اہمیت امامت
اہل بیت علیہم السلام کی امامت و ولایت دین کا وہ اہم ستون ہے جس کی بنیاد پر دین کی عمارت قائم ہے اس رکن کے بغیر دین کی عمارت نہ صرف یہ کہ ناقص ہے بلکہ وہ دین ہی نہیں ہے جو خداوند عالم نے حضرت رسول خدا ﷺ پر نازل فرمایا تھا۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ ارکان دین قرض کی رقم کی طرح نہیں ہے اگر سو روپے قرض لئے ہیں اور اس میں سے کچھ ادا کر دیا مثلا پچاس روپے ادا کر دیے ہیں تو نصف کی ادائیگی ہوگی اور ہم نصف قرض سے بری الذمہ ہو گئے اس نصف کے بارے میں اب ہم سے سوال نہیں کیا جائے گا۔ ارکان دین نماز صبح کی طرح ہیں۔ اگر ایک بھی رکعت چھوڑ دیں یا ایک بھی رکعت ترک کردی تو گویا نماز پڑھی ہی نہیں۔ صبح کی نماز اس وقت ادا ہوگی اور ہم اس وقت نماز صبح کی ذمہ داری سے بری الذمہ ہوں گے جب ہم تمام ارکان واجبات کے ساتھ ادا کریں گے ولایت و امامت اہل بیت علیہ السلام دین کی بنیاد اور رکن ہے اگر یہ رکن اُس طرح ادا نہیں کیا گیا جس طرح خداوندعالم نے نازل کیا ہے تو ہمارے پاس خدا کا نازل کردہ اسلام نہیں ہے ولایت و امامت امام اس قدر اہم ہے کہ حضرت رسول خدا ﷺ نے روز اول سے اس کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ اس کی اہمیت کو بیان کیا۔
خطبہ غدیر
خطبہ غدیر اعلان ولایت کا روشن سورج ہے جو آج بھی اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ چمک رہا ہے اور تمام لوگوں کو ہدایت کا راستہ دکھا رہا ہے خطبہ غدیر اپنی سندوں کے ساتھ معتبر ترین کتابوں میں موجود ہے اس کی سند اس قدر مستحکم ہے جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے مگر اس طرح جس طرح لوگ دوپہر میں سورج کے وجود کا انکار کریں علماء نے اس سلسلے میں اس قدر دقیق بحثیں کی ہیں جس کی کوئی مثال نہیں ہے۔
سوال : جب واقعہ غدیر خطبہ غدیر حدیث غدیر اس قدر مستند ہے اور اس کی دلالت اس قدر واضح ہے تو لوگ اس کا انکار کیوں کرتے ہیں؟ اور اس کی توجیہ کیوں کرتے ہیں۔؟
جواب: اس وقت یہ خطبہ غدیر حدیث الغدیر مختلف واسطوں سے ہم تک پہنچی ہے جن لوگوں نے خود اپنے کان سے اس خطبے اور اس حدیث کو سنا تھا اور اس پر خدا کو گواہ بھی قرار دیا تھا جب ان لوگوں نے فورا بھلا دیا اور اس پر عمل نہیں کیا تو آج لوگوں سے کیا شکایت جب کہ یہ لوگ انہیں انکار کرنے والوں کے راستے پر چل رہے ہیں۔
خطبہ غدیر حدیث قدسی
اس تاریخی خطبے کے آغاز میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کے بارے میں جبریل امین کی زبانی خداوندعالم کا حکم بیان فرمایا ہے اس بنا پر خطبہ غدیر کا یہ جملہ حدیث قدسی ہے کلام الہی ہے۔ جبرئیل امین نے خداوندعالم کا پیغام اس طرح بیان کیا ہے۔
’’آپ کے پاس جو گذشتہ انبیاء کی نشانیاں ہیں آپ اسے اپنے جانشین اور میری مخلوقات پر حجت بالغہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے سپرد کر دیں ان کو لوگوں کے لئے پرچم ہدایت قرار ديں اور ان کے عہد و پیمان کی تجدید کریں اور ان کو اس عہد و پیمان کی یاد دلائیں جو میں نے ان سے لیا ہے۔
میں نے ان لوگوں سے اپنے ولی اور ان کے سرپرست اور ہر مومن مرد اور مومنہ عورت سے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت کا عہد لیا ہے۔‘‘
یعنی ولایت حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کوئی عام عہدوپیمان نہیں ہے یہ خدا کا عہد و پیمان ہے اس عہد و پیمان کی وفاداری خدا کے عہد و پیمان کی وفاداری ہے اور اس سے بے وفائی خدا سے بے وفائی ہے اور خدا سے بے وفائی وہی کرسکتا ہے جو یا خدا پر ایمان نہیں رکھتا یا قیامت پر۔
’’ میں نے اپنے اولیاء کی ولایت اور اپنے دشمنوں کی دشمنی اور اپنی نعمتوں کے اتمام و دین کی تکمیل کے بعد اپنے انبیاء کو دنیا سے واپس بلایا۔
یہی میری توحید اور میرے دین کی تکمیل ہے اور میری مخلوقات پر میری نعمتوں کا اتمام ہے۔ کہ
میرے ولی کی پیروی کریں اور اس کی اطاعت کریں
لوگوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ میں نے اپنی زمین کو اپنے ولی اور سرپرست کے بغیر قرار نہیں دیا ہے۔
آج میں نے اپنے ولی اور تمام مومن و مومنہ کے ولی میرے بندے میرے نبیؐ کے وصی اور ان کے جانشین علیؑ کی ولایت کی بنا پر میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کی اور تمہارے لئے دین اسلام سے راضی ہوا یہ میری مخلوقات پر میری حجت بالغہ ہیں ان کی اطاعت وپیروی میرے نبی محمد کی اطاعت و پیروی ہے میرے نبی کی اطاعت میری اطاعت ہے جس نے ان کی (علیؑ) کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے ان (علیؑ) کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی اور میں نے ان کو اپنے اور اپنی مخلوق کے درمیان پرچم ہدایت بنایاہے۔
جو ان کی معرفت رکھتا ہے وہ مومن ہے جو ان کا انکار کرے وہ کافر ہے جو ان کی بیعت کے ساتھ کسی اور کی بیعت کرے وہ مشرک ہے جو میدان قیامت میں انکی ولایت کے ساتھ مجھ سے ملاقات کرے گا وہ جنت میں جائے گا اور جو میدان قیامت میں ان کی عداوت کے ساتھ ملاقات کرے گا وہ جہنم میں جائے گا۔‘‘
اس حدیث قدسی میں جن پر اہم باتوں کا تذکرہ خداوند عالم نے فرمایا ہے ان میں سے چند کا ذکر کرتے ہیں۔
۱۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ کے پاس جو گذشتہ انبیاء علیہم السلام کی نشانیاں اور میراث تھی وہ سب حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے سپرد کر دیں۔
۲۔ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت و امامت کا عہد و پیمان پہلے سے لیا جا چکا ہے خداوندعالم نے عالم الست میں ہر ایک سے یہ عہد وپیمان لے لیا ہے۔ ہاں عہدوپیمان جو دعوت ذوالعشیرہ سے آج تک بار بار لیا جا چکا ہے اس کی تجدید کی جارہی ہے.
۳۔ دین اولیاء خدا کی محبت اور ان کے دشمنوں کی دشمنی سے کامل ہوتا ہے۔
۴۔ زمین کبھی حجت خدا کے وجود سے خالی نہیں ہے۔
۵۔ دین کی تکمیل نعمتوں کا اتمام اور دین اسلام سے خدا کی رضا و خوشنودی کی وجہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت ہے۔
۶۔ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی اطاعت رسول خدا ﷺ کی اطاعت اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے۔
۷۔ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی نافرمانی ومخالفت حضرت رسول خدا ﷺ کی نافرمانی و مخالفت اور حضرت رسول خدا ﷺ کی نافرمانی اور مخالفت خدا کی نافرمانی اور مخالفت ہے۔
لہٰذا ہر وہ شخص جو خدا اور رسول کی اطاعت کرنا چاہتا ہے اور ان کی مخالفت سے محفوظ رہنا چاہتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی اطاعت کرتا رہے اور ان کی مخالفت سے پرہیز کرتا رہے۔
۸۔ جو حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی معرفت رکھتا ہے وہ مومن ہے۔
۹۔ جو حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا انکار کرے وہ کافر ہے۔
۱۰۔ جو حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی بیعت کے ساتھ ساتھ کسی اور کی بیعت کرے وہ مشرک ہے۔
۱۱۔ جو میدان قیامت میں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت کے ساتھ آئے گا بس وہی جنت میں جائے گا۔
۱۲۔ جو میدان قیامت میں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی دشمنی کے ساتھ آئے گا اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔
ضمانت خدا
حضرت رسول خدا ﷺ ابتدا تبلیغ رسالت سے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی خلافت و ولایت کا اعلان کرتے آئے تھے منافقین کی سازشوں سے خوب اچھی طرح واقف تھے وہ بار بار خدا سے اس لیے ضمانت کی درخواست کر رہے تھے کہ ان کی وفات کے بعد یہ اہم اعلان کہیں منافقوں کی سازشوں کا شکار نہ ہو جائے اور یہ آخری دین کہیں اس طرح اپنے لوگوں کے ذریعے تحریف کا شکار نہ ہو جائے جس طرح اس سے پہلے جناب موسی علیہ السلام اور جناب عیسی علیہ السلام کا دین اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں تحریف کا شکار ہوا تھا یہ حقیقت ہے کہ اس وقت جو یہودیت اور عیسائت ہے وہ نہیں ہےجو جناب موسی علیہ السلام اور جناب عیسی علیہ السلام لے کر آئے تھے خداوند عالم نے ’’واللہ یعصمک من الناس‘‘ (خداوندعالم آپ کو لوگوں سے معصوم رکھے گا) یہاں خدانے یحفظک خدا آپ کو محفوظ رکھے گا نہیں فرمایا۔ بلکہ عصم استعمال کیا ہے۔ یعنی خدا اس دین کو تحریف سے محفوظ رکھتے ہوئے اس کی عصمت کو باقی رکھے گا۔ معصومین علیہم السلام کی ولایت دین کی عصمت کا سبب ہے۔
غدیری اسلام اہل بیت علیہم السلام کی عصمت و ولایت کی بنا پر آج ہر طرح کی تحریف سے محفوظ ہے۔
اعلان ولایت عامہ
خداوند عالم کی طرف سے ضمانت ملنے سے دین تحریف سے محفوظ رہے گا۔ منافقین کی شازش کامیاب نہیں ہونگی۔ حضرت رسول خدا ﷺ نے اصحاب کی ایک کثیر تعداد بعض مورخین نے ایک لاکھ سے زیادہ تعداد بتائی ہے کہ سامنے تاریخی خطبے کا آغاز فرمایا ابتدا میں توحید کے بلند ترین معارف بیان فرمائے توحید تمام اسلامی تعلیمات کی اساس اور بنیاد ہے اس کے بعد فرمایا۔
’’میں آج یہاں ہر ایک کے لئے، ہر گورے کالے پر یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں اور یہ اعلان کرتا ہوں علی ابن ابی طالب میرے بھائی میرے وصی میرے جانشین اور میرے بعد امام ہیں ان کو مجھ سے وہی نسبت حاصل ہے جو ہارون کو جناب موسی سے حاصل تھی۔‘‘
منافقین کا تذکرہ
کسی بھی مسلک کی کامیابی کیلئے کسی بھی مشن کی کامیابی کے لیے دشمنوں کی شناخت کے ساتھ ساتھ منافقین کی شناخت بھی بہت ضروری ہے بلکہ منافقین کی شناخت دشمنوں کی شناخت سے زیادہ ضروری ہے اس لیے کہ اندرونی دشمن باہری دشمن سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں حضرت رسول خدا ﷺ کو اپنے اصحاب میں منافقین کا باقاعدہ علم تھا۔ اس تاریخی خطبہ میں حضرت رسول خدا ﷺ نے منافقین کا باقاعدہ ذکر کیا ہے۔ حضرت رسول خدا ﷺ کو صرف منافقین کی موجودگی کا علم نہیں تھا بلکہ وہ ان کو باقاعدہ نام بنام پہچانتے تھے انہوں نے اپنے وسیع ترین قلب اور اخلاق عظیم کی بنا پر مجمع میں منافقین کا نام نہیں لیا خطبے کا یہ حصہ ملاحظہ ہو۔
’’مجھے معلوم ہے متقی اور پرہیز گار افراد کی تعداد کم ہے منافقین کی تعداد اور گنہگاروں کی تباہ کاریاں زیادہ ہیں اسلام کا مذاق اڑانے والے بھی کم نہیں ہیں‘‘ منافقین کی خصوصیات کا تذکرہ کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔
’’اگر میں چاہوں تو ان میں سے ایک ایک کا نام بتا سکتا ہوں اگر اشارہ کرنا چاہوں تو ایک ایک کی طرف اشارہ کر سکتا ہوں ایک ایک کی نشاندہی کر سکتا ہوں لیکن یہ کام میری شرافت کے مطابق نہیں ہیں اور خدا بھی اس سے راضی نھیں ہے۔ خداوند عالم نے جس بات کے پہنچانے کا حکم دیا ہے میں اس کو پہنچا دیتا ہوں۔‘‘
منافقین کی موجودگی اور ان کی سازشوں کے علم سے اس سوال کا جواب واضح ہو جاتا ہے اس طرح حالات کے خراب ہونے کا اندیشہ حضرت رسول خدا ﷺ کو پہلے ہی سے تھا جس کا ذکر حضرت رسول خدا ﷺ نے بار بار اس طرح کیا تھا ’’میں دیکھتا ہوں تم میرے بعد میرے اہل بیت سے کس طرح پیش آتے ہو۔‘‘
ولایت امام اور امامت اہل بیت علیہم السلام
حضرت رسول خدا ﷺ نے حضرت علی علیہ السلام اور دیگر گیارہ اماموں کی امامت کا اعلان اس طرح فرمایا۔
’’اے لوگو یقینا خداوند عالم نےعلی کو تمہارا ولی و امام معین کیا ہے اور ان کی مطلق اطاعت ہم پر واجب کی ہے یہاں تمام مہاجرین پر انصار اور اسی طرح ان کی پیروی کرنے والوں پر واجب و لازم ہے حاضر پر غائب پر عجم پر عرب پر آزاد پر غلام پر چھوٹے پر بڑے پر گورے پر کالے پر واجب ہے ہر خدا پرست پر ان کا حکم نافذ ہے ان کی بات ضروری ہے ان کا کہا ماننا ضروری ہے۔
ان کی مخالفت کرنے والے پر لعنت ہے ان کی اطاعت کرنے والے پر رحمت ہے جو شخص ان کی تصدیق کرے گا ان کی باتوں کو سنے گا اور ان کی اطاعت کرے گا خدا وند عالم اس کی گناہوں کو معاف کر دے گا۔
… خداوندعالم نے مجھے تمام حلال و حرام کا علم دیا ہے اور جو کچھ خدا نے مجھے اپنی کتاب کا علم دیا ہے اور جو کچھ حلال و حرام کا علم دیا ہے وہ سب کچھ علی کو دے دیا ہے۔
اے لوگو کوئی ایسا علم نہیں ہے جو خدا نے مجھے نہ دیا ہو خدا نے جو بھی علم مجھے تعلیم دیا ہے وہ سب میں نے امام المتقین کو دے دیا ہے میں نے سارا علم علیؑ کو تعلیم دے دیا ہے وہی امام مبین ہیں۔‘‘
ولایت علی کے اقرار کے بغیر توبہ قبول نہیں ہوگی
’’اے لوگو حضرت علیؑ کو ہر ایک پر فضیلت دو کیوں کہ خدا نے ان کو فضیلت دی ہے خدا نے ان کو منصوب کیا ہے ان کے منصب کو قبول کرو اور ان کے سامنے تسلیم رہو۔
اے لوگو یہ خدا کے معین کردہ امام ہیں جو شخص ان کی ولایت کا انکار کرے گا خداوندعالم ہرگز ہرگز اس کی توبہ قبول نہیں کرے گا اور خدا اس کو ہرگز معاف نہیں کرے گا جو خدا کے حکم کی مخالفت کرے خدا کے لیے ضروری ہے وہ اس کے ساتھ اسی طرح کا برتاؤ کرے اور خدا اس کو ابدی ابدی عذاب میں گرفتار کرے اور ہمیشہ ہمیشہ اس کو عذاب میں مبتلا کرے گا ان کی مخالفت ہر گز مت کرو ورنہ جہنم میں ڈال دیئے جاؤ گے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے جو انکار کرنے والوں کے لئے تیار کی گئی ہوگی۔‘‘
ان جملوں پر غور فرمائیں حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت کا انکار کرنے کی بنا پر نہ توبہ قبول ہوگی اور نہ خدا ہی معاف کریگا۔انجام میں ابدی عذاب ہے۔
ولایت علی علیہ السلام کے اقرار کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم ان کو ولی تسلیم کریں بلکہ ولایت علی علیہ السلام کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس ولایت کو تسلیم کریں جو خدا نے ان کے لیے قرار دی ہے جس طرح خدا نے حضرت رسول خدا ﷺ کے علاوہ کسی اور کو خاتم النبیین قرار نہیں دیا ہے اگر کوئی حضرت رسول خدا ﷺ کی نبوت کو تسلیم کرتے ہوئے کسی اور کی نبوت کا قائل ہو وہ حضرت رسول خدا ﷺ پر ایمان نہیں لایا ہے یعنی دوسروں کی بالادستی کا قائل ہو اس نے حضرت علی علیہ السلام کی اس ولایت کو تسلیم نہیں کیا ہے جو خدا نے ان کے لیے قرار دی ہے۔یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح کوئی شخص اس طرح نماز نہ پڑھے جس طرح خدا نے نازل کی ہے۔
نزول رزق اور بقائے کائنات
حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت صرف چند باتوں میں منحصر نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ ساری کائنات کو شامل ہے اسی خطبہ غدیر میں حضرت رسول خدا ﷺ فرماتے ہیں۔
’’اے لوگو علیؑ کو ہر ایک پر برتری دو تمام مرد و عورت میں میرے بعد سب سے افضل علیؑ ہیں ہماری بنا پر رزق نازل ہوتا ہے اور ہماری بنا پر مخلوقات باقی ہیں۔
وہ شخص ملعون ہے ملعون ہے اس پر اللہ کا غضب ہے اس پر اللہ کا غضب ہے جو میری اس بات کو رد کرے اور قبول نہ کرے۔
آگاہ ہو جاؤ جبرئیل نے خدا کی طرف سے مجھے یہ خبر دی ہے کہ خدا فرماتا ہے جس نے علیؑ سے دشمنی کی اور ان کی ولایت کو قبول نہیں کیا اس پر میری لعنت اور غضب ہے دیکھو کل تم اپنے لئے قیامت میں کیا بھیجتے ہو۔‘‘
خطبے کے اس حصے میں ایک طرف نزول رزق اور بقائے کائنات ان حضرات کی بنا پر ہے دوسری طرف بار بار ان لوگوں کو خدا کی لعنت اور غضب کا مستحق قرار دیا گیا ہے جو حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کو قبول نہیں کرتے ہیں۔
یہ بات خوب اچھی طرح ذہن میں رہے کہ خدا اور رسول کے کلمات ہرگز جذبات کے تابع نہیں ہوتے ہیں اور کوئی شخص اسی وقت خدا کی لعنت اور غضب کا مستحق قرار پاتا ہے جب خدا کی وسیع رحمت کے سارے دروازے بند ہو جاتے ہیں حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کا انکار وہ گناہ عظیم ہے جو رحمت خداوندی کے تمام دروازے بند کر دیتی ہے۔
انکار ولایت سے اعمال برباد ہو جاتے ہیں
یہ بات عرض کرچکے ہیں غدیر میں صرف حضرت علی علیہ السلام کی ولایت و امامت کا اعلان نہیں کیا گیا بلکہ تمام بارہ اماموں کی ولایت و امامت کا اعلان کیا گیا ہے۔
حضرت رسول خدا ﷺ فرماتے ہیں۔
’’اے لوگو خداوندعالم نے علیؑ کی امامت کی بنا پر تمہارے دین کو کامل کیا ہے
دیکھو جو میدان قیامت میں جس دن خدا کے سامنے اعمال پیش کئے جائیں گے اس طرح آئے کہ وہ علیؑ کی امامت کا قائل نہ ہو اور ان کی صلب سے میری اولاد کی امامت کا قائل نہ ہو اس کے سارے اعمال حبط ہو جائیں گے برباد ہو جائیں گے اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ نہ ان کو مہلت دی جائے گی اور نہ ہی عذاب میں تخفیف ہوگی۔‘‘
انکار ولایت کا سبب حسد
حضرت رسول خدا ﷺ نے اپنے اس تاریخی خطبہ میں ایک عظیم حقیقت کی طرف متوجہ کیا۔ شیطان نے آدم علیہ السلام سے حسد کیا اور اس کا انجام کیا ہوا۔ اگر کسی نے حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت و امامت سے حسد کیا تو اس کا بھی انجام شیطان کی طرح ہوگا۔
’’اے لوگو شیطان نے اپنے حسد کی بنا پر جناب آدم کو جنت میں رہنے نہیں دیا دیکھو حسد مت کرنا ورنہ تمہارے سارے اعمال برباد ہوجائیں گے اور تمہارے قدم پھسل جائیں گے جناب آدم(صفوۃ اللہ) اللہ کے منتخب بندے تھے ایک ترک اولیٰ کی بنا پر زمین پر بھیجے گئے تو تمہارا کیا حال ہوگا جب کہ تم تم ہو اور تم میں کچھ لوگ اللہ کے دشمن ہیں۔
ہاں یاد رکھو علیؑ سے بغض وہی رکھے گا جو شقی و بدبخت ہوگا اور پس وہی علیؑ کی ولایت کو تسلیم کرے گا جو متقی اور پرہیز گار ہوگا اور پس وہی ان پر ایمان لائے گا جو خالص مومن ہوگا۔‘‘
نور خدا قیامت تک نسل حضرت علیؑ میں باقی رہے گا
’’اے لوگو اللہ کا نور میری ذات میں جاری و ساری ہے اس کے بعد یہ علی میں جاری رہے گا ان کے بعد ان کی نسل میں قائم مہدی تک جو خدا کے تمام حقوق اور ہمارے حقوق کو حاصل کریں گے خدا وند عالم نے ان کو دنیا کے تمام کوتاہی کرنے والوں، دشمنوں، مخالفین خیانت کاروں اور ظالموں پر حجت قرار دیا۔‘‘
یہ جملے اس بات کو بیان کر رہے ہیں کہ خدا نے جو نورہدایت قرار دیا ہے وہ حضرت رسول خدا ﷺ کی ذات اقدس سے ہے ان کے بعد حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور ان کی نسل میں حضرت مہدی قائم میں قیامت تک جاری رہے گا خداوندعالم نے ان حضرات کو ساری کائنات پرحجت قرار دیا ہے کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے ان کا حجت خدا ہونا کسی کے تسلیم کرنے پر منحصر نہیں ہے جو تسلیم نہیں کرے گا وہ خود اپنا نقصان کرے گا وہ خود جہنم میں جائے گا۔
جہنمی قائدین
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جہاں میدان غدیر میں حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام اور اہل بیت علیہم السلام کی امامت و ولایت کا اعلان فرمایا وہیں لوگوں کو اس حقیقت کی طرف متوجہ فرمایا کچھ لوگ ناحق خلافت و قیادت کا دعوی کریں گے اس طرح کے تمام لوگ جہنمی امام ہیں امام النار ہیں۔
’’اے لوگو عنقریب میرے بعد ایسے امام رہنمائی کریں گے جو لوگوں کو جہنم کی طرف دعوت دیں گے میدان قیامت میں ان کا کوئی ناصر و مددگار نہیں ہو گا۔
اے لوگو یہ لوگ ان کی مدد کرنے والے ان کی پیروی کرنے والے ان کا ساتھ دینے والے یہ سب کے سب جہنم کے پست ترین درجے میں ہوں گے اور تکبر کرنے والوں کا کیا برا ٹھکانا ہوگا۔ یہ لوگ ایک صحیفہ والے ہیں ہر ایک کو اپنا صحیفہ دیکھنا چاہیے۔‘‘
علامہ مجلسی رحمۃ اللہ علیہ نے بحار الانوار جلد ۲۸ صفحہ ۱۰۳ پر اس صحیفے کا ذکر تفصیل سے کیا ہے جو اصحاب نے حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے بارے میں لکھا تھا۔ اور یہ طے کیا تھا کہ ہم لوگ بنیادی طور پر اس بات کا انکار ہی کر دیں گے کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو اپنے بعد اور اپنا جانشین اور امت کا امام معین فرمایا ہے۔ اسماء بنت عمیس زوجہ ابوبکر کی روایت ہے کہ ایک یہ معاہدہ بھی میرے گھر میں تحریر کیا گیا۔ سعید بن عاص اموی نے یہ معاہدہ تحریر کیا اور ابو عبیدہ جراح کو سپرد کیا انہوں نے جاکر وہاں اس کو ایک جگہ رکھ دیا۔
علامہ مجلسی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی جلد میں ان واقعات کا ذکر فرمایا جو اعلان غدیر سے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات تک رونما ہوئے۔ جس سے اندازہ ہو جائے گا کہ لوگوں نے کس طرح خلافت اہل بیت علیہم السلام کا انکار کرکے حضرت علی علیہ السلام سے خلافت غصب کرنے کی منظم سازش کی تھی۔ اگر پہلے باقاعدہ منصوبہ نہ بنایا گیا ہوتا اور طے شدہ پروگرام نہ ہوتا تو صرف دو سے تین دن کی مدت میں اس قدر الٹ پھیر نہ ہوئی ہوتی۔ جناب علامہ مجلسی رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا ہے حضرت رسول خدا ﷺ کو باقاعدہ معاہدہ کا علم تھا اور وہ ان افراد کو بھی خوب پہچانتے تھے جو اس معاہدہ میں شریک تھے۔ حضرت رسول خدا ﷺ نے صرف اس لیے کوئی سخت اقدام نہیں کیا تاکہ دشمنان اسلام یہ نہ کہیں جب محمد کو حکومت و اقتدار مل گیا تو اپنوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔
دوسری وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے اگر کوئی سخت اقدام کرتے تو اس آخری امت کا اتنا عظیم امتحان کس طرح ہوتا۔
ولایت و امامت کا عمومی اعلان اور غاصبین پر لعنت
اس کے بعد حضرت رسول خدا ﷺ نے اس طرح ولایت و امامت کی عمومیت کا اعلان فرمایا کسی ایک کو انکار کی گنجائش نہیں تھی اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی وضاحت فرمائی کچھ لوگ اس ولایت کو غصب کریں گے اور خدا کی لعنت کے مستحق قرار پائیں گے فرماتے ہیں:
’’اے لوگو میں صبح قیامت تک اس امامت و ولایت کو اپنی ذریت میں قرار دے رہا ہوں مجھے جس کی تبلیغ کا حکم دیا گیا تھا میں نے ہر حاضر و غائب پر حجت تمام کردی ہے ہر وہ شخص جو یہاں موجود ہے اور جو یہاں موجود نہیں ہے جو ابھی پیدا ہو چکا ہے یا ابھی دنیا میں نہیں آیا ہے سب پر حجت تمام کردی ہے جو لوگ موجود ہیں ان کی ذمہ داری ہے کہ ان لوگوں تک پیغام پہنچاتے رہیں جو یہاں موجود نہیں ہے اور قیامت تک ہر والد کی ذمہ داری ہے کہ اپنی اولاد تک اس پیغام کو پہنچاتا رہے۔
ہاں کچھ لوگ اس کو حکومت و سلطنت قرار دے کر غصب کریں گے جو لوگ اس کو غصب کریں اور جو اس کام میں ان کا ساتھ دیں گے ان پر خدا کی لعنت ہے اے انسان وجنات عنقریب تمہارا حساب کتاب ہوگا تم پر جہنم کے شعلے اور پگھلا ہوا تانبا برسایا جائے گا اور کوئی تمہاری مدد کرنے والا نہ ہوگا۔‘‘
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار اعلان فرمایا یہ ولایت امامت و خلافت صبح قیامت تک جاری رہے گی علی بن ابی طالب علیہ السلام کی نسل میں جاری رہے گی کوئی ایک ولایت اور امامت کے قبول کرنے سے مستثنی نہیں ہے یہ اعلان صرف اس میدان اور اس دن سے مخصوص نہیں ہے بلکہ صبح قیامت تک ہر ایک کی ذمہ داری ہے کہ آئندہ نسلوں تک باقاعدہ اس اعلان کو پہنچاتا رہے یہ امامت نسل در نسل منتقل ہوتی رہے گی اس وقت جو لوگ ممبروں سے برابر اس ولایت کا تذکرہ کر رہے ہیں وہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی اطاعت کر رہے ہیں اگر کسی کو اعتراض ہے وہ حضرت رسول خدا ﷺ کو جواب دے۔
حضرت امام عصر علیہ السلام کی امامت اور خصوصیات کا تذکرہ
اس خطبے میں حضرت رسول خدا ﷺ نے حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی امامت اور ولایت کے ساتھ حضرت امام عصر علیہ السلام کی امامت اور ولایت کا ذکر تفصیل سے فرمایا ہے وہ شاید اس لئے کہ امامت اہل بیت علیہم السلام کی ابتدا حضرت علی علیہ السلام اور انتہا حضرت امام مہدی علیہ السلام ہیں یہ وہ ابتدا اور انتہا ہے جس کے درمیان میں معصومین علیہم السلام کے علاوہ کوئی دوسرا شامل نہیں ہے پوری دنیا میں شاید ایک فرد بھی ایسا نہ ہو جو پہلا امام حضرت علی علیہ السلام اور آخری امام حضرت مہدی علیہ السلام کو تسلیم کرتا ہو اور درمیان میں غیر اہل بیت اور ائمہ معصومین علیہ السلام کے علاوہ کسی اور کی امامت کا قائل ہو۔
’’اے لوگو! میں نبیؐ اور علیؑ میرے وصی ہیں۔ سلسلہ امامت کا آخری امام ہم میں سے قائم مہدیؑ ہے۔‘‘
اب اس کے بعد حضرت امام مہدی علیہ السلام کی خصوصیات کا ذکر فرماتے ہیں اس طرح صفات کسی اور کی بیان نہیں فرمائی ہے اس سے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی عظمتوں کا پتہ چلتا ہے حضرت رسول خدا ﷺ نے حضرت امام عصر علیہ السلام کی ۲۵ خصوصیات بیان فرمائی ہیں۔
۱۔ وہ دین کو ظاہر اور غلبہ عطا کرنے والے ہیں۔
۲۔ ہاں وہی ظالموں سے انتقام لینے والے ہیں۔
۳۔ وہی کفر و شرک و ظلم کے قلعوں کو فتح کرنے اور ان کو مسمار کرنے والے ہیں۔
۴۔ وہی ہر قبیلے کے مشرکین کو قتل کریں گے۔
۵۔ وہی تمام اولیائے خدا کے خون کا بدلہ لیں گے۔
۶۔ وہی دین خدا کی نصرت و مدد کریں گے۔
۷۔ وہی معرفت خدا کے بحر عمیق سے سیراب کرنے والے اور شناور ہیں۔
۸۔ وہ ہر صاحب فضیلت کو اس کی فضیلت کے اعتبار سے عزت و منزلت دیں گے۔
۹۔ وہی جاہلوں کو ان کی جہالت کے اعتبار سے درجہ دیں گے۔
۱۰۔ وہی خدا کے منتخب اور بہترین ہیں۔
۱۱۔ وہی تمام علوم کے وارث اور اس کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔
۱۲۔ وہی سب کو خدا کے بارے میں باخبر کریں گے اور اس کی معرفت عطا کریں گے۔
۱۳۔ وہی اس کے ایمان کی طرف لوگوں کو متوجہ کریں گے۔
۱۴۔ وہی صاحب عقل اور ثابت قدم ہیں۔
۱۵۔ خداوند عالم نے تمام امور ان کے حوالے کر دیے ہیں۔
۱۶۔ گزشتہ انبیاء علیہم السلام نے ان کے بارے میں بشارت دی ہے۔
۱۷۔ وہی اللہ کی باقی حجت ہیں۔
۱۸۔ ان کے بعد کوئی خدا کی حجت نہیں ہے۔
۱۹۔ حق بس ان کے پاس ہے۔
۲۰۔ خدا کا نور بس ان کے پاس ہے۔
۲۱۔ کوئی ان پر غالب نہیں آئے گا۔
۲۲۔ وہ کسی ایک سے شکست نہیں کھائیں گے۔
۲۳۔ زمین پر بس وہی اللہ کے ولی ہے۔
۲۴۔ مخلوقات پر اس کی طرف سے حاکم ہیں فیصلہ کرنے والے ہیں۔
۲۵۔ خدا کے ظاہر و باطن امور کے بس وہی امانت دار ہیں۔
اے لوگو میں نے پوری طرح بات واضح کردی ہے اور خوب اچھی طرح تم کو سمجھا دیا ہے میرے بعد یہ تم کو سمجھائیں گے۔؟
اس طرح حضرت رسول خدا ﷺ نے صبح قیامت تک اہل بیت علیہم السلام کی امامت و ولایت کا اعلان فرما دیا اور سب پر حجت تمام کردی۔
سبقت لے جانے والے کامیاب ہونگے
اے لوگو جو خدا کی رسولؐ کی علیؑ کی اور جن اماموں کا میں نے ذکر کیا ہے ان کی پیروی کرے گا وہ عظیم ترین کامیابی پر فائز ہو گا۔
اے لوگو جو بھی حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کرنے میں سبقت لے جائے گا اور سب سے پہلے ان کی ولایت کو قبول کرے گا اور امیر المومنین کہہ کر ان کو سلام کرے گا وہی جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوگا اور کامیاب ہوگا۔
خطبہ غدیر سے یہ بات پوری طرح واضح ہے۔
۱۔ اہل بیت علیہم السلام کی امامت و ولایت صبح قیامت تک جاری ہے۔
۲۔ اہل بیت علیہم السلام کے علاوہ کوئی اور حضرت رسول خدا ﷺ کا جانشین نہیں ہے۔
۳۔ حضرت علی علیہ السلام کی ولایت ہر ایک پر واجب اور ضروری ہے۔
۴۔ صبح قیامت تک ہر ایک کی شرعی ذمہ داری ہے کہ اس پیغام ولایت و امامت کو دوسروں تک پہنچاتا رہے۔
۵۔ جو اس ولایت کو قبول کرے گا بس اس کے اعمال قبول ہوں گے۔
۶۔ جو اس ولایت کا انکار کرے گا اس کے تمام اعمال برباد ہوجائیں گے۔
۷۔ جو اس ولایت کو قبول کرے گا خدا اس سے راضی ہوگا۔
۸۔ جو اس ولایت کا انکار کرے گا اس پر خدا کی لعنت اور غضب ہو گا۔
۹۔ منافقین کے وجود سے حضرت رسول خدا ﷺ پوری طرح واقف ہیں۔
۱۰۔ منافقین نے ولایت اہلبیت کے خلاف ایک منظم سازش تیار کی تھی۔
۱۱۔ منافقین نے ولایت کے خلاف ایک معاہدہ تیار کیا تھا۔
۱۲۔ حضرت رسول خدا ﷺ نے غاصبین پر لعنت کی ہے۔
۱۳۔ کچھ رہنما و قائد ایسے ہیں جو لوگوں کو جہنم کی طرف لے جائیں گے۔
۱۴۔ حضرت ولی عصر علیہ السلام کا تذکرہ۔
۱۵۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ۲۵ خصوصیات کا تذکرہ۔
۱۶۔ جو لوگ اس ولایت کو قبول کرنے میں سبقت لے جائیں گے وہی کامیاب ہوں گے۔
خداوندعالم ہم سب کو اس ولایت کو دل سے قبول کرنے اس پر عمل کرنے اور بیعت کرنے میں سبقت لے جانے والوں میں شمار کرے۔
خدایا دنیا اور آخرت میں اہل بیت علیہم السلام کی شفاعت نصیب فرما اور ایک مرتبہ غدیر کے دن وارث غدیر کے دست مبارک پر اس عہد کی تجدید کرنے کی سعادت مرحمت فرما۔ آمین
Load/Hide Comments