’’استقصاءُ الْاِفْحَام – از علامہ سید حامد حسین ہندی – دوسرا حصہ

ملاحظہ
مرحوم مؤلف (رہ) نے فیض آبادی کےان تمام شبہات و اتہام کا الگ الگ اصل کتاب میں جواب دیا ہے۔ البتہ آقای میلانی (مدظلہ) نے تلخیص سے کام لیا ہے۔ ہم انہیں کی روش پر مزید تلخیص کے ساتھ کچھ موضوعات پر روشنی ڈالیں گے۔ اس مضمون میں تمام موضوعات پر لکھنا ممکن نہیں ہے اگر ایک کتاب تلخیص کے ساتھ لکھی جائے تو کم ہے۔
بہرحال یہاں تحریف قرآن کی بحث کا خلاصہ پیش ہے:
تحریف قرآن:
فیض آباد ی، صاحب منتہی الکلام نے شیعوں پر تہمت لگائی ہے کہ شیعہ قرآن میں تحریف کے قائل ہیں۔ نیز انہوں نے شیعوں کی علی بن ابراہیم القمی کی تفسیر پر اعتراضات کئے ہیں۔ اور شیعوں پر اور شیعہ علماء پر لعن و طعن کیا ہے کہ شیعہ اس زعم و گمان میں ہیں کہ تفسیر قمی حقیقت میں تفسیر اہل بیت علیہم السلام ہے اور یہ تفسیر امام باقر اور امام صادق —- سے ہے —
اور اس میں ایک الزام عائد کیا کہ اس کتاب میں معتبر ترین روایات ’’ابی الجارود‘‘ ہیں، جو کہ بلا شبہ ایک ملحد‘ زندیق اور ائمۃ الہدیٰ کے نزدیک ملعون ہے بلکہ امام معصوم نے ابی الجارود کو شیطان کہا ہے۔{ FR 250 }
جواب: مرحوم حامد حسین ھندی قدس سرہ نے علم رجال اور علم حدیث کی روشنی میں ابی الجارود کی حیثیت کو بیان کیا ہے۔ اس مضمون میں ہمارا یہ موضوع فی الحال نہیں ہے۔ لیکن محققین حضرات کتاب استخراج المرام — ضرور ملاحظہ کریں۔
اب تحریف قرآن کے سلسلہ میں ملاحظہ فرمائیں:
قرآن کریم کلام اللہ عز و جل ہے۔ نبی اکرمﷺ اور اہلبیت اطہار علیہم السلام سےوارد اخبار و روایات میں قرآن کا حفظ کرنا، اس پر عمل کرنا اور اس سے رجوع کرنا کثرت سے نقل ہوا ہے۔ قرآن کی تعظیم کا وجوب اور اس کی توہین کا حرام ہونا ہر لحاظ سے ثابت ہے۔ یہ بھی ایک بحث ہے جسے مرحوم مؤلف نے پیش کیا ہے۔
تمام علماء امامیہ نے فتویٰ دیا ہے کہ موجودہ قرآن میں جو کچھ ہے۔ اس کی سورہ و آیات میں ہرگز کوئی نقص نہیں ہے۔
لیکن جمہور اہل سنت اس بات کے قائل ہیں کہ کتاب بخاری اور کتاب مسلم جن کو صحیحین کہا جاتا ہے، ان میں نقل ہونے والی تمام روایتیں صحیح ہیں۔
روایتوں میں تعارض اور ٹکراؤ جو شیعہ کتابوں میں پایا جاتا ہے، ان میں سے اکثر ضعیف السند ہیں اور بہت کم ان میں سے معتبر ہیں اور وہ قوی دلیلوں کے ساتھ بیان ہوتی ہیںاور طائفہٴ امامیہ اثنا عشر کی صحیح کتابوں میں اول سے آخر تک مقطوع الصدور ہیں یعنی ان کا صدور رسول خدا ﷺ یا کسی امام معصوم علیہ السلام سے ہے۔{ FR 251 }
لیکن جمہور اہل سنت اس بات کے قائل ہیں کہ کتاب بخاری اور کتاب مسلم جن کو صحیحین کہا جاتا ہے، ان میں نقل ہونے والی تمام روایتیں صحیح ہیں۔ اور یقیناً ان کے اکثر محققن صحیحین کے بارے میں یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ تمام الفاظ و کلمات اس کتا ب کے مقطوعۃ الصدور ہیں۔ مثلاً سیوطی، البلقینی، ابن الصلاح، ابن کثیر، جماعت شافعیہ جیسے ابواسحاق، ابوحامد اسفرائنی، قاضی ابو طیب اور اسی طرح حنبلی و اشعری اور اہل حدیث اور بعض صوفی حضرات بھی اسی بات کے قائل ہیں۔{ FR 252 }
خلاصہ یہ کہ اہل سنت کے یہاں حدیث کے صحیح ہونے کا معیار بخاری اور مسلم ہے۔
ہماری اصل بحث
آیا شیعہ تحریف کے قائل ہیں یا اہل سنت؟ نمونہ کے لئے چند آیات اور اس کی تفسیر علماء اہل سنت کے ذریعہ نقل کررہے ہیں اور قارئین پر چھوڑتے ہیں کہ وہ خود فیصلہ کریں کہ حقیقت کیا ہے۔ مرحوم علامہ حامد حسین ہندی قدس سرہ نے بہت سی آیتوں کا ذکر کیا ہے، ہم یہاں چند آیتوں کو نقل کرتے ہیں:
سورۃ الاحزاب:
و قال السیوطی فی (الاتقان)
قال – ای ابو عبید-: حدثنا اسماعیل بن جعفر عن زر بن جیش قال: قال ابی بن کعب کایٍ تعدّ سورۃ الاحزاب؟ قلتُ: اثنتین و سبعین آیۃ اور ثلاثاً و سبعین آیہ —
زر کہتا ہے کہ ابی بن کعب نے مجھ سے کہا: اے زر! سورہٴ احزاب کی چند آیتیں ہیں؟ میں نے کہا بہتر یا تہتر آیت پھر کہتے ہیں: نہیں، بلکہ یہ سورہٴ سورہ بقرہ کی مانند یا اس سے زیادہ تھی۔{ FR 253 }
آیۃ الرّجم:
و فی (صحیح البخاری):
ابن عباس نے نقل کیا ہے کہ عمر نے منبر سے بیان کیا خداوندمتعال نے محمد ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا اور ان پر کتاب نازل کی، اور ان آیتوں میں سے ایک آیت ، آیت رجم ہے کہ جس کو ہم نے پڑھا اور سمجھا، اور اسی آیت کے مطابق رسول خدا زنا کرنے والے کو سنگسار کرتے، اور اُن کے بعد ہم بھی انھیں کی روش پر عمل کیا کرتے۔ لیکن میں ڈرتا ہوں کہ ایک وقت اس امت پر ایسا آئیگا کہ کہنے والا کہے گا۔ خدا کی قسم، آیت رجم کو قرآن میں نہیں پایا اور پھر ایک حکم جس کو خدا نے بھیجا ہے اُس کے ترک کرنے سے گمراہی میں جا پڑیں گے۔{ FR 254 }
آیۃ الصلاۃ علی النبیؐ:
حمیدہ بنت ابویونس نقل کرتی ہیں کہ : میرے والد اسّی سال کے تھے اور اس آیت کو مصحف عائشہ سے میرے لئے اس طرح پڑھتے تھے:
اِنَّ اللہ و ملائکتہ یُصَلُّوْنَ علی النبی یا ایہا الذین آمنوا صلوا علیہ و سلموا تسلیما و علی الذین یصلون الصفوف الاول‘
حمیدہ کہتی ہیں : یہ اس وقت کی بات ہے کہ ابھی عثمان نے قرآن کو تبدیل نہیں کیا تھا۔{ FR 255 }
ان آیتوں کے علاوہ علامہ میر حامد حسین ہندی قدس سرہ نے دوسری بہت سی آیتوں کا تذکرہ کیا جن میں سنی روایتوں کے مطابق قرآن کی آیتوں میں نقص و غلطی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ مثلاً سورۃ تشبہ برأۃ‘ سورہٴ حفد و خلع‘ آیت الجہاد، آیت الرضاع‘ آیت حمیت جاہلیت‘ آیت صلاۃ الوسطی، آیات صلاۃ الجمعہ، آیت طلاق‘ آیت تبلیغ۔ تقریباً بیس آیتوں کا تذکرہ کیا ہے اور ان بیس آیتوں کے لئے ایک سے زیادہ حدیثیں اہل سنت حضرات کی کتاب سے نقل کی ہیں جو واضح طور پر ان آیتوں میں نقص ، کمی یا زیادتی کی نشاندہی کرتی ہیں۔
اس کے بعد علامہ میر حامد حسین ہندی نے مدلل جواب دیا ہے کہ نقص و تحریف اہل سنت کی صحیح ترین کتابوں سے ان کے یہاں ثابت ہے لیکن شیعہ علماء اس کے قائل نہیں ہیں۔
فیض آبادی کے جواب میں علامہ حامد حسین ہندی قدس سرہ مذکورہ آیتوں اور سورتوں میں نقص یا کمی و زیادتی کو علمائے اہل سنت کے نزدیک صحیح ہونے کو ثابت کیا ہے۔ سیوطی اور فخر رازی۔ جیسے بزرگ سنی مفسرین نے ان روایتوں کو صحیح قرار دیا ہے۔
اتمام:
مضمون کے آخر میں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ:
۱۔ اگر ایک لفظ یا چند الفاظ کو قرآن سے نکال دیا جائے یا قرآن میں بڑھا دیا جائے اگرچہ اس طرح ہوکہ قرآن کی حقیقت میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی ہو تو بھی اس عمل کو تحریف نام دیا جاتا ہے۔
۲۔ اسی طرح آیت یا سورہ کو قرآن میں کم کرنا یا زیادہ کرنے کو بھی تحریف کہتے ہیں۔
۳۔ اسی طرح اگر کوئی یہ کہے کہ موجودہ قرآن کا کچھ حصہ کلام خدا نہیں ہے تو یہ بھی تحریف قرآن ہے۔
خلاصہ یہ کہ شیعوں پر تحریف کی تہمت سراسر غلط ہے اور بے جا ہے بلکہ مسئلہ برعکس ہےاس لئے کہ اہل سنت کی روایتوں سے ان کے یہاں تحریف ثابت ہے۔
خدایا امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور میں تعجیل فرما اور انھیں کے ذریعہ حقیقت قرآن کو آشکار فرما۔ آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں