بلا طایل نموده و آن مسائل را بحسب فهم ناقص خود مخالف تقلین زعم نموده، انشاء اللہ تعالی در هر مسئله، غلط و تغلیط تنبیه نموده می شود باللہ التوفیق و علیہ التکلان وهو حسبی ونعم
الوکیل
مطبع مجمع البحرین لودھیا نہ ۲۷۹ ہجری میں طبع ہوئی۔
باب پنجم : الہیات کے مسائل کے بارے میں ۔
باب نہم : فقہی احکام کے بارے میں
ان میں پہلی جلد مطبع جعفری واقع نخاس، لکھنو جدید باہتمام میرزا محمد علی طبع ہوئی ہے۔ جو ۵۰۸ صفحات پر مشتمل ہے آخر کے تین صفحات میں تذکرۃ العلماء مسمی بہ نجوم السماء کے حوالے سے احوال مصنف نقل ہوئے ہیں، اس مقالہ میں علامہ حکیم کے مختصر احوال نجوم السماء فی تراجم العلماء تالیف محمد علی آزاد کشمیری صفحہ ۳۷۶ سے ہی استفادہ کیا گیا ہے۔
اس کتاب میں عبد العزیز دہلوی کے ان واہیات اور فضولیات کے مدلل اور مطمئن بخش حقائق کا مکمل جواب مرحمت فرمایا ہے جس میں مذہب شیعہ کو دیگر شیعہ فرقوں کے اصول و عقائد اور انکے مخصوص طور طریقوں سے منسوب کیا ہے جیسے
زیدیہ، اسماعیلیہ، کیسانیہ ناووسی… وغیرہ۔
مرحوم علامہ کے اس تحریر میں درج احوال فرق کی تفصیلات کا مطالعہ کرنے کے بعد مرحوم علامہ کی دقیق نظر اور
وسیع مطالعہ کا اندازہ ہوتا ہے جس کا جواب کتاب کی قدیم کتابت کے حجم کے اعتبار سے تقریباً ۵۰ سے زیادہ صفحات میں درج فرمایا ہے۔ کتاب قابل مطالعہ اور انتہائی مفید ہے۔ اے کاش! عبقات الانوار کے مانند ہندوستان کی اس عظیم الشان اور معرکۃ الاراء کتاب نزہہ اثنا عشریہ کی طرف بھی محققین توجہ فرما ئیں تو یہ عظیم سرمایہ اور علمی ذخیرہ پھر سے جدید طرز کے ساتھ منظر عام پر آجائے، تاکہ دنیائے علم و دانش سرزمین ہندوستان کے ایک اور بزرگ ہستی کے علمی ذخیرہ اور دفاع امامت کے اہتمام و انتظام سے آگاہ ہو جائے۔ مرحوم علامہ حکیم طاب ثراہ اس کتاب کی آخری سطر میں فرماتے ہیں:
در این مقام قطع سخن و ختم کلام مناسب… والله ولي التوفيق والانعام…… یعنی اس منزل پر بات تمام کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کی ذات ہی توفیق و انعام عطا کرنے والی ہے اور اسی سے دیگر
مجلدات کے اہتمام و اختتام کے لئے مدد طلب کرتا ہوں۔ اور انھیں فقرات کے ساتھ اس منزل پر مقالہ کو بھی ختم کرتا ہوں اس امید کے ساتھ کہ خدا اور حجت خدا اس ادنی خدمت اور دفاع امامت عظمیٰ کے سلسلہ کی کتاب کا تعارف پیش کرنے کی ناچیز کاوش کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت سے
نوازے گا۔ انشاء اللہ
خدایا! وارث تاجدار غدیر امام مهدی منتظر عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ہم سب کو ان کے اعوان و انصار میں شمار فرمائے ۔ آمین
خلافت بلا فصل کا ذکر قرآن میں کیوں نہیں؟
مکتب خلفاء کے پیروکار چونکہ حضرت علیؓ کو رسول اسلام کا بلافصل جانشین اور خلیفہ نہیں مانتے لہذا وہ یہ سوال کرتے ہیں کہ امیر المومنین کی خلافت کو قرآن سے ثابت کیا جائے وہ کہتے ہیں کہ اگر مسئلہ امامت اتنا ہی اہم ہے کہ ایمان و کفر کا دارو مدار اسی پر ہے، تو قرآن کریم میں اس کا ذکر کیوں نہیں ہے؟ ان کا کہنا یہ ہے کہ جب شیعہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت علی اور دیگر گیارہ ائمہ کی ولایت کے بغیر نہ کسی کا ایمان قبول ہوگا اور نہ ہی عمل ، تو ان کے لیے ضروری ہے کہ اپنے دعوے کی دلیل میں قرآن کی کوئی آیت پیش کریں۔
ان کے اس اعتراض کا جواب ہم چند مرحلوں میں پیش کر رہے ہیں۔
پہلی بات تو یہ کہ باوجود یکہ یہ سوال حق بجانب ہے مگر اہل تسنن کو یہ سوال کرنا زیب نہیں دیتا۔ اس لیے کہ جب بھی قرآن کی صریح آیتوں نے ان کے خلفاء کی کسی بات کی رد کی ہے تو انھوں نے الٹ کر فرمانِ قرآن کی ہی مخالفت کر دی ہے اور خلفاء کی بات کو اوپر رکھا ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں بطور نمونہ یہاں پر کچھ کا ذکر کیا جارہا ہے۔ (۱) قرآن میں انبیائے کرام کی میراث کا ذکر موجود ہے مگر دختر رسول کو ان کے بابا کی میراث سے محروم کر دیا گیا۔ اس معاملے میں قرآن کی صریح دلیل کو رد کرتے
ہوئے خلیفہ کی بات کو قبول کیا گیا۔
(۲) قرآن کی آیت میں وضو کے باب میں صریحاً یہ حکم دیا گیا ہے کہ پیر پر مسح کیا جائے مگر اہل تستن اس کے بر
خلاف پیروں کے دھونے پر عمل پیرا ہیں۔
(۳) قرآن میں آل رسول کو شمس ادا کرنے کو فرض قرار
دیا گیا ہے مگر اہل تسنن قرآن پاک کی اس ہدایت پر عمل نہیں کرتے۔
(۴) اسی طرح قرآن کی آیتوں میں تقیہ اور رجعت کا بھی ذکر ہے ، مگر اہل تستن اس کی بھی رد کرتے نظر
آتے ہیں۔
قصہ مختصر اگر ہم ان کے سامنے ان قرآنی آیات کا انبار بھی لگادیں، جن سے حضرت علی کی بلا فصل ولایت ثابت ہوتی ہے، تو کیا وہ خلفاء کی خلافت کو چھوڑ دیں گے اور امیر المومنین کو
اپنا پہلا خلیفہ تسلیم کرلیں گے؟؟
دوسرے یہ کہ کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ یہ شرط عائد کرے کہ ہمیں قرآن میں دکھاؤ ، ورنہ ہم اس عقیدے کو قبول نہیں کریں گے یا یہ کہے کہ ہمیں قرآن میں دکھاؤ ، ورنہ ہم اس حکم پر عمل نہیں کریں گے۔ کیونکہ خود سرور کائنات صلی یہ تم نے امت کے لیے قرآن کو کافی نہیں جانا ہے۔ آنحضرت سلیم نے اسی لیے حدیث ثقلین اور خلیفتین کو ارشاد فرمایا تھا کہ صرف قرآن امت کی
حدیث
ہدایت کے لیے ناکافی ہے۔ اسلام کے بہت سے اہم مسائل ایسے ہیں جن کی تصریحات کتاب خدا میں موجود نہیں ہیں۔ مثلاً نماز، نماز دین کی اساس ہے، اگر کسی کی نماز قبول نہیں تو اس کا کوئی عمل قبول نہیں۔ کیا نماز کی رکعات، اوقات، شرائط، مقدمات، تعقیبات وغیرہ کے بارے میں قرآن میں تفصیلات موجود ہیں؟ نہیں۔ اسی طرح بہت سے دیگر اہم امور کی تفصیلات قرآن میں موجود نہیں ہیں۔ تو کیا ان احکامات پر عمل
نہیں کرنا چاہئے؟
اس کے علاوہ سامنے کی ایک بات اور ہے، آپ کے نزدیک حضرت علی چوتھے خلیفہ ہیں، تو کیا ان سے پہلے والے تین خلفاء کی خلافت کے لیے آپ کے پاس قرآن سے دلیل موجود ہے؟ اگر نہیں ( اور بلاشبہ کوئی دلیل نہیں ہے ) تو پھر کسی کو کیا حق ہے کہ امیر المومنین کی بلا فصل خلافت کے لیے ہم سے دلیل طلب کرے۔ جیسے ان کے لیے بغیر قرانی استدلال کے. دوسروں کی خلافت کو قبول کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے، اسی طرح حضرت علی کی امامت کو بغیر قرانی دلیل کے قبول کرنے میں ان کے لیے کیا دشواری ہے؟ جبکہ حضرت علی کے لیے رسول اللہ صلی یتیم کی متواتر احادیث موجود ہیں کہ علی ولی
66 وو
من بعدى، من كنت مولاه فعلى مولاه وغیرہ۔ سقیفائی خلفاء کے لیے تو ان کے پاس اس طرح کی کوئی حدیث موجود نہیں ہے۔ مگر پھر بھی ان کی خلافت بغیر کسی دلیل کے قبول کر لیتے ہیں۔
شواہد التنزیل میں ہے کہ رسول خدا صل للہ یہی تم نے فرمایا:
یقینا قرآن چار حصوں میں ہے، جس کے چاروں حصے
چار چیزوں سے مزین ہیں ، ( قرآن ) کا ایک چوتھائی حصہ ہم اہل بیت سے مخصوص ہے ، (دوسرا) چوتھائی حصہ ہمارے دشمنوں کے بارے میں ہے ، تیسرے چوتھائی حصے میں حرام و حلال بیان کیے گئے ہیں اور چوتھا حصہ خدا نے اپنے فرائض و احکام سے مخصوص قرار دیا ہے، بے شک خدا نے علی کے بارے میں قرآن کا
افضل ترین حصہ نازل کیا ہے۔“
اس کے باوجود کہ اہل تسنن علماء اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ حضرت علی کے متعلق قرآن میں تین سو (۳۰۰) سے زیادہ آیتیں موجود ہیں مگر پھر بھی ( تعجب ہے کہ ) ان کو ان میں سے کسی میں امیر المومنین کی خلافت نظر نہیں آتی۔ ان میں سے چند ایک کا یہاں پر ذکر کیا جارہا ہے۔
ا۔ آیة الولاية
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمُ
رَاكِعُونَ ”
” (اے ایمان لانے والو!) بلاشبہ تمھارا ولی صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ ایمان لانے والے افراد ہیں جو نماز کو قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکات دیتے
ہیں۔“
اہل تسنن کی دس سے زیادہ تفاسیر میں اس بات کا ذکر
شواہد التنزیل ج ۱ ص ۴۲
سوره مائده (۵)، آیت ۵۵
ہے کہ یہ آیت حضرت علی کی ولایت پر دلالت کرتی ہے۔ ان میں سے دو کا ذکر ہم یہاں کر رہے ہیں۔ جار اللہ محمود بن عمر زمخشری (متوفی سنته : ۵۲۸ ہجری) نے اس آیت کی شان نزول میں امیر المومنین کے حالت رکوع میں ایک سائل کو انگوٹھی دینے کے واقعے کو ذکر کیا ہے۔
اسی آیت کے ذیل میں اہل تسنن کے بہت بڑے امام فخر الدين الرازي (المتوفى : ۶۰۴ ھ ) نے بھی جناب ابوذر غفاری سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے جس سے اس آیت میں حضرت علی کی ولایت کا واضح اعلان نظر آتا ہے۔ ۲
۲- آیت انذار
إِنَّمَا أَنتَ مُنذِدٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ یعنی ‘ (اے حبیب) آپ اپنی قوم کو ڈرانے والے ہیں
اور ہر قوم کے لیے ہم نے بادی بھیجے ہیں۔“
اس آیت کے متعلق حضرت علی کا یہ قول نقل ہوا ہے کہ رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا فرمان ہے کہ میں اس
امت کا ڈرانے والا ہوں اور علی اس کے ہادی ہیں ۔
– آیت بلغ :
66
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغُ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن
الكشاف : ۱/ ۳۴۷ التفسير الكبير : ٢٦/٢
(سورۃ الرعد (۷)، آیت ۱۳ مستدرک علی الصحیحین : ۱۲۹/۳
“اے رسول! اس بات کی تبلیغ فرمادیجیے جسے آپ کے
رب نے آپ پر نازل فرما دیا ہے…
66
حج آخر سے واپسی کے موقع پر میدان غدیر میں یہ آیت رسول اکرم منی تم پر نازل ہوئی تھی ۔ اس کے بارے میں اہل تسنن عالم علامہ جلال الدین سیوطی نے رسول اللہ سلام کے صحابی ابوسعید خدری کا یہ قول نقل کیا ہے کہ یہ آیت
( حضرت ) علی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد پیغمبر اکرم نے اصحاب کے درمیان ایک طویل خطبہ ارشاد فرمایا جس میں آپ
نے اعلان فرمایا:
فَأَوْحَى إِلَى: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَانِ الرَّحِيمِ، يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلغ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَيك فى على يعنى فِي الْخِلَافَةِ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ. وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ
من الناس
پس اللہ نے میری طرف وحی فرمائی ہے کہ اے رسول ! علی کی خلافت کی تبلیغ فرماد بی.”
حوالہ جات:
فتح القدير ١٠/٢
تاریخ مدینہ دمشق ۲/۸۶۴۳۷/۴۲ ۵۸۹) .
سوره مانده ۶۷
الدر المخور :٣/ ١١٧
–
–
–
—
–
–
شواہد التنزیل ۱/۲۵۰ ح ۲۴۴، وص ۲۵۱ ح
۲۴۵ ، وص ۲۵۲ ح ۲۴۷
عمدة القاری ۲۰۶۲۰۶/ ۱۸، کتاب تفسیر قرآن ، شماره ۱۳۴، کتاب التفسير الكبير ٢٩/١٢
غرائب القرآن ( تفسیر النیشاپوری) ۶۱۶/۲ مفتاح النجاء: ورق ۳۴، باب سوم فصل یازده الفصول المہمۃ ۴۲ فصل اول ۔ الكشف والبيان ( تفسير الثعلبی): ورق ۷۸ توضیح الدلائل : ورق ۱۵۷ قسم دوم، باب دوم ۔ مودة القربي : مودۃ پنجم ۔ السبعین فی مناقب امیر المؤمنین: ح۵۶
بینابیع المودة ۲۹۷ ، باب ۵۶ ، ح ۸۱۲، وص ۲۸۳،
باب ۵۶ ، ح ۶۹۹ ۔
-۴- آیه را کمال
33
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَثْمَمتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسلام
دينا ..!
” آج کے دن میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمتوں کو تمام کر دیا اور تمہارے دین اسلام
سے میں راضی ہو گیا ..
66
جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر الدر المنصور میں اللہ کے اس قول اليَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ
( سورة المائدة (۵): آیت ۳
وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسلام دِینًا …. کے ذیل میں لکھا ہے کہ ابن مردویہ ، خطیب بغدادی اور ابن عسا کرنے ابو ہریرہ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے کہا :
لمّا كان يوم غدير خم ، و هو يوم ثماني عشرة من ذى الحجة قال النبي ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) : من كنت مولاه فعلی مولاه ، فأنزل الله … الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ ….
”وہ دن غدیر کا دن تھا، ۱۸ ذی الحجہ جب رسول اللہ سلیم نے فرمایا جس کا میں مولا ہوں، اس کے علی بھی مولا ہیں ۔ پس اللہ نے اس آیت کو نازل فرمایا ۔”
الدر المنشور في تفسير القران (جلال الدين السيوطي
الشافعي ) :۲۵۹/۲
تاریخ دمشق ( ابن عساکر الشافعي ) : ۷۵/۲ شواہد التنزيل ( حاکم حسکاني الحنفي ) : ۱/ ۱۵۷ مناقب علي بن أبي طالب ( ابن المغازلي الشافعي ) :
۱۹ الحدیث ۲۴
تاریخ بغداد (خطیب البغدادي ) : ۲۹۰/۸ وغیرہ۔
اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے مشہور قرآنی آیات میں سے کچھ ہی کا ذکر کرنے پر اکتفا کی ہے، ورنہ اس موضوع پر اور بھی آیات پیش کی جاسکتی ہیں۔
یادر ہے، مندرجہ بالا آیات کی تفاسیر کے لئے ہم نے صرف مخالفین کی کتابوں سے استفادہ کیا ہے ورنہ اہلبیت کی روایات میں بھی اس طرح کی متعدد آیات ہیں جو امیر المومنین کی ولایت و خلافت بلا فصل کو ثابت کرتی ہیں۔
Load/Hide Comments