دین اسلام اور اس کے مختلف مسائل میں جو منزلت و اہمیت امامت کو حاصل ہے وہ نہایت درجہ بلند اور غیر معمولی ہے۔
حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے رسالت کے آغاز تبلیغ ہی میں ولایت و جانشینی کے مسئلہ کو پیش کر دیا تھا۔ اور ائمہ معصومین علیہم السلام امامت کے مقام و منزلت کو مسلسل واضح کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام میں اس کے بارے میں بحث و گفتگو کی اہمیت کو بھی یاد دلاتے رہے ہیں، ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے اصحاب ،شیعہ فقہاء ومتکلمین نے بھی اماموں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہر دور اور ہر قرن میں نہایت سنجیدہ اور حساس ہو کر اس منصب الہی کی منزلت کا دفاع کرتے رہے اور اس میدان میں اصحاب ائمہ معصو مین علیہم السلام اور ان کے مخالفین میں بے شمار مناظرے وجود میں آئے جس کی وجہ سے بےپناہ کتابیں اس موضوع پر معرض وجود میں آگئیں،
اس روشن اور واضح حقیقت کے راہ دفاع میں نہ جانے کتنی خونریزی ہوئی اور نہیں معلوم کتنے شیعہ اس عظیم الشان امامت کے سامنے تسلیم ہونے اور اس پر اعتقاد رکھنے کے جرم میں درجۂ شہادت پر فائز ہوئے ہیں۔اس کے باوجود اس حقیقت پر اعتقاد رکھنے والوں کے ایمان و اخلاص نے انہیں راہ خدا میں اور زیادہ مضبوطی کےساتھ ثابت قدم بنا دیا ہے۔
جس وقت مبلغ ومدافع ولایت جناب ابوذر رضوان اللہ تعالی علیہ کو شیعہ ہونے کے پاداش میں شام جلا وطن کر دیا جاتا ہے تو وہاں ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرتے ہوئے موقع غنیمت سمجھ کر امامت و ولایت امیرالمؤمنین علیہ السلام کی تبلیغ شروع کر دیتے ہیں اور مولا کی خوب منزلتوں کو آشکار فرماتے ہیں۔ اور اس علاقے والوں کو اہل بیت پیغمبرﷺ کی پیروی کی دعوت دیتے ہیں جس کی برکت سے شام والوں میں خصوصا بلاد جبل عامل اور جنوبی لبنان میں بہت سے افراد شیعہ مذہب قبول کر لیتے ہیں ۔ آنے والے زمانوں میں بھی بزرگ علماء جیسے شیخ صدوق، شیخ مفید، سید مرتضی، شیخ طوسی، علامہ حلی رضوان اللہ تعالی علیہم اور ان کے علاوہ دوسرے علماء بزرگ نے بحث امامت اور اس کی منزلت واہمیت کو درک کرتے ہوئے بڑی معرکۃالآرا اور عظیم الشان کتابیں تدوین و تالیف کی ہیں،جس کی راہ میں بے پناہ رنج و مشکلات اور زحمتوں کا سامنا بھی کیا ہے۔ مرحوم علامہ امینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے ’’شہداءالفضیلہ‘‘ میں ان تمام نامور اور پاکیزہ ہستیوں کےنام درج کئے ہیں جو عقیدۂ امامت اور ترویج تشیع کےجرم میں دشمنان حق کے ہاتھوں شہادت کےدرجہ پرفائز ہوئےہیں۔
مگر اس کے باوجود شمع امامت کے گرد پروانے جمع ہوتے رہے اور یہ کارواں لوگوں کو ہمراہ لیتا ہوا منزل کی طرف بڑھتا ہی رہا۔ اسے نہ کوئی حکومت روک سکی نہ سلطنتوں کے ظلم و جور کا طوفان خاموش کر سکا، بلکہ مسلسل ایک چراغ سے دوسرا چراغ جلتا رہا اور وادئ ضلالت و گمراہی کی تاریکیوں کو روشن کرتا رہا، ہر دور میں ایک سے بڑھ کر دوسری شمع جلتی رہی۔
اسی سلسلہ کی ایک اور عظیم الشان شمع فروزاں آخری دور میں ہندوستان کی وادئ تاریکی میں روشن ہوئ تو اس سے صرف برصغیر ہی نہیں بلکہ پورا عالم اسلام منور ہو گیا،وہ شمع معجز نما ہونے
کے ساتھ ساتھ مذہب کی حجت بھی ہے، اور اس
اعجاز آمیزو معرکۃ الآراء شمع کا نام “عبقات
الانوار درمناقب أئمۂ اطہار” ہے۔ جسکی نورانی خوشبو سے پوری اسلامی دنیا منورومعطر ہے۔
جس طرح عبقات الانوار محتاج تعارف نہیں ہے، اسی طرح اس کتاب شریف کے مؤلف امام المتکلمین علامہ میر حامد حسین موسوی ہندی نوراللہ مرقدہٗ بھی محتاج تعارف نہیں ہیں۔
عبقات الانوار کیوں اور کیسے لکھی گئی:
عبقات الانوار، کتاب “تحفۂ اثناعشریہ” عبدالعزیز دہلوی کے مقابلہ میں علمی ،مستند، مدلل، منطقی ،شکل میں جواب کے طور سے لکھی گئی ہے۔ مولوی عبدالعزیز دہلوی اہل سنت کے برجستہ علماء میں جانے جاتے ہیں، جو انتہائی تعصب رکھنے والوں میں مشہور ہیں “سراج الہند”کےنام سےشہرت رکھتے ہیں۔
یہ کتاب دراصل مسلمانوں میں تفرقہ ایجاد کرنے کی غرض سے تالیف کی گئی تھی جس میں شیعہ عقائد و نظریات پر بھرپور طریقہ سے تہت والزام کا سہارا لے کرنا کام حملہ کیا گیا۔ مؤلف نے اس کی طبع اول میں اپنا مستعار نام غلام حلیم قرار دیا، دوسری طباعت میں اپنا اصلی نام ظاہر کیا۔
صاحب عبقات الانوار لکھتے ہیں :
اس کتاب میں شیعہ عقائد و نظریات کو بطور عموم اور مذہب شیعہ اثنا عشری کو خاص طور سے اصول، فروع، اخلاق، آداب اور ان کے تمام اعمال و اعتقادات کو انتہائی رکیک عبارتوں، آداب مناظرہ سے خالی، نوواردکے مانند جس کی تحریر خطاب سے زیادہ مشابہ ہو،جہاں نہ کوئی منطق،نہ برہان،اس طرح تمام مقدسات کو نشانہ بنایا گیا،اور پوری کتاب افتراء و الزام اور تہمت سے بھری ہوئی ہے۔
مولوی عبدالعزیز دہلوی کے پاس کتاب میں کوئی نئی بات پیش کرنے کے لیے نہیں تھی بلکہ اپنے گزشتہ علماء ابن تیمیہ ،روزبہان ،جوزی ،کابلی جیسے متعصب علما، اہلسنت کی باتوں کو دہرایا ہے اور بس۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کتاب میں کسی طرح کی خلاقیت یا کوئی نئ بات نہیں پیش کی بلکہ پورے طور سے یہ ایک دوسری کتاب کا ترجمہ ہے جیسا کہ صاحب ’’نجوم السماء‘‘اور علامہ میرحامد حسین رضوان اللہ تعالی علیہ نے تصریح فرمایا ہے : اصل میں خواجہ نصراللہ کابلی کی کتاب ’’صواقع‘‘ ہے جسے عبدالعزیز نے فارسی زبان میں ترجمہ کرکے اپنے نام سے چھپوا دیا ہے۔
( عبقات الانوار حدیث ثقلین ،ط، اصفہان جلد ۶صفحہ۹۸۱۱)
خدا جانتا ہےانسان جب تحفۂ اثناعشریہ کےواہیات، فضول تحریروں کو پڑھنے کے بعد عبقات الانوار پر نگاہ کرتا ہے تو وہ علامہ میرحامد حسین ہندی کے دریائے علم کے بے کراں معلومات کے مقابلے میں ایک قطرہ بھی نہیں معلوم ہوتی۔
کتاب تحفہ اثنا عشریہ کے تمام مطالب بارہ ابواب میں تدوین کیے گئے ہیں :
۱۔ مذہب تشیع کے وجود میں آنے کی کیفیت اور اس سے مختلف فرقوں کا وجود میں آنا۔
۲۔ شیعوں کا مکر و فریب اور انحراف و گمراہی کے مختلف راستے۔
۳۔ شیعوں کے اسلاف، علماء اور ان کی کتابیں۔
۴۔ شیعہ روایتوں کا حال اور ان کے رواۃ کا تذکرہ۔
۵۔ الٰہیات کے بارے میں۔
۶۔ نبوت کے سلسلہ میں۔
۷۔ امامت کے بارے میں۔
۸۔ معاد کے سلسلے میں۔
۹۔ فقہی مسائل میں۔
۱۰۔ خلفائے ثلاثہ و عائشہ اور دوسرے اصحاب کے مطاعن میں۔
۱۱۔ مذہب شیعہ کے خصائص میں جسے تین حصوں میں قرار دیا ہے الف: اوہام ۔ب :تعصبات. ج :لغزشیں اشتباہات۔
۱۲۔ تولا وتبرا جو دس مقدمات پر مشتمل ہے۔
(عبقات الانوارحدیث ثقلین ط اصفہان صفحہ۱۲۰۰ )
یہ یاد رہے کہ علامہ میرحامد حسین رضوان اللہ تعالی علیہ کی کتاب عبقات الانوار کے علاوہ دوسری اور بھی بہت سی کتابیں جواب میں لکھی گئی ہیں، ان میں بعض مکمل تمام بارہ ابواب کے جوابات دیے گئے ہیں،بعض فقط چند باب کے جواب پر مشتمل ہیں اور بعض ایک ہی باب کے جواب میں تالیف ہوئی ہیں، جو تمام ابواب پر مشتمل جواب میں تحریر ہوئی ہیں:
۱۔ مرزا محمد اخباری ابن عبد النبی (مقتول ۱۲۳۲ ق) بنام سیف اللہ المسلول علی مخربی دین الرسول”
۲۔ مرزا محمد بن احمد خان طبیب کشمیری دہلوی (مقتول ۱۲۳۵ ق) ۔ بنام النزہۃ الاثنا عشریۃ” اس کے علاوہ
۳۔ سید مفتی محمد عباس شوستری ۱۳۰۶ ق۔ نے ’’جواہر عبقریۃ در رد تحفہ اثناعشریہ ‘‘ تالیف فرمائ۔
۴۔ علامہ سید جعفر معروف بہ ابو علی خان موسوی نے دو کتابیں تحفہ کی تردید میں تحریر کی ہیں:
الف۔برہان الصادقین، ساتویں باب کی تردید میں۔
ب۔ تکسیر الضمین۔دسویں باب کی تردید میں۔
۵۔ صاحب عبقات کے والد ماجد سید محمد قلی نیشا پوری ہندی قدس اللہ سرہ تحفہ کے ساتویں باب کی تردید میں ’’برہان السعادات‘‘ اور باب اول کی رد میں ’’سیف ناصری‘‘ اور باب دوم کی رد میں’’تقلیب المکائد‘‘ اور تحفہ کے باب دہم کی رد میں” تشییدالمطاعن” اور گیارہویں باب کے ابطال میں’’مصارع الافہام لقلع الاوھام‘‘ جیسی معرکۃ الآراء کتاب تالیف فرمائی ہے۔
۶۔ سید دلدار علی ابن سید محمد معین نقوی لکھنوی قدس اللہ سرہ ۱۲۳۵ق۔ نے فارسی میں تحفہ کے آٹھویں باب کی رد میں ’احیاء السنۃ و امامۃ البدعۃ‘ اور چھٹے باب کی تردید میں’حسام الاسلام وسہام الملام‘ اور پانچویں باب کے ابطال میں ’والصوارم الالہیۃ‘ اور تحفۂ اثنا عشریہ کے بارہویں باب کی رد میں ’ذوالفقار‘ تحریر فرمائی ہے۔
علامہ میر حامد حسین رضوان اللہ علیہ:
امام المتکلمین،عالم وفقیہ زبردست ،علامہ میر حامد حسین رضوان اللہ تعالی علیہ تیرہویں صدی ہجری میں علم و عمل اور فقہ وکلام کی بلند ترین منزل پر فائز تھے، ان کا خاندان شاہ سلطان حسین صفوی کے دور میں سید محمد نامی جو علمائے نیشاپور سے تھے، ہندوستان تشریف لائے اور دہلی میں مقیم ہوئے۔ آہستہ آہستہ خاندان کے افراد نے حکومت میں نفوذ پیدا کیا اور اس طرح خاندان کا ایک فرد سید محمد بنام برہان الملک صوبہ اودھ کےحاکم مقرر ہوئے تو بہت سےافراد نیشاپورخراسان و مشہد سے ہندوستان آکرشہر لکھنو میں آباد ہوئے۔
اور اس طرح مرحوم علامہ میرحامد حسین ہندی صاحب عبقات اس شیعہ حاکم کے خاندان کے سایۂ عطوطفت و سرپرستی میں اپنی فعالیت انجام دے رہے تھے۔
(سید محمد رضاحکیمی میر حامد حسین صفحہ ۱۰۵)
علامہ میر حامد حسین ہندی ۵ محرم ۱۲۴۶ میں پیدا ہوئے۔ نام سید مہدی کنیت ابو ظفر تھی. سید حامد حسین کے نام سے شہرت ہوئی، آپ نے اپنے پدر بزرگوار سے علوم واسلامی معارف حاصل کیا اور ۱۵ سال کی عمر میں سایۂ پدری سے محروم ہوگئے۔ پھر آپ نے ادبیات اور نہج البلاغہ مفتی سید محمد عباس قدس سرہ سے اور مقامات حریری مولوی سید برکت علی صاحب سے حاصل کیا اور حکمت و فلسفہ سید مرتضی ابن سلطان علماء اور سید محمد ابن دلدار علی قدس اللہ سرھما سے سیکھا۔
علامہ میرحامد حسین مرحوم علمائے گزشتہ کے آثار اور اخبارو روایات پر بڑا تسلط رکھتے تھے اور جدو جہد وتتبع کتب میں بڑی مہارت اور خاص شہرت حاصل تھی ۔معقولات اور منقولات حاصل کرنے کے بعد اپنی ساری عمر دینی اعتقادات کے تحفظ خاص طور سے امامت و ولایت اہل بیت اطہار علیہم السلام کے دفاع میں بسر کردی،اور اس میدان میں کئی نامور کتابیں تالیف و تصنیف فرمائی ہیں، علامہ میرحامد حسین رضوان اللہ تعالی علیہ ۱۸ صفر ۱۳۰۸ھ قمری میں دعوت حق کو لبیک کہہ کر عالم اسلام وتشیع ،خاص طور سے ہندوستان کے مومنین کو ہمیشہ کے لئے اپنے بابرکت وجود سے محروم کر دیا،آپ کو امام باڑہ غفران مآب لکھنو میں ہزاروں سوگواروں کے سایہ میں سپرد لحد کر دیا گیا۔
عبقات الانوار در مناقب ائمہ اطہار :
تحفہ اثنا عشریہ کے جواب میں لکھی جانے والی کتابوں کے مقابلے میں عبقات الانوار کی خصوصیت یہ رہی ہے کہ جب بھی کوئی شیعہ عالم تحفہ کا جواب لکھتا تو مولوی عبدالعزیز دہلی کے شاگرد اور اس کے ہم فکر اس کا جواب فراہم کرتے اور مقابلہ آرائ کیلئےمیدان میں آجاتے،مگر جب عبقات الانوار اپنے علمی،منطقی،محکم دلائل کے ساتھ منظر عام پر آئی تو اس کے جواب لکھنے کی کسی میں جرأت نہ ہوئ اور اب تک نہیں سنا گیا کہ اس کی رد میں کوئی کتاب لکھی گئی ہے۔
(علامہ سید علی حسینی میلانی خلاصہ عبقات جلد۱صفحہ ۱۲۸)
علامہ میرحامد حسین مستند اور مدلل مطالب نقل کرنے کے علاوہ اسلامی آداب کی پوری طرح سے رعایت فرماتے تھے،وہ دلیل و برہان اور منطق کے ساتھ حلم وصبر اور عدل و انصاف کے دائرے سے باہر نہیں جاتے تھے۔ صاحب تحفہ کا خیال تھا کہ امامت ائمہ علیہم السلام کے ثبوت محض چھ آیتوں اور بارہ حدیثوں میں منحصر ہے۔ علامہ میرحامد حسین کہتے ہیں :
سب سے پہلی بحث یہی ہے کہ دہلوی نے خلافت امیرالمومنین علیہ السلام اور ولایت مطلقہ پر دلالت کرنےوالی احادیث نبویہ کو بارہ حدیثوں میں منحصر کردیا ہے،یہ کھلی ہوئی حقیقت کا انکار ہے اور ہمیں نہیں معلوم کہ آیا یہ حصر عقلی ہے؟یا استقرائی ہے؟ اگر حصرعقلی ہے تو امامت و ولایت جیسے مسئلے میں اور اس طرح کی بحثوں میں عقل کا کوئی دخل نہیں ہے (کہ بات اثبات امامت حدیثوں کی روشنی میں ہے) اور اگر حصر استقرائی یعنی تلاش وجستجو کے بعد کہا ہے تو حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ اس سلسلے میں جو نصوص وارد ہوئی ہیں وہ بارہ عدد سے کہیں زیادہ اور اس کے چند برابر پائی جاتی ہیں، جیسا کہ یہ بات کسی متتبع کتب اور منصف سے پوشیدہ نہیں ہے۔
(خلاصہ عبقات الانوار جلد۶ ص ۵۱)
عبدالعزیز دہلوی نے جن آیات و روایات کو تحفے میں دلالت و سند کو ضعیف قرار دیا تھا صاحب عبقات نے اپنی ساری توجہ انہیں آیا ت و روایات کی طرف مبذول رکھی۔ اسی لیے اپنی کتاب عبقات الانوار کو دو نہج میں ترتیب و تالیف کیا ہے ۔
منہج اول۔
صاحب عبقات نے اس حصے میں قرآن کریم کی ان چند آیتوں کی بحث و گفتگو کو پیش کیا ہے جو صاحب تحفہ کی طرف سے امامت و ولایت پر دلالت کو ضعیف قرار دی گئی تھیں :
جیسے: انما ولیکم اللہ۔۔۔۔۔الخ
الیوم اکملت لکم دینکم۔۔۔الخ
مگر افسوس آیات والی جلدیں ابھی تک طبع نہیں ہو سکیں۔ لیکن کتابخانۂ ناصریہ شہر لکھنؤ اور مولوی سید رجبعلی خان سبحان الزمان جکراوان میں موجود ہیں۔
(شیخ آقا بزرگ تہرانی الذریعہ جلد۱۵ صفحہ ۲۱۴)
(خداوندعالم خانوادۂ عبقات اور قوم کے دلسوز و ہمدردو متدین افراد کو توفیق عنایت فرمائے تاکہ عبقات کی مکمل جلدیں زیور طبع سے آراستہ ہوکر جلد منظر عام پر آسکیں۔ یہ مذہب کی بڑی خدمت اور صاحب عبقات کی زحمتوں و مشقتوں کا بہترین خراج تحسین بھی ہوگا )
علامہ سید علی حسینی میلانی مدظلہ نے اپنی کتاب خلاصۂ عبقات جس کا نام نفحات الازہار رکھا ہے اس کے نئے ایڈیشن کی بیسویں جلد میں علامہ میرحامد حسین کی روش تحقیق کے مطابق قرآن کریم کی ان چھ آیتوں کی دلالت پر بحث کی ہے جو یقینا ایک عظیم کارنامہ ہے:
۱۔ انما وليكم الله ورسوله…الخ
۲۔ انما يريد الله ليذهب عنكم الرجس..الخ
۳۔ قل لا اسئلكم عليه اجرا الا المودة..الخ
۴۔ فمن حاجك فيه من بعد ما جاءك من العلم..الخ
۵۔ انت منذر..الخ
۶۔ السابقون.. الخ
منہج دوم :
علامہ میرحامد حسین رضوان اللہ علیہ نے اس مقام پر ان بارہ احادیث کی سند و دلالت پر بحث پیش کی ہے جن کے بارے میں مولوی عبدالعزیز دہلوی نے اعتراضات و شبہات وارد کئے ہیں ۔ان میں سے بعض احادیث کی بحث کو صاحب عبقات کے فرزندوں نے مکمل کر کے شایع کیں ہیں ۔عبقات الانوار کی وہ جلدیں جو علامہ میرحامد حسین رضوان اللہ علیہ کے بدست لکھی گئیں ہیں وہ حسب ذیل ہیں:
جلد اول – بحث حدیث غدیر:
يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِيْنَ اَلَسْتُ اَوْلٰى بِكُمْ مِنْ اَنْفُسِكُمْ قَالُوْا: بَلٰى قَالَ: مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ اَللّٰهُمَّ وَ آلِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِمَنْ عَادَاهُ
مرحوم علامہ نے اس کی سند اور دلالت پر سیر حاصل بحث کی ہے جس کے بعد کسی میں یارائے انتقاد نہیں رہ جاتا۔ اس لئے کہ صاحب عبقات نے واقعۂ غدیر کی بڑی عمیق و دقیق بحث کی ہے جہاں سند ومتن دونوں لحاظ سے تخریج و تثبیت کی ہے۔ غدیر کی یہ جلد خود بڑی تفصیل کے ساتھ دو فصلوں میں تدوین ہوئی ہے:
الف : پہلی فصل میں حدیث غدیر کو سو سے زیادہ اصحاب پیغمبر، تابعین، تبع تابعین، اور محدثین سے تاریخ وار ابتدا سے اپنے عہد تک درج کردیا ہے ۔اوریہ سارے علماء و محدثین اور رواۃ اہل سنت مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان منابع اور معتبر متون کو جو خود علمائے اہلسنت کے نزدیک توثیق شدہ ہیں ،ان کی بنیاد پر رجال و رواۃ کے حالات کو مرتب کیا ہے جسے دیکھ کر واقعی عقل حیران رہ جاتی ہے ۔
ب : دوسری فصل میں حدیث غدیر کے متن کو تفصیلی طور سے امامت و خلافت امیرالمومنین علیہ السلام پر دلالت کے تمام پہلوؤں، اس کے قرائن و شواہد کے ساتھ بحث پیش کی ہے۔ اور سیر حاصل بحث و گفتگو کے بعد وہ تمام اعتراضات و شبہات یا خواہ مخواہ کی تاویلیں جنہیں منکر حدیث غدیر پیش کرتے ہیں، یا کسی احتمالی شبہ سے عوام کے ذہنوں کو آشفتہ کرسکتے ہیں ہر ایک کو درج کرکے ان کا دندان شکن جواب دیا ہے اور باطل ہونے کو آشکار کر دیا ہے۔
عبقات الانوار کے اس حصے کے تعارف کے لئے خود مستقل ایک کتاب یا رسالہ درکار ہے ۔ عبقات الانوار کوئی معمولی کتاب نہیں ہے یہ حدیث شریف غدیر کا پہلا دائرۃالمعارف ہے۔
جلد دوم: حدیث منزلت :
یہ جلد بھی اسی روش اور ترتیب سے تالیف کی گئ ہے ۔
حضرت ختمی مرتبت ﷺ نے امیرالمؤمنین علیہ السلام سے فرمایا:
اَلَا تَرْضٰى اَنْ تَكُوْنَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُّوْسٰى اِلَّا اَنَّهٗ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ
حدیث منزلت بھی بعض علمائے اہل سنت کے مطابق یہ صحیح ترین حدیثوں میں قرار دی گئی ہے جو مسلمان محدثین کےدرمیان ہمیشہ نسل بہ نسل متداول و متواتر نقل ہوتی رہی ہے حتی کہ حد تواتر سے بھی تجاوز کر گئی ہے ۔شاید اسی لیے پانچویں صدی ہجری کا محدث حافظ ابو حازم عبدوئ نے لکھا ہے :
میں نے اس حدیث کو ۵۰۰۰ طرق سے تخریج یعنی نقل کیا ہے ۔
(تر اثنا سال ۲۔ ش ۔ ۱ صفحہ ۵۷)
جلد سوم : حدیث ولایت:
اِنَّ عَلِيًّا مِنِيِّ وَاَنَا مِنْهُ وَهُوَ وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ بَعْدِيْ
حدیث ولایت بھی گزشتہ دو جلدوں کی روش کے مطابق مرتب کی گئی ہے جسے دیکھ کر انسان حیرت میں پڑ جاتا ہے۔
جلد چہارم:۔حدیث تشبیہ :
مَنْ اَرَادَ اَنْ يَّنْظُرَ اِلٰى آدَمَ فِيْ عِلْمِه…
صاحب عبقات نے اس حدیث نبوی کے تمام جوانب سےاپنی بحث و تحقیق کو سند و دلالت دونوں لحاظ سے درج کی ہے کہ کسی کے لیے مجال مناقشہ باقی نہیں رکھا ہے۔
جلد پنجم:۔ حدیث نور :
اَنَا وَعَلِيُّ ابْنِ اَبِيْ طَالِبٍ نُوْرًا بَيْنَ يَدَيَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ قَبْلَ اَنْ يَخْلُقَ آدَمَ بِاَرْبَعَةِ الْاٰف عَامِ..
سند و دلالت دونوں اعتبار سے بھرپور بحث ہوئی ہے اور اس سے امامت امیرالمومنین علیہ السلام ثابت فرمایا ہے۔
اس کے بعد علامہ میرحامد حسین قدس سرہ کو اجل نے مہلت نہ دی کہ بقیہ احادیث کو اسی روش کے مطابق مکمل فرماتے ان کے بعد ان کے فرزند ارجمند علامہ سید ناصر حسین ناصر الملت قدس سرہ جو یقینا والد ماجد کی طرح آسمان فضیلت کے درخشاں ستارے تھے ،انہوں نے دوسری چار حدیثوں کو اسی اسلوب اور روش کے مطابق تمام کیا۔
جلد ششم:۔ حدیث طیر:
اَللّٰهُمَّ إئْتِنِيْ بِاحبَ خَلْقِكَ اِلَيْكَ وَاِلَيَّ يَاكُلْ مَعِيْ فَجَاء عَلِيٌ
صاحب کتاب نے سو طریقہ سے مدلل اور مستند طور سے مکمل بحث کاحق ادا کیا ہے اور اس طرح امامت کو ثابت کیا کہ اس سے سارے اعتراضات کے دروازے بند کر دئے۔جس مقام پر صاحب تحفہ نے یہ اعتراض کیا کہ (احب)”محبوب” سے مراد (احب فی الاکل)”کھانے میں محبوب مراد” ہے نہ مخلوقات میں تو اسے علامہ نے ستر طریقوں سے باطل کیا ہے۔
جلد ہفتم : حدیث باب:
اَنَا مَدِينَۃُ الْعِلْمِ وَعَلِيٌّ بَابُهَا..الخ
یہ بھی سند و دلالت دونوں اعتبار سے انتہائی دقیق اور وسیع پیمانے پر تدوین کی ہے۔ ان بحثوں کے تعارف کے لیے مضمون طویل ہو جائے گا صرف اس کے ایک مقام کے فصل کی سرخی ملاحظہ فرمائیں بحث کی وسعت و گیرائ کا اندازہ ہوجائےگا:
’’امیر المومنین سے امام رضا علیہما السلام تک ۲۴۵ طرق سے حدیث مدینہ کا اثبات اور اس پر وارد کیے جانے والے اعتراضات کے جوابات”
جلد ہشتم : حدیث ثقلین:
اِنِّيْ تَارِكٌ فِيْكُمُ الثَّقَلَيْنِ مَا اِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدِيْ اَحَدْهُماَ اَعْظَمُ مِنَ الْاٰخَر كتابُ اللهِ وعِتْرَتِي۔
یہ حدیث پیغمبر ﷺبھی صحت و اعتبار کے معیار سے بہت بڑھ کر مسلمانوں میں جانی جاتی ہے۔ اور صاحب عبقات نے تصریح کی ہے کہ حدیث ثقلین کو اہل سنت کے ۱۸۷ علماء نے لکھا ہے۔حدیث کے قطعی الصدور اور متواتر ہونے کی بحث میں صاحب کتاب نے پورا حق ادا کر دیا ہے۔ نور الانوار کے نام سے عزیز دوست مولانا شجاعت حسین صاحب قبلہ کے ترجمہ کے ساتھ اردو میں بھی شایع ہو چکی ہے۔
جلد نہم : حدیث سفینہ :
اَلَا اِنَّ مَثَلَ اَهْلِ بَيْتِيْ فِيْكُمْ كَمَثَلِ سَفِيْنَۃِ نَوْحٍ مَنْ رَكِبَهَا نَجٰي وَ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا هَلَكَ
اس حدیث کو بھی سند ودلالت دونوں لحاظ سے نقل کیا ہے جو کئی بار ہندوستان وایران میں طبع ہوچکی ہے۔
شاید خدائے تعالی کو اس عظیم خاندان کے ہر بزرگ سے دفاع امامت اور عبقات الانوار کی خدمت کا شرف عطا کرنا چاہتا تھا کہ پیغام اجل نے مرحوم ناصرالملت قدس سرہ کو بھی مہلت نہ دی تو ان کے بعد ان کے باصلاحیت فرزند سید محمد سعید، سعید الملت قدس سرہ نے دوسری دو حدیثوں کو تکمیل فرمایا:
جلد دہم:۔ حدیث مناصبۃ :
مَنْ نَاصَبَ عَلِيَّا الْخِلَافَۃَ فَهُوَ كَافِرٌ
فارسی زبان میں سند ودلالت دونوں لحاظ سے گفتگو کی گئ ہے ۔مگر جیسا کہ معلوم ہے ابھی تک غیر مطبوع ہے ۔اور اس کے علمی و منطقی بحث و گفتگو سے عاشقان ولایت محروم ہیں۔خداوند سے دعا ہے جلد از جلد اس کی طباعت کے وسائل فراہم فرمائے تاکہ عاشقان و مدافعان امامت اس سے مستفید ہو سکیں۔
جلد یازدہم :۔ حدیث خیبر:۔
لَاَعْطِيَنَّ الرَّاْيَۃَ غَدًا رَجْلًا يُحِبُّ اللهُ وَرَسُوْلَهٗ وَيُحِبُّهُ اللهُ وَ رَسُوْلُهٗ يَفْتَحُ اللهُ عَلٰى يَدَيْهِ
یہ جلد بھی غیر مطبوعہ ہے۔ کہتے ہیں یہ صرف قسم اول ہی کے لحاظ سے مرتب ہو پائی ہے۔
آخر کی چھہ حدیثیں مرحوم علامہ سید حامد حسین موسوی رہ کے نام نامی سے منسوب کیا ہے تاکہ اس عظیم الشان شخصیت کو خراج تحسین پیش کر سکیں۔
اب تک جو حدیثیں جلدوں کی شکل میں چھپی ہیں وہ نو حدیثیں ہیں ۔اور دو حدیثیں: ’’حدیث مناصبۃ‘‘ اور حدیث ’’خیبر‘‘ (قسم اول) تحریر ہوئی ہیں لیکن غیر مطبوع ہیں۔
(عبقات الانوار غلامرضا مولانا بروجردی در مقدمہ ج ۱)
اور دو حدیثیں ، حدیث ’’حق‘‘ (رَحِمَ اللهُ عَلِيًّا اَللّٰهُمَّ اَدْرِ الْحَقَّ مَعَ حَيْثُ دَارَ ) اور حدیث ’’خیبر‘‘( کی قسم دوم- دلالت) مجموعی بارہ حدیثوں میں سے تالیف نہیں ہوسکی ہیں۔
(علامہ سید علی حسینی میلانی خلاصۂ عبقات جلد ۱ صفحہ ۱۲۴)
بارگاہ رب العزت میں دعا ہے اس عظیم کارنامہ کی تکمیل اور مکمل کتب کی طباعت کے لیے فرزندان صاحب عبقات کی توفیقات میں اضافہ فرمائے اور اپنے اسلاف کی روش واسلوب تحریر کو جاری و ساری رکھیں (آمین)
علماء کے تأثرات :
عبقات الانوار عالم اسلام خصوصا عالم تشیع کے لیے ایک شاہکار ہے، تو علمائے ہند کی علمی اور منطقی صلاحیتوں کا ابتکار بھی ہے۔ اگر برصغیر سے باہر کی دنیا اس پر فخر کرتی ہے تو ہم ہندوستانی بھی اس پر ناز کرتے ہیں کہ وہ دشمنان اہلبیت کے باطل خیالات کے لئے شمشیر براں ہے تو اس کے عالمانہ و مستند و مدلل مطالب، اعجاز آمیز اور حجت مذہب بھی ہے۔
علامہ امینی رضوان اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:
جس نے بھی اس کتاب کو دیکھا تو روشن و واضح معجزہ پایا ۔کوئی باطل اس کی طرف آ نہیں سکتا۔ میں نے اس کے نہایت بلند اور علمی مطالب سے بہت زیادہ استفادہ کیا ہے اسی لئے مسلسل اس کا شکریہ ادا کرتا رہا ہوں۔
(الغدیر جلد ۱ ص ۱۵۶)
مرحوم مرزا ابو الفضل کلانتری تہرانی لکھتے ہیں:
سید جلیل،محدث ،عالم ،عامل…… میرے خیال میں جب سے علم کلام کی بنیاد رکھی گئی ہے کوئی ایسی کتاب جو مخالف کتابوں کی تمام روایتوں پر نظر اور باب فضایل میں کثرت سے اطلاع رکھتا ہو علامہ میر حامد حسین ہندی کے علاوہ مذہب شیعہ میں اب تک کسی نے ایسی کتاب تصنیف نہیں کی ہے۔
(کتاب شفاءالصدور ذیل جملہ: السلام علیک یابن فاطمۃ الزھراء ؐ، ص ۱۰۰)
اس کے علاوہ علماء و مراجع عظام رضوان اللہ تعالی علیہم کے بہت سے خطوط اس کتاب کی تعریف و تمجید میں موجود ہیں یہاں ان سے صرف نظر کرتے ہیں۔
روش تحقیق :
صاحب عبقات، عبقات کی تدوین و ترتیب میں پہلے صاحب تحفہ کے مطلب کو اس کے دقیق و کامل مستندات کے ساتھ درج کرتے ہیں۔ پھر اس کا جواب تحریر فرماتے ہیں اور اپنے جواب میں پہلے مورد نظر حدیث کی سند کا تجزیہ کرتے ہیں پھر اہل سنت ہی کی معتبر کتابوں اور ان کے طرق کے مؤثق مدارک سے اس کے قطعی الصدور اور متواتر ہونے کو ثابت کرتے ہیں۔ اور اس سلسلے میں اس حدیث شریف کے تمام راویوں کے اسماء کو ان کے تاریخ وفات کے ساتھ دوسری صدی ہجری سے تیرہویں صدی ہجری تک سلسلہ وار نقل فرماتے ہیں۔ پھر اس راوی کی مورد نظر روایت کو ذکر کرتے ہوے راوی کا تعارف کہ اصحاب میں ہے، یا تابعی، عالم ہے یا مولف۔ پھر اس راوی کےحال کو انہی کےکتب تراجم و رجال کو بنیاد بنا کر پیش کرتے ہیں۔ پھر حدیث کے متن اور شیعہ عقیدے کے مطابق امامت امیرالمومنین علیہ السلام پر دلالت کی کیفیت کے بارے میں عمدہ بحث پیش کر کے آخر میں ایک ایک اعتراضات و شبہات کے مدلل اور مستند اور محکم جواب درج کرتے ہیں۔
علامہ میرحامد حسین قدس سرہ مطالب یا احادیث کے نقل کرنے میں انتہائ دقت نظر سے کام لیتے ہیں۔ مصادر و مدارک حتی باب ،فصل صفحہ بھی مکمل طور سے نقل فرماتےہیں ۔یہی صاحب عبقات کی روش رہی ہے اور ان کے بعد بقیہ کتابوں کو مکمل کرنے والوں (اختلاف) کی بھی یہی روش رہی ہے۔
علامہ میرحامد حسین رضوان اللہ تعالی علیہ کی روش تحقیق حقیقت میں مختلف علوم جیسے علم تفسیر ،کلام، حدیث ، درایۃ ،تاریخ، ادبیات …کی بحث کے ہمراہ ہوتی ہے اس بنا پر عبقات الانوار کی بحثیں انتہائی کامل، جامع اور ہر مفسر ،متکلم و محدث اور ادیب کے لئے قابل استفادہ ہیں۔
شیخ آقا بزرگ تہرانی میر حامد حسین قدس سرہ کے اخلاقی و روحانی نکتہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے لکھتے ہیں:
حیرت کی بات یہ ہے کہ اس عظیم الشان کارنامہ اور نفیس کتابوں کے دائرۃ المعارف کی تالیف میں صرف اسلامی سر زمین یا مسلمانوں کے بدست تیار ہونے والی روشنائی اور کاغذ ہی سے استفادہ کیا ہے یہ ان کے عظیم تقوی و پرہیزگاری کا بین ثبوت ہے۔
(محمد رضا حکیمی میر حامد حسین دفتر نشر فرہنگ اسلامی ۱۳۵۹)
صاحب عبقات نے اس دائرۃ المعارف کی تدوین میں بڑی بڑی زحمتیں برداشت کی ہیں۔کیوں کہ اس دور میں آج کے کتابخانوں جیسے کتابخانے نہیں تھے اس دور میں زیادہ تر اہم کتابیں خطی یا نایاب ہوتی تھیں اور منابع و متون کے تدارک کے لیے سفر و حضر میں ہی مطالعہ و استنساخ منابع میں عمر صرف ہو جاتی تھی مگر اس کے لئے مرحوم علامہ نے اپنے کو تیار کیا ایک ملک سے دوسرے ملک ،عراق سے عربستان مکہ معظمہ میں کتاب خانہ حرمین شریفین کی کتابوں کی خاک چھانتے ہوئے اپنے لیے نایاب گوہر تلاش کر کے یکجا کرتے رہے، یہاں تک کہ جب سنتے ہیں کہ ان کے مقصد کا اہم ترین گوہر اور نایاب نسخہ مکہ کے دیہاتوں میں کسی دیہات کے کتاب خانے میں ہے جس کا مالک کسی بھی شکل میں اسے دکھانے تک کے لیے راضی نہیں ہے تو آپ آرام سے نہیں بیٹھتے آخر کار اسے حاصل کرنے کے لئے سفر کی صعوبتوں کو تحمل کرتے ہوئے اور شکستہ نفسی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے راتوں کو جاگ کر نسخہ برداری کرنے کے علاوہ چند دن اپنی عزت اور شان و حیثیت کی پرواہ کیے، بغیر دشمن اور متعصب ترین مخالف کے کتاب خانے میں نوکری کرنے کے لیے جان خطرے میں ڈال کر اپنے گوہر مقصود کو حاصل کر لیتے ہیں۔
اس طرح کے واقعات بے شمار ہیں جن کو یہاں نقل کرنے کی گنجائش نہیں ہے ورنہ کون نہیں جانتا جب صاحب عبقات لکھتے لکھتے تھک جاتے تو دوسرے ہاتھ سے لکھتے اس طرح دونوں ہاتھوں سے تحریر فرماتے تھے یہاں تک کہ ایک ہاتھ لکھنے سے جواب دے دیا آخرکار بیٹھ کر بھی لکھنا مطالعہ کرنا مشکل ہوگیاتولیٹ کرمطالعہ فرماتےاور اپناکام جاری رکھا کیوں کہ اس عاشق ولایت امیرالمومنین علیہ السلام کے دل میں صرف ایک ہی آرزو تھی کہ دشمن اہل بیت کی زبان پرمحکم و مستند اور علمی طریقۂ استدلال سے ہمیشہ کیلئے مہر ثبت کر دی جائے کہ پھر کبھی کوئی مخالف، امامت اہل بیت علیہم السلام اور دلائل میں شبہ نہ کر سکے۔ اور شاید یہ تمنا پوری بھی ہو گئی کیونکہ عبقات الانوار کے مطالب کے بارے میں پھر کسی نے لب کشائی کی جرأت نہیں کی ۔
خداوند عالم اس مدافع ولایت ،امام متکلمین کو انکے جد امیرالمؤمنین علیہ السلام کے ساتھ محشور فرمااور ہم سب کو اس امامت و ولایت کی ترویج و تبلیغ کی توفیق عنایت فرما۔ تاکہ وارث تاجدار غدیرامام عصرع کے ظہور کا میدان فراہم ہو اور ہم سب کوان کے اعوان و انصار میں شمار فرما۔ آمین
Load/Hide Comments