؍ ذی الحجہ سنہ دس ہجری کو حکم خدا پر عمل کرتے ہوئے رسول اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺنے امیرالمومنین حضرت علیؑ ابن ابی طالبؑ کی ولایت کا سرکاری اعلان فرمایا۔ اس اعلان کی بنا پر تمام مسلمانوں پر حضرت علیؑ کی ولایت فرض قرار دی گئی۔ اس مشہور تاریخی واقعہ کو بہت سے محدثین، مورخین، شعراء، اور ادبا نے اپنی اپنی کتابوں میں حدیث غدیر کے نام سے نقل کیا ہے۔
اس حدیث کو سو (۱۰۰) سے زیادہ صحابہ اور صحابیہ نے نقل کیا ہے۔ طرفین کے بزرگ محققین اور محدثین نے اس حدیث کے متواتر اور مستند ہونے پر مہر لگائ ہے ۔ اسلامی کتب احادیث میں شاید ہی کوئی اور روایت اس حدیث جتنی معتبر اور متواتر سمجھی گئی ہو۔
مگر اس کے باوجود کچھ’ناصبی‘ فکر رکھنے والے افراد ،بغض اہلبیتؑ کی وجہ سے، اس حدیث پر اعتراض کرتے ہیں۔ اس موقع پر ہم اپنے قارئین کو یہ بتادینا ضروری سمجھتے ہیں کہ خود اہل تسنّن کے یہاں ’ناصبی‘ کی تعریف کیا کی گئی ہے ایسے شخص کا کیا انجام بیان کیا گیا ہے۔ ’ناصبی‘ کی تعریف بیان کرتے ہوئے مشہور اہل تسنّن عالم ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں۔
’ناصبی‘ وہ ہے جو بغضِ علیؑ دل میں رکھے اور کسی اور کو ان (علیؑ) پر مقدّم کرے۔
ایسے شخص کے انجام کے متعلق سرور کائنات (ص) کی یہ حدیث بھی غور طلب ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
’’اگر کوئی شخص رکن و مقام کے درمیان نماز کے لیے کھڑا ہو اور وہ اسی حالت میں دنیا سے چلا جائے مگر وہ میرے اہلبیتؑ کے فضائل کے متعلق ذرہ برابر عیب و نقص تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہو تو اللہ تعالیٰ اسے آتش جہنم میں ڈال دے گا۔‘‘
’ناصبی‘ کے اس مختصر تعارف سے یہ بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ ناصبی فکر رکھنے والے افراد کی اسلام میں کوئ حیثیت نہیں رہ جاتی۔ ایسی ہی فکر رکھنے والے متعصب علماء میں ایک مشہور نام ابن تیمیہ کا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم ابن تیمیہ کے اعتراض پر گفتگو کریں بہت مناسب ہوگا کہ ہم اس کی ناصبی فکر کو اجاگر کریں تاکہ قارئین کرام اس کے اعتراض کی بنیاد کو سمجھ سکیں۔
ئ ابن تیمیہ نے جناب فاطمہ (س) کے فضائل کا انکار کیا ہے اور اس حدیث کو جھٹلایا ہے جو تمام محدثین کے نزدیک متفق علیہ ہے۔
ئ ابن تیمیہ نے حضرت علیؑ کی شان میں گستاخی کی ہے۔
ئ امیرالمومنینؑ کے جہاد اور جنگوں میں ایثار و فداکاری کا مذاق اڑایا ہے۔
ئ ابن تیمیہ نے امیرالمومنینؑ کے دور خلافت کو شک کے دائرے میں کھڑا کیا ہے۔
ئ امیرالمومنینؑ کے قاتل ملعون ابن ملجم کا دفاع کیا ہے۔
ئ دشمنان امیرالمومنینؑ اور خوارج کی تعریف کی ہے۔
اس کے علاوہ بھی ابن تیمیہ نے بہت سی بکواس اور اہانت آمیز باتیں کی ہیں جن سے اس کی ناصبی فکر اور عقیدے کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ ابن تیمیہ کی مثال ایسے شخص کی ہے جس کو بغضِ اہلبیتؑ نے اس حد تک اندھا کردیا ہے کہ اس کی عقل و فہم غارت ہو چکی ہے۔ یہی سبب تھا کہ علامہ حلی ؒ نے اس کے اعتراض کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھا جبکہ علامہ امینی ؒ نے ابن تیمیہ کی کتاب کا نام ’منہاج البدعة‘ زیادہ مناسب قرار دیا۔ اس شخص نے ان احادیث پر بھی انگلی اٹھائ ہے جن کو بزرگ اہل تسنّن علماء نے معتبر جانا ہے۔ اس لیے ابن تیمیہ کے اعتراضات کوئ علمی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ اس کے خباثت وجود کو ثابت کرتے ہیں۔
اپنی کتاب میں ایک مقام پر ابن تیمیہ لکھتا ہے : حدیث غدیر میں موجود جملہ ’’اَللّٰھُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاہُ ، وَ عَادِ مَنْ عَادَاہُ وَانْصُرْ مَنْ نَصَرَہٗ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَہٗ‘‘ ، اہل حدیث کا علم رکھنے والوں کے نزدیک جھوٹ ہے۔ ابن تیمیہ کے اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اس کی تحقیق کے مطابق اگرچہ حدیث غدیر کو صحیح تسلیم کرلیا جائے تب بھی حدیث غدیر کے ساتھ والا فقرہ (اَللّٰھُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاہُ …… اے اللہ تو اسے دوست رکھ جو علیؑ کو دوست رکھے اور ا سے دشمن قرار دےجو علیؑ کو دشمن رکھے، اس کی مدد کر جو علیؑ کی مدد کرے اور اس کو فراموش کردے جو علیؑ کو فراموش کر دے) محدثین کے نزدیک ایک جھوٹ ہے یعنی رسول اکرم ؐنے اس فقرہ کو نہیں ارشاد فرمایا تھا۔ جبکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ سچّائی تو یہ ہے کہ متعدد اہل تسنّن معتبر اور مستند محدثین نے حدیث غدیر کے اس فقرے کو اپنے اپنے طریقوں سے نقل کیا ہے۔ ان میں بعض کے نام یہ ہیں:
ئ احمد بن حنبل (مسند احمد، ج ۱، ص ۱۱۸و ۱۱۹ و ۱۵۶)
ئ نسائی (سنن نسائی، ج ۵، ص ۱۳۲ و ۱۳۴ و ۱۳۶ و ۱۵۴)
ئ ابن ابی شیبۃ ( المصنف، ج۶، ص۳۶۶ و ۳۶۸)
ئ ابن حبان (صحيح ابن حبان، ج ۱۵، ص ۳۷۶)
ئ طبرانی ( المعجم الکبیر، ج ۵، ص۱۶۶؛ المعجم الصغير، ج ۱، ص ۱۱۹)
ئ بزار (مسند بزار، ج ۶، ص ۱۳۳و ۲۳۵ و ج۳، ص۳۵)
ئ ضیاء مقدسی (المختارۃ، ج ۲، ص ۱۰۵ و۱۰۶)
ئ حاکم نیشاپوری (مستدرک حاکم، ج۳، ص۱۱۸)
ئ ابن ابی عاصم (السنۃ، ج ۲، ص ۵۶۶)
ئ ابن ماجہ ( سنن ابن ماجہ، ج ۱، ص ۴۵) وغیرہ
لہٰذا ابن تیمیہ کا یہ دعویٰ جھوٹا ہے۔
اتنا ہی نہیں بلکہ دوسرے اہل تسنّن علماء نے بھی ابن تیمیہ کے اس دعوے کو رد کیا ہے۔ شیخ ناصر الدین البانی جو کہ سلفیوں اور وہابیوں میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں نے ابن تیمیہ کے اعتراض کو رد کیا ہے۔ شیخ البانی نے ’حدیث غدیر‘کی صحت کو تسلیم کیا ہے اور ابن تیمیہ کی بات کو رد کیا ہے۔ چنانچہ البانی نے اپنی کتاب ’سلسلہ احادیث الصحیحہ‘ میں حدیث غدیر کے متعلق اس طرح لکھا ہے:
جب میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کو دیکھا کہ وہ اس حدیث (غدیر) کے پہلے حصے کو ضعیف کہہ رہے ہیں اور دوسرے حصے کو جھوٹا کہہ رہے ہیں تو میں نے اس حدیث کے دفاع میں لکھنا ضروری سمجھا ہے. میری تحقیق کے مطابق ابن تیمیہ کا حد سے زیادہ مبالغہ ہے کہ وہ کچھ احادیث کو غلط قرار دینے میں بہت جلد بازی کرتے ہیں اور مکمل طور پر احادیث کی جانچ پڑتال نہیں کرتے۔ اس جلد بازی کی وجہ سے حدیث کے طریق کو جمع کرنے اور اس میں غور فکر کرنے سے پہلے انھوں نے یہ فیصلہ کیا ہے۔
سلفی عالم البانی کے اس اعتراف کے بعد ابن تیمیہ کے اس اعتراض کی کوئ حیثیت نہیں رہ جاتی۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا تھا کہ ابن تیمیہ کے اعتراضات اس قدر بیہودہ ہوتے ہیں کہ شیعہ علماء اس کو جواب کے لائق نہیں سمجھتے اور خود ابن تیمیہ کے مرید عالم اس کا دفاع نہیں کر پاتے بلکہ اس کے اعتراض کو جلد بازی میں کیا ہوا فعل قرار دیتے ہیں۔
Load/Hide Comments