جس طرح خداوند عالم نے مخلوقات کو دنیا میں خلق کرنے کے بعد ان کی ضرورتوں کو بھی فراہم کیا تاکہ وہ اپنے وجود کو ان کے ذریعہ ایک طرف باقی رکھ سکیں تو دوسری طرف وجود کو درجۂ کمال تک پہونچا سکیں۔ اسی طرح نظام پروردگار میں انسانوں کے نفع و نقصان سے آگاہ کرنے کے لئے اس کے وجود کی تکمیل اور درجۂ کمال تک پہونچنے کے لئے اپنی طرف سے ہدایت و رہنمائی کے لئے اپنے نمائندوں کا انتظام کیا ہے، تاکہ نقصان سے محفوظ رہ کر مفید اور نفع بخش کام انجام دے کر تکمیل وجود بھی کرتا رہے اور درجۂ کمال تک بھی پہونچ جائے۔ اسی لئے خدائے تعالیٰ نے اپنے نمائندوں کے بھیجنے کی ذمہ داری خود لی ہے کسی اور پر یہ ذمہ داری نہیں رکھی ہے۔
إِنَّ عَلَيْنَا لَلْهُدَىٰ۔ وَإِنَّ لَنَا لَلْآخِرَةَ وَالْأُولىٰ ۔{ FR 1053 }
اور ایسا نمائندہ جو انسان کو اس کے درجۂ کمال تک پہونچانے میں رہنمائی کرسکے وہی ہوسکتا ہے جو خود بھی کامل ہو اور منزل کمال تک پہونچنے کی راہوں سے آگاہ بھی ہو اس کے لئے ایسے نمائندہ کی ضرورت ہے جو نفسانی ملکات کا حامل ہو عصمت و علم لدنی کا مالک ہو جو اسے ہر باطل قول و فعل سے محفوظ رکھ سکے، جس کے بعد اس کے لئے کوئی حقیقت مجہول نہ ہو۔ کیا ایسا نمائندہ خدا کے علاوہ کوئی اور منتخب کرسکتا ہے یا بنا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ صرف خداوند عالم کی ذات ہی تمام حقائق و واقعات سے باخبر ہے یا وہ جسے آگاہ فرمائے:
وَ رَبُّکَ یَعْلَمُ مَا تُکُنْ صُدُوْرُہُمْ وَمَا یُعْلِنُوْنَ۔{ FR 1054 }
اور تمہارا پروردگار ان سب کو جانتا ہے جو ان کے سینوں میں چھپائے ہوتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں۔
اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ۔{ FR 1055 }
اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے اپنی رسالت کو کہاں قرار دے۔
اس بنیاد پر ہدایت و رہبری کے لئے جو امام اور نمائندۂ خدا ہو وہ خداوند عالم کا برگزیدہ ہو‘ یعنی خداوند عالم کی ذات جسے اس مقام و منزلت کے لئے اہل سمجھے اسے امام قرار دے جیسا کہ بعض آیتوں میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا۔{ FR 1056 }
خداوند عالم نے فرمایا : میں نے تمہیں لوگوں کا امام بنایا۔
اسی طرح خداوند عالم نے نا اہلوں سے اس منصب کو دور قرار دیئے جانے کے بارے میں بھی اعلان کردیا ہے:
قَالَ لَا یَنَالُ عِہْدِی الظَّالِمِیْنَ۔{ FR 1057 }
کہ میرا (عہدہ) منصب امامت ظالموں تک نہیں پہونچے گا۔
اسی طرح خداوند عالم نے مقام امامت کے قرار دیئے جانے کو اپنی طرف نسبت دی ہے اور غیر سے نفی کی ہے اور یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ خدا کے علاوہ کوئی بھی نصب امام کے مسئلہ میں دخالت نہیں رکھتا ہے، یہ وہ حقیقت ہے جسے انبیاء اور اولیائے الٰہی بھی خوب جانتے تھے۔ اسی لئے جب جناب موسیٰ علیہ السلام نے چاہا کہ جناب ہارون ان کے جانشین بنیں تو خداوند عالم سے اس کے لئے درخواست کی خود قرار نہیں دیا:
وَاجْعَلْ لِیْ وَزِیْرًا مِنْ اَہْلِیْ ہَارُوْنَ اَخِیْ۔{ FR 1058 }
اور میرے لئے میرے بھائی ہارون کو جانشین و وزیر قرار دے۔
اسی طرح جس وقت حضور اکرمؐ نے اپنی شریعت کو عرب قبائل کے سامنے پیش فرمایا تو بعض لوگوں نے کہا، آپ جن باتوں کی دعوت دے رہے ہیں ان پر بیعت کرلوں اور آپ سے عہد و پیمان کرلوں اور جب خداوند عالم آپ کو آپ کے مخالفین پر فتح نصیب فرمائے تو کیا آپ کے بعد اس (امت کی) رہبری ہمارے اختیار میں ہوگی؟
آنحضرتﷺ نے فرمایا:
اَلْاَمْرُ اِلی اللہِ یَضَعُہٗ حَیْثُ یَشَآئُ
یہ کام خداوند عالم کے اختیار میں ہے وہ جسے چاہے گا عطا فرمائے گا۔{ FR 1059 }
اس تمہید اور مقدمہ کے بعد سوال یہ ہے کہ کیا ہر زمانہ میں ایسے الٰہی نمائندہ اور معصوم امام کا ہونا واجب ہے؟ یعنی ہر زمانہ کے لئے خدا کی طرف سے امام کا منصوب و منصوص ہونا ضروری ہے؟
قرآن کریم کی آیتوں اور اسلامی روایتوں کی روشنی میں یہ بات مسلم اور مرحلہ ثبوت میں پائی جاتی ہے کہ خداوند عالم نے کبھی بھی زمین کو بغیر امام کے قرار نہیں دیا ہے:
ارشاد ہوتا ہے:
اِنَّمَا اَنْتَ مُنْذِرْ وَلِکُلِّ قَوْمٍ ہَاد۔{ FR 1060 }
بیشک آپ تو ڈرانے والے اور ہر قوم کے لئے ہدایت کرنے والا ہے۔
اس سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں:
۱۔ آنحضرتﷺ ڈرانے کے لئے قرار دئے گئے ہیں یعنی روز قیامت کے واقعات سے باخبر کرنے والے ۔
۲۔ خدائے تعالیٰ نے ہر قوم کے لئے ایک ہدایت کرنے والے کو منصوب فرمایا ہے۔ بحث یہ ہے کہ اس آیت میں جو ہدایت کرنے والا ہر دور میں قرار دیا گیا ہے وہ کون ہے کیا ہر قوم و ملت کے علماء و دانشور ہیں؟ اور ہادی سے مراد قوموں کے علماء نہیں ہوسکتے ہیں اس لئے:
الف: ہر زمانہ میں ہر قوم و ملت میں متعدد اور بکثرت علماء و دانشوروں کا وجود ہوتا ہے ایک عالم یا ایک دانشور نہیں ہوتا ہے جبکہ آیت میں ایک ہادی کی ضرورت کی بات کہی جارہی ہے۔ اور پھر اس تعداد میں وہ ایک کیسے طے کیا جائے گا اور اس کا معیار کیا ہوگا اور وہ کون طے کرے گا؟
ب: کلمہ ’’ھاد‘‘ آیت شریفہ میں بطور مطلق ذکر ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہوگا ہر زمانہ میں ایسے ایک ہادی کا وجود ہے کہ جو ہر مسئلہ میں امر الٰہی کی طرف ہماری رہنمائی کرے اور اس کی ہدایت میں کوئی خطا و لغزش نہ ہو۔ جبکہ ہم کسی بھی قوم کے عالم کے لئے عقلی و شرعی طور سے غلطی نہ کرنے کے قائل نہیں ہیں بلکہ ہر عالم خطا و لغزش کا شکار ہوسکتا ہے۔
اسی طرح دوسری آیتوں سے بھی واضح ہوتا ہے کہ وہ امام اور ہادی خدا کے امر سے ہدایت کرنے والا ہوتا ہے اپنی طرف سے ہدایت نہیں کرتا ہے ورنہ خطا و لغزش میں گرفتار ہوجائے:
وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا۔{ FR 1061 }
اور ہم نے انھیں امام بنایا ہے جو ہمارے امر سے ہدایت کرتے ہیں۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ لوگوں کی رہبری و ہدایت ایسے اماموں کا وظیفہ قرار دیا گیا ہے جو خداوند عالم کی طرف سے منصوب ہوتے ہیں اور بغیر شبہ کے وہی حق کی طرف ہدایت کرنے والے ہوتے ہیں۔اور وہی سب سے زیادہ امامت و خلافت کے لئے حقدار ہوتے ہیں۔ اور پھر وہی اس بات کا بھی حق رکھتے ہیں کہ لوگ ان کی اطاعت و پیروی کریں:
اَفَمَنْ یَہْدِیْ اِلیٰ الْحَقِّ اَحَقُّ اَنْ یُّتَّبَع اَمَّنْ لَّا یَہِدِّیْ اِلَّا اَنْ یُّہْدٰی فَمَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُوْنَ۔{ FR 1062 }
کیا وہ شخص جو حق کی طرف ہدایت کرتا ہے اطاعت و پیروی کا زیادہ سزاوار ہے یا وہ جسے راستہ ہی نہیں ملتا جب تک کہ اسے بتایا نہیں جاتا ہے۔ تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ کیسے حکم لگاتے ہو۔
اس آیت کا واضح پیغام ہے کہ وہی امام قابل اطاعت ہے جو ہدایت یافتہ ہو اور لوگوں کی رہبری کرنے کی صلاحیت اس میں پائی جاتی ہو جسے خود راستہ نہ ملتا ہو وہ دوسروں کی ہدایت نہیں کرسکتا اور نتیجہ میں وہ قابل پیروی بھی نہ ہوگا۔
اور اس آیت کی تفسیر میں اگر شیعہ و سنی روایتوں پر نظر کی جائے تو بات بالکل روشن ہوجاتی ہے، کسی طرح کا شبہ باقی نہیں رہتا ہے۔ اہل سنت کی دو روایتیں ملاحظہ ہو:
۱۔ اہل سنت کی بعض تفسیر میں نقل ہے کہ: جب آیت اِنَّمَا اَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِکُلِّ قَوْمٍ ہَاد، نازل ہوئی تو رسول اللہ ؐنے اپنا دست مبارک اپنے سینہٴ انور پر قرار دیا اور فرمایا اَنَا الْمُنْذِر میں ڈرانے والا ہوں۔ اور اپنے دست مبارک سے حضرت علیؑ کے شانے کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا’’اَنْتَ الْہَادِیْ یَا عَلِیؑ! یَہْتَدِی بِک الْمُہْتَدُوْنَ مِنْ بَۢعْدِی۔ اے علیؑ! تم ہادی ہو میرے بعد تمہارے ذریعہ ہدایت پانے والے ہدایت پائیں گے۔{ FR 1063 }
۲۔ اہل سنت کے بزرگ عالم فخرالدین رازی نے مفاتیح الغیب میں اسی آیت کی تفسیر میں مفسرین کے تین نظریات بیان کئے ہیں تیسرے نظریہ کی بنیاد پر ’’منذر‘‘ سے رسول اکرمؐ اور ’’ہادی‘‘ سے حضرت علیؑ مراد ہیں۔ اس کے بعد ابن عباس سے اس طرح نقل کیا ہے: پیغمبر اکرمؐ نے اپنا ہاتھ اپنے سینہ پر قرار دے کر فرمایا: میں ڈرانے والا ہوں۔ پھر حضرتؑ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: اے علی ؑ تم ہدایت کرنے والے ہو۔ اور میرے بعد ہدایت پانے والے تمہارے ذریعہ ہدایت پائیں گے۔{ FR 1064 }
عقل و شرع کی روشنی میں ہر دور میں الٰہی نمائندے کے وجود کی ضرورت ثابت ہوجانے کے بعد عقلی و شرعی طور سے کسی بھی صاحب عقل کے لئے سزاوار نہیں ہے کہ وہ اس امام و ہادی سے جدا ہو کر زندگی گذارے، اور خداوند عالم کے قرار دیئے جانے والے امام کی اطاعت نہ کرے۔ جس طرح قرآن و حدیث سے ہر دور میں وجود امام کی ضرورت ثابت ہوتی ہے اسی طرح آیات و روایات کی روشنی میں یہ بھی ثابت ہے کہ ان عظیم الشان ائمہ سے سوائے ائمہ طاہرین علیہم السلام کے کوئی دوسرا مراد نہیں ہے۔ جس کے پہلے امام امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہما السلام اور آخری امام مہدی بن حسن العسکری علیہما السلام ہیں۔ آج بھی یہ زمین اسی حجت خدا اور ولی خدا کے وجود سے قائم ہے اور روئے زمین پر فرزند پیغمبرؐ کے عنوان سے وہی وارث تاجدار غدیر ہے۔
آئیے اسی امام کی محبت و ولایت اور اطاعت و رہبری کی تجدید بیعت کریں اور خداوند عالم سے ان کے ظہور میں تعجیل کے لئے دعا کریں۔
خدایا! اس پر مسرت سے موقع پر وارث تاجدار غدیر فرزند زہراؐ حضرت حجت بن الحسن العسکری عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور میں تعجیل فرما اور دنیا میں غدیری اسلام و حکمت کے اسباب فراہم فرما۔ آمین
علامہ حلیؒ اور کتاب ’’الفین‘‘
دین اسلام میں عقیدہ کو جو مقام و منزلت حاصل ہےوہ کسی دوسرے موضوع کو حاصل نہیں ہے۔ قرآن کریم نے سب سے پہلے توحید اور عقیدۂ قیامت کو انسانوں کے سامنے پیش کیا ہے اور انبیاء و مرسلین علیہم السلام نے بھی لوگوں سے سب سے پہلے ایک خدا اور عقیدہٴ توحید قبول کرنے کی دعوت پر زور دیا ہے۔ اس کے بعد دوسرے عقائد نبوت وغیرہ جیسے اعتقادات اور انبیاء و مرسلین کے بعد ان کے جانشینوں اور اوصیاء الٰہی کی ولایت و سرپرستی اور ان کی رہنمائی میں اعمال کی بجا آوری ہے۔ اگر کوئی عبادت پروردگار بجا لائے اور خوب بجا لائے نماز و روزہ و حج اور اسی طرح دیگر دستورات الٰہی کی پابندی کرے مگر صحیح عقائد کے ساتھ نہ ہو تو اس کا کوئی عمل بارگاہ پروردگار میں شرف قبولیت اختیار نہیں کرے گا۔ اور منجملہ وہ اعتقادات جن کے بغیر کوئی بھی عمل قابل قبول نہیں ہے وہ ہے عقیدہ امامت و ولایت اہلبیت علیہم السلام اسی لئے علماء نے بھی اس عقیدہٴ امامت و ولایت کے لئے بے شمار کتابیں تحریر کی ہیں تاکہ کسی کو اہلبیتؑ کی امامت و امت کی رہبری میں شک و شبہ نہ پیدا ہو۔ اس میدان میں انتہائی معرکۃ الآراء کتابیں وجود میں آئیں ہیں۔ انھیں میں ایک عظیم الشان کتاب ’’الفین ‘‘ ہے۔ جسے زبردست، فقیہ، متکلم، مفسر، اصولی حسن بن یوسف بن مطہر حلّی معروف بہ علامہ حلّیؒ نے تحریر کیا ہے۔
علامہ حلیؒ کون ہیں؟
حسن بن یوسف بن مطہر حلی معروف بہ علامہ حلی ۶۴۸ھ میں حلہ شہر میں پیدا ہوئے ایک سو بیس سے زیادہ کتابیں مختلف علوم جیسے اصول، فقہ، تفسیر، منطق، علوم رجال وغیرہ میں تحریر فرمائیں ہیں جو آج بھی شیعہ حوزۂ علمیہ عراق و ایران میں تحقیق و تدریس کا اصل حصہ ہیں۔ عقائد میں انتہائی عظیم الشان کتابیں جیسے باب حادی عشر‘ کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد خواجہ نصیر الدین طوسیؒ کی شیعہ اعتقادات کے مطالعہ و تحقیق میں اہم ترین کتابیں شمار ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ نہج الحق و کشف الصدق، خلاصۃ الاقوال، الجوہر النضید، تذکرۃ الفقہاء، قواعد الاحکام و مختلف الشیعہ کتابیں معروف اور اہم آثار میں شمار ہوتی ہیں۔ آپ فقیہ ہونے کے ساتھ اچھے شاعر و ادیب بھی تھے۔
ابتدائی تعلیم آبائی وطن میں اور اپنے والد گرامی سے حاصل کرکے اتنی سرعت سے تمام علوم و فنون میں مہارت حاصل کرلی کہ بالغ ہونے سے قبل درجہٴ اجتہاد حاصل کرلیا تھا۔
یہاں تک کہ محقق حلی جو شیعہ مرجعیت کے منصب پر فائز تھے سن ۶۷۶ھ میں ان کی وفات کے بعد ۲۸؍ سال کی عمر میں شیعی مرجعیت و زعامت کا اہم ترین منصب سنبھال لیا تھا۔ آپ زبردست فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ متکلم بے مثال بھی تھے۔ آپ کے مناظرے اور آثار نے سلطان محمد خدا بندے کو مذہب شیعہ اختیار کرنے اور اسے ایران میں رواج دینے پر آمادہ کردیا تھا۔
انھیں کمال و خوبیوں اور دینی خدمات کی بنا پر آپ کو گھر والے بہت پہلے سے جمال الدین کے لقب سے پکارنے لگے تھے۔
آپ کی بے شمار تالیفات میں ایک اہم کتاب ’’الفین‘‘ ہے۔
کتاب الفین
علامہ حلّی کی مشہور کتاب الفین کا یہ نام ’’الفین الفارق بین الصدق و المین‘‘ سے ’’مین‘‘ کے معنی جھوٹ کے ہیں۔ یعنی امامت علی بن ابی طالب پر دو ہزار دلیلیں صحیح و غلط میں فرق قائم کرنے والی کتاب ہے۔
یہ کتاب عربی میں تحریر کی گئی ہے۔ شیعہ امامیہ علم کلام میں یہ اہم ترین کتاب شمار ہوتی ہے جو امیر المؤمنین اور دیگر ائمہ معصومین علیہم الصلاۃ والسلام کی امامت منجانب اللہ کے موضوع پر عظیم الشان اور انتہائی معرکۃ الاراء کتاب ہے۔
علامہ حلی نے اس کتاب میں اثبات امامت امیر المؤمنینؑ کے لئے ایک ہزار دلیلیں اور مخالفین کی رد میں بھی ایک ہزار دلیلیں درج کی ہیں۔
علامہ حلی نے اپنے بیٹے فخر المحققین کے لئے یہ کتاب تحریر کی ہے۔ اصل کتاب دو جلدوں میں لکھی گئی ہے۔ اور علامہ حلی کے بعد ان کے بیٹے فخر المحققین نے جمع کرکے مرتب کیا ہے۔ فخر المحققین نے آخر میں تحریر کیا ہے: سن ۷۵۴ھ میں نجف اشرف میں مرتب کیا ہے اور علامہ حلیؒ نے آخر کتاب میں لکھا ہے: یہ آخری مطلب ہے جسے بطور دلیل نقل کیا ہے۔ جن کی کل تعداد ایک ہزار اڑتیس دلیلیں ہیں لیکن امامت امیر المؤمنین علیہ السلام کے لئے دلیلیں بہت زیادہ ہیں۔ ہم نے اتنی دلیلوں پر اکتفا کیا ہے۔
علامہ حلی نے پوری کتاب الفین کو ایک مقدمہ دو مقالے اور ایک خاتمہ میں مرتب کیا ہے۔ دو مقالہ میں ایک ہزار دلیلیں امامت علی بن ابی طالب علیہما السلام اور ایک ہزار دلیلیں مخالفین کے رد شبہات میں قائم کی ہیں۔ جیسا کہ خود علامہ حلی نے مقدمہ میں یہ بات تحریر کی ہے۔
مرحوم علامہ نے اپنے مقدمہ کتاب میں مندرجہ ذیل مطالب کو نقل کیا ہے:
پہلی بحث: امام کون ہے؟
دوسری بحث: وجود امام لطف عام ہے اور وجود پیغمبرؐ لطف خاص ہے۔
تیسری بحث: برہان امامت کے ۱۸ مبادی کا بیان ہے۔
چوتھی بحث: نصب وتعین امام لطف ہے۔
پانچویں بحث: امامت قابل تبدیل نہیں ہوتی ہے۔
چھٹی بحث: وجوب تعین امام‘ اور کیسے امام معین ہوتا ہے۔ اور اس بات کو بھی ثابت کیا ہے کہ امام کو معین کئے جانے کا واحد راستہ نص پیغمبرؐ ہے جسے ۲۹ ؍طریقہ سے ثابت کیا ہے۔
ساتویں بحث: امام کے لئے اثبات عصمت، اور اسی بحث میں ایک ہزار بائیس دلیلیں سو سو دلیلیں کرکے نقل کی ہیں یعنی ایک سے سو تک شمار کرکے پھر دوسرے مرحلہ میں دوبارہ ایک سے گنتی شروع کرتے ہیں پہلا سو، دوسرا سو، تیسرا سو، اس طرح پڑھنے والے کے لئے آسانی فراہم کرتے ہوئے نمبروں کو سو سو مرحلوں تک قرار دے کر ایک ہزار مکمل کیا ہے جو انتہائی دقیق اور محنت طلب کام ہے۔
ایک بات یہاں قابل توجہ ہے کہ جیسا کہ علامہ حلی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ ایک ہزار دلیلیں اثبات امامت کے لئے اور ایک ہزار دلیلیں مخالفین کے اعتراضات کے رد میں مگر وہ بات جو علامہ نے آخر کتاب میں بیان کی ہے کہ یہ وہ آخری دلیل ہے جسے میں نے نقل کیا ہے جن کی تعداد ۱۰۳۸؍ ہے۔ مگر ہم نے اسی پر اکتفا کیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ علامہ حلیؒ آخر میں اپنے قصد و ارادہ سے منصرف ہوگئے تھے۔ محض اتنی ہی دلیلوں پر اکتفا کریں یا پھر فخر المحققین علامہ کے فرزند کو کتاب مرتب کرتے وقت بقیہ دلائل نہیں دستیاب ہوسکے اور تقریباً نو سو کچھ دلیلیں مفقود ہوگئی ہیں۔
مگر ’’الفین‘‘ کی آخری عبارت کے موجود ہونے سے معلوم ہوتا ہے وہ دلیلیں آخر کتاب سے مفقود نہیں ہوئی ہیں بلکہ درمیان کتاب کی دلیلیں تھیں جو شاید روز گار زمانہ نے انھیں ناپید کردیا ہے۔
اور علامہ حلی نے ابتداء کتاب میں مفصل مقدمہ تحریر کرنے کے بعد دو مقابلے بھی لکھے ہیں مگر آغاز کتاب میں جو خاتمہ کتاب کے ذکر کا وعدہ کیا تھا وہ کتاب میں موجود نہیں ہے۔
مرحوم علامہ حلی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے پوری کتاب میں عقلی و نقلی دلیلوں سے بیک وقت استفادہ کیا ہے یعنی ان میں کسی عنوان سے ترتیب یا کسی طرح کے امتیازات کا خیال نہیں کیا ہے۔ اور چونکہ علامہ حلیؒ کا اصل مخاطب یعنی خصم منصب امامت کے مخالفین ہیں اس لئے اپنے استدلال میں قرآن کریم کی زیادہ سے زیادہ آیتوں سے استفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ سواد آعظم ہی کی احادیث و روایات سے شواہد پیش کئے ہیں ائمہٴ معصومین علیہم السلام کی روایتوں کو خاص طرق سے نقل نہیں کیا ہے۔
چونکہ علامہ کی شخصیت ایک عظیم علمی شخصیت ہے اس لئے استدلالی بحث و گفتگو میں مختلف علوم و فنون کی جھلکیاں نظر آتی ہیں اور مختلف و متنوع استدلال کے ساتھ حصہ کے سامنے استدلال قائم کیا ہے۔ خواہ عقلی دلیلوں میں انواع قضایا، منطقی قیاس جیسے ضررویہ، ممکن بالامکان الخاص والعالم ہو یا نقلی استدلال کے دیگر معانی و بیان کے مفاہیم ہوں۔ ہر علم کے فن سے استفادہ کیا۔ جہاں دشمن کے لئے جواب دینے یا سوچنے کی گنجائش تک نہیں رکھی ہے۔ اور وہ اس میں خوب کامیاب بھی نظر آتے ہیں۔
کتاب ’’الفین‘‘ کے بیشتر مطالب امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہما الصلاۃ والسلام کی امامت و خلافت کو ثابت کرنے کے استدلال پر مشتمل ہیں غاصبین حق کی صلاحیت کو باطل کرنے یا رد کرنے کے استدلال میں نہیں ہیں۔ اس لئے کہ جب حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی امامت و ولایت ثابت ہوجائے گی تو غیر کے لئے خلافت و امامت وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگی۔
یہ عظیم الشان کتاب چونکہ اپنے موضوع اور طریقۂ استدلال میں منفرد کتاب رہی ہے اس لئے یہ ہمیشہ لائق توجہ اور مکرر زیور طبع سے آراستہ ہوتی رہی ہے‘ اور ایران و عراق و دیگر جگہوں سے یہ مسلسل چھپتی رہی ہے۔
جو ۱۴۰۹ھ میں طبع ہوئی ہے اس میں اگرچہ آخر کتاب میں ڈھنگ کی فہرست قرار نہیں دی گئی ہے مگر کتاب کے حاشیہ میں جو تعلیقات اور مطالب کا اضافہ کیا گیا ہے وہ انتہائی مفید اور اہم ترین معلومات فراہم کرتی ہے۔ کیوںکہ متن کتاب میں جو پیچیدہ اور دقیق استدلال قائم کئے گئے ہیں انھیں بڑی خوبصورتی اور عمدہ طریقہ سے واضح کرکے پیش کیا گیا ہے جس نے کتاب کی افادیت میں چار چاند لگا دیا ہے۔
ہم سب کو خدا سے اس کے مطالعہ کی توفیق کی دعا طلب کرنی چاہیئے‘ اگر ان دلیلوں کو سمجھ کے کوئی مطالعہ کرے تو بحث امامت میں کافی حد تک تسلط قائم ہوسکتا ہے۔ یہ کتاب امیر المؤمنین علی علیہ السلاام کی امامت کے دفاع میں گرانقدر اور عظیم ترین اسلحہ اور سرمایہ ہے جو کبھی ختم یا کہنہ ہونے والا نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے خدایا! صاحب کتاب علامہ حلی اور ان کے فرزند فخر المحققین رضوان اللہ تعالیٰ علیہما اور دیگر مدافعان ولایت امیرالمؤمنین علیہ السلام کی پاکیزہ ارواح کو ان کے آقا و مولا امیر المؤمنینؑ کے ساتھ محشور فرما اور وارث تاجدار غدیر امیرالمؤمنین حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف علیہ السلام کے ظہور میں تعجیل فرما اور غدیری اسلام کی حکومت کے قیام کا وعدہ پورا فرما۔ اور ہم سب کو ان کے اعوان و انصار میں شمار فرما۔
آمین
حدیث غدیر میں معنی ولایت اُدَباء اور شعراء کی نظر میں- قسط ۴
اَلْحَمْدُ للہ ِ وَسَلَامٌ عَلیٰ عباد الّذین اَصْطَفیٰ
بارگاہ خداوندی میں صد شکر کہ اُس نے زندگی عطا کی اور اس سال سنہ ۱۴۴۳ ہجری میں میگزین ’’آفتاب ولایت‘‘ میں مذکورہ عنوان کی چوتھی قسط پیش کرنے کی توفیق عطا کیا۔
گذشتہ سال یعنی۱۴۴۲ھ کے ’’آفتاب ولایت‘‘ کے صفحات ۲۴تا۳۰پر قسط ۳ملاحظہ فرمائیں۔
گذشتہ مضامین کا چند سطروں میں خلاصہ یہ ہے:
ائمہ ھُدیٰ علیہم السلام اور علمائے امامیہ نے مولیٰ کے معنی صدر اسلام کے عرب اور بعد کی نسلوں کے عربوں نے جو سمجھا ہے اُسے بیان کیاہے۔
مولیٰ کے معنی نامور ادباء اور شعراء نے اپنے اشعار وبیان میں وہی ذکر کیا ہے جسے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خدا کے حکم سے بیان کیا ہے۔
شعراء نے حدیث غدیر کو مناسب قافیہ کے ساتھ شعر کی شکل میں اتارا ہے جو حدیث غدیر کے مستند ہونے کو ثابت کرتے ہیں۔
اس مضمون کا ماخذ ومدرک کتاب ’’الغدیر فی الکتاب والسُّنَۃِ وَالْاَدب‘‘ ہے جو کتاب الغدیر کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے مولف الشیخ عبدالحسین احمد الامینی قُدّس سِرّہ ہیں جو علامۂ امینی کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ کتاب عربی زبان میں لکھی گئی ہے۔ فارسی زبان میں مکمل کتاب کاترجمہ اور اردو وانگریزی میں کچھ اختصار کے ساتھ ترجمہ ہو چکا ہے۔
علامہ امینیؒ اور کتاب الغدیر کا مختصر تعارف ’’آفتاب ولایت‘‘ کے ۱۴۴۰ھکے شمارہ میں پیش کیا جا چکا ہے۔
گذشتہ شماروں میں شعر اور شعراء کی اہمیت ائمہ علیہم السلام اور حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ کی زبانی بیان ہو چکی ہیں۔ شعراء کی تشویق وترغیب کے لئے ائمہ علیہم السلام کی زبان مبارک سے اس طرح کے جملہ نظر آتے ہیں:
’’جو ایک شعر ہمارے بارے میں کہے خداوندعالم بہشت میں اس کے لئے ایک گھربناتا ہے۔‘‘{ FR 1179 }
گذشتہ شماروں میں پہلی صدی ہجری کے شعراء مثلاً حسان بن ثابت کے اشعار اور قیس بن عبادہ انصاری کے اشعار کا ذکر ہوا۔آپ حضرت امیرعلیہ السلام کے خاص صحابی تھے۔ حضرت امیرعلیہ السلام کے اشعار بھی لکھے گئے۔پھر امیرالمومنین علیہ السلام کے ایک دشمن عمروبن عاص متوفیٰ ۴۳ ھجری کے اشعار قصیدۂ جلجلیہ کا ذکر کیا گیا ۔ البتہ قصیدۂ جلجلیہ کے تمام ۶۶؍اشعار کا ترجمہ اور شرح آفتاب ولایت کے ۱۴۳۴ ھجری کے اردو شمارہ میں ۱۴۳۵ھ کے انگریزی شمارہ میں لکھا جا چکا ہے۔ پھر پہلی صدی کے شاعر محمد حمیری کے اشعار کا تذکرہ ہوا۔
اب ملاحظہ ہو دوسری صدی ہجری کے شعراء اور اُن کے اشعار کا تذکرہ:
مرحوم علامہ امینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے دوسری صدی ھجری کے تین شعراء کا تذکرہ کیا ہے:
(۱)کمیت بن زید اسدی
(۲)سیداسماعیل بن محمد حمیری
(۳)عبدی سفیان بن مصعب کوفی
ہم یہاں اختصار کے ساتھ کمیت اسدی کے مختصر حالات اور اُن کے شعر کا تذکرہ کریں گے۔
ابوالمستہل کمیت (۶۰تا ۱۲۶ھ ق)
ابومستہل کمیت بن زید بن خنیس بن مخالد بن وھیب بن عمرو بن شبیع بن مالک بن سعد بن ثعلبہ بن دودان بن اَسد بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار۔
ابوالفرج نے الاغانی میں لکھا ہے کہ:کمیت ایک معیاری شاعر یعنی جس کے پیچھے لوگ چلیں اور جس کی اتباع کی جائے، ماہر لغات، عرب کی تاریخ سے آشنا تھے ۔ وہ’’مضر‘‘ کی نسل کے شاعروں اور زبان دانی کے ماہر تھے۔ وہ’’قحطانیہ‘‘ کے طرفدار تھے اور اُن لوگوں میں سے تھے جو شاعروں کے عیوب سے آگاہ ہوتے، اورایّام روزگارسے آشنا اور حیات کی کشمکش سے بھی آشنا تھے۔ بنی امیہ کے دور میں زندگی گذاری لیکن بنی عباس کا دور نہ پایا۔ کمیت ھاشمی تشیع کے لئے معروف تھے۔
معاذھراء سے پوچھا گیا: سب سے بڑا شاعر کون ہے؟ اُس نے سوال کیا: جاہلیت کے دور کا شاعر یا اسلامی دور کا شاعر؟ کہا: پہلے جاہلیت کے دور کا بیان کرو۔معاذ نے کہا:اُمراء ُالقیس، زھیر،عبیدبن الابرص۔پھر پوچھا اسلامی دور کے شعراء میں کون ہے؟ معاذ نے کہا: فرزدق،جریر،اخطل، راعی۔ اُس سے پوچھا گیا: اے ابومحمد!تم نے کمیت کا نام کیوں نہیں لیا؟ معاذ نے کہا کہ وہ تواگلوں اور پچھلوں میں سب سے بڑےشاعر تھے۔{ FR 1032 }
اسی طرح فرزدق کا بیان بھی نقل کیا گیا ہے کہ خود انھوں نے کمیت سے کہا:خدا کی قسم!تم تمام گزرے اور آئندہ لوگوں میں سب سے بڑے شاعر ہو۔
تعداد اشعار:
کمیت کے اشعار کی تعداد الاغانی اور معاھد التّنصص(۲)کے مطابق ۵۲۸۹؍ہیں اور کشف الظنون میں عیون الاخبار کے حوالہ سے نقل ہوا ہے کہ کمیت کے پانچ ہزار سے زیادہ قصیدہ ہیں جسے صمعی نے جمع کیا ہے اور ابن مسکیت نے مرتب کیا ہے۔
تذکر: علامہ امینیؒ قدس سرّۃ نے تعداد کی تفصیل کے لئے بعض راویوں کے حوالہ دئیے ہیں جنھوں نے کمیت کے اشعار کی تعداد بھی بیان کئے ہیں اور ان کی تعریف بھی کی ہے۔صاحبان تحقیق رجوع کریں الغدیر جلد ۲؍عربی اور جلد ۴؍فارسی۔
ھاشمیات کمیت
کمیت کے قصائد ھاشمیات کُمیت کہلاتے ہیں۔ ردیف کے اعتبار سے یہ مثلاً قصیدۂ عینیۂ ہاشمیات، قصیدۂ میمیۂ ہاشمیات، قصیدۂ بائیہ ہاشمیات قصیدہ لامیہ ہاشمیات وغیرہ کہلاتے ہیں۔
قصیدہ عینیہ ھاشمیات
وَیَوْمَ الْدّوح‘ دَوحِ غَدِیرِ خُمٍّ
اَبَانَ لَہُ الْوِلَایَۃَ، لَواَطِیعا
اور روزِ دَوح، دَوحِ غدیر خم کے موقعہ اُن کی ولایت کو آشکار وظاہر کیا، اے کاش ان کی اطاعت کی جاتی (تفصیلی ترجمہ آگے ملاحظہ ہو)
وَلٰکِنِ الرَّجال تُبایِعُوھا
فَلَم اَرَ مِثْلَھا خطراً مبیعا{ FR 1033 }
لیکن جن لوگوں نے پیمان ولایت توڑ دیا، میں نے ایسی خطرناک پیمان شکنی نہ دیکھی۔
یہ اشعار ہاشمیات کمیت کے تابندہ قصائد کا ایک حصہ ہے اور جیسا کہ صاحب ’’حدائقُ الْوَرْدیہ‘‘ کے مطابق یہ ۵۸۷؍اشعار پر مشتمل ہے، لیکن دشمنوں نے اس کی اشاعت وطبع میں خیانت کیا اور بیشتر حصوں کو حذف کر دیا۔ یہی مجرمانہ حرکت دیوان حسّان ودیوان فرزدق ودیوان ابونواس وغیرہ کے ساتھ بھی کی گئی۔ اب تو اس کے آثار بھی مٹ گئے ہیں۔ اب تو چاہیئے کہ کوئی محقق ان کی خباثتوں کے پردہ کو فاش کرے۔
حوالہ: یہ قصیدہ ۱۹۰۴ء میں لیدن میں طبع ہوا تھا جس میں پانچ سو چھتیس (۵۳۶) اشعار تھے۔ استاد محمد شاکر خیاط کی شرح کے ساتھ پانچ سو ساٹھ (۵۶۰)اشعار اور استاد رافعی کی شرح کے ساتھ ۵۴۸؍شعر باقی رہ گئے۔{ FR 1034 }
یَومَ الدَوح کے معنی:
دَوح کے معنی بڑ ا درخت بہت سی شاخوں کے ساتھ جو ہر طرف پھیلی ہوئی ہو۔اس کو درختوں کا جھُنڈ بھی کہہ سکتے ہیں۔اس طرح یوم الدوح کا ترجمہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ ’’اُس دن کہ جب پیغمبر اکرم ﷺنے تبلیغ ولایت کے لئے درختوں کے جھُنڈ کے علاقہ میں خود کو ٹھہرایا یا اتارا۔ ایک مرتبہ شعر کا ترجمہ اس انداز میں ملاحظہ ہو:
وَیَومَ الدَّوحِ،دَوحِ غَدیرِ خم
وہ شاخوں سے لدے ہوئے درخت کے دن یعنی غدیر خم کے درخت کے جھنڈ میں ۔{ FR 1035 }
اَبَان لَہُ الْوِلایَۃَ ، لَو اُطِیْعٰا
اُن کی ولایت کو آشکار کیا،بیان، کیا اے کاش اُن کی اطاعت کی جاتی۔
شیخ مفید قدس سِرّہ کا بیان
مرحوم شیخ مفید رضوان اللہ تعالیٰ علیہ اپنے رسالہ میں کلمۂ’’مولیٰ‘‘کے معنی کے ذیل میں فرماتے ہیں:کمیت کی شخصیت ان لوگوں میں ہے کہ ان کے اشعار کے ذریعہ قرآن کے معنی کو سمجھنے کے لئے استشہاد کیا گیا ہے اور علماء نے شعر میں ان کی فصاحت ولغت شناسی وبلاغت میں انہیں سردار مانا ہے، اور ان کی عظمت وبزرگی پر عربوں نے اجماع کیا ہے۔ اور ایسا شخص جو کہے:
وَیَومَ الدَّوحِ،دَوحِ غَدِیرِ خمٍ اَبَانَ لَہُ الوِلایَۃَ، لَواَطِیعٰا(ترجمہ اوپرگذرا)خبر غدیر کے ذریعہ امامت علی علیہ السلام کو واجب جانا ہے اور اُن حضرت کولفظِ مولیٰ کے ذریعہ ریاست وولایت کا حامل قرار دیا ہے۔ کمیت جیسے لغت وادبیات عرب کے جلیل القدر شاعر کے لئے روا اور جائز نہیں ہے کہ وہ عبارتوں اور لفظوں میں وضع سے کام لے اور لفظ کو اُس کے معنی میں استعمال نہ کرے اور اُن سے پہلے دوسرے عربی داں نے اُس لفظ کو اُس معنی میں استعمال نہ کیا ہو اور جس طرح عربوں نے سمجھا ہو اُسے نہ سمجھا ہو۔اگر کمیت کے لئے ایسا کام روا اور جائز تھا، دوسروں کے لئے بھی جو اُن کے جیسے یا بلند مرتبہ یا اُن سے کم مرتبہ تھے، اُن کے لئے بھی جائز تھا اور نتیجہ میں لغت کا حقیقی مفہوم ہی فوت ہوجاتا اور پھر لغت عرب کی حقیقت کو پہچاننے کا ہمارے لئے کوئی راستہ نہ رہ جاتا اور اس طرح یہ راستہ ہی بند ہو جاتا۔{ FR 1036 }
امیرالمومنین ؑنے خواب میں اسی شعر کا مطالبہ کیا
کراجکی نے’’کنزالفوائد‘‘کے صفحہ ۱۵۴؍پر اپنی اسناد سے ’’ھنّاد بن سری‘‘کے حوالہ سے روایت کیا ہے کہ ھنّاد{ FR 1037 }نے کہا:امیرالمومنین علیہ السلام کو خواب میں دیکھا کہ مجھ سے کہہ رہے ہیں: اے ھنّاد!میں نے کہا: لبیک یا امیرالمومنین !آپ نے فرمایا:کمیت کے اُس شعر کو میرے لئے پڑھو جو کہ اس بیت سے شروع ہوتا ہے:
وَیَوم الدَّوح ، دَوح، غدیر خُمٍّ۔۔۔۔
میں نے پڑھا تو آپ نے فرمایا:اے ھنّاد!سنو، میں نے کہا: میرے آقا فرمائیے،تو حضرت نے فرمایا:
وَلَمْ اَرَ مِثْلَ ذَاکَ الْیَوْمَ یَوْماً
وَلَمْ اَرَمِثْلَہُ حَقّاً اَضیعٰا
میں نے ہرگز اس دن کی طرح دن نہ دیکھا اور ایسا حق کا ضائع ہونا کبھی نہ دیکھا۔
اسی طرح ’’شیخ ابوالفتوح‘‘ نے اپنی تفسیر کی جلد دوم صفحہ ۱۹۳؍پر ایک خواب کا ذکرکیا ہے۔ کمیت کہتے ہیں کہ: امیرالمومنین علیہ السلام کو خواب میں دیکھا کہ مجھ سے کہہ رہے ہیں اپنے قصیدۂ عینیہ کو میرے لئے پڑھو۔ میں نے پڑھنا شروع کیا اور یہاں تک پہونچا کہ:
وَ یَوْمَ الدَوح، دَوحَ غدیرِ خُمٍ
اَبانَ لَہُ الولایَۃُ لَو اَطِیْعٰا
اور حضرت(خدا کا مسلسل درود وسلام ہو اُن پر ) نے فرمایا: تم نے صحیح کہااور خود اس طرح پڑھا:
وَلَم اَرَمِثلَ ذَاکَ الیومَ یَوماً
وَلم اَرَ مِثلہُ حَقّاً اَضیعٰا
میں نے ہرگزاُس دن کی طرح دن نہ دیکھا اور ایسا حق کا ضائع ہونا کبھی نہ دیکھا ۔
پیغمبر اکرم نے بھی اس قصیدہ کی تعریف کی
’’بیاضی عاملی‘‘ نے اپنی کتاب ’’الصّراط المستقیم‘‘ میں نقل کیا ہے کہ کمیت کے بیٹے نے کہا کہ: پیغمبر کو خواب میں دیکھا کہ آپ اُس سے کہہ رہے ہیں: اپنے والد کے قصیدۂ عَینیّہ کو میرے لئے پڑھو‘ اور میں نے پڑھنا شروع کیا اور جب یہاں تک پہونچا:
وَیَومَ الدَوح، دَوحَ غَدِیرِ خُمٍّ۔۔۔۔
تو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ سخت گریہ کرنے لگے اور فرمایا:تمہارے والد نے صحیح کہا،خدا اُن پر رحمت کرے، بے شک خدا کی قسم:
لَمْ اَرَمِثلَہُ حَقّاً اَضِیعٰا
ایسا حق کا ضائع ہونا کبھی نہ دیکھا { FR 1038 }
تذکّر: اس مضمون میں مزید گنجائش نہیں ہے کہ کمیت کے قصائد کا مزید جائزہ لیا جائے ۔ مرحوم علامۂ امینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے پچاس صفحات سے زیادہ کمیت کے حالات نقل کئے ہیں۔ ان کے تمام قصائد مثلاً قصیدۂ عینیۂ ھاشمیات، قصیدۂ میمیۂ ھاشمیات، قصیدۂ بائیۂ ھاشمیات، قصیدۂ لامیہ ھاشمیات وغیرہ کے کچھ شعر کا تذکرہ اور اُن پر تبصرہ اور اُن کے حوالے نقل کئے ہیں اور ساتھ ہی کمیت کے حالات کا ذکر کیا ہے۔ ہم یہاں قارئین کی توجہ کے لئے بعض عنوان لکھ رہے ہیں۔
زندگیٔ شاعر، کمیت اور ان کی مذہبی زندگی ، کمیت اور ائمہ علیہم السلام کی دُعا اُن کے حق میں، کمیت وہشام بن عبدالملک، کمیت ویزید ابن عبدالملک، ولایت وشہادت کمیت وغیرہ۔
کمیت کے حق میں ائمہ علیہم السلام کی دُعا
جیسی دعائیں کمیت کے حق میں پیغمبر اور ائمہ علیہم السلام نے کی ہے دوسروں کے بارے میں کم ہی دکھائی دیتی ہیں۔ہم نے بیاضی کی حدیث میں دیکھا کہ پیغمبرؐ اُن کے لئے رحمت کی دعا کر رہے ہیں۔ اسی طرح نضربن مزاحم کے خواب میں اجر خیر کی دعا کرتے ہیں۔
امام سجاد علیہ السلام دُعا کرتے ہیں:خداوندا!انہیں خوش بختی کے ساتھ زندہ رکھ اور شہادت کے ذریعہ موت عطا کر اور اُن کے اجر دنیوی انہیں دکھا اور ثواب آخرت کو اُن کے لئے ذخیرہ کردے۔
امام باقر علیہ السلام نے نہ صرف ایک بار بلکہ کئی مرتبہ جیسے منیٰ میں ایام تشریق کے موقع اور کبھی کعبہ کے سامنے ان کے لئے رحمت ومغفرت کی دعا کیا اور فرمایا: ہمیشہ (اے کمیت) روح القدس کی تائید تمہیں حاصل ہو۔
خلاصہ یہ کہ امام صادق علیہ السلام نے بھی آپ کے حق میں دُعا کی ہے اور دیگر ائمہ نے بھی { FR 1039 }
خدایا!ہمیں بھی امام زمانہ علیہ السلام اور ائمہ علیہم السلام کی دعاؤں میں شامل فرما۔
ولادت وشہادت کمیت
کمیت سن ۶۰؍ھجری میں یعنی امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے سال میں پیدا ہوئے۔امام زین العابدین علیہ السلام کی دُعا کی برکت سے اُن کی تقدیر میں شہادت نصیب ہوئی ۔ آپ کی شہادت ’’مروان بن محمد‘‘ کے دور خلافت میں کوفہ میں سن ۱۲۶ ھجری میں واقع ہوئی۔
آپ کی شہادت کی وجہ بتائی گئی ہے کہ جعفریان نے خالد قسری پر خروج کیا اُسی زمانہ میں بہت سے لوگوں کوجلایا گیا، مارا گیا اور کمیت نے زیدبن علی کے مرنے کے بعد کچھ شعر اُن کی مدح میں کہے تھے کہ:(اے زید بن علی)!ظاہری طور پر لوگوں کے درمیان آئے، اور کوئی نہ تھا کہ اُس (خالد) کے محل کے بڑے دروازہ پر قفل لگائے۔
خالد کہ اپنے کھلے ہوئے منھ سے پانی طلب کر رہا تھا اور اُس کو قتل کرنے والے فریاد کر رہے تھے، وہ تمہاری طرح نہ ہوگا۔
اسی وقت آٹھ سپاہیوں نے اپنی تلوار وں سے کمیت کے شکم پر حملہ کیا اور انہیں گرا دیا اور کہا: امیر کی اجازت کے بغیر شعر پڑھتا ہے؟ اور اُن کے جسم سے مسلسل خون بہتا رہا اور آپ کی شہادت واقع ہو گئی۔
مستہل، کمیت کے بیٹے بھی ایک عظیم ومعروف شاعر تھے اور ان کا بھی دیوان موجود ہے، فرماتے ہیں کہ اپنے والد کی موت کے وقت میں اُن کے سرہانے تھا۔ وہ موت کے وقت بے ہوش ہوئے اور جب ہوش میں آئے تو تین مرتبہ فرمایا: بارِ خدایا!خاندانِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ۔پھر مجھ سے بنی کلب کے بارے میں کہا اور کہا کہ مجھے پشتِ کوفہ پر دفن نہ کرنا بلکہ’’مکران‘‘کے مقام پر دفن کرنا ۔ لہٰذا انہیں اُسی جگہ لے گئے جو آج تک قبرستان بنی اسد کے نام سے جانا جاتا ہے، سپرد خاک کیا۔{ FR 1040 }
خدایا!ہمیں امیرالمومنین علیہ السلام کے حق کے دفاع کی توفیق عمر کے آخری لمحات تک عطا کر۔اللھُمَّ عجل لولیک الفرج۔
حدیث غدیر پر ابن تیمیہ کے اعتراض کا جواب
۱۸؍ ذی الحجہ سنہ دس ہجری کو حکم خدا پر عمل کرتے ہوئے رسول اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺنے امیرالمومنین حضرت علیؑ ابن ابی طالبؑ کی ولایت کا سرکاری اعلان فرمایا۔ اس اعلان کی بنا پر تمام مسلمانوں پر حضرت علیؑ کی ولایت فرض قرار دی گئی۔ اس مشہور تاریخی واقعہ کو بہت سے محدثین، مورخین، شعراء، اور ادبا نے اپنی اپنی کتابوں میں حدیث غدیر کے نام سے نقل کیا ہے۔
اس حدیث کو سو (۱۰۰) سے زیادہ صحابہ اور صحابیہ نے نقل کیا ہے۔ طرفین کے بزرگ محققین اور محدثین نے اس حدیث کے متواتر اور مستند ہونے پر مہر لگائ ہے ۔ اسلامی کتب احادیث میں شاید ہی کوئی اور روایت اس حدیث جتنی معتبر اور متواتر سمجھی گئی ہو۔
مگر اس کے باوجود کچھ’ناصبی‘ فکر رکھنے والے افراد ،بغض اہلبیتؑ کی وجہ سے، اس حدیث پر اعتراض کرتے ہیں۔ اس موقع پر ہم اپنے قارئین کو یہ بتادینا ضروری سمجھتے ہیں کہ خود اہل تسنّن کے یہاں ’ناصبی‘ کی تعریف کیا کی گئی ہے ایسے شخص کا کیا انجام بیان کیا گیا ہے۔ ’ناصبی‘ کی تعریف بیان کرتے ہوئے مشہور اہل تسنّن عالم ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں۔
’ناصبی‘ وہ ہے جو بغضِ علیؑ دل میں رکھے اور کسی اور کو ان (علیؑ) پر مقدّم کرے۔ { FR 1043 }
ایسے شخص کے انجام کے متعلق سرور کائنات (ص) کی یہ حدیث بھی غور طلب ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
’’اگر کوئی شخص رکن و مقام کے درمیان نماز کے لیے کھڑا ہو اور وہ اسی حالت میں دنیا سے چلا جائے مگر وہ میرے اہلبیتؑ کے فضائل کے متعلق ذرہ برابر عیب و نقص تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہو تو اللہ تعالیٰ اسے آتش جہنم میں ڈال دے گا۔‘‘ { FR 1042 }
’ناصبی‘ کے اس مختصر تعارف سے یہ بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ ناصبی فکر رکھنے والے افراد کی اسلام میں کوئ حیثیت نہیں رہ جاتی۔ ایسی ہی فکر رکھنے والے متعصب علماء میں ایک مشہور نام ابن تیمیہ کا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم ابن تیمیہ کے اعتراض پر گفتگو کریں بہت مناسب ہوگا کہ ہم اس کی ناصبی فکر کو اجاگر کریں تاکہ قارئین کرام اس کے اعتراض کی بنیاد کو سمجھ سکیں۔
ئ ابن تیمیہ نے جناب فاطمہ (س) کے فضائل کا انکار کیا ہے اور اس حدیث کو جھٹلایا ہے جو تمام محدثین کے نزدیک متفق علیہ ہے۔ { FR 1048 }
ئ ابن تیمیہ نے حضرت علیؑ کی شان میں گستاخی کی ہے۔{ FR 1049 }
ئ امیرالمومنینؑ کے جہاد اور جنگوں میں ایثار و فداکاری کا مذاق اڑایا ہے۔ { FR 1050 }
ئ ابن تیمیہ نے امیرالمومنینؑ کے دور خلافت کو شک کے دائرے میں کھڑا کیا ہے۔{ FR 1051 }
ئ امیرالمومنینؑ کے قاتل ملعون ابن ملجم کا دفاع کیا ہے۔ { FR 1052 }
ئ دشمنان امیرالمومنینؑ اور خوارج کی تعریف کی ہے۔{ FR 1047 }
اس کے علاوہ بھی ابن تیمیہ نے بہت سی بکواس اور اہانت آمیز باتیں کی ہیں جن سے اس کی ناصبی فکر اور عقیدے کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ ابن تیمیہ کی مثال ایسے شخص کی ہے جس کو بغضِ اہلبیتؑ نے اس حد تک اندھا کردیا ہے کہ اس کی عقل و فہم غارت ہو چکی ہے۔ یہی سبب تھا کہ علامہ حلی ؒ نے اس کے اعتراض کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھا جبکہ علامہ امینی ؒ نے ابن تیمیہ کی کتاب کا نام ’منہاج البدعة‘ زیادہ مناسب قرار دیا۔{ FR 1046 } اس شخص نے ان احادیث پر بھی انگلی اٹھائ ہے جن کو بزرگ اہل تسنّن علماء نے معتبر جانا ہے۔ اس لیے ابن تیمیہ کے اعتراضات کوئ علمی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ اس کے خباثت وجود کو ثابت کرتے ہیں۔
اپنی کتاب میں ایک مقام پر ابن تیمیہ لکھتا ہے : حدیث غدیر میں موجود جملہ ’’اَللّٰھُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاہُ ، وَ عَادِ مَنْ عَادَاہُ وَانْصُرْ مَنْ نَصَرَہٗ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَہٗ‘‘ ، اہل حدیث کا علم رکھنے والوں کے نزدیک جھوٹ ہے۔{ FR 1045 } ابن تیمیہ کے اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اس کی تحقیق کے مطابق اگرچہ حدیث غدیر کو صحیح تسلیم کرلیا جائے تب بھی حدیث غدیر کے ساتھ والا فقرہ (اَللّٰھُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاہُ …… اے اللہ تو اسے دوست رکھ جو علیؑ کو دوست رکھے اور ا سے دشمن قرار دےجو علیؑ کو دشمن رکھے، اس کی مدد کر جو علیؑ کی مدد کرے اور اس کو فراموش کردے جو علیؑ کو فراموش کر دے) محدثین کے نزدیک ایک جھوٹ ہے یعنی رسول اکرم ؐنے اس فقرہ کو نہیں ارشاد فرمایا تھا۔ جبکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ سچّائی تو یہ ہے کہ متعدد اہل تسنّن معتبر اور مستند محدثین نے حدیث غدیر کے اس فقرے کو اپنے اپنے طریقوں سے نقل کیا ہے۔ ان میں بعض کے نام یہ ہیں:
ئ احمد بن حنبل (مسند احمد، ج ۱، ص ۱۱۸و ۱۱۹ و ۱۵۶)
ئ نسائی (سنن نسائی، ج ۵، ص ۱۳۲ و ۱۳۴ و ۱۳۶ و ۱۵۴)
ئ ابن ابی شیبۃ ( المصنف، ج۶، ص۳۶۶ و ۳۶۸)
ئ ابن حبان (صحيح ابن حبان، ج ۱۵، ص ۳۷۶)
ئ طبرانی ( المعجم الکبیر، ج ۵، ص۱۶۶؛ المعجم الصغير، ج ۱، ص ۱۱۹)
ئ بزار (مسند بزار، ج ۶، ص ۱۳۳و ۲۳۵ و ج۳، ص۳۵)
ئ ضیاء مقدسی (المختارۃ، ج ۲، ص ۱۰۵ و۱۰۶)
ئ حاکم نیشاپوری (مستدرک حاکم، ج۳، ص۱۱۸)
ئ ابن ابی عاصم (السنۃ، ج ۲، ص ۵۶۶)
ئ ابن ماجہ ( سنن ابن ماجہ، ج ۱، ص ۴۵) وغیرہ
لہٰذا ابن تیمیہ کا یہ دعویٰ جھوٹا ہے۔
اتنا ہی نہیں بلکہ دوسرے اہل تسنّن علماء نے بھی ابن تیمیہ کے اس دعوے کو رد کیا ہے۔ شیخ ناصر الدین البانی جو کہ سلفیوں اور وہابیوں میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں نے ابن تیمیہ کے اعتراض کو رد کیا ہے۔ شیخ البانی نے ’حدیث غدیر‘کی صحت کو تسلیم کیا ہے اور ابن تیمیہ کی بات کو رد کیا ہے۔ چنانچہ البانی نے اپنی کتاب ’سلسلہ احادیث الصحیحہ‘ میں حدیث غدیر کے متعلق اس طرح لکھا ہے:
جب میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کو دیکھا کہ وہ اس حدیث (غدیر) کے پہلے حصے کو ضعیف کہہ رہے ہیں اور دوسرے حصے کو جھوٹا کہہ رہے ہیں تو میں نے اس حدیث کے دفاع میں لکھنا ضروری سمجھا ہے. میری تحقیق کے مطابق ابن تیمیہ کا حد سے زیادہ مبالغہ ہے کہ وہ کچھ احادیث کو غلط قرار دینے میں بہت جلد بازی کرتے ہیں اور مکمل طور پر احادیث کی جانچ پڑتال نہیں کرتے۔ اس جلد بازی کی وجہ سے حدیث کے طریق کو جمع کرنے اور اس میں غور فکر کرنے سے پہلے انھوں نے یہ فیصلہ کیا ہے۔{ FR 1044 }
سلفی عالم البانی کے اس اعتراف کے بعد ابن تیمیہ کے اس اعتراض کی کوئ حیثیت نہیں رہ جاتی۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا تھا کہ ابن تیمیہ کے اعتراضات اس قدر بیہودہ ہوتے ہیں کہ شیعہ علماء اس کو جواب کے لائق نہیں سمجھتے اور خود ابن تیمیہ کے مرید عالم اس کا دفاع نہیں کر پاتے بلکہ اس کے اعتراض کو جلد بازی میں کیا ہوا فعل قرار دیتے ہیں۔
انتخاب یا انتصاب
یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ امت کے لئے ایک رہنما کا وجود ضروری ہے۔کوئی بھی اس ضرورت سے انکار نہیں کر سکتا ہے۔کیونکہ یہ زندگی کا مسئلہ ہے۔
اسلام نے اس رہنما کو معین کرنے کے کچھ اصول وقوانین مرتب کئے ہیں یا نہیں یعنی ان اصول وقوانین کا تذکرہ قرآن وسنت میں ہے یا نہیں؟
سواد اعظم کا کہنا ہے قرآن وحدیث میں اس سلسلہ میں کوئی واضح قوانین موجود نہیں ہیں بلکہ یہ مسئلہ امت کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
اگر یہ امت کے حوالہ کیا گیا ہے تو اس سلسلہ میں امت کو کیا ہدایات دی گئی ہیں؟
رہنما کے انتخاب کے سلسلے میں امت نے جو عملی روش اختیار کی ہے اس سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ کوئی واضح طریقہ نہیں ہے۔اس لئے کوئی ایسا طریقہ نہیں ہے۔ جس پر سب متفق ہوں ۔
ذیل میں ان طریقوں کا جائزہ لیتے ہیں:
اجماع
کچھ لوگوں کا خیال ہے رہنما کا انتخاب اجماع سے ہونا چاہئیے اجماع یعنی ساری امت کا اجماع۔
مگر یہ بات عملی طور پر محال ہے۔کیونکہ پوری امت کا کسی ایک پر بلا اختلاف رائے متفق ہونا عملاً ناممکن ہے۔ لہٰذا کچھ لوگوں نے اس مشکل کے پیشِ نظر ساری امت کی قید کو ہٹا کر کچھ لوگوں کے اجماع کو ضروری قرار دیا ہے۔ یعنی ہر شہر کے فاضل افراد کے اجماع کو ضروری قراردیا ہے۔
یہاں بھی وہی مشکل ہے ہر شہر کے تمام فاضل افراد کا جمع ہونا آسان نہیں ہے۔اور اگر جمع ہو بھی جائیں تو کسی ایک بات پر سب کا متفق ہونا آسان نہیں ہے۔بہرحال اہلِ سنت کے یہاں خلیفہ کے انتخاب کے لئے مندرجہ ذیل طریقے بیان کئے گئے ہیں۔
(۱) اجماع
(۲) انتخاب ارباب حل وعقد
(۳) ارباب حل وعقد میں چند افراد کا کسی ایک کی بیعت کرنا۔
(۴) گذشتہ خلیفہ کی جانب سے معین کرنا۔(استخلاف)
(۵) قہر وغلبہ۔
آئیے ایک ایک کا جائزہ لیتے ہیں:
(۱)اجماع:
اجماع عملی طور پر ممکن نہیں ہے اور نہ کوئی اس حقیقت کا دعویدار ہے کہ ساری امت کسی ایک پر متفق ہوئی ہو۔ لہٰذا یہ آئیڈیل فکر ضرور ہے مگر عملی نہیں ہے۔
(۲)-(۳)ارباب حل وعقد کے ذریعہ انتخاب
اس صورت کو’’شوریٰ‘‘ سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
لیکن ’’شوریٰ‘‘ کے تمام حدود وشرائط روشن نہیں ہیں۔
الف: کتنے افراد کا ہونا ضروری ہے۔ یعنی اس کا کورم کیا ہے؟
ب: ان افراد میں کن شرائط کا ہونا ضروری ہے۔؟ ان کا انتخاب کون کرے گا؟
ج: خود اپنے درمیان سے منتخب کرنا ضروری ہے یا کسی دوسرے فرد کا انتخاب بھی کر سکتے ہیں۔
د: اختلاف رائے کی صورت میں حل کی کیا صورت ہو گی؟
ھ: کتنے دن میں کام مکمل کرنا ضروری ہے۔
و: اس کی شرعی حیثیت کیا ہے۔
ز: شوریٰ کا دائرہ کار صرف خلیفہ کا انتخاب ہے یا امت کے دوسرے امور میں بھی رائے دے سکتا ہے۔
ح: انتخاب خلیفہ کے بعد اِس کی قانونی حیثیت باقی رہے گی یا ختم ہو جائے گی۔
اس طرح کے اور بھی سوالات ہیں جو اس ضمن میں کئے جا سکتے ہیں۔
اگر اہلِ سنت کی کتابوں کا مطالعہ کریں تو واضح ہوگا اس کا خدوخال واضح نہیں ہے۔کوئی ایسی جامع تصویر نہیں ہے جس پر سب متفق ہوں۔
کچھ لوگ کہتے ہیں ۵؍افراد کا ہونا ضروری ہے۔ دلیل ابوبکر کی بیعت ۵؍افراد نے کی تھی ۶؍ افراد کا ہونا ضروری ہے۔
دلیل:عمر نے شوریٰ میں ۶؍افراد معین کئے تھے۔ ۲؍ افراد کا ہونا کافی ہے۔
دلیل: نکاح میں ایک ولی اور دو شاہد(گواہ) کا ہونا ضروری ہے۔صرف ۱؍فرد کا ہونا کافی ہے۔
دلیل: جناب عباس نے حضرت علی علیہ السلام سے کہا۔ ہاتھ بڑھائیں تا کہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کروں۔ تا کہ لوگ کہیں رسول خدا کے چچا نے اپنے بھتیجے کے ہاتھوں پر بیعت کی ہے۔ پھر کوئی اختلاف نہیں کرے گا۔ { FR 1167 }
ان سب پر ’’ابن حزم‘‘ کا یہ تبصرہ پوری طرح صادق آتا ہے۔ ’’ہر وہ بات جس کے لئے قرآن، سنت رسول اور یقینی اجماع امت سے کوئی دلیل نہ ہو وہ یقیناً باطل ہے۔ اس لئے کہ قرآن کریم میں ہے:
’’قُلْ ھَاتُوْابُرْھَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ‘‘{ FR 1158 }
لہٰذا جس بات کی صداقت پر کوئی دلیل وبرہان نہ ہو وہ صحیح نہیں ہے۔‘‘{ FR 1159 }
(۴)گذشتہ خلیفہ کی جانب سے معین کرنا:
جس طرح ابوبکر نے عمر کو معین کیا۔ یا عمر نے ایک جماعت کو معین کیا کہ یہ لوگ خلیفہ کا انتخاب کریں۔ یا خلیفہ یکے بعد دیگرے خلفاء کا انتخاب کرے جس طرح سلیمان بن عبدالملک نے اپنے بعد عمر بن عبدالعزیزکو معین کیا اور عمر بن عبدالعزیز کے بعد یزید بن عبدالملک کو نامزد کیا۔{ FR 1160 }
یہاں سب سے اہم سوال یہ ہے ۔ خلیفہ کو نامزد کرنے کا اختیار کس نے دیا ہے؟ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟! اس کی دلیل کیا ہے؟ کوئی آیت کوئی روایت ۔
اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ حضرت رسولؐ خدا نے اپنے بعد کسی کو معین نہیں کیا تو آنحضرت کے خلفاء کو اپنا جانشین معین کرنے کا حق کس نے دیا؟
(۵)قہر وغلبہ:
جو غالب آ جائے وہی خلیفہ۔ امام احمد کا قول ہے’’الامامۃ لمن غلب‘‘ اور اِس کی دلیل عبداللہ بن عمر کا یہ عمل ہے زمانہ حرہ میں ابن عمر نے اہل مدینہ کے ساتھ نماز پڑھی اور یہ کہا۔’’نَحْنُ مَعَ مَنْ غَلَب‘‘ جو غالب آئے ہم اس کے ساتھ ہیں۔{ FR 1161 }
اگر قہر وغلبہ ہی دلیل امامت وخلافت ہے۔ تو یہ فتنہ وفساد کا سبب ہے خوں ریزی وقتل وغارت گری کا وسیلہ ہے۔ ہر ظالم وجابر اور اقتدار پرست کے لئے راہ ہموار کر دینا ہے۔
ان تمام صورتوں پر غور کرنے سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے۔ خلیفہ کے انتخاب کا کوئی طریقہ کار پہلے سے معین نہیں ہے۔ اور ان میں سے کوئی ایسا طریقۂ کار نہیں ہے جس پر قرآن و سنت سے واضح دلیل موجود ہو۔ بلکہ یہ سب واقع شدہ کام کو درست اور شرعی ثابت کرنے کی کوششیں ہیں۔ لہٰذا ہر وہ طریقہ جس کے ذریعہ کوئی بھی تخت خلافت پر بیٹھا وہی طریقہ شرعی ہو گیا۔
ان باتوں سے ایک نہایت تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اسلام جو آخری آسمانی دین ہے۔ جس نے اپنے کامل ہونے کا اعلان کیا ہے اس میں زندگی کے اتنے اہم مسئلہ کے لئے کوئی واضح قانون وضع نہیں کیا ہے اور اتنے حساس مسئلہ کو امت کے حوالہ کر دیا۔ جو چیز (رہنما) امت سے اختلافات دورکرنے کا سبب تھی وہی اختلافات کا سبب ہو گئی۔
ان تمام اختلافات کی وجہ یہ ہے کہ یہ سب قاعدے اور معیار بعد میں تیار کئے گئے ہیں جب کہ واقعات پہلے ہی رونما ہو چکے ہیں یہ ساری کوششیں صرف اس لئے ہیں گذشتہ بزرگوں کے اعمال کسی نہ کسی طرح درست ہو جائیں۔ لہٰذا جہاں شوریٰ کا امکان تھا وہاں شوریٰ معیار قرار پایا اور جہاں قہر وغلبہ سے اعمال درست ہو سکتے تھے وہاں قہر وغلبہ کو معیار قرار دے دیا گیا۔ دوسرے لفظوں میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے یہ سارے واقعات اسلامی قوانین کی روشنی میں وجود میں نہیں آئے ہیں بلکہ ان واقعات کے مطابق اسلامی قوانین کی تشریح وتفسیر کی گئی ہے۔ سب سے زیادہ لطف کی بات تو یہ ہے کہ رونما شدہ واقعات خود ساختہ معیار وضوابط پر بھی پورے نہیں اترتے ہیں۔ ذیل میں ایک ایک کاجائزہ لیتے ہیں۔
یہ بات بہت زیادہ قابل غور ہے کہ خلیفہ ثالث کی حقانیت اس بات پر موقوف ہے کہ خلیفہ ثانی کی خلافت درست ہو اس لئے کہ انھوں نے ہی شوریٰ تشکیل دیا تھا اور انھوں نے ہی اس کے شرائط بیان کئے تھے۔اگر خود ان کی خلافت درست نہ ہوتو پھر شوریٰ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ اس لئے کہ شوریٰ اس شخص نے معین کیا ہے جس کو کوئی اختیار نہیں ہے۔ چونکہ خلیفہ ثانی کو خلیفہ اول نے وصیت کے ذریعہ خلیفہ بنایا تھا لہٰذا خلافت ثانی خلافت اولیٰ کی حقانیت پر موقوف ہے۔ اگر خلیفہ اول ہی کی خلافت غیر اسلامی ہو تو وہ جس کو بھی خلیفہ بنائیں گے وہ غیر قانونی ہوگا۔ یہ تو بالکل اس طرح ہے جو شخص خود گھر کا مالک نہ ہو وہ دوسرے کو کیونکر اس کا مالک بنا سکتا ہے؟
اس بنا پر سب سے پہلے خلافت اول کا جائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں جس کو لوگ ’’اجماع‘‘یا’’شوریٰ‘‘قرار دے رہے ہیں اُس کی حقیقت کیا ہے۔
سقیفہ:
حضرت رسول خدا ﷺکی آنکھ بند ہوتے ہی موقع کے منتظر افراد اپنی اپنی کاروائی میں لگ گئے۔حضرت رسولؐ خدا نے دعوت ذوالعشیرہ سے زندگی کے آخری لمحات تک جس خلافت وامامت کی باقاعدہ وضاحت فرمائی تھی اور غدیر کے موقع پر ہر ایک سے بیعت لی تھی۔ اصحاب رسول تمام تر وضاحتوں کو پائمال کرتے ہوئے اپنے سوچے سمجھے منصوبوں کو عملی کرنے لگے۔
جب تک ابوبکر آ نہیں گئے اس وقت تک عمر رسولؐ خدا کی وفات کا انکار کرتے رہے’’اور کہتے رہے کہ منافقین یہ خیال کر رہے ہیں کہ رسولؐ خدا انتقال فرما گئے ہیں۔ رسولؐ خدا کو موت نہیں آئی ہے بلکہ وہ جناب موسیٰ کی طرح چالیس رات کے لئے قوم سے غائب ہو گئے ہیں ۔ خدا کی قسم رسول خدا واپس آئیں گے اور جو لوگ ان کو مردہ خیال کر رہے ہیں ان کے ہاتھ پیر کاٹیں گے۔ جو یہ کہے گا کہ رسولؐ خدا کا انتقال ہو گیا میں اس کا سر اس تلوار سے جدا کر دوں گا۔‘‘{ FR 1162 }
لوگوں نے اس آیت کی تلاوت کی:
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلىٰ أَعْقَابِكُم۔{ FR 1163 }
مگر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ بلکہ غصہ اتنا زیادہ تھا کہ منھ سے جھاگ نکل رہا تھا۔{ FR 1164 }
لیکن جب ابوبکر نے آکر اس آیت کی تلاوت کی تو عمر نے کہا کیا یہ آیت خدا کی کتاب میں ہے۔ ابوبکر نے کہا ہاں۔ اس وقت عمر خاموش ہوگئے۔{ FR 1165 }
ابوبکر کے آنے سے پہلے وفات رسول میں شک کرنا ۔(گرچہ شک کرنا سیرت عمر ہے) اور ابوبکر کی زبانی آیت سننے کے بعد خاموش ہو جانا کسی طے شد ہ منصوبہ کا پتہ دے رہا ہے۔
سقیفہ:
سقیفہ ایک زمین تھی جس کو چٹائیوں سے گھیر دیا گیا تھا اور کھجور کی شاخوں سے اُس کی چھت بنائی گئی تھی۔ یعنی کھجور کی شاخوں کا چھپر تھا اور چٹائیوں کی دیوار تھی قبیلہ خزرج کی شاخ ’’بنی ساعدہ‘‘ کے افراد اکثر یہاں جمع ہوتے تھے۔ اس کی ریاست وصدارت’’سعد بن عبادہ‘‘ کے ہاتھوں میں تھی۔ اسی مناسبت سے اس کو ’’سقیفہ بنی ساعدہ‘‘کہتے ہیں ۔
داستانِ سقیفہ:
اس داستان کے عینی گواہ مرکزی کردار کے مالک عمر بن خطاب کی زبانی یہ داستان سنتے ہیں۔ ان کا بیان ہے۔
’’جس وقت حضرت رسولؐ خدا کا انتقال ہوا تو ہمیں یہ خبر ملی کہ ’’انصار‘‘ سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے ہیں، علیؑ، زبیر اور ان کے ساتھی ہمارے ساتھ نہیں ہیں ۔ میں نے ابوبکر سے کہا چلو اپنے انصار برادران کے پاس چلیں، تو ہم لوگ ان کے پاس پہونچ گئے۔ وہاں چادر اوڑھے ایک شخص کو دیکھا۔ لوگوں نے کہا یہ سعد بن عبادہ ہیں اور بخار میں مبتلا ہیں۔ ہم وہاں ذرا دیر بیٹھے تھے ان کے خطیب نے خدا کی حمد وثنا کے بعد کہا اما بعد:- ہم انصارُ اللہ ہیں اور اسلام کے سرباز ومجاہد ہیں اور تم مہاجرین چند افراد کی ایک جماعت ہو۔ یہ سن کر میں نے کچھ کہنا چاہا لیکن ابوبکر نے روک دیا اس کے بعد خود ابوبکر نے گفتگو کی اور جو کچھ میں کہنا چاہتا تھا اس سے بہتر بات کی۔اور کہا…
(اے انصار) تم نے جو خیر کا تذکرہ کیا اس کے لئے لوگ ہیں۔ اور یہ امر خلافت تو بس قبیلہ قریش ہی کے لئے مناسب ہے۔ یہ قریش گھر اور نسب کے اعتبار سے بہتر ہیں اور اس کام کے لئے میں ان دونوں کا نام پیش کرتا ہوں جس کی چاہو بیعت کر لو۔ پھر’’میرا‘‘ اور ’’ابوعبیدہ‘‘ کا ہاتھ اٹھایا تفصیلات کے لئے۔ { FR 1166 }