خدا کے لطف و کرم اور امام زمانہ علیہ السلام کی عنایات خاصہ کی بناء پر سرزمین ہندوستان وہ جگہ رہی ہے جہاں محمد و آل محمد علیہم السلام کے چاہنے والوں میں جید علماء پیدا ہوئے اور اُن علماء نے مذہب تشیع کے دفاع میں اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ مخالفین تشیع نے عقائد شیعہ پر بہت حملہ کئے اور مذہب شیعہ کو باطل ٹھہرانے کے لئے زبانی اور تحریری حربوں کا استعمال کیا۔ اور بعض موقعوں پر تو نوبت یہاں تک پہونچی کہ شیعوں کے قتل پر اتر آئے۔ ہمارے علماء میں شہید قاضی نوراللہ شوستری کو آگرہ میں قتل کیا گیا۔ شہید رابع میرزا محمد کاملؔ ابن میرزا عنایت احمد کشمیری جن کا مزار درگاہ پنجہ شریف، پرانی دلی اسٹیشن کے پاس ہے۔ آپ کو ۱۲۲۵ھ مطابق ۱۸۱۰ء میں زہر دیکر اس لئے شہید کیا گیا کہ آپ نے محدث دہلوی کی کتاب تحفہٴ اثنا عشریہ کا جواب دیا تھا جو مذہب اہل بیت علیہم السلام کے دفاع میں لکھی گئی تھی۔ اس کتاب کا نام ’’نزھۃ اثنا عشریہ‘‘ ہے۔ آپ نے مختلف موضوعات پر ۶۸ کتابیں لکھی ہیں۔ خلاصہ یہ کہ بہت سے علماء شہید ہوئے لیکن دفاع کا کام جاری رہا۔ اس مضمون میں ایسی ہی ایک دفاعی کتاب کا تعارف پیش کیا جارہا ہے۔
استقصاء الافحام : یہ ایک کتاب کا نام ہے جس کے مصنف ہندوستان کے بہت ہی مشہور عالم دین علامہ سید میر حامد حسین بن سید محمد قلی موسوی نیشاپوری ہندی ہیں۔ آپ کا شمار شیعوں کے بزرگ ترین متکلمین اور عظیم متحبرعالموں میں ہوتا ہے۔
ولادت: ۴ محرم الحرام ۱۲۴۷ھ، لکھنؤ میں ہوئی۔ وفات: ۸؍ صفر ۱۳۰۶ھ ۔ تعلیم: آپ نے اپنے والد علامہ سید محمد قلی موسوی جو کہ ایک بزرگ عالم تھے۔ ابتدائی تعلیم کے ساتھ علم کلام اور عقائد کی تعلیم حاصل کی۔ فقہ و اصول جناب سیدحسین نقوی سے سیکھا۔ فلسفہ و حکمت کو جناب سید مرتضیٰ بن سید محمد سے، اور ادبیات جناب مفتی سید محمد عباس سے حاصل کی۔
علامہ امینی قدس سرہ نے ’الغدیر‘ میں آپ کے بارے میں لکھا ہے کہ:
ہٰذا السَّیّدُ الطَّاہِرُ العَظِیم—
یہ پاک سید بزرگوار، اپنے والد محترم کی طرح دشمنان حق پر خدا کی کھینچی ہوئی تلواروں میں ایک تلوار ہے۔ اور دین حق کی کامیابی کا پرچم ہے۔ خدائے سبحان کی آیتوں میں سے ایک بزرگ نشانی ہے۔ خدا نے یقینا اُن کے ذریعہ حجت کو تمام کیا اور حق کے سیدھے راستہ کو آشکار کیا۔ ان کی کتاب ’عبقات‘ کی خوشبو دنیا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پھیل گئی (عبق کے معنی خوشبو ہیں) اور اس کتاب کی شہرت مشرق سے مغرب تک جا پہونچی۔ جس نے اس کتاب کو دیکھا، تو پایا کہ ایک نور اور روشنی دینے والا معجزہ ہے کہ جس کے اندر کوئی بھی باطل راستہ نہیں ملے گا۔{ FR 244 }
اس مضمون میں ہمار ا مقصد علامہ حامد حسین ہندی کی سوانح حیات نہیں ہے البتہ ان کی کتاب ’استقصاء الافحام‘ کا تعارف ہے لہٰذا اس عظیم عالم کی سوانح کو کسی اور موقعہ کے لئے موقوف کرتے ہوئے اصل مقصد کی طرف آتے ہیں۔ ’’استقصاء الافحام و استیفاء الانتقام فی نقض منتہی الکلام‘‘ یہ کتاب کا پورا نام ہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ کتاب کیوں لکھی گئی ہے۔
ضروری بات:
مضمون کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس اصل کتاب موجود نہیں ہے۔ البتہ اس کتاب کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارےبزرگ عالم السید علی الحسینی المیلانی دام ظلہ العالی نے اس پر تحقیق کی اور اسے عربی زبان میں تین جلدوں پر مشتمل ایک تحقیقی کتاب کی شکل میں ’’اِسْتِخْرَاجُ الْمَرَامِ مِنْ اِسْتِقْصَائِ الْاِفْحَامِ‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ لہٰذاہم اسی کتاب سے استفادہ کرتے ہوئے کتاب کا تعارف پیش کررہے ہیں۔ اس کے معنی ہیں: مطلب و مقصد کا استنباط کتاب استقصاء الافحام سے۔ اور اب ملاحظہ ہو استقصاء الافحام کامطلب۔
استقصاء: یعنی مسئلہ کی تہہ تک پہونچنا۔
افحام: یعنی دلیل دے کر خاموش کردینا۔
فحم: یعنی جواب سے ساکت ہونا۔
فحم کے مختلف معنی ہیں۔ جیسے کالا ہونا، کالا کرنا۔ اسی لئے کوئلہ کو فحم کہا جاتا ہے۔ فحّام کوئلہ بیچنے والے کو کہا جاتا ہے۔
بہرحال استقصاء کے ساتھ افحام کا مطلب دلیل دیکر خاموش کرنا قرین قیاس ہے اور پھر کتاب کے پورے نام سے بھی یہ بات ظاہر ہے کہ یہ کتاب ایک سنی عالم کی کتاب منتہی الکلام کا جواب ہے۔
آقای میلانی دام ظلہ کتاب کے نام کے تعلق سے فرماتے ہیں:
و کَانَ المؤلّف قد وضع علیہ ھذا لاسمُ لیشیرَ الیٰ اَنّ للبحث فیہ جہتین، و انّ لہ من تالیفہ غَرَضَین:
مؤلف محترم (حامد حسین ہندی) نے اس کا یہ نام قرار دیا تاکہ اشارہ ہو کہ اس میں دو جہت سے بحث ہوئی ہے اور اس کی تایف کے دو مقاصد ہیں۔
اِحْدَہُمَا: دَفعُ الشبہ والاعتراضات عن جُملۃ من العقائد، و ردّ التُّہم عن بعضِ الاعلام، والتکلمُ علیٰ بعض الکُتب المعروفۃ عِند الامامیہ و عنوان (استقصاء الافحام) ناظرٌ الی ہذہ الجہۃ۔
پہلا مقصد: عقائد کے سلسلہ میں شبہات و اعتراضات کا جواب دیا جانا، اور بعض علماء کی تہمتوں کی ردّ، اور علماء شیعہ کی بعض مشہور کتابوں پر گفتگو اور کتاب کا یہ عنوان (استقصاء الافحام) اسی مقصد کی نشاندہی کرتا ہے۔
والثانی: التحقیق عن موقع العلوم الاسلامیۃ من علم العقائد والتفسیر والحدیث والفقہ و عن حال موسسیہا، عند اہل السنّۃ، و بیان حال علمائہم و اَشْہَر کُتبہم المعتمدۃ فی ہٰذہ العلوم۔ و عنوان (استیفاء الانتقام) ناظر الیٰ ہذہ الجہۃ۔
دوسرا مقصد: اہل سنت کے علم عقائد و تفسیر و حدیث و فقہ کی تحقیق اور اُن کی بنیاد و اساس کی تحقیق اور ان کے علماء کے حالات اور ان علوم میں اُن کی مشہور ترین معتبر کتابوں کا حال بیان کرنا اور یہ عنوان (استیفاء الانتقام) اسی مقصد کی نشاندہی کرتا ہے۔ (استیفاء الانتقام یعنی پورا انتقام لینا) ۔
و بتعبیر آخر، فاِنَّ ہذا الکتاب قد الّف نقضاً للکتاب (منتہی الکلام){ FR 245 }
اور اس عنوان کے آخری حصہ کا مفہوم یہ ہے کہ یہ کتاب منتہی الکلام، کی ردّ و جواب میں لکھی گئی ہے۔
منتہی الکلام کے مؤلف
منتہی الکلام کے مؤلف کا پورا نام حیدر علی ابن محمد فیض آبادی ہے۔ یہ ایک سنی حنفی عالم ہے۔ متکلم و فقیہ ہے۔ انہوں نے دو ضخیم جلدوں میں ۱۲۵۰ھ میں کتاب ’منتہی الکلام فی الرد علی الشیعۃ‘‘ لکھی ہے۔{ FR 246 }
یہ بات قابل توجہ ہے حیدر علی فیض آباد میں پیدا ہوئے اور ابتداء میں شیعہ علماء مرزا فتح علی، السید نجف علی اور حکیم میر نواب سے تعلیم حاصل کی۔ پھر دہلی چلے گئے اور سنی عالم شیخ رشید الدین، شیخ رفیع الدین اور شیخ عبدالعزیز بن ولی اللہ دہلوی سے تعلیم حاصل کی اور پھر لکھنؤ میں ایک طویل مدت قیام کیا اور علمی بحث و مباحثہ میں مشغول رہے۔ پھر وہاں سے بھوپال گئے اور ایک مدت وہاں قیام کےبعد حیدر آباد پہونچے اور نواب مختار الملک کے یہاں قضاوت کے منصب پر فائز رہے اور وہیں تالیف و تصنیف میں مشغول رہے ان کا انتقال ۱۲۹۹ھ میں ہوا۔{ FR 247 }
شیعوں کی رد میں انہوں نے بہت سی کتابیں لکھیں۔ جیسے :
ازالۃ الغین عن بصارۃ العین۳ جلدوں میں، نضارۃ العینین عن شہاۃ الحسین، کاشف اللثام عن تدیس المجتہد القمقام، والداھیۃ االحاطمہ علی من اَخرَج من اھل البیت فاطمۃ، رویۃ الثعالیب والغرابیب فی انشاء المکاتیب، اثبات البیعۃ المرتضویّۃ، اثبات ازدواج عمر بن الخطاب بسیدتنا ام کلثوم بنت علی المرتضیٰ، تکملۃ فتح العزیز (متعدد ضخیم جلدوں میں)۔{ FR 248 }
ہمارے قابل فخر علماء:
ہمارے علماء قابل فخر ہیں۔ وہ ایسی ریشہ دوانیوں کو خاموشی سے دیکھتے نہیں رہے بلکہ دندان شکن جواب لکھا۔ اس سے بالاتر ایک ہی کتاب کی ردّ کئی عالموں نے لکھی۔ آج کے دور میں ہم یہ سوچتے ہیں کہ کسی کام کو دوبارہ انجام دینا مفید نہیں ہے۔ اگر کسی کا ایک جواب لکھا جا چکا ہے تو دوسرا جواب نہ لکھا جائے۔ لیکن کیا کہنا ان علماء کا کہ دوسرے علماء کے احترام کے ساتھ اپنا کام کرتے رہے۔ خود تحفہٴ اثنا عشریہ کے متعدد جواب لکھے گئے ہیں کہ جن کا شمار مشکل ہے۔
وہ کس قدر مدافع ولایت تھے؟
ولایت اہلبیت علیہم السلام سے یہ علماء کس قدر سرشار تھے، ولایت کی راہ میں جانیں قربان کرنے والے ،ولایت کی راہ میں مشقت و زحمت اٹھانے والے تھے اور کیا کہنا علامہ میر حامد حسین ہندی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کا!! اُن کے بارے میں ملتا ہے کہ کثرت تحریر و کتابت کی وجہ سے اُن کا دایاں ہاتھ متاثر ہوگیا تو بائیں ہاتھ سے لکھتے تھے۔ جب بایاں ہاتھ بھی متاثر ہوگیا تو کام کو روکا نہیں بلکہ زبان سے املا فرمایا کرتے تھے۔ ہم قربان جائیں اُن پر۔ انہوں نے ہمیں ولایت مرتضوی کے عظیم گوشہ عنایت کئے۔
استقصاء الافحام کے موضوعات:
اس کتاب کو علامہ میر حامد حسین قدس سرہ نے فارسی میں دس جلدوں میں لکھا ہے۔ فیض آبادی کی کتاب ’’منتہی الکلام‘‘ میں شیعہ عقائد پر ہر جملہ کا جواب دیا ہے۔ ہم آیت اللہ میلانی کی تحقیق سے استفادہ کرتے ہوئے یہاں چند موضوعات کا تذکرہ کرتے ہیں۔
فیض آبادی نے شیعوں کے اعتقادی مسائل پر شبہ وارد کیا ہے اور اُن کے عقائد کو باطل قرار دیا ہے۔ جن عنوان پر انہوں نے بحث کی ہے اور پھر استقصاء الافحام میں انہیں زیر بحث لایا گیا، وہ درج ذیل ہیں:
تحریف قرآن کی بحث،بحث بداء، بحث تجسیم، مطاعن ابوحنیفہ، قیاس والاستحسان، بحث مسئلہ میثاق‘ بحث مسئلہٴ الصور، بحث رد الشمس و شق القمر، بحث العبث فی الصلاۃ، مسئلہ کتاب سلیم بن قیس الہلالی، نبی ﷺ کے آباء و اجداد کا اسلام، نسب عمروبن العاص، ولد الزنا کے بارے میں حکم، مذہب اشاعرہ کی مذمت، صحاح ستہ اور ان کے اصحاب کے بارے میں، مالک و شافعی کے بارے میں، بحث تفسیر علی ابن ابراہیم قمی کے دفاع میں، بحث امت اسلامیہ میں تفسیر و مفسرین کے بارے میں، سنیوں کے اہم مفسرین جیسے عبداللہ بن مسعود، ابوموسیٰ اشعری، عبداللہ بن زبیر، انس بن مالک ، ابوہریرہ، عبداللہ بن عمروبن عاص، مجاہد، عکرمہ، حسن بصری‘ عطاء ابوالعالیۃ، الضحّاک، قتادہ، مرّۃ بن عیینۃ، عبدالرزاق اور دیگر مفسیرین تا فخر رازی۔{ FR 249 }
Load/Hide Comments