امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی امامت عظمی اور خلافت بلافصل کو ثابت کرنے والی عظیم الشان آیات قرآنی میں ایک آیت سورہ مائدہ آیت ۳ بھی ہے۔ جسے آیہ اکمال دین بھی کہتے ہیں۔ جو ۱۸ ذی الحجہ غدیر
کے دن اعلان ولایت امیر المؤمنین علیہ السلام کے بعد نازل ہوئی ہے:
الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن دِينِكُمْ فَلَا
تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا.
آج کا فر تمہارے دین ( کی نابودی سے مایوس ہو گئے ہیں۔ اس بنا پر ان سے نہ ڈریں۔ میری ( مخالفت) سے ڈریں، آج کے دن تمہارے دین کو کامل اپنی نعمت کو تمام کر دیا۔ اور اسلام کو تمہارے
دین و آئین کے عنوان سے پسندیدہ قرار دیا۔
وہ کون سا دن تھا؟
سوره مائده، آیت ۳
جس دن کے بارے میں آیت اکمال نے صراحت
کی ہے اس کی چار خصوصیتیں ہیں:
ا۔ وہ دن جس سے کا فر مایوس ہوا۔
۔ وہ دن جس میں دین کامل ہوا۔
۔ وہ دن جس میں خداوند عالم نے مسلمانوں پر اپنی
نعمت تمام کی ہے۔
۴۔ وہ دن جس میں اللہ تعالٰی نے لوگوں کے لئے دائمی
طور سے دین اسلام کو پسندیدہ قرار دیا۔ یہ عظیم الشان دن واقعی طور سے ان خصوصیتوں کے
ساتھ کون سا دن ہو سکتا ہے؟
اسے بہر حال علمائے اسلام کی تفاسیر و احادیث کی کتابوں اور مفسرین کی آراء و نظریات سے طے کر سکتے ہیں۔ جس کی تفصیل اس مقام پر پیش نہیں کریں گے۔ وسیع مطالعہ رکھنے والے اور اہل علم و دانش اسے بہتر سمجھتے ہیں کہ اگر یہ آیت ۱۸ رذی الحجہ روز غدیر خم نازل نہیں ہوئی بلکہ روز عرفہ ۹ رذی الحجہ ہجرت کے دسویں سال نازل ہوئی ہے تو یہ بات ہر ایک سمجھتا ہے کہ اگر بالفرض عرفہ کا دن مان بھی لیا جائے تو یہ بات ضرور ماننا پڑے گی کہ دسویں سال ہجرت
کے عرفہ کا دن، نویں، آٹھویں ہجرت کے عرفہ کے دن سے بہر حال مختلف ہے تبھی اسے خاص دن اللہ تعالیٰ نے قرار دیا ہے، ورنہ عرفہ کا دن تو اس کے پہلے بھی آیا تھا، اللہ نے اسے خاص دن قرار نہیں دیا، بس یہی صاحبان فہم و عقل کی ہدایت کے لئے کافی ہے کہ وہ مخصوص دن کوئی اور دن نہیں ہے وہی دن ہے جسے جمہور مفسرین اور تمام علمائے شیعہ نے صراحت و تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے اس دن کو محور بناتے ہوئے تکمیل دین اسلام کی
سند کا اعلان فرمایا ہے۔
تکمیل دین سے کیا مراد ہے؟
دین کے کامل ہونے کی گفتگو ایک طرف اہم ہے تو تکمیل دین کے معنی و مفہوم کی بحث کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کر سکتے ہیں اور اس بحث کے بعد امامت امیر المؤمنین علیہ السلام کی عظمت و منزلت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ اس بارے میں تین نظر یہ ہیں :
(۱) تکمیل دین سے مراد اس دن دین اسلام کے اصول وضوابط اور قانون اسلام کے مکمل ہونے کا اعلان ہے کہ اب اس کے بعد اسلام میں قانون کے نقطہ نگاہ سے کوئی خلاء یا نقص نہ ہوگا۔
اس نظریہ کی اساس و بنیا د اس وقت بالکل ختم ہو جاتی ہے۔ جب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس دن کون سا اہم قانون یا کون سا مخصوص حادثہ رونما ہوا ہے جس کی بنا پر دین کامل ہوا ہے؟ آیہ کی صراحت اور اس کے واقعی مفہوم میں
اس کا صحیح جواب پوشیدہ ہے۔
(۲) بعض لوگوں کا خیال ہے اس سے حج ” مراد
ہے۔ یعنی اس دن خدا نے تمہارے حج کو کامل کر دیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا واقعی دین کے معنی کسی لغت کی
کتاب میں ”حج “ لکھا ہوا ہے؟
یا پھر مخصوص اعمال و عقائد کے مجموعہ کا نام دین ہے۔ حج دین اسلام کا ایک جزء ہے یا تمام دین ہے؟ دین کے سارے اعمال و عقائد حج پر موقوف ہیں؟ یا دین حقیقی کومحور بنا کر حج و دیگر اعمال انجام دیئے جانے کی سفارش کی گئی ہے۔ دین کے جملہ اعمال کیا توحید پروردگار کی پزیرش بھی ناممکن ہے جب تک عقیدہ توحید میں انا من شروطھا“ کو شامل نہ کیا جائے جسے علمائے اہلسنت کے کثیر تعداد میں محدثین وفقہاء نے امام رضا علیہ السلام سے نقل کیا ہے۔
(۳) دین کے کامل ہونے اور اتمام نعمت کا مفہوم یہ ہے کہ خداوند عالم نے اس دن مسلمانوں کو دشمن کے مقابلہ
میں غالب بنایا اور ان کے شر سے محفوظ قرار دیا۔
یہ بات بھی اس وقت درست ہوتی کہ اس کے پہلے دشمن مغلوب نہ ہوا ہوتا۔ تاریخ شاہد ہے سن ۸ ہجری میں عرب کے دشمن فتح مکہ کے موقعہ پر یہودی، اور قبیلہ بنی قریظہ وقینقاع والے تو بہت پہلے جنگ خیبر و احزاب میں اپنی شکست قبول کر چکے تھے، یا پھر اسلامی حکومت کی سرحدوں سے باہر جاکر زندگی گزار رہے تھے۔ دوسری طرف عیسائیوں نے بھی مسلمانوں سے صلح کر کے قرارداد پر
دستخط کر دیا تھا۔ تو سن ۱۰ ہجری سے پہلے سارے دشمنان اسلام تو تسلیم ہو چکے تھے۔ ہاں جو خطرہ باقی تھاوہ منافقوں کی طرف سے جو آستین میں خنجر لئے موقعہ کے تلاش میں تھے کہ کس طرح پشت اسلام کو اپنے خنجر سے زخمی کر کے تمام مسلمانوں کو شکست دے دیں اور یہ خطرہ واقعی بہت عظیم تھا۔ لیکن وہ کیسے مغلوب اور نا امید ہوئے یہی سمجھنے کی بات ہے۔ اس سوال کا جواب بھی مسلمانوں کے پاس امیر المؤمنین کی امامت و ولایت کے اہتمام و اعلان کے سواء ہرگز نہیں ہوسکتا
ہے۔
واقعہ غدیر خم اور امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہما السلام کی خلافت بلافصل ہی بہترین بلکہ واحد صحیح تفسیر ہے۔ اس لئے کہ اس اعلان کے بعد منافقوں پر مایوسی اور نا امیدی کے بادل چھا گئے تھے۔ آیت کی تفسیر میں کثیر روایتیں وارد ہوئی ہیں جن میں اس بات کی صراحت ہے کہ میدان غدیر میں اعلان ولایت و جانشینی کے بعد آیتہ الکمال نازل ہوئی جس سے واضح ہوتا ہے کہ اکمال دین، اعلان ولایت و امامت امیر المؤمنین کے سواء اور کچھ نہیں ہے، آنحضرت
نے خطبہ غدیر فرمایا ہے:
معاشر الناس! إِنَّمَا أَكْمَلَ اللهُ عَزَّوَجَلَّ دِينُكُمْ بِأَمَامَتِه .
اے لوگو! خدائے تعالیٰ نے تمہارے دین کو بس حضرت علی کی امامت کے ساتھ کامل فرمایا ہے۔
خطبہ تقدیر
علامہ امینی نے کتاب الغدیر میں ۱۱۰ صحابہ ۸۰ تابعین سے حدیث غدیر کو ۳۶۰ کتابوں سے نقل کیا ہے۔ جو صاحبان فہم کے لئے تحقیق کا عظیم سرمایہ اورلمحہ فکریہ ہے۔
فخر الدین رازی کا اعتراف:
آیہ کریمہ کے روز نزول کے بارے میں فخر الدین رازی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں : قال اصحاب الاثار انه لما نزلت هذه الآية….. الخ مورخین و محدثین اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ آیہ اکمال نازل ہونے کے بعد پیغمبر اسلام لای ۱۸ یا ۸۲ دنوں سے زیادہ با حیات نہیں رہے۔ تین ماہ بھی پورے نہیں ہوئے ) اور اس مدت میں (تین ماہ میں احکام اسلام سے کوئی حکم اضافہ نہیں ہوا۔ اور احکام اسلام سے کوئی چیز فسخ اور کسی چیز کی کمی بھی نہیں ہوئی ہے تشریع قانون کا سلسلہ ختم ہو گیا تھا۔
( تفسیر کبیر، ج ۱۱ ص ۱۳۹)
مفسر کبیر فخر الدین رازی کے بقول آیہ کریمہ آنحضرت ملی یتیم کی رحلت جانگداز کے ۸۱ یا ۸۲ روز قبل نازل ہوئی ہے۔ اس قول کے مطابق اگر حساب و کتاب کریں تو آیت اکمال کے نازل ہونے کا دن پتہ چل سکتا
ہے۔
دلچسپ تحقیق
فخر الدین رازی کے بیان کی حقیقت تک پہونچنے کے لئے تاریخ رحلت آنحضرت صلی اینم کی طرف توجہ کرنی
ہوگی۔
اہلسنت کا عقیدہ ہے ختمی مرتبت ۱۲ ربیع الاول کو دنیا
میں تشریف لائے اور اتفاق سے ۱۲ ربیع الاول ہی کو
دنیا سے رخصت ہوئے۔
اس لحاظ سے ۸۱ یا ۸۲ دن، ۱۲ ربیع الاول سے پیچھے کی طرف پلٹیں مگر یہ تو جہ رہے کہ مسلسل تین ماہ ۳۰ دونوں کے نہیں ہوتے جس طرح پے در پے تین ماہ ۲۹ دنوں کے نہیں ہوتے تو دو ماہ کو ۳۰ دنوں اور ایک ماہ کو ۲۹ روز یا دو ماہ کو ۲۹ دنوں اور ایک ماہ ۳۰ دنوں کا حساب کریں۔
اس اعتبار سے اگر محرم وصفر دو ماہ کو ۲۹ دنوں کا نگاہ میں رکھیں تو مجموعی طور سے ۵۸ دن ہوتے ہیں اس میں ۱۲ دن ربیع الاول کے شامل کر دیئے جائیں تو ۷۰ دن ہو جاتے ہیں اور ماہ ربیع الاول کو تیس دنوں کا حساب کریں اور ۱۲ دن عقبی تاریخ ( پیچھے کی تاریخ) رخ کریں تاکہ ۸۲ دن ہو سکے بقول فخر الدین رازی ، اور جب ماہ ربیع الاول سے ۱۲ دن کم کریں گے تو ذی الحجہ کی ۱۸ تاریخ جو روز عید غدیر ہے سامنے آجاتی ہے۔ لہذا اہل سنت علماء کے محققین کے اس نظریہ کے لحاظ سے تاریخوں کا محاسبہ کرتے ہیں تو آیت اکمال کے نازل ہونے کا دن، روز غدیر
ہے۔ روز عرفہ نہیں ہے۔
اور اگر ۸۱ دنوں کو معیار قرار دے کر محاسبہ کیا جائے تو یہ ۱۹ ذی الحجہ قرار پائے گا جس کا روز عرفہ سے اور زیادہ فاصلہ ہو جاتا ہے۔ اسی حساب کے ساتھ ہم اگر دو ماہ کو ۳۰
دنوں کا حساب لگائیں اور ماہ ذی الحجہ کو ۲۹ دن قرار دیں تو ۸۲ دنوں کی روایت کے مطابق آیت کے نزول کا دن ۱۹ ذی الحجہ اور ۸۱ دنوں کی روایت کی بنیاد پر ۲۰ ذی الحجہ کا دن ہو جاتا ہے، یعنی آیہ شریفہ واقعہ غدیر اور اعلان جانشینی امیر المؤمنین علیہ السلام کے ایک یا دو دنوں کے بعد نازل ہوئی ہے۔ روز عرفہ کسی بھی پہلو سے ثابت نہیں ہوتا ہے۔ اس طرح یہ آیت ۱۸ غدیر کی مناسبت سے اہم ترین تاریخی واقعہ کی طرف توجہ دلاتی ہے جس کا روز عرفہ سے کسی طرح کا رابطہ یا کوئی نسبت نہیں ہوتی ہے۔
اس کے بعد تاریخی شواہد اور مضبوط قرائن و دلائل کے ساتھ یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی تکلف نہیں ہونا چاہئے کہ میدان غدیر میں روز غدیر خم اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کے ذریعہ حضرت علی علیہ السلام کی امامت و ولایت عظمی کے اعلان سے دین کامل فرمایا اور اب تا قیامت دین کے جملہ اعمال و اعتقادات و اصول اور احکام کے قبولیت کا معیار حضرت علی اور ان کی پاکیزہ ذریت کی امامت و خلافت کو قرار دیا ہے یعنی ولایت اہلبیت علیہم السلام کے بغیر دین پیش خدا قابل قبول نہیں ہوگا ۔ یہی اکمال دین کا صحیح اور واحد
معنی ہے۔
خدایا! ہم سب کو اسی دین کامل پر ثابت قدم قرار دے اور اسی دین کی تبلیغ و ترویج کی توفیق عنایت فرما۔ اور وارث دین کامل حضرت حجت بن الحسن العسکری عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور پرنور میں تعجیل فرما۔ آمین
معلم ربانی کی ضرورت
اہل بیت علیہ السلام کی امامت دین اسلام کا وہ ستون ہے جس پر دین کی تمام عمارت قائم و برقرار ہے۔ امامت وخلافت اہل بیت علیم ال وہ اہم مسئلہ ہے جس کی بنا پر سب سے پہلا اختلاف حضرت رسول خدا صلی یتیم کی وفات کے فوراً بعد شروع ہوا جس کا سلسلہ آج تک کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ اس سلسلہ میں بہت سی باتیں ہیں، بخشیں ہیں، فی الحال صرف ایک مسئلہ پر نہایت مختصر گفتگو کی کوشش کی جارہی ہے۔ حضرت رسول خداسی یتیم کے بعد کسی ایسے شخص کی موجودگی ضروری ہے جس کو خداوند عالم نے خاص علم عطا کیا ہو۔ یعنی جس نے دنیا میں رائج طریقوں سے علم حاصل نہ کیا ہو جس کو خداوند عالم نے علم عطا کیا ہو؟
بات شروع کرنے سے پہلے یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں مکتب اہل بیت علیم ان کی تعلیم کردہ توحید میں تمام کمالات اپنی لا محدود در لا محدود شکل میں ذاتا اور استقلالاً خداوند عالم کی ذات سے مخصوص ہے۔ اس سلسلہ میں چند آیتیں ملاحظہ
ہوں۔
خداوند عالم نے جب انبیاء علیم 10 کے علم کا تذکرہ کیا تو
فرمایا ”ہم نے ان کو علم عطا کیا۔ ہم نے ان کو تعلیم دی۔
جناب خضر عل السلام کے بارے میں فرمایا:
وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَا عِلْمًا –
سوره کهف، آیت ۶۵
اور ہم نے ان کو علم عطا کیا۔
جناب داؤد الاسلام کے بارے میں فرمایا :
وَعَلَّمْنَاهُ صَنْعَةٌ لَبُوس ۲
ہم نے ان کو زرہ بنانے کی تعلیم دی۔
حضرت رسول خداصلی یا یہ تم کے بارے میں فرمایا:
وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ .
آپ کو وہ باتیں تعلیم دیں جن کا علم آپ حاصل
نہیں کر سکتے۔
انبیاء علیہ اسلام نے بھی اپنے علم کو خداوند عالم کا عطا کردہ
قرار دیا ہے۔
جناب نوح اور جناب یعقوب علیہ السلام نے فرمایا :
وَأَعْلَمُ مِنَ اللهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ”
میں خداوند عالم کی جانب سے وہ باتیں جانتا ہوں جن
سے تم واقف نہیں ہو۔
جناب یوسف علیہ السلام نے قید خانہ میں اپنے ساتھیوں کو خواب کی تعبیر بیان فرمائی تو اس کے بعد فرمایا:
مَا عَلَّمَنِي رَبِّي ٥
۲ سوره انبیاء، آیت ۸۰
سوره نساء، آیت ۱۱۳
سوره اعراف ۶۲ سوره یوسف ۸۶
سوره یوسف ، آیت ۳۷
یہ بات میرے رب نے مجھے تعلیم دی ہے۔ ان آیتوں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ خداوند عالم جن کو اپنی نمائندگی کے لئے منتخب کرتا ہے امت کی ہدایت و رہنمائی جن کے سپرد کرتا ہے ان کو خداوند عالم خود تعلیم سے آراستہ کرتا ہے۔ خدا کے نمائندہ خدا کے علاوہ کسی اور سے تعلیم حاصل
نہیں کرتے ہیں۔
ان چند سطروں کے بعد یہ عرض کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت رسول خداصلی یہ یتیم کے بعد امت کے درمیان اس
طرح کے علوم کے حامل خدائی نمائندہ کا وجود ضروری ہے کہ
نہیں؟
اہلسنت اس بات کے قائل ہیں حضرت رسول خدا سلام کے بعد امت کی رہنمائی و رہبری و ہدایت کے لئے اس طرح کے کسی فرد کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ امت کے جملہ مسائل اپنے علم کی روشنی میں قرآن وسنت سے حاصل کر سکتا
ہے۔
شیعہ اس بات کے قائل ہیں حضرت رسول خدا ستایشیا کی ہستم
کے جانشین کے لئے اس طرح کا علم لازم و ضروری ہے یعنی حضرت رسول خدا صلی ا یتیم کے بعد صرف وہی ان کا جانشین ہوسکتا ہے جن کو خدا اور اس کے رسول نے تعلیم دی ہو جس نے دنیا میں کسی اور سے تعلیم حاصل نہ کی ہو۔ شیعہ اپنی بات مندرجہ ذیل مستحکم دلیلوں سے ثابت کرتے ہیں۔
ا اختلاف فہیم
ہر ایک اس بات سے خوب اچھی طرح واقف ہے ہر ایک خداوند عالم سے براہ راست رابطہ میں نہیں ہے۔ ہر ایک
شخص اپنی ذمہ داریاں بلا واسطہ خداوند عالم سے دریافت نہیں کر سکتا ہے۔ اب سوال یہ ہے۔ آیا یہ ضرورت صرف ایک خاص وقت اور زمانہ سے مخصوص ہے یا ہر زمانہ میں یہ ضرورت
باقی ہے؟
انسان کبھی اصل دین و شریعت میں الہی نمائندہ کا
محتاج ہے اور کبھی دین کی تفصیل و تشریح میں نیازمند ہے۔ خداوند عالم نے دین اور اس کی تشریح حضرت رسول
خد اصلی لیا کہ یتیم کے ذمہ قرار دی ہے۔
وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكُرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ
إِلَيْهِمُ.
اور ہم نے آپ پر ذکر نازل کیا تا کہ لوگوں کے لئے ان باتوں کی وضاحت کریں جو ان کے لئے نازل کی گئی
ہیں۔
حضرت رسول خدا صلی یتیم کی زندگی میں اگر چہ غدیر میں دین کامل ہو گیا تھا مگر دین کا مکمل علم اصحاب کے پاس نہیں تھا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ ہر ایک اپنے علم و فہم کے مطابق قرآن و سنت کی تشریح کر رہا تھا اس کی بہترین دلیل صحابہ اور ان کے بعد مسلمانوں کے درمیان دین کے مسئلہ میں باہمی اختلافات ہیں حضرت رسول خدا صلای یتیم کے انتقال کو ابھی بہت زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا کہ صحابہ کے درمیان مزید اختلافات رونما ہو چکے تھے۔ یہ اختلافات اس قدر شدید و عمیق تھے کہ ایک دوسرے کے قتل کو دینی فریضہ قرار دیتے تھے۔ ان اختلافات کی واحد وجہ یہ تھی یہ لوگ حضرت رسول خدا اصلی ما این
سور محل ، آیت ۴۴
کے بعد اس شخص کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھے جس کو خدا و رسول نے تعلیم دی تھی۔ اس واقعہ پر توجہ فرما ئیں:
ایک دن عمرا کیلے فکر میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ابن عباس کو بلایا اور کہا۔ اس امت میں کس قدر اختلاف ہے جبکہ
ان کا رسول، کتاب اور قرآن ایک ہے۔ ابن عباس نے
جواب دیا:
جس وقت قرآن نازل ہوا ہم نے اس کو پڑھا ہم
جانتے تھے کہ کس کے بارے میں نازل ہوا۔ ہمارے
بعد ایسے لوگ آئیں گے جو قرآن کو پڑھیں گے لیکن ان کو یہ نہ معلوم ہوگا کہ کس کے بارے میں نازل ہوا ہے اس بنا پر ہر گروہ اپنے اعتبار سے اس کی تفسیر کرے گا۔ اس صورت میں اختلافات رونما ہوں گے اور جب آپس میں اختلافات ہوں گے تو آپس میں جنگ
ہوگی۔
یہ جواب سن کر عمر کو غصہ آیا اور ابن عباس کو بھگا دیا۔ کچھ دیر کے بعد پھر ابن عباس کو بلایا اور کہا جو بات
بیان کی تھی اس کو پھر سے بیان کرو ۔
جناب ابن عباس نے اپنے انداز سے عمر کو یہ بات سمجھا دی کہ صرف قرآن کے ذریعہ اختلافات دور نہیں ہو سکتے ہیں جب تک کوئی ایسا فرد موجود نہ ہو جو قرآن کا مکمل علم رکھتا ہو۔
اسی بنا پر تو عمر کو غصہ آیا تھا۔
اس سے واضح ہوگیا کہ قرآن کریم تنہا امت کے اختلافات کو دور نہیں کر سکتا ہے۔ ہر ایک کی فکر و سمجھ کو کنٹرول
شعب الایمان بیہقی ، جلد ۳ صفحه ۵۴۲
نہیں کر سکتا ہے۔
حدیث اور سنت رسول اکرم منی پہ تم بھی اختلافات کو ختم نہیں کر سکتی ہے کیونکہ ہر ایک اپنے اعتبار سے حدیث کی تشریح کرتا ہے۔ اس کے علاوہ تمام حدیثیں معتبر اور مستند بھی نہیں ہیں۔ جو حدیثیں مستند اور معتبر ہیں ان کی تشریح تفسیر میں علماء متفق القول نہیں ہے۔ ہر گروہ اپنے مطلب کی حدیث سے دلیل پیش کرتا ہے کیا اسلام اس لئے آیا تھا کہ ہر ایک اپنے اعتبار سے دین کی تشریح و تفسیر بیان کرتا رہے اور امت شدید ترین اختلافات کا شکار رہے اور ایک دوسرے سے برسر پیکار
رہے۔
ایک سوال:۔
آیا یہ اختلافات خدا و رسول کو پسند ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان ہمیشہ ایک دوسرے سے برسر پیکار رہیں؟ یا خدا و رسول تمام مسلمانوں کو ایک دیکھنا چاہتے ہیں؟ جب قرآن و حدیث ان اختلافات کو دور نہیں کر سکتے ہیں تو وہ کون ہے جو ان اختلافات کو دور کر سکتا ہے۔
اہلسنت کے پاس اس کا کوئی معقول جواب نہیں ہے۔ شیعہ کا یہ عقیدہ ہے کہ ان تمام اختلافات کو صرف اور صرف امام معصوم دور کر سکتا ہے جس کو خدا نے اپنے خاص علم سے آراستہ کیا ہے۔ حضرت امام جعفر صادق علیم کی روایت ہے۔ إنَّ اللهَ أَحْكَمُ وَأَكْرَمُ وَأَجَلُ وَأَعْلَمُ مِنْ أَنْ يَكُونَ احْتَجَّ عَلَى عِبَادِهِ بِحُجَّةٍ ثُمَّ يُغَيِّبُ عَنْهُمْ شَيْئاً مِنْ أَمْرِهِمْ ۲
بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد علیہم السلام، ج ۱، ص ۱۲۲، ۱
یقیناً خداوند عالم اس بات سے زیادہ حکیم تر، عزیز تر ، عالم تر ہے کہ اپنے بندوں پر کسی کو اپنی حجت قرار دے اور لوگوں کے امور کو اس سے پوشیدہ رکھے۔
عقل کی روشنی میں یہ بات بہت زیادہ روشن و واضح ہے۔ یہ بات عدل و رحمت خداوندی سے بعید ہے کہ خداوند عالم کسی کو لوگوں کا رہنما اور رہبر قرار دے اور اس کو لوگوں کی ضروریات اور ان کے مسائل سے ناواقف رکھے۔
اس بنا پر حضرت رسول خدا استیل ایک یتیم کے بعد امت میں ایک ایسے شخص کا موجود رہنا لازم وضروری ہے جو دین و شریعت کے تمام کلی و جزئی امور سے پوری طرح سے تعلیم خداوندی کی بنا پر واقف ہو۔ تا کہ ہر ایک اپنی پسند سے دین کی من مانی تفسیر و تشریح نہ کر سکے۔ امت اسلامیہ اس طرح کے تمام فکری اور مکتبی اختلاف سے محفوظ رہے۔
اہل سنت اس طرح کے کسی شخص کے وجود کے قائل نہیں ہے چونکہ ان کے پاس ان خصوصیات کا حامل کوئی شخص موجود نہیں ہے اس بنا پر وہ ان خصوصیات کے حامل کسی شخص کے وجود کو ضروری قرار نہیں دیتے ہیں۔
جبکہ شیعہ حضرات خداوند عالم کے عدل و رحمت ، لطف وکرم پر یقین رکھتے ہوئے اس بات کے قائل ہیں خداوند عالم نے حضرت رسول خداصلی یا یہ تم کی اس امت کو آزاد نہیں چھوڑا ہے بلکہ ایسے فرد کو منتخب کیا ہے جس کو اپنی طرف سے دین و شریعت کا مکمل علم عطا فرمایا ہے اور وہ امیر المؤمنین حضرت علی ابن ابی طالب علیم اور ان کے گیارہ معصوم فرزند ہیں۔ ایک سوال یہ ہو سکتا ہے شیعوں کے مطابق جب ان خصوصیات کے حامل افراد موجود ہیں تو پھر اتنے سارے
اختلافات کیوں؟
اس کا جواب یہ ہے:۔ کہ اسکول و کالج بنا دینے سے اساتذہ معین کر دینے سے جہالت دور نہیں ہوگی اسپتال بنا دینے اور ڈاکٹر معین کر دینے سے شفا نصیب نہ ہوگی۔ جہالت اس وقت دور ہوگی جب لوگ با قاعدہ اسکول کالج جائیں گے اور خوب قاعدے سے پڑھیں گے۔ شفا اس وقت ملے گی جب اسپتال جائیں گے ڈاکٹر کی ہدایتوں پر پوری طرح عمل
کریں گے۔
خداوند عالم نے اہل بیت علیم اسلام کو تمام اختلافات دور کرنے کے لئے معین فرمایا تھا ان کو اپنے علم سے آراستہ کیا تھا مگر امت نے ان کی طرف رجوع نہیں کیا بلکہ ان کی موجودگی میں دوسروں سے مسائل دریافت کئے اہلبیت علیم عام کو قید و بند میں رکھا اور ان سے مسائل دریافت کئے جن کو خداوند عالم کی بارگاہ سے ذرہ برابر بھی علم عطا نہیں کیا گیا تھا۔
اس بنا پر دین کو اختلاف فہم سے محفوظ رکھنے کے لئے ایک ایسے شخص کا وجود ضروری ہے جس کو خدا کی بارگاہ سے
خاص علوم عطا کئے گئے ہوں۔
۲ – تحریف دین
دین اس صورت میں دنیا و آخرت کی نجات کا ضامن
ہے جب وہ تحریف سے محفوظ رہے تحریف شدہ دین ہلاکت کا
سبب ہے نجات کا سبب نہیں ہے۔
یہ فہم وسمجھ کا اختلاف صرف گروہ بندی اور جنگ و جدال
تک منحصر نہیں رہے گا بلکہ رفتہ رفتہ دین کے مفاہیم بھی تحریف
ہو جائیں گے۔ جس طرح گذشتہ ادیان تحریف کا شکار ہو گئے الہی نمائندہ کے علاوہ کوئی بھی دین کو تحریف سے محفوظ نہیں رکھ سکتا ہے۔ قرآن کریم الفاظ کے اعتبار سے ہر طرح کی تحریف سے محفوظ ہے مگر تشریح و تفسیر کے لحاظ سے نہیں اس سلسلہ میں
خود قرآن کریم کا ارشاد ہے۔
ما
هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ محكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمُ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَ تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلة وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَد وَمَا يَلٌ كُرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ !
وہ خدا ہے جس نے آپ پر کتاب (قرآن) نازل کیا اس میں کچھ آیتیں بہت ہی واضح اور روشن و محکم ہیں اور یہی کتاب کی بنیاد ہیں بعض دوسری آیتیں متشابہ ہیں (جن کے مفاہیم بہت زیادہ واضح نہیں ہیں) وہ لوگ جن کے دل میں کنجی ہے (جن کے دل صاف نہیں ہیں) وہ فتنہ و فساد کی خاطر ان متشابہ آیتوں کی پیروی کرتے ہیں اور من مانی تاویل کرتے ہیں جبکہ اس کی تاویل اور واقعی معانی اللہ جانتا ہے اور وہ لوگ جانتے ہیں جو علم میں راسخ ہیں وہ کہتے ہیں ہم ان سب پر ایمان لائے ہیں اور سب ہمارے رب کی طرف سے ہے اس بات کی طرف صرف صاحبان عقل سلیم متوجہ
ہوتے ہیں۔
سورہ آل عمران، آیت ۷
اس آیت اور اس طرح کی آیتوں سے یہ بات پوری طرح واضح ہے۔ کچھ لوگ موجود ہیں جو قرآنی آیتوں کی اس
طرح تشریح و تفسیر کریں گے جس سے فتنہ وفساد برپا ہو سکے اس مزاج کے لوگ دین میں تحریف کا سبب بنتے ہیں۔
تاریخ کے اوراق گواہ ہیں حضرت رسول خدا صلی لایا کہ تم
کی وفات کے بعد کس طرح دین اسلام میں تحریف کی گئی۔ اہل سنت کے بزرگ مرتبہ عالم زہری جو تابعین میں
شمار کئے جاتے ہیں ان کا یہ بیان ذرا غور سے پڑھیں : میں دمشق میں (حضرت رسول صلی یوم کے خادم) جناب انس بن مالک کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت وہ تنہا تھے اور گریہ فرما رہے تھے۔ میں نے ان سے گریہ کا سبب دریافت کیا۔ فرمایا: جو کچھ اس وقت دیکھ
رہا ہوں ان کو نہیں پہچانتا مگر صرف یہ ایک نماز اس کو بھی
pec
لوگوں نے ضائع کر دیا ہے۔ ۲
حسن بصری کا بیان ہے۔
اگر اس وقت اصحاب رسول قبر سے باہر آئیں تو صرف قبلہ کے علاوہ کوئی اور چیز پہچان نہ سکیں گے۔ ۳
یہ دونوں بیان اس وقت کے مسلمانوں کے حالات بیان کر رہے ہیں یعنی اس زمانہ میں جو دین اسلام رائج تھا وہ پوری طرح تحریف ہو چکا تھا روزانہ ادا کی جانے والی نماز بھی حضرت رسول خداصلی یتیم کے زمانہ کی نماز نہ تھی اس میں بھی تحریف ہو چکی تھی۔
جامع بیان العلم ابن عبدالبر، جلد ۳ ص ۱۲۲۱
ماخذ سابق
کیا اس صورت میں ایک ایسے الہی نمائندہ کا وجود لازم وضروری نہیں ہے جس کو خدا نے خاص طور سے علم عطا کیا ہو۔ جو دین کو ہر طرح کی تحریف سے محفوظ رکھے۔ اہل سنت اس طرح کے کسی عالم کی ضرورت کو محسوس نہیں کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی ہے ہی نہیں جبکہ شیعہ اس طرح کے عالم کے وجود کے قائل ہیں اس سلسلے میں امیر المؤمنین حضرت علی بن ابی طالب علیہا کی یہ حدیث ملاحظہ فرمائیں اپنے عقیدہ پر فخر و مباہات کریں اختصار کے پیش نظر صرف ترجمہ پر اکتفا کرتے
ہیں۔
مولا فر ماتے ہیں:
خدایا حقیقت یہ ہے کہ زمین قیام کرنے والی حجت خدا سے خالی نہیں رہ سکتی ہے۔ چاہے وہ ظاہر و آشکار ہو یا پوشیدہ اور ناشناختہ ہوتا کہ خدا کی جتیں باطل نہ ہوں۔ یہ کتنے لوگ ہیں اور کہاں ہیں؟ خدا کی قسم یہ افراد تعداد میں کم ہیں مگر خدا کے نزدیک بڑی عظمت والے ہیں۔ خداوند عالم ان کے ذریعہ اپنی حجتوں اور روشن دلیلوں کی حفاظت کرتا ہے یہاں تک یہ افراد اپنی ذمہ داریاں اپنے جیسوں کے سپرد کرتے ہیں اور ان کے دلوں میں اتار دیتے ہیں علم اپنی تمام بصیرتوں کے ساتھ ان پر جلوہ نگن ہے روح یقین کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں جس سے دوسرے وحشت زدہ رہتے ہیں یہ اس سے مانوس رہتے ہیں۔ جسمانی طور پر یہ دنیا میں رہتے ہیں مگر روح ان بلند ترین منزل سے وابستہ رہتی ہے۔ یہی زمین پر خدا کے نمائندہ ہیں اور اس کے دین کی طرف دعوت
دینے والے ہیں۔
حضرت امام جعفر صادق علایم نے اس حقیقت کو اس
طرح بیان فرمایا ہے:
إِنَّ اللهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَمْ يَدَعِ الْأَرْضَ إِلَّا وَ
فِيهَا عَالِمُ يَعْلَمُ الرِّيَادَةَ والنُّقْصَانَ فَإِذَا زَادَ الْمُؤْمِنُونَ شَيْئاً رَدَّهُمْ وَإِذَا نَقَصُوا
شَيْئاً أَكْبَلَهُ لَهُمْ وَ لَوْ لَا ذَلِكَ لَا تَبَسَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أُمُورُهُمْ .
خداوند عالم نے زمین کو ایک ایسے عالم کے وجود سے خالی نہیں رکھا ہے، جو ہر اضافہ اور کمی سے واقف ہے تا کہ اگر مؤمنین دین میں کسی بات کا اضافہ کر دیں تو وہ ان کو روک دے۔ اگر کسی چیز کو کم کر دیں تو اس کو کامل کر دے (اگر اس طرح کے عالم) کا وجود نہ ہوتا تو مؤمنین کے لئے ان کا دین مشکوک ہو جاتا۔
اسی دینی انحراف اور تحریف دین سے محفوظ رہنے کی خاطر حضرت رسول خداصلی ہی ہم نے تقلین سے تمسک کا حکم دیا تھا اس وقت دین کی تمام تحریفات ثقلین سے تمسک نہ کرنے کی بنا پر ہیں۔ اگر لوگوں نے ثقلین سے واقعی تمسک کیا ہوتا تو شناخت دین اختلافات کا شکار نہ ہوتی اور نہ ہی دین تحریف
ہوتا۔
نهج البلاغه کلمات قصار، شماره ۱۴۷
۲ کمال الدین ج ۱ ص ۲۰۳
ناقص شناخت
اگر یہ بات تسلیم بھی کرلی جائے کہ قرآن کریم اور صحیح احادیث کے ساتھ ساتھ امت میں علماء کی موجودگی سے حجت تمام ہو جاتی ہے لہذا کسی ایسے شخص کی موجودگی ضروری نہیں ہے جس نے خداوند عالم کی بارگاہ میں تعلیم حاصل کی ہو۔ جس کے تمام علوم کا سر چشمہ خداورسول ہوں ۔
1
مگر جو علماء ہیں جب وہ خود اپنے علم کے نا تمام اور ناقص ہونے کا اعتراف کر رہے ہوں اس صورت میں ایسے علماء کی موجودگی میں حجت کیوں کر تمام ہوسکتی ہے۔ ابوحنیفہ سے یہ بات نقل کی گئی ہے:
یہ میرا نظریہ ہے اگر اس سے بہتر کوئی پیش کرے تو
اس کو قبول کرلوں گا ۔
مالک بن انس کا بیان ہے:
میں انسان ہوں کبھی غلطی کرتا ہوں اور کبھی صحیح بات تک پہونچ جاتا ہوں۔ میرے فتوؤں کو دیکھو جو قرآن و سنت کے مطابق ہو۔ ان کو لے لو جو موافق نہ ہوں اس کو
ترک کرد و ۲۴
اس کا مطلب یہ ہے یا قرآن وحدیث پر مکمل نظر نہیں ہے یا قرآن و حدیث میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں،
ان پر پوری دسترس نہیں ہے۔
محمد بن ادریس شافعی کا بیان ہے:
اگر میرے نظریہ کے خلاف کوئی صحیح حدیث ہو تو اس
فقه النوازل بکر بن عبد اللہ جلد ا ص ۷۸ مواہب الجلیل حطب ر عینی جلد ۳ ص ۴۰
پر عمل کرو میری بات کو چھوڑ دو ۔ “
اس واضح اعترافات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے۔ یہ حضرات دین کی تمام باتوں سے پوری طرح واقف نہیں ہیں یہ نہیں کہتے جو جانتے ہیں وہ غلط جانتے ہیں اشتباہ ہے مگر یہ حقیقت ہے دین کی بہت سی باتوں سے یہ افراد ناواقف ہیں۔ جو لوگ دین کی مکمل معلومات نہ رکھتے ہوں عقل کے نزدیک ان کی پیروی کیسی ہے؟
اسلامی فرقوں کے عقائد، اعمال، احکام …. میں باہمی اختلاف کی ایک وجہ علماء کا دین سے پوری طرح واقف نہ ہونا
ہے۔
جب خداوند عالم نے کامل ترین دین نازل فرمایا ہے تو کیا عقل کی روشنی میں یہ ضروری نہیں ہے وہ ہر دور میں ایک ایسے شخص کو معین فرمائے جو دین کی کامل شناخت رکھتا ہو جس کو خداوند متعال نے خود تعلیم دے کر منتخب کیا ہو۔
مسلمانوں کے تمام فرقہ اس طرح کے عالم ربانی کے فیض سے محروم ہیں ثقلین سے تمسک نہ کرنے کا ایک اثر یہ بھی
ہے۔
شیعہ چونکہ ہمیشہ تقلین سے متمسک رہے لہذا ان کے یہاں ہر دور میں خدا کی بارگاہ سے تعلیم یافتہ ایک امام معصوم موجود ہے: حضرت امام علی بن موسی الرضا صلوات اللہ وسلامہ
علیہ فرماتے ہیں:
الْإِمَامُ وَاحِدُ دَهْرِهِ لَا يُدَانِيهِ أَحَدٌ وَ لَا
الجموع ، نروی بینی، ج ۱ ص ۶۳
يُعَادِلُهُ عَالِمُ وَلا يُوجَدُ مِنْهُ بَدَل وَلا لَهُ
مِثْل وَلَا نَظِيرُ …… إِنَّ الْأَنْبِيَاءَ وَالْأَيْمَةَ
يُوَفِّقُهُمُ اللهُ وَ يُؤْتِيهِم مِن مَخَزُونِ عِلْمِهِ وَ
حِكَمِهِ مَا لَا يُؤْتِيهِ غَيْرَهُمْ فَيَكُونُ عِلْمُهُمُ فَوْقَ عِلْمٍ أَهْلِ الزَّمَان
امام یگانہ روزگار ہیں فضائل و کمالات میں کوئی ان کے قریب نہیں ہے کوئی بھی عالم ان کا ہم پایہ نہیں ہے ان کا کوئی متبادل نہیں ہے کوئی بھی ان کا مثل و نظیر نہیں ہے
یقیناً انبیاء اور ائمہ علم اسلام کو خدا توفیق دیتا ہے ان کو اپنے علم و حکمت کے خزانے سے، وہ عطا کیا جو کسی اور کو
نہیں دیا ہے اس بنا پر ان کا علم تمام اہل زمانہ پر فوقیت
رکھتا ہے۔“
حضرت رسول خداصلی یتیم کی وفات کے بعد سے آج
تک ایسی سیاست بر سر کار رہی کہ آج تک امت اسلامیہ ان الہی نمائندوں کے علوم الہی سے محروم ہے۔
اہل بیت علیہ السلام کی امامت و رہبری کی ضرورت کا احساس ضروری ہے اگر امت ان الہی نمائندوں کے علوم الہیہ سے بہرہ مند ہونا چاہتی ہے تو اس خاندان کے آخری فرد کے ظہور کے لئے زمین ہموار کرے تاکہ ان کی زبان مقدس سے
معارف الہی دریافت کر سکے۔
ان باتوں سے یہ بات خوب اچھی طرح واضح ہوگئی ہے کہ امت کو اختلافات سے دور رکھنے، دین کو تحریف سے محفوظ رکھنے اور دین کی صحیح و واقعی تعلیمات سے استفادہ کرنے
الکافی، ج ۱ص۲۰۱-۲۰۲
کے لئے ایک ایسے فرد کی ضرورت ہے جس کو خداوند متعال نے اپنے خزانہ غیب سے علوم عطا فرمائے ہوں ، جو قرآن وحدیث اور دین کی تمام جزئیات سے پوری طرح واقف ہو۔
ان علوم کا حامل کون؟
ایک نہایت اہم سوال یہ ہے کہ نظریاتی طور پر امت میں ان صفات کے حامل ایک عالم ربانی کا وجود ضروری ہے۔ کیا واقعاً ان خصوصیات اور صفات کا حامل کسی شخص کا خارجی دنیا میں کوئی وجود ہے بھی کہ نہیں؟
۲
خوش قسمتی سے اہل سنت کی معتبر کتابوں میں ایسی
متعدد معتبر و مستند روایتیں موجود ہیں جن میں ان صفات و خصوصیات کے حامل افراد کا با قاعدہ تعارف کرایا گیا ہے۔
جناب انس بن مالک کی روایت ہے:
اِنَّ النّي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ قَالَ لَعَلِي: انت تُبَيِّنُ الْأُمَّتِي مَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنْ
بَعْدِى – ۲
حضرت رسول خدا صلی یاتم نے حضرت علی سے فرمایا: میرے بعد امت کے اختلافات میں تم بیان کرو گے۔ حاکم نیشاپوری نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے۔ یہ روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے شرائط کے لحاظ ، بالکل صحیح حدیث ہے مگر ان دونوں نے اپنی
ނ
کتابوں میں اس کو ذکر نہیں کیا ہے۔
حضرت رسول خدا صلی یہ تم جانتے تھے کہ امت میں
المستدرک علی الصحیحین، ج ۳ ص ۱۳۳
اختلافات ہوں گے ان اختلافات کو دور کرنے و اختلافی مسائل کی وضاحت کے لئے حضرت علی بن ابی طالب علیا شام کو معین فرمایا تھا۔ مگر امت نے ان کی طرف رجوع نہیں کیا۔
جناب ابن عباس نے حضرت رسول اکرم صلی الہی تم سے
یہ روایت نقل فرمائی ہے:
قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ: انا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَعَلَى بَابُهَا فَمَنْ أَرَادَ الْمَدِينَةَ فَلْيَأْتِ الْبَابَ . !
میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں جو شہر تک آنا
چاہتا ہے وہ اس دروازہ پر آئے۔
حاکم نیشاپوری نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھا یہ حدیث صحیح مسلم اور صحیح بخاری کی شرائط پر صحیح ہے مگر ان لوگوں نے اس کا ذکر نہیں کیا۔
جس طرح خداوند عالم نے حضرت رسول خداصلی یا یہ ریت کو تمام علوم و اسرار تعلیم دیئے تھے وہ سب کے سب حضرت
رسول خدا صلای امام نے حضرت علی بن ابی طالب ملالی سلام دئے۔ اگر لوگ رسول خداصلی یتیم کے اس باب علم کی طرف رجوع کرتے اور ان کے علوم الہیہ سے استفادہ کرتے تو دین کی شناخت میں اس طرح حیران و سرگردان اور اختلافات کا
شکار نہ ہوتے۔
خداوند عالم نے حضرت رسول خدا صلی ا یہ تم کو وہ علوم و اسرار مرحمت فرمائے تھے جن کی بنا پر وہ لوگوں کے ظاہر کے ساتھ ساتھ ان کے باطن اور ان کی نیتوں سے بھی واقف تھے
المستدرک، ج ۳ ص ۱۳۷
وہ مؤمنین کے ساتھ ساتھ منافقین کو بھی خوب اچھی طرح پہچانتے تھے ان کو معلوم تھا ان کے بعد ان کی امت کس طرح اختلافات اور گمراہی کا شکار ہوگی کس طرح فرقوں میں تقسیم ہوگی جہاں ان کو امت کے درد و مرض کا علم تھا وہیں انھوں نے اس کا تیر بہدف علاج بھی بیان فرما دیا تھا۔ یہ علاج امت کے تمام درد و غم مرض و بیماری کے لئے اکسیر تھا۔ وہ علاج ثقلین سے تمسک تھا۔ حدیث ثقلین وہ حدیث ہے جس کو تمام علماء و
محدثین نے معتبر و مستند قرار دیا ہے۔
جناب زید بن ارقم سے روایت ہے۔
قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ: إِنِّي
تَارِكُ فِيْكُمْ مَا إن تمسكتم به لَن تَضِلُّوا
بَعْدِى أَحَدَهُمَا أَعْظَمُ مِنَ الْآخِر كِتَابَ الله
حبل ممدود مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ وَعِتْرَتي
أَهْلِ بَيْتِي وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَى الْحَوْضَ فَانْظُرُوا كَيْفَ تُخَلِفُونِي فِيهَا.
میں تمہارے درمیان دو چیز چھوڑے جا رہا ہوں جب تک تم ان سے متمسک رہو گے میرے بعد ہر گز گمراہ نہیں ہوگے، ایک دوسرے سے عظیم ہے۔ اللہ کی کتاب وہ اللہ کی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک برقرار ہے اور میری عترت و اہل بیت یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات نہ کر لیں تو دیکھو میرے بعد تم ان
سنن ترمذی ج ۵ ص ۶۶۲ – مسند احمد ج ۱۷ ص ۱۷۰ – المستدرک
ج ۲ ص ۱۳۲
دونوں سے کس طرح کا برتاؤ کرتے ہو۔
اس حدیث سے با قاعدہ واضح ہوتا ہے حضرت رسول خدا سلام کے بعد امت کی گمراہی کے امکانات بہت زیادہ ہیں اسی بات کو انھوں نے اس حدیث میں بیان فرمایا تھا۔ ”میرے بعد میری امت ۷۳ فرقوں میں تقسیم ہوگی جن میں صرف ایک جنت میں جائے گا۔ ان دونوں حدیثوں سے یہ نتیجہ بالکل صاف اور واضح ہے جو قرآن و اہل بیت سے متمسک رہے گا بس وہی نجات پائے گا۔ اس حدیث میں آنحضرت مایا تم نے گمراہی سے نجات کے لئے محبت و مودت کی بات نہیں فرمائی ہے بلکہ تمسک کی بات فرمائی ہے اور یہ بھی فرمایا جب تک متمسک رہو گے اس وقت تک گمراہ نہیں ہو گے یعنی وقتی وفعلی تمسک گمراہی سے نجات کا ضامن نہیں ہے تمسک یعنی اہل بیت کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہنا ان کی پیروی کرنا ان کے نقش قدم پر چلنا۔ وہ لوگ جو اہل بیت علیہ السلام کے علاوہ دوسروں کی فقہ پر عمل کر رہے ہیں وہ کس سے متمسک ہیں ! کیا وہ اہل بیت علیہم السلام سے؟ یا فقہ اربعہ سے؟؟ اس حدیث کی روشنی میں وہ تمام نظریات خود بخود باطل ہو جاتے ہیں جو قرآن مجید سے تمسک کو کافی قرار دیتے ہیں معاذ اللہ معاذ اللہ وہ خود کو خدا اور رسول سے زیادہ سمجھدار
سمجھتے ہیں۔
اہم بات یہ کہ عقائد، اخلاق، اعمال، احکام افکار….. مختصر یہ کہ ہر طرح کی گمراہی سے بس وہ نجات دے سکتا ہے جس کو قرآن مجید کی طرح خود خداوند متعال نے اپنے خاص علوم و اسرار تعلیم دئے ہوں جو قرآن مجید کے تمام اسرار و رموز سے پوری طرح واقف ہو، تاکہ پلک جھپکتے بھی قرآن کریم
سے جدائی نہ ہو۔ ہر لمحہ ہر آن ہر وقت صرف اور صرف وہی قرآن کریم کے ہمراہ رہ سکتا ہے اور ذرہ برابر جدائی نہیں ہو سکتی جس کو قرآن کریم کی طرح خدا نے منتخب کیا ہو۔ قرآن کریم کی
طرح تمام اسرار و رموز ودیعت فرمائے ہوں۔ اور وہ حضرت امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہم اور ان کے گیارہ فرزندوں کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے۔ حضرت رسول خداصلی یہ ایک یتیم کی اس
حدیث پر غور فرمائیں:
سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ يَقُول : عَلِيٌّ مَعَ الْقُرْآنَ وَالْقُرْآنِ مَعَ عَلِي لَنْ
يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَى الْحَوْضِ
علی قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی کے ساتھ ہے یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں۔
لہذا صرف اہل بیت علیم السلم وہ ہیں جن کو خداوند عالم نے قرآن کریم کی طرح اپنے مخصوص علم و اسرار و حکمت سے نوازا ہے۔ بس ان کی پیروی امت کو اختلاف سے، دین کو تحریف سے، اور دین کی غیر صحیح تفسیر و شناخت سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ اور اس وقت ان تمام خصوصیات وصفات کی حامل فرد حضرت حجت بن الحسن العسکری مال کی ذات والا صفات ہے۔ جو تمام گذشتہ انبیاء اوصیاء اور ائمہ علیہ سلام کے علم کے وارث ہیں خداوند عالم ان کے ظہور پر نور میں تعجیل فرمائے اور ہم سب کو قدم بہ قدم ان کی پیروی اور ان کی ذات اقدس سے استفادہ کی بہترین توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین
المستدرک ج ۳ ص ۱۲۴
حدیث غدیر میں معنی ولایت اُدباء اور شعراء کی نظر میں – قسط ۵
اَلحَمدُ اللهِ وَسَلَامٌ عَلى عباد الذين اصطفى بارگاہ خداوندی میں شکر گزار ہیں کہ اس نے نہ صرف زندگی عطا کیا بلکہ مواقع فراہم کئے اور اس سال ۱۴۴۴ھ میں بھی میگزین آفتاب ولایت کے مذکورہ عنوان کی پانچویں قسط
پیش کرنے کی توفیق عطا کیا۔
حسب معمول گذشته مضامین کا خلاصہ چند سطروں میں
پیش خدمت ہے۔
– ائمہ ہدی علیہم السلام اور علمائے امامیہ نیز بعض علماء وادباء عامہ نے مولیٰ کے معنی صدر اسلام کے عرب اور بعد کی
۲۔
نسلوں کے عربوں نے جو سمجھا ہے اسے بیان کیا ہے۔ مولی” کے معنی نامور ادباء وشعراء نے اپنے اشعار و بیان میں وہی ذکر کیا ہے جسے پیغمبر اسلام صلی ہی ہم نے
خدا کے حکم سے بیان کیا ہے۔
– شعراء نے حدیث غدیر کو مناسب قافیہ کے ساتھ اپنے اشعار میں اتارا ہے جو حدیث غدیر کے مستند و معتبر ہونے کو ثابت کرتے ہیں۔
– اس مضمون کا ماخذ و مدرک کتاب “الغدير فى الكتاب
والسنۃ و الادب ہے۔ جو کتاب الغدیر کے نام سے مشہور ہے۔ اس کتاب کے مؤلف الشيخ عبد الحسین احمد الا مینی قدس سرہ ہیں جو علامہ امینی کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ کتاب عربی زبان میں گیارہ جلدوں میں لکھی گئی ہے۔ فارسی زبان میں مکمل ترجمہ ہے۔ اردو اور انگریزی میں بھی کچھ اختصار کے ساتھ ترجمہ ہو چکا ہے۔
– علامہ امینی اور کتاب الغدیر کا مختصر تعارف ” آفتاب ولایت کے ۱۴۴۰ ھ کے شمارہ میں پیش کیا جا چکا ہے۔ – گذشتہ شماروں میں شعراء اور شعراء کی اہمیت ائمہ علیہم السلام اور حضرت پیامبر اکرم منیم کی زبانی بیان ہو چکے ہیں۔ شعراء کی تشویق و ترغیب کے لئے ائمہ علیہم السلام کی زبان مبارک سے اس طرح کے جملہ نظر آتے ہیں۔ جو ایک شعر ہمارے بارے میں کہے خداوند عالم بہشت
میں اُس کے لئے ایک گھر بناتا ہے۔“
۷۔ گذشتہ شماروں میں پہلی صدی کے شعراء مثلاً حسان بن
ثابت، قیس بن عبادہ انصاری جو حضرت امیر علیہ السلام کے خاص صحابی تھے، کے اشعار کا تذکرہ ہوا۔ ساتھ ہی حضرت امیر علیہ السلام کے اشعار لکھے گئے۔ پھر اُن حضرت علیہ السلام کے دشمن عمر و بن عاص متوفی ۴۳ کے قصیدہ جلجلیہ کا تذکرہ ہوا۔ (قصیدہ جلجلیہ کے تمام ۶۶ اشعار کا ترجمہ اور شرح آفتاب ولایت کے ۴۳۴ ان کے اردو اور ۱۴۳۵ھ کے انگریزی شمارہ میں لکھا جاچکا ہے) اسی طرح معروف شاعر سید حمیری کے
اشعار کا ذکر ہوا۔
– گذشته شماره یعنی ۱۴۴۳ھ میں صفحہ ۸ تا ۱۲ پر دوسری صدی کے شاعر کمیت بن زید اسدی متوفی ۱۲۶ھ کا ذکر
تفصیل کے ساتھ ہوا۔
اور اب ملاحظہ ہو دوسری صدی کے بقیہ شعراء کے
حالات اور ان کے اشعار ۔
جیسا کہ ہم نے گذشتہ شمارہ میں نقل کیا ہے کہ مرحوم علامہ امینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے دوسری صدی کے تین شعراء کا تذکرہ کیا ہے اور ہم نے ان میں سے کمیت بن زید اسدی کے اشعار کا تذکرہ کیا اور اب دیگر شعراء کا تذکرہ کریں گے۔
سید حمیری (۱۰۵ھ تا ۱۱/۳ یا ۱۷۸ یا ۱۷۹ھ) آپ کا نام اسماعیل بن محمد بن یزید بن وداع تھا۔ ابو ہاشم و ابو عامر کنیت تھی اور لقب ”سٹیڈ“ تھا۔ ابوالفرج اور دوسرے بہت سے مورخین نے ان کی نسبت زید بن ربیعہ مفرغ یا ابن مفرغ حمیری کے نوادگان کی طرف دیا ہے۔ حمیری وہ مشہور شاعر تھے جنہوں نے زیاد اور اس کی اولاد کے لئے ہجو لکھا ہے اور انہیں آل حرب سے انکار کیا ہے اور اسی وجہ سے عبداللہ بن زیاد نے انہیں قید کر لیا تھا اور ان پر سختیاں کیں لیکن معاویہ نے بعد میں انہیں آزاد کر دیا تھا۔
اخبار المیر ی میں لکھا ہے کہ سید کی ماں خدان، بصرہ کے ایک قدیمی محلہ سے تعلق رکھتی تھیں اور چونکہ سید کے والد نے اسی قبیلہ میں ایک مکان لیا تھا اور یزید بن ربیعہ بن مفرع حمیری کی بیٹی سے شادی کیا تھا۔ حمیری شاعر کی کوئی اولاد نرینہ نہ تھی۔ لہذا اصمعی وغیرہ نے سید کی یزید بن مفرغ کی جانب نسبت دینے میں غلطی کیا ہے کیونکہ سید اس کے نواسے تھے۔
I
مرزبانی نے معجم الشعراء میں سید حمیری کے ایک شعر کا تذکرہ کیا ہے جس میں انہوں نے خود اپنے نسب کو بیان کیا ہے۔
شعر کا ترجمہ یہ ہے:
ایک وقت مجھے نسبت دی جاتی ہے، میں ایک مرد جمیری ہوں میرے دادا رمین“ اور میرے ماموں ڈویزن ہیں پھر وہ ولا اور محبت جس کے ذریعہ قیامت میں امیدوار
الغدیر ۸۰/۴ ۸۱ بنقل از اخبار حمیری ص ۱۵۱ او غلافی ۷ / ۲۷۸
ہوں وہ ابوالحسن ہادی علیہ السلام کی محبت و ولایت ہے۔“
کیچڑ میں کنول یا کوئلہ کی کان میں ہیرا
یہ بڑی عجیب و غریب بات ہے کہ جب ہم سید حمیری کے والدین اور اُن کے مذہب و دین کی طرف توجہ دیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ والدین دشمن امیر المؤمنین علیہ السلام تھے اور اباضی مذہب تھے اور اُن کا مکان غرفہ بن ضبة ، بصرہ میں تھا اور سید حمیری کہا کرتے تھے:
اس مکان میں امیر المؤمنین کو بہت گالیاں دی گئی ہیں اور جب سید سے پوچھتے ہیں کہ آپ میں شیعیت کہاں سے آئی تو فرماتے : رحمت خداوند نے مجھے گھیر لیا۔ کیا خوب رحمت کا
گھیراؤ ہے۔
سید ہی کا بیان ہے کہ جب اُن کے والدین کو شیعہ ہونے کی خبر ہوئی تو انہیں قتل کرنے کا ارادہ کر لیا۔ سید وہاں سے بھاگ نکلے اور عقبہ ابن مسلم بنائی کے یہاں پہنچے اور تفصیل بتائی تو عقبہ نے سید کو اپنے گھر میں پناہ دی۔ سید وہیں رہے یہاں تک کہ ان
کے والدین کا انتقال ہو گیا تو اپنے گھر لوٹے اور وراثت ملی۔۳
۲
را باضی کسر همزه یعنی الف پر زیر لگا کر لکھا جاتا ہے۔ عبداللہ بن اباضی کے اصحاب کو اباضیہ کہا جاتا ہے۔ اُس نے مروان بن محمد کے زمانہ میں خروج کیا تھا اور یہ لوگ خارجی ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اُن کے مخالف کا فر ہیں اور یہ لوگ امیر المؤمنین علی علیہ السلام اور بہت سے اصحاب کو کافر جانتے تھے۔ (علامہ امینی) الغدیر ۸۱/۴ فارسی نقل از اغانی جلد ۲۳۰/۷ تالیف ابوالفرج ۔ راقم الحروف کو کتاب اغانی کے دیدار کی تمنا تھی ۔ الحمد للہ ۱۴۴۴ھ میں اربعین کے مواقعہ عتبات عالیات کی زیارت سے مشرف ہوا تو نجف الاشرف میں شارع الرسول پر مرحوم علامہ امینی کی قبر اور کتابخانہ کی زیارت کا شرف حاصل کیا اور وہیں کتاب اغانی کی تمام جلدیں بھی تھیں۔
اسی طرح مرزبانی نے اخبار السید“ میں اپنے اسناد سے اسماعیل بن مساحر سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں : ایک صبح میں سید کے ساتھ اُن کے گھر پر ناشتہ کر رہا تھا تو مجھ سے کہا: اس گھر میں امیر المؤمنین کو بہت گالیاں دی گئیں ہیں اور لعنت کی گئی ہیں میں نے پوچھا کس نے ایسا کیا ہے؟ کہا: میرے ماں باپ اباضی مذہب تھے۔ میں نے پوچھا پھر تم کس طرح شیعہ ہوئے؟ کہا: “رحمت حق مجھ پر برس پڑی اور مجھے بیدار و ہوشیار
کر دیا۔“
تذکر : خدا اور امام کے الطاف واکرام سید حمیری پر اُن کی آخری سانس تک نازل ہوتے رہے اور امام صادق علیہ السلام نے انہیں بہشت کی بشارت بھی دیا ہے۔ سید حمیری کی بد گوئی کرنے والے سے امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اگر
ان کا ایک قدم لڑکھڑاتا ہے تو دوسرا محکم ہوتا ہے۔
سید کا لقب
| 66
حمیری خاندان اہلبیت سے نہ تھے یعنی سید نہ تھے لیکن اُن کی ماں انہیں سید کہتی تھی اور امام صادق علیہ السلام نے بھی اس کی تائید کی۔ ابو عمر وکشی نے اپنی کتاب رجال کے صفحہ ۱۸۶ پر لکھا ہے کہ امام صادق علیہ السلام کی ملاقات سید حمیری سے ہوئی تو امام علیہ السلام نے فرمایا:
دو تمہاری ماں نے تمہیں سید نام دیا اور اس سیادت میں تم کامیاب ہوئے ، کیا کہنا۔ سید الشعراء ہو ”
یہ ہے:
اور پھر سید نے اس بارے میں یوں شعر کہا جس کا مفہوم
الغدیر، ج ۴، ص ۸۵ فارسی
میں حیرت و تعجب میں ہوں کہ سب سے زیادہ فقیہ وعالم نے ایک بار مجھ سے کہا: تمہارے خاندان نے تمہیں سید نام دیا انہوں نے سچ کہا ہے کیا کہنا تیرا، تو سید الشعراء ہے۔ اگر تم خاندان اہلبیت کی مدح کرو تو دیگر شعراء تمہارا مقابلہ نہیں کر سکتے کیونکہ وہ دولتمندوں اور اہل ثروت کی ستائش کرتے ہیں اور ان سے عطا چاہتے ہیں جبکہ تمہاری مدح اہلبیت کے بارے میں خالصانہ ہے۔ پس تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ ان کی مہر و محبت میں ایسے کامیاب رہو کہ انہیں کے ذریعہ اجر پاؤ۔ دنیا کے تمام شربت حوض احمد صلی السلام ( حوض کوثر) کے برابر
نہیں ہو سکتے۔ ۲
تذکر : سید حمیری کے مذہب کے سلسلہ میں بعض مورخین نے گمراہ کرنے کی کوشش کیا ہے اور انہیں کیسانیہ مذہب پر بتانے کی کوشش کی ہے لیکن ہمارے جید علماء جیسے شیخ مفید شیخ طوسی ، علامہ مجلسی رضوان اللہ علیہم اجمعین نے انہیں مذہب امامیہ پر بتایا ہے۔ خود امام صادق علیہ السلام کی خوشخبری اور بالخصوص سید کے اشعار اُن کے امامیہ مذہب ہونے کی تائید کرتے ہیں۔
غدیری اشعار
سید حمیری نے غدیر کے موقعہ رونما ہونے والے واقعہ کو اور خاص طور پر لفظ مولیٰ کے معنی کو جس طرح پیغمبر اکرم صلی اشیا کی تم نے بیان کیا ہے، اسی طرح بیان کیا ہے مرحوم علامہ امینی نے آپ کے تیئیس (۲۳) قصیدوں کا ذکر کیا ہے۔ نمونہ کے طور پر ہم یہاں چند غدیری اشعار کا تذکرہ کریں گے۔
الغدير ٤ / ۰ و ۱ ۸ فارسی
ا۔ پہلا غدیری شعر علامہ امینی نے نقل کیا ہے:
يا بالغ الدین بدنیاه ليس بهذا امر الله اے دنیا کے عوض دین بیچنے والے! خدا نے ایسے کام کا
حکم نہیں دیا ہے۔
تو علی وصی احمد سے کیوں کینہ رکھتا ہے جبکہ احمد ان سے راضی و خوشنود تھے۔ وہ کون ہے کہ احمد نے اسے غدیر خم کے دن کھڑے ہو کر پکارا اور صحابہ ان کے گرد تھے ؟ اُن کا نام لے کر فرمایا:
یہ علی بن ابی طالب اُس شخص کے مولا ہیں جس کا میں مولا ہوں پس اے آسمان والے (یعنی اے خدائے متعال ! اُس کو دوست رکھ جو اسے دوست رکھے اور اُسے دشمن رکھ جو اسے دشمن رکھے۔
تذکر : واضح ہے کہ سید حمیری نے مولا کے معنی وہی لکھا
جو پیغمبر نے بیان کیا یعنی پیغمبر جس کے مولا ہیں علی بھی اُس کے مولا علی سے دوستی و محبت خدا سے دوستی و محبت اور علی سے دشمنی
خدا سے دشمنی ہے۔
دوسرا غدیری شعر
جن اشعار کا تذکرہ کر رہے ہیں، تاریخ میں اسے قصیدہ مھذبہ کہا جاتا ہے یہ قصیدہ ۱۲ بیت پر مشتمل ہے۔ سید شریف قدس سرہ نے اس کی شرح لکھی ہے اور سن سالاھ میں مصر میں چھپا ہے۔ آپ نے درج ذیل بیت کی شرح فرمائی ہے۔ وانصب ابا حسن لِقَومِك انه
الغدیر، ج ۴، ص ۵۲ فارسی
هَادٍ وَمَا تُغَتَ إِنْ لَمْ تَنْصِبُ سید مرتضیٰ فرماتے ہیں: یہ لفظ ( نصب ) سوائے امامت و خلافت کے لئے مورد استعمال نہیں ہے۔ نیز شاعر کا یہ کہنا: جعل لولاية بعده المهذب امامت کی وضاحت کرتا ہے، کیونکہ پیغمبر کی رسالت کے بعد علی کو جو کچھ دیا گیا ہے، وہ امامت ہے کہ محبت و نفرت حال حاضرین میں حاصل ہے اور وفات کے بعد
سے مخصوص نہیں ہے۔
اب ذرا اس عقیدہ کے سیاق و سباق پر نظر ڈالیں کچھ اس
طرح ہے:
اور جب غدیر خم میں خداوند عالم نے تاکید کے ساتھ فرمایا: اے محمد ! لوگوں کے درمیان کھڑے ہو جاؤ اور لوگوں کے سامنے خطبہ کہو اور ابوالحسن کو امامت کے لئے نصب کرو کہ وہ ہادی وراہنما ہیں اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تبلیغ رسالت نہ
کی۔
پھر پیغمبر اکرم مالی تم نے علی علیہ السلام کو بلایا اور لوگوں کو بھی بلایا اور تصدیق کرنے والوں اور جھٹلانے والوں کے درمیان بلند کر کے اپنے بعد ہر مہذب انسان کے لئے علی علیہ السلام کی ولایت کا اعلان کردیا اور اب کسی غیر مہذب وغیر شائستہ کو ولی سمجھنا مناسب نہیں ہے۔
اس کے بعد شاعر علی علیہ السلام کے مناقب کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ علی کے ایسے مناقب ہیں کہ اُن کا کچھ حصہ بھی کتنی بھی کوشش کریں دوسروں کو نہیں مل سکتا۔
مدرک
علامہ امینی نے سید مرتضی علم الہدی اور حافظ نشا بہ تاج
العلی حسینی متوفی ۶۱۰ ھ کے حوالہ سے اس قصیدہ کا ذکر کیا ہے۔
تیسرا غدیری شعر
یہ اشعار دلچسپ داستان پر مشتمل ہیں۔ جیسا کہ ہم نے نقل کیا کہ سید حمیری کے ماں باپ اباضی مذہب سے تھے اور علی علیہ السلام پر سب وشتم کرتے تھے۔ سید حمیری نے انھیں خطاب کرتے ہوئے ولایت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کو ثابت کیا ہے اور اپنے والدین کو تشیع اور حضرت امیر علیہ السلام کی محبت و دوستی کی طرف بلایا ہے۔ ملاحظہ ہو سید اپنے باپ جن کا نام محمد تھا خطاب کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اے محمد اخدا سے ڈرو جو صبح کی کرنوں کا خالق ہے اپنے دین کو تباہ کرنے سے بچاؤ، کیا تم محمد صلای نم کے بھائی اور جانشین کو لعن کرتے ہو؟ پھر اس کے بعد اپنی نجات کی
امید کرتے ہو؟
افسوس! تمہاری موت آجائے عذاب اور ملک الموت تم
سے قریب ہو۔
اُن کے بارے میں پیغمبر نے بہترین وصیتیں اور واضح
ترین بیانات غدیر خم کے دن پیش کئے ہیں۔ اور ہر طرف یہ اعلان منتشر و واضح ہوا ہے آپ نے فرمایا:
میں جس کا مولا ہوں جان لو کہ یہ علی اُس کے مولا ہیں وہ میرے قرضوں کو ادا کرنے والے ہیں، اور تمہارے امام و پیشوا ہیں جس طرح میں نے تمہاری ہدایت و نجات کے لئے رہبری کی ہے۔“
اپنے باپ کو مزید خطاب کرتے ہوئے سید حمیری لکھتے
الغدیر، ج ۴ ص ۵۲ و ۵۳
ہیں:
(اے میرے باپ!) تم نے میری ماں کو جو بہت نا تواں کمزور تھیں، راہ سے در بدر کر دیا، اور وہ اُس امام پر جو پیغمبر کی میراث تھے اور سب سے زیادہ اُن سے تعلق رکھتے تھے لعنت کرنے سے قعر ضلالت میں چلی گئیں۔ یقیناً میں اُس خدا کے غضب سے ڈرتا ہوں جس نے محکم پہاڑوں کو پھیلی ہوئی زمینوں پر کھڑا کیا ہے۔
اے میرے ماں باپ! خدا سے ڈرو اور حق کا اعتراف
کرو…….
تذکر : واضح ہے کہ سید حمیری نے ان اشعار میں وہی بیان کیا ہے جو پیغمبراکرم نے غدیر خم کے میدان میں حکم دیا تھا۔ سید حمیری نے اپنے والدین کو امامت امیر المؤمنین علیہ السلام کی طرف دعوت دی ہے اور اباضیہ مذہب کی مذمت کی ہے۔ علامہ امینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے ۲۳ قصائد کا تذکرہ کیا ہے اور جن لوگوں نے ان قصائد کی شرح لکھی ہے اور اپنی کتابوں میں اس کو جگہ دی ہے ان سب کا تفصیل کے ساتھ تذکرہ کیا ہے۔ اور ہندوستان کے مشہور عالم مرحوم سید علی نقی نقوی ہندی (نقن صاحب) اعلی اللہ مقامہ کے اشعار کا ذکر بھی کیا ہے۔ ان شاء اللہ چودھویں صدی کے شعرا میں ان کا بھی ذکر
آئے گا۔
علامہ امینی قدس سرہ نے بڑی تفصیل کے ساتھ سید حمیری کا تذکرہ کیا ہے۔ فارسی میں تقریباً 9 صفحات پر تفصیلات موجود
ہیں۔
الغدیر، ج ۳ ص ۵۵٫۵۴ فارسی نقل از اخبار السهیل المیری جس ۱۵۵ الغد برج ۴ ص ۵۲ تا ۱۴۲ تفصیل تقریباً ۹۰ صفحات پرمش
مشتمل ہے۔
عبدی کوفی (۱۰۴ھ تا ۸ ۱۷ھ )
جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ علامہ امینی نے دوسری صدی کے تین غدیری شعراء کا تذکرہ کیا ہے۔ یہاں تیسرے شاعر کے مختصر حالات اور اُن کے اشعار کا تذکرہ کریں گے۔
ابو محمد سُفیان بن مصعب عبدی کوفہ کے رہنے والے تھے۔ علامہ امینی لکھتے ہیں کہ آپ نے مناقب و فضائل امیر المؤمنین علیہ السلام میں بہترین اور کثرت سے شعر کہے ہیں۔ مصائب اہل بیت علیہم السلام پر مرثیہ بھی کہے ہیں۔ اور ہم نے اُن سے سوائے آل محمد کے علاوہ کسی دوسرے کے بارے میں
اشعار نہیں دیکھے۔
عبدی کوفی کے شعر اپنے بچوں کو سکھاؤ
امام صادق علیہ السلام کا فرمان ہے کہ عبدی کے اشعار کو اپنے بچوں کو سکھاؤ۔ احضرت نے فرمایا: اے شیعوں کی جماعت عبدی کے شعر کو اپنے بچوں کو سکھاؤ۔ کیونکہ وہ خدا کے دین پر ہیں اور ان کے شعر اُن کی راست گوئی کی وجہ سے معنی کے اعتبار سے ہر طرح کے عیب و نقص سے محفوظ ہونے کی حکایت
کرتے ہیں۔ ۲
شاعر عبدی کا طریقہ کار
عبدی کا طریقہ کار یہ تھا کہ امام صادق علیہ السلام سے مناقب عترت سنتے رہتے تھے اور اسی پر شعر کہتے تھے اور پھر
الغدیر، ج ۴ ص ۱۶۸ فارسی
الغدیر، ج ۴ ص ۱۶۹
امام کی خدمت میں پیش کرتے تھے۔ ۳
ادب و حدیث میں عبدی کا رسوخ
جو بھی عبدی کی شعری خوبیوں اور الفاظ کے محکم استعمال اور روانی و مٹھاس اور فخامت و بزرگواری سے واقف ہے شعر میں اور فنون میں ان کی مہارت کی گواہی دیتا ہے۔ سید الشعراء حمیری اور عبدی کوفی ایک مجلس میں تھے۔ سید نے کچھ اس طرح
کہا:
الى ادين بمَا دَانَ الْوَصِيُّ به
يَوْمَ الْخَرِيبَةِ مِنْ قَتْلِ الْمُحَلِّينَا میں اُن سے جنگ کرنے میں جو خریبہ ” میں آئے تھے،
علی وصی رسول کے ساتھ ہم عقیدہ ہوں۔
وَ بِالَّذِي دَانَ يَوْمَ النَّهَروانِ بِه وَ شَارَكَتْ كَفَهُ كَفَى بِصِفْيْنَا اور روز شہروان بھی علی کے دین پر ہوں اور صفین کے موقعہ پر علی کے ہاتھوں میں میرا ہاتھ ہے۔
عبدی نے سید حمیری سے کہا: آپ نے صحیح نہیں کہا اگر علی کے ہاتھ میں تمہارا ہاتھ شریک ہے تو تم اُن کے مثل ہو گئے۔ شارکت گفۀ کھی۔ بلکہ تم کو کہنا چاہئے ۔ وَ تَابَعَتْ كَفَّهُ گھی ۔ مشارکت کے بجائے تا بعت کہنا چاہئے۔ اور میرا ہاتھ ان کے ہاتھ کا تابع ہے۔ یعنی تم امام کے پیرو اور تابع ہو۔
۴
سید حمیری نے اسے قبول کر لیا اور فرمایا کہ میں سید الشعراء
تو ہوں لیکن عبدی کے بعد ۔
الغدیر، ج ۴، ص ۱۶۹
خریبہ بصرہ میں اُس جگہ کا نام ہے جہاں جنگ جمل واقع ہوئی تھی۔
الغدیر، ج ۷۱ ۱و ۷۲ افارسی
غدیری اشعار
عبدی کوفی کے بارے میں اتفاق رائے کے ساتھ یہ کہا جاتا ہے کہ وہ پکے شیعہ اور علم و ادب اور حدیث اہلبیت علیہم السلام کے ماہر تھے۔ مدح اہلبیت میں تقریباً ہر آیت و حدیث کے ذیل میں شعر کہے ہیں ۔ ہم یہاں ان کے اشعار صرف واقعہ غدی اور آیت تبلیغ کے ذیل میں نقل کرتے ہیں۔
وَ كَانَ عَنْهَا لَهُمْ فى ثُمّ مُزْدَجَزَ لَمَّا رَقى احمد الهادى على فَتَب وَ قَالَ والنَّاسُ مَنْ دَانَ اليه وَ مَنْ تاولديه و من مُصغِ و مرتقب قم يا على فَإِنِّي قَد أُمِرْتُ بِأَن ابلغَ النَّاسَ وَالتَّبْلِيعُ اجددو بي اِنّى نصبتُ عليا هاديًا علماً بعدی و اِن عليًّا خيرُ مُنْتَصَبٍ اور ان لوگوں کے لئے روز خم ایک عبرت ہے جبکہ ہدایت کرنے والے پیغمبر اونٹ کے پالان سے منبر پر گئے اور لوگوں سے جو کہ اُن کے اطراف جمع تھے اور اُن کی خدمت میں حاضر تھے اور اُن کی باتوں کو سن رہے تھے اور وہ لوگ نگراں و پریشان تھے۔ پیغمبر نے فرمایا: اے علی کھڑے ہو جاؤ! مجھے حکم ملا ہے کہ لوگوں تک پہونچا دوں اور یہ تبلیغ ( پہونچانا ) میرے لئے شائستہ و بہتر ہے۔ میں علی کو ہدایت کرنے والا اور ایک راہنما اپنے بعد منصوب کرتا ہوں اور یقینا علی بہترین جانشین ہیں۔
الغدیر، ج ۴ ص ۱۶۴ فارسی
تذکر : پہلا مصرعہ براہ راست واقعه غدیر خم کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حجتہ الوداع میں پیغمبر نے مقام غدیر خم پر علی علیہا لسلام کو اپنا وصی و جانشین قرار دیا۔ اور اُبلغُ النَّاسِ ۔ آیہ
مبارکه ۵ سورہ مائدہ (آیت تبلیغ) کی طرف اشارہ ہے۔
توجه:
دیگر اشعار کی اس مضمون میں گنجائش نہیں ہے۔
عبدی کوفی کے معاصر عبدی ایک شیعہ شاعر اور بھی
گذرے ہیں۔ دونوں کی کنیت، لقب، نشونما اور مذہب میں یکسانیت ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ان کا پورا نام ابو محد یحیی بن ہلال عبدی کو فی تھا۔ البتہ اُن کا تذکرہ کم ہوتا ہے۔ ۲
مرزبانی نے اپنی منجم میں لکھا ہے کہ وہ کوفی تھے لیکن
ہمدان میں سکونت اختیار کر لی تھی ۔ ۳
دوسرے شاعر عبدی کا تذکرہ اس لئے کیا گیا ہے کہ بعض لوگوں نے نام میں مشابہت کی وجہ سے اشعار کو ایک دوسرے
سے ملا دیا ہے۔
دوسری صدی کے شعراء کا تذکرہ ختم کرتے ہیں اور انشاء اللہ زندگی رہی تو آئندہ شمارہ میں تیسری صدی ہجری کے شعراء
اور ان کے اشعار کا تذکرہ کریں گے۔
الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي جَعَلْنَا مِنَ الْمُتَمَسْكِينَ بولاية أمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَيْهِ الصَّلاةَ
وَالسَّلام.
r
الغدیر، ج ۴ ص ۲۱۳ فارسی
الغدیر، ج ۴ ص ۲۱۳ نقل از مجم مرزبانی ص ۴۹۹
شهید رابع دیله
اور
نزهه اثنا عشریہ درر د تحفہ اثنا عشریہ کا تعارف
اللہ تعالیٰ نے کائنات اور کائنات کی مخلوقات کو پیدا کر کے انھیں صحیح راہ پر چلنے اور محض اپنے خالق و مالک حقیقی کی عبادت و بندگی کرنے کی خاطر راہبر معین کئے اور بھیجے بھی، جنہوں نے ہر عہد میں اسی خدا کی پرستش کی دعوت دی اور وہ بھی اسی خدا کی اطاعت و بندگی کرتے رہے۔ اس دعوت میں بڑی بڑی رکاوٹیں آئیں ، طوفان آئے ۔ مگر ہر طوفان سے مقابلہ کرتے رہے اور انسانوں کو خدائے واحد کی عبادت کی طرف بلاتے رہے۔ انبیاء و اوصیاء الہی نے اس راہ میں کیا کیا جمتیں نہیں اٹھا ئیں، کسی کو شہر بدر کیا تو کسی کو قتل کیا، کسی کو آرے سے کاٹا گیا، بڑی بے دردی سے ان کی زندگی کا خاتمہ کیا گیا مگر کسی نبی یا وصی نے اپنی تحریک اور مشن سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ انبیاء و اوصیاء الہی کے بعد خاصان خدا اور وارثان علوم انبیاء اسی راستہ کی نشاندہی کرتے رہے۔ انھیں بھی اسی طرح کی مخالفتوں اور دشمنیوں کا سامنا ہوتا رہا۔ مگر کاروان ہدایت و ارشاد نے کبھی قدم پیچھے نہیں ہٹائے یہ سلسلہ آخری نبی ختمی مرتبت صلی یہ تم پر تمام ہوا اور خدا کی جانب سے اکمال دین و اتمام نعمت کا اعلان ہوا اور اسی کے ساتھ ایک اور اعلان ہوا کہ آج کے دن کا فردین سے مایوس ہو گیا ہے۔ اور بلا شبہ کا فر مایوس ہوئے مگر مایوسی کے باوجود دین خدا سے دشمنی اور اس کی
راہ پر چلنے والوں کو گمراہ کرنے کی سعی و کوشش کرتے رہے، اس
کے مقابلہ میں حق والے بھی دین اور اس کے اصول و اعتقادات کو تحریف و تبدیل ہونے سے تحفظ فراہم کرتے رہے ۔ یہ ہر دور میں رہا اس راہ میں انبیاء و ائمہ علیہم السلام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے غیبت میں علماء ربانی اور حکمائے الہی نے محاذ سنبھالا اور اپنے قلم ، زبان، حتی جان ونفس کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ اس سلسلہ کی تاریخ میں بڑی بڑی ہستیوں کے نام روشن ستاروں کی طرح جگمگا رہے ہیں، اور انھوں نے اپنی قربانی سے جو چراغ جلائے تھے وہ صدیوں سے تاریک راہوں کو روشن کئے ہوئے ہیں، اگر اللمعة الدمشقیہ” کی شکل میں میدان فقہ و فقاہت میں شہد اول رحمتہ اللہ کا عظیم کارنامہ ہے تو روضة البهیة“ کے عنوان سے شہید ثانی کی عظیم الشان خدمات تو دوسری طرف علم کلام و عقائد میں احقاق الحق و ابطال الباطل کی شکل میں شہید ثالث کے حیرت انگیز اسناد و دلائل اور برہان کا سلسلہ قائم ہے، اور اسی سلسلہ کا ایک اور عظیم الشان کارنامہ شہید رابع علامہ کلیم میرزا محمد بن عنایت احمد خان دہلوی کشمیری طاب ثراه کی ہر دشمن کو خاموش کر دینے اور مذہب حقہ اہل بیت علیہم السلام کو بے پناہ محکم دلائل اور واضح استدلال کے ساتھ صاف و شفاف انداز سے پیش کرنے والی گرانقدر کتاب “نزهه اثنا
عشریه در رد تحفہ اثنا عشریہ بھی ہے۔ قارئین اس مقام پر اس کتاب اور اس کے مؤلف کا مختصر تعارف پیش کریں گے تاکہ اندازہ ہو جائے کہ راہ انبیاء و اوصیاء کے محافظین اور ولایت اہلبیت کے مدافعین نے کس قدر زحمت اٹھائی ہیں۔
علامہ حکیم میرزا محمد بن عنایت احمد خان دہلوی کتاب نجوم السماء میں جو آپ کا تعارف پیش کیا ہے وہ اس طرح ہے: علامہ حکیم میرزامحمد بن عنایت احمد خان کشمیری، دہلوی ۱۲۵۳ ء متخلص بہ کامل، عظیم الشان متکلم اور ماہر و زبر دست طبیب و حکیم ہونے کے ساتھ ساتھ اجتہاد کا درجہ بھی حاصل تھا وہ فروعات کے مسائل میں کسی کے مقلد نہیں تھے۔
اساتذہ
ابتدائی علوم اپنے عہد کے افاضل علماء سے حاصل کیسے علم طب میں، قانون و شروح موجز علامه حکیم شریف خان طاب ثراہ کے محضر سے استفادہ کیا ، علوم نقلیہ سید اجل تحریر اکمل سلاله دودمان مرتضوی، خلاصه خاندان مصطفوی جناب مولوی سید رحم علی تغمده الله بلطفه الخفى والجلی ، صاحب کتاب بدرالدجی کہ جو محمد شاہ پاشاہ کے بھائی، اچھے میاں کے
استاد تھے، سے حاصل کیا۔
آپ کا علمی تجر اور علوم عقلیہ و نقلیہ کے مختصر تعارف میں سلطان العلماء مولانا سید محمد طاب ثراہ کے الفاظ نقل کرتے ہیں جس سے آپ کی شخصیت کا پورا پورا اندازہ ہو جاتا ہے:
وہ اپنے بعض افادات میں میرزا حکیم کے بارے میں لکھتے ہیں:
العالم مدقق والفاضل المحقق العريف
الأكمل، والتحرير ابجل، جامع المعقول والمنقول، حاوى الفروع والاصول حافظ
ثغور الملة القويمة الجعفريه، قالع قلاع
البدع المحدثة الما تريديه والاشعرية
المتوقد الاوحد الميرزا محمد طاب ثراه و
جعل الجنة مثواه
(صفحہ ۳/ الف / ۳ / ب ملاحظہ کریں)
مرحوم علامہ حکیم کی تالیفات و تصنیفات
مرحوم علامہ نے مختلف علوم میں تالیفات و تصنیفات کے علاوہ اہل سنت کی معتبر ترین کتابوں کی تلخیص فرمائی ہے مگر اسے نا اہلوں نے محض مسودہ سمجھ کر ضایع کر دیا جس کی آج کوئی
خبر نہیں ہے۔ آپ کی دیگر مصنفات!
ا تاريخ العلماء – رجال میں مبسوط و جامع کتاب
– رساله علم بدیع
رساله مصرف در فارسی
نہایۃ الدراية شرح عربی رسالہ وجیزه شیخ بہاء الدین
عاملی، جو علم درایت کے موضوع پر ہے جس میں تقریباً
پندرہ ہزار بیت تھے مختصر شرح سے مرحوم علامہ کی علمی مہارت وغزارت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
-۵ و تنبیہ اھل الکمال والانصاف علی اختلال رجال اہل الخلاف جس میں مصنف نے جھوٹے رواۃ ، مجہول و ضعیف اور خوارج و نواصب و قدریه و مرجه کرجال جنہیں ارباب صحاح ستہ نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے۔ انھیں ابن حجر عسقلانی کی تقریب سے استخراج
کیا ہے۔
– ایضاح المقال في توجيه اقوال الرجال …. مصنف نے اس کتاب میں شیعہ احادیث کے روایوں کے اقوال وحالات کی تاویل و توجیہ فرمائی ہے۔
۷۔ رساله در فلسفه فارسی
– ” منتخب فیض القدیر بر شرح جامع صغیر“ مناوی جسے مصنف نے چاروں جلدوں کو ایک جلد میں قرار دیا ہے جو تقریباً پندرہ ہزار بیت پر مشتمل ہے۔
– منتخب انساب سمعانی
-۹ منتخب کنز العمال ملا متقی ہندی، جس میں مصنف نے امامت امیر المؤمنین و دیگر ائمہ علیہم السلام پر دلالت کرنے والی حدیثوں اور خلفاء دیگر صحابہ کے معایب و مطاعن کو منتخب فرمایا ہے۔
-۱۰۔ رسالہ بداء
۱۱- رساله در مسئله رویت
اسی طرح اہل سنت کی فراوان کتابوں کو منتخب فرمایا جو
اکثر کتابیں آج نا اہلوں کے ہاتھوں سے ضایع ہو چکی ہیں۔ جنہیں مصنف نے منتخب فرمایاوہ حسب ذیل ہیں:
صحیح بخاری، صحیح مسلم، صحیح ترمذی، نسائی، سنن ابو
داؤد، موطا مالک، نقاوة التصوف، رجوع الفرع الى الاصل، اتقان سیوطی، طبقات حنفیہ رحمۃ الامۃ شمراوی، شرح مواقف، کتاب السیاسۃ والامامة ، تاریخ خميس فی احوال النفس النفیس ، تاریخ ابن خلکان، حلیة الاولیاء مدارج النبوة ، معارج
النبوة ، شرح مقاصد تفتازاني …. الخ
آپ کی شہادت:
مرحوم علامه حکیم رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کے شاگرد میرزا امیر علی خان شاہ جہاں آبادی کے نقل کے مطابق دہلی کے مضافات میں بادشاہ وقت کا ایک قریبی امیر رہتا تھا جو انتہائی درجہ علامہ حکیم سے تعصب رکھتا تھا۔ اسی ملعون نے مکر و حیلہ سے بغرض علاج علامہ حکیم کو بلایا اور زہر دے کر شہید کر دیا کیوں کہ آپ کی علمی شہرت اور معرکتہ الا را کتابیں مذہب حقہ کی حقانیت اور دیگر مذاہب کو باطل متعارف کرا رہی تھیں اور دنیا کے تمام اہل علم و شرف آگاہ ہو چکے تھے۔ مگر دشمن کو خبر نہیں تھی کہ شہید کے خون اور عالم کے قلم میں کتنی طاقت ہوتی ہے۔ آج دو سو سال سے زیادہ کا عرصہ گذر گیا امامت و ولایتِ اہل بیت کے عظیم الشان مدافع کے علمی شاہر کار آج بھی راہیان حق کے لئے روشنی عطا کر رہا ہے۔ پنجہ شریف دہلی میں آپ کا مزار شریف ہر خاص و عام کے لئے زیارت گاہ اور مرکز توجہ بنا ہوا ہے۔ جہاں اکثر مؤمنین وصالحین کی قبریں بھی موجود ہیں۔ قبر مطہر پر فارسی کا مصرعہ سنِ شہادت کی خبر دے رہا ہے۔ در شیونش به گریه بگو وا محمدا ،۱۲۳۵ علامہ حکیم نے کتاب تحفہ اثنی عشریہ کے تمام بارہ ابواب کے مکمل جواب اپنی کتاب نزهہ اثنا عشریہ میں درج کیا ہے۔ جس سے مصنف کا علمی مقام کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ مرحوم صرف علم کلام ہی نہیں بلکہ علم رجال و درایہ، ادب، فلسفہ حدیث، فقہ اصول اور دیگر تمام علوم پر مہارت رکھتے تھے، آپ نے اسے بارہ ابواب میں تحریر کیا تھا جو ہر باب،
تحفہ کے مقابلہ میں قرار دیا تھا۔
کتاب نزهه اثنا عشریه
ا
کتاب تحفہ اثنا عشریہ جو مذہب حقہ شیعہ کی مخالفت میں عبدالعزیز محدث دہلوی نے لکھی تھی کہ جو در اصل خواجہ نصر اللہ کابلی کی صواقع“ کا ترجمہ ہے اور اسے پہلے اپنے ایک مستعار نام پھر اپنے اصل نام کے ساتھ طبع کرائی، علامہ مرحوم نے اس کے مضامین اور استدلال و اسلوب کو دیکھ کر قابل جواب نہیں سمجھا کیونکہ وہ انتہائی درجہ استدلال کی سطح سے نیچے تھی ، مضامین غیر معقول اور روش انتہائی ، بچکانہ تھے مگر وہ جاہلوں کے درمیان شہرت پا رہی تھی اور مذہب حقہ پر الزام تراشی کے بازار گرم ہورہے تھے، بعض افاضل و علماء کے اصرار سے اس کا جواب لکھنا شروع کیا۔
مرحوم علامہ نے اس کتاب کا نام ” نزھہ اثنی عشریہ” جس کے اعداد، تاریخ آغاز تالیف کی خبر دیتے ہیں۔ اور مذہب حقہ اور اس کے اعتقادات کی نزہت وطہارت اور اہل عناد کے مفتریات و اعتراضات سے پاک ہونے کا اشارہ کرتی ہے، اور نصرة المؤمنین وزلۃ الشیاطین، سے ملقب فرمایا۔ اس کتاب نزھہ کی خصوصیت یہ ہے کہ مرحوم علامہ کے زمانہ میں ہی اس کی چند جلدیں طبع ہوکر منظر عام پر آگئیں تھیں اور اس کے بعض نسخہ خود عبدالعزیز صاحب تحفہ کے سامنے پیش بھی کئے گئے ۔ بلکہ خود انھوں نے اسے حاصل کرنے کی سعی و کوشش کی اور جب مطالعہ کیا تو دندان شکن جواب دیکھ کر مناظرہ و مقابلہ کرنے سے باز آگئے۔ کتاب نزھہ کی طباعت :
مرحوم علامہ نے تحفہ اثنا عشریہ کا مکمل جواب تو تحریر
فرمایا تھا مگر جو زیور طبع سے آراستہ ہوئے وہ پانچ ابواب تھے۔ شاید مصنف کو بقیہ جلدوں کے نشر کی مہلت نہیں ملی یا دیگر مجلدات کے مسودے غیر مرتب رہ گئے جس سے ان کی طباعت نہ ہوسکی۔ ناچیز نے تلاش بسیار اور سعی و کوشش کے بعد پٹنہ کے مدرسہ منصبیہ کے کتب خانہ میں موجود دو جلدیں اول، چہارم کی PDF حاصل کی جس کے بعد اس مقالہ کی توفیق
حاصل ہوئی ہے۔ الحمد للہ
مذکورہ جلدوں کی تفصیلات:
باب اوّل: مذہب شیعہ اور اس کے دیگر فرقہ کے وجود میں آنے کے بارے میں عبدالعزیز کے جھوٹے دعوؤں کی تردید پر مشتمل ہے جس میں واقعی مصنف کے کمال مطالعہ اور علمی وسعت و تبحر کا اندازہ ہوتا ہے۔
باب سوم : شیعہ اسلاف کے احوال میں جو غیر صحیح با تیں
پیش کی گئیں ان کے جواب میں یہ باب لکھا گیا ہے۔ باب چہارم: اصول حدیث ورجال اور رواۃ وروایت
کے حالات کے بارے میں ہے۔
واضح رہے کہ مرحوم علامہ نے فارسی زبان میں ہی اس کا جواب تحریر کیا ہے یہ چوتھی جلد قدیم روش کی کتابت کے ساتھ ۴۱۶ صفحات پر مشتمل ہے۔ مصنف علیہ الرحمۃ کا اسلوب تحریر یہ ہے کہ خصم کی پوری عبارت نقل کر کے ایک ایک بات کا مکمل و مستند جواب تحریر فرماتے ہیں۔
خصم کی عبارت : قال الفاضل الناصب، اور اپنے جواب کو اقول و به نستعین “ کے عنوان سے درج کیا ہے۔
کتاب نزھہ کی چوتھی جلد کے آخری صفحہ ۴۱۶ کی
آخری عبارت ملاحظہ ہو:
آنچه فاضل ناصب در راه غلط یا تغلیط عوام کالانعام بر کلام امامیه ایرادات آورده و اعتراضات غیر وارده در ضمن پنج باب تطویل بلا طایل نموده و آن مسائل را بحسب فهم ناقص خود مخالف تقلین زعم نموده، انشاء اللہ تعالی در هر مسئله، غلط و تغلیط تنبیه نموده می شود باللہ التوفیق و علیہ التکلان وهو حسبی ونعم
الوکیل
مطبع مجمع البحرین لودھیا نہ ۲۷۹ ہجری میں طبع ہوئی۔
باب پنجم : الہیات کے مسائل کے بارے میں ۔
باب نہم : فقہی احکام کے بارے میں
ان میں پہلی جلد مطبع جعفری واقع نخاس، لکھنو جدید باہتمام میرزا محمد علی طبع ہوئی ہے۔ جو ۵۰۸ صفحات پر مشتمل ہے آخر کے تین صفحات میں تذکرۃ العلماء مسمی بہ نجوم السماء کے حوالے سے احوال مصنف نقل ہوئے ہیں، اس مقالہ میں علامہ حکیم کے مختصر احوال نجوم السماء فی تراجم العلماء تالیف محمد علی آزاد کشمیری صفحہ ۳۷۶ سے ہی استفادہ کیا گیا ہے۔
اس کتاب میں عبد العزیز دہلوی کے ان واہیات اور فضولیات کے مدلل اور مطمئن بخش حقائق کا مکمل جواب مرحمت فرمایا ہے جس میں مذہب شیعہ کو دیگر شیعہ فرقوں کے اصول و عقائد اور انکے مخصوص طور طریقوں سے منسوب کیا ہے جیسے
زیدیہ، اسماعیلیہ، کیسانیہ ناووسی… وغیرہ۔
مرحوم علامہ کے اس تحریر میں درج احوال فرق کی تفصیلات کا مطالعہ کرنے کے بعد مرحوم علامہ کی دقیق نظر اور
وسیع مطالعہ کا اندازہ ہوتا ہے جس کا جواب کتاب کی قدیم کتابت کے حجم کے اعتبار سے تقریباً ۵۰ سے زیادہ صفحات میں درج فرمایا ہے۔ کتاب قابل مطالعہ اور انتہائی مفید ہے۔ اے کاش! عبقات الانوار کے مانند ہندوستان کی اس عظیم الشان اور معرکۃ الاراء کتاب نزہہ اثنا عشریہ کی طرف بھی محققین توجہ فرما ئیں تو یہ عظیم سرمایہ اور علمی ذخیرہ پھر سے جدید طرز کے ساتھ منظر عام پر آجائے، تاکہ دنیائے علم و دانش سرزمین ہندوستان کے ایک اور بزرگ ہستی کے علمی ذخیرہ اور دفاع امامت کے اہتمام و انتظام سے آگاہ ہو جائے۔ مرحوم علامہ حکیم طاب ثراہ اس کتاب کی آخری سطر میں فرماتے ہیں:
در این مقام قطع سخن و ختم کلام مناسب… والله ولي التوفيق والانعام…… یعنی اس منزل پر بات تمام کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کی ذات ہی توفیق و انعام عطا کرنے والی ہے اور اسی سے دیگر
مجلدات کے اہتمام و اختتام کے لئے مدد طلب کرتا ہوں۔ اور انھیں فقرات کے ساتھ اس منزل پر مقالہ کو بھی ختم کرتا ہوں اس امید کے ساتھ کہ خدا اور حجت خدا اس ادنی خدمت اور دفاع امامت عظمیٰ کے سلسلہ کی کتاب کا تعارف پیش کرنے کی ناچیز کاوش کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت سے
نوازے گا۔ انشاء اللہ
خدایا! وارث تاجدار غدیر امام مهدی منتظر عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ہم سب کو ان کے اعوان و انصار میں شمار فرمائے ۔ آمین
خلافت بلا فصل کا ذکر قرآن میں کیوں نہیں؟
مکتب خلفاء کے پیروکار چونکہ حضرت علیؓ کو رسول اسلام کا بلافصل جانشین اور خلیفہ نہیں مانتے لہذا وہ یہ سوال کرتے ہیں کہ امیر المومنین کی خلافت کو قرآن سے ثابت کیا جائے وہ کہتے ہیں کہ اگر مسئلہ امامت اتنا ہی اہم ہے کہ ایمان و کفر کا دارو مدار اسی پر ہے، تو قرآن کریم میں اس کا ذکر کیوں نہیں ہے؟ ان کا کہنا یہ ہے کہ جب شیعہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت علی اور دیگر گیارہ ائمہ کی ولایت کے بغیر نہ کسی کا ایمان قبول ہوگا اور نہ ہی عمل ، تو ان کے لیے ضروری ہے کہ اپنے دعوے کی دلیل میں قرآن کی کوئی آیت پیش کریں۔
ان کے اس اعتراض کا جواب ہم چند مرحلوں میں پیش کر رہے ہیں۔
پہلی بات تو یہ کہ باوجود یکہ یہ سوال حق بجانب ہے مگر اہل تسنن کو یہ سوال کرنا زیب نہیں دیتا۔ اس لیے کہ جب بھی قرآن کی صریح آیتوں نے ان کے خلفاء کی کسی بات کی رد کی ہے تو انھوں نے الٹ کر فرمانِ قرآن کی ہی مخالفت کر دی ہے اور خلفاء کی بات کو اوپر رکھا ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں بطور نمونہ یہاں پر کچھ کا ذکر کیا جارہا ہے۔ (۱) قرآن میں انبیائے کرام کی میراث کا ذکر موجود ہے مگر دختر رسول کو ان کے بابا کی میراث سے محروم کر دیا گیا۔ اس معاملے میں قرآن کی صریح دلیل کو رد کرتے
ہوئے خلیفہ کی بات کو قبول کیا گیا۔
(۲) قرآن کی آیت میں وضو کے باب میں صریحاً یہ حکم دیا گیا ہے کہ پیر پر مسح کیا جائے مگر اہل تستن اس کے بر
خلاف پیروں کے دھونے پر عمل پیرا ہیں۔
(۳) قرآن میں آل رسول کو شمس ادا کرنے کو فرض قرار
دیا گیا ہے مگر اہل تسنن قرآن پاک کی اس ہدایت پر عمل نہیں کرتے۔
(۴) اسی طرح قرآن کی آیتوں میں تقیہ اور رجعت کا بھی ذکر ہے ، مگر اہل تستن اس کی بھی رد کرتے نظر
آتے ہیں۔
قصہ مختصر اگر ہم ان کے سامنے ان قرآنی آیات کا انبار بھی لگادیں، جن سے حضرت علی کی بلا فصل ولایت ثابت ہوتی ہے، تو کیا وہ خلفاء کی خلافت کو چھوڑ دیں گے اور امیر المومنین کو
اپنا پہلا خلیفہ تسلیم کرلیں گے؟؟
دوسرے یہ کہ کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ یہ شرط عائد کرے کہ ہمیں قرآن میں دکھاؤ ، ورنہ ہم اس عقیدے کو قبول نہیں کریں گے یا یہ کہے کہ ہمیں قرآن میں دکھاؤ ، ورنہ ہم اس حکم پر عمل نہیں کریں گے۔ کیونکہ خود سرور کائنات صلی یہ تم نے امت کے لیے قرآن کو کافی نہیں جانا ہے۔ آنحضرت سلیم نے اسی لیے حدیث ثقلین اور خلیفتین کو ارشاد فرمایا تھا کہ صرف قرآن امت کی
حدیث
ہدایت کے لیے ناکافی ہے۔ اسلام کے بہت سے اہم مسائل ایسے ہیں جن کی تصریحات کتاب خدا میں موجود نہیں ہیں۔ مثلاً نماز، نماز دین کی اساس ہے، اگر کسی کی نماز قبول نہیں تو اس کا کوئی عمل قبول نہیں۔ کیا نماز کی رکعات، اوقات، شرائط، مقدمات، تعقیبات وغیرہ کے بارے میں قرآن میں تفصیلات موجود ہیں؟ نہیں۔ اسی طرح بہت سے دیگر اہم امور کی تفصیلات قرآن میں موجود نہیں ہیں۔ تو کیا ان احکامات پر عمل
نہیں کرنا چاہئے؟
اس کے علاوہ سامنے کی ایک بات اور ہے، آپ کے نزدیک حضرت علی چوتھے خلیفہ ہیں، تو کیا ان سے پہلے والے تین خلفاء کی خلافت کے لیے آپ کے پاس قرآن سے دلیل موجود ہے؟ اگر نہیں ( اور بلاشبہ کوئی دلیل نہیں ہے ) تو پھر کسی کو کیا حق ہے کہ امیر المومنین کی بلا فصل خلافت کے لیے ہم سے دلیل طلب کرے۔ جیسے ان کے لیے بغیر قرانی استدلال کے. دوسروں کی خلافت کو قبول کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے، اسی طرح حضرت علی کی امامت کو بغیر قرانی دلیل کے قبول کرنے میں ان کے لیے کیا دشواری ہے؟ جبکہ حضرت علی کے لیے رسول اللہ صلی یتیم کی متواتر احادیث موجود ہیں کہ علی ولی
66 وو
من بعدى، من كنت مولاه فعلى مولاه وغیرہ۔ سقیفائی خلفاء کے لیے تو ان کے پاس اس طرح کی کوئی حدیث موجود نہیں ہے۔ مگر پھر بھی ان کی خلافت بغیر کسی دلیل کے قبول کر لیتے ہیں۔
شواہد التنزیل میں ہے کہ رسول خدا صل للہ یہی تم نے فرمایا:
یقینا قرآن چار حصوں میں ہے، جس کے چاروں حصے
چار چیزوں سے مزین ہیں ، ( قرآن ) کا ایک چوتھائی حصہ ہم اہل بیت سے مخصوص ہے ، (دوسرا) چوتھائی حصہ ہمارے دشمنوں کے بارے میں ہے ، تیسرے چوتھائی حصے میں حرام و حلال بیان کیے گئے ہیں اور چوتھا حصہ خدا نے اپنے فرائض و احکام سے مخصوص قرار دیا ہے، بے شک خدا نے علی کے بارے میں قرآن کا
افضل ترین حصہ نازل کیا ہے۔“
اس کے باوجود کہ اہل تسنن علماء اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ حضرت علی کے متعلق قرآن میں تین سو (۳۰۰) سے زیادہ آیتیں موجود ہیں مگر پھر بھی ( تعجب ہے کہ ) ان کو ان میں سے کسی میں امیر المومنین کی خلافت نظر نہیں آتی۔ ان میں سے چند ایک کا یہاں پر ذکر کیا جارہا ہے۔
ا۔ آیة الولاية
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمُ
رَاكِعُونَ ”
” (اے ایمان لانے والو!) بلاشبہ تمھارا ولی صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ ایمان لانے والے افراد ہیں جو نماز کو قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکات دیتے
ہیں۔“
اہل تسنن کی دس سے زیادہ تفاسیر میں اس بات کا ذکر
شواہد التنزیل ج ۱ ص ۴۲
سوره مائده (۵)، آیت ۵۵
ہے کہ یہ آیت حضرت علی کی ولایت پر دلالت کرتی ہے۔ ان میں سے دو کا ذکر ہم یہاں کر رہے ہیں۔ جار اللہ محمود بن عمر زمخشری (متوفی سنته : ۵۲۸ ہجری) نے اس آیت کی شان نزول میں امیر المومنین کے حالت رکوع میں ایک سائل کو انگوٹھی دینے کے واقعے کو ذکر کیا ہے۔
اسی آیت کے ذیل میں اہل تسنن کے بہت بڑے امام فخر الدين الرازي (المتوفى : ۶۰۴ ھ ) نے بھی جناب ابوذر غفاری سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے جس سے اس آیت میں حضرت علی کی ولایت کا واضح اعلان نظر آتا ہے۔ ۲
۲- آیت انذار
إِنَّمَا أَنتَ مُنذِدٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ یعنی ‘ (اے حبیب) آپ اپنی قوم کو ڈرانے والے ہیں
اور ہر قوم کے لیے ہم نے بادی بھیجے ہیں۔“
اس آیت کے متعلق حضرت علی کا یہ قول نقل ہوا ہے کہ رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا فرمان ہے کہ میں اس
امت کا ڈرانے والا ہوں اور علی اس کے ہادی ہیں ۔
– آیت بلغ :
66
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغُ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن
الكشاف : ۱/ ۳۴۷ التفسير الكبير : ٢٦/٢
(سورۃ الرعد (۷)، آیت ۱۳ مستدرک علی الصحیحین : ۱۲۹/۳
“اے رسول! اس بات کی تبلیغ فرمادیجیے جسے آپ کے
رب نے آپ پر نازل فرما دیا ہے…
66
حج آخر سے واپسی کے موقع پر میدان غدیر میں یہ آیت رسول اکرم منی تم پر نازل ہوئی تھی ۔ اس کے بارے میں اہل تسنن عالم علامہ جلال الدین سیوطی نے رسول اللہ سلام کے صحابی ابوسعید خدری کا یہ قول نقل کیا ہے کہ یہ آیت
( حضرت ) علی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد پیغمبر اکرم نے اصحاب کے درمیان ایک طویل خطبہ ارشاد فرمایا جس میں آپ
نے اعلان فرمایا:
فَأَوْحَى إِلَى: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَانِ الرَّحِيمِ، يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلغ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَيك فى على يعنى فِي الْخِلَافَةِ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ. وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ
من الناس
پس اللہ نے میری طرف وحی فرمائی ہے کہ اے رسول ! علی کی خلافت کی تبلیغ فرماد بی.”
حوالہ جات:
فتح القدير ١٠/٢
تاریخ مدینہ دمشق ۲/۸۶۴۳۷/۴۲ ۵۸۹) .
سوره مانده ۶۷
الدر المخور :٣/ ١١٧
–
–
–
—
–
–
شواہد التنزیل ۱/۲۵۰ ح ۲۴۴، وص ۲۵۱ ح
۲۴۵ ، وص ۲۵۲ ح ۲۴۷
عمدة القاری ۲۰۶۲۰۶/ ۱۸، کتاب تفسیر قرآن ، شماره ۱۳۴، کتاب التفسير الكبير ٢٩/١٢
غرائب القرآن ( تفسیر النیشاپوری) ۶۱۶/۲ مفتاح النجاء: ورق ۳۴، باب سوم فصل یازده الفصول المہمۃ ۴۲ فصل اول ۔ الكشف والبيان ( تفسير الثعلبی): ورق ۷۸ توضیح الدلائل : ورق ۱۵۷ قسم دوم، باب دوم ۔ مودة القربي : مودۃ پنجم ۔ السبعین فی مناقب امیر المؤمنین: ح۵۶
بینابیع المودة ۲۹۷ ، باب ۵۶ ، ح ۸۱۲، وص ۲۸۳،
باب ۵۶ ، ح ۶۹۹ ۔
-۴- آیه را کمال
33
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَثْمَمتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسلام
دينا ..!
” آج کے دن میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمتوں کو تمام کر دیا اور تمہارے دین اسلام
سے میں راضی ہو گیا ..
66
جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر الدر المنصور میں اللہ کے اس قول اليَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ
( سورة المائدة (۵): آیت ۳
وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسلام دِینًا …. کے ذیل میں لکھا ہے کہ ابن مردویہ ، خطیب بغدادی اور ابن عسا کرنے ابو ہریرہ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے کہا :
لمّا كان يوم غدير خم ، و هو يوم ثماني عشرة من ذى الحجة قال النبي ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) : من كنت مولاه فعلی مولاه ، فأنزل الله … الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ ….
”وہ دن غدیر کا دن تھا، ۱۸ ذی الحجہ جب رسول اللہ سلیم نے فرمایا جس کا میں مولا ہوں، اس کے علی بھی مولا ہیں ۔ پس اللہ نے اس آیت کو نازل فرمایا ۔”
الدر المنشور في تفسير القران (جلال الدين السيوطي
الشافعي ) :۲۵۹/۲
تاریخ دمشق ( ابن عساکر الشافعي ) : ۷۵/۲ شواہد التنزيل ( حاکم حسکاني الحنفي ) : ۱/ ۱۵۷ مناقب علي بن أبي طالب ( ابن المغازلي الشافعي ) :
۱۹ الحدیث ۲۴
تاریخ بغداد (خطیب البغدادي ) : ۲۹۰/۸ وغیرہ۔
اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے مشہور قرآنی آیات میں سے کچھ ہی کا ذکر کرنے پر اکتفا کی ہے، ورنہ اس موضوع پر اور بھی آیات پیش کی جاسکتی ہیں۔
یادر ہے، مندرجہ بالا آیات کی تفاسیر کے لئے ہم نے صرف مخالفین کی کتابوں سے استفادہ کیا ہے ورنہ اہلبیت کی روایات میں بھی اس طرح کی متعدد آیات ہیں جو امیر المومنین کی ولایت و خلافت بلا فصل کو ثابت کرتی ہیں۔
