حدیث غدیر میں معنی ولایت اُدباء اور شعراء کی نظر میں – قسط ۵

اَلحَمدُ اللهِ وَسَلَامٌ عَلى عباد الذين اصطفى بارگاہ خداوندی میں شکر گزار ہیں کہ اس نے نہ صرف زندگی عطا کیا بلکہ مواقع فراہم کئے اور اس سال ۱۴۴۴ھ میں بھی میگزین آفتاب ولایت کے مذکورہ عنوان کی پانچویں قسط
پیش کرنے کی توفیق عطا کیا۔
حسب معمول گذشته مضامین کا خلاصہ چند سطروں میں
پیش خدمت ہے۔
– ائمہ ہدی علیہم السلام اور علمائے امامیہ نیز بعض علماء وادباء عامہ نے مولیٰ کے معنی صدر اسلام کے عرب اور بعد کی
۲۔
نسلوں کے عربوں نے جو سمجھا ہے اسے بیان کیا ہے۔ مولی” کے معنی نامور ادباء وشعراء نے اپنے اشعار و بیان میں وہی ذکر کیا ہے جسے پیغمبر اسلام صلی ہی ہم نے
خدا کے حکم سے بیان کیا ہے۔
– شعراء نے حدیث غدیر کو مناسب قافیہ کے ساتھ اپنے اشعار میں اتارا ہے جو حدیث غدیر کے مستند و معتبر ہونے کو ثابت کرتے ہیں۔
– اس مضمون کا ماخذ و مدرک کتاب “الغدير فى الكتاب
والسنۃ و الادب ہے۔ جو کتاب الغدیر کے نام سے مشہور ہے۔ اس کتاب کے مؤلف الشيخ عبد الحسین احمد الا مینی قدس سرہ ہیں جو علامہ امینی کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ کتاب عربی زبان میں گیارہ جلدوں میں لکھی گئی ہے۔ فارسی زبان میں مکمل ترجمہ ہے۔ اردو اور انگریزی میں بھی کچھ اختصار کے ساتھ ترجمہ ہو چکا ہے۔
– علامہ امینی اور کتاب الغدیر کا مختصر تعارف ” آفتاب ولایت کے ۱۴۴۰ ھ کے شمارہ میں پیش کیا جا چکا ہے۔ – گذشتہ شماروں میں شعراء اور شعراء کی اہمیت ائمہ علیہم السلام اور حضرت پیامبر اکرم منیم کی زبانی بیان ہو چکے ہیں۔ شعراء کی تشویق و ترغیب کے لئے ائمہ علیہم السلام کی زبان مبارک سے اس طرح کے جملہ نظر آتے ہیں۔ جو ایک شعر ہمارے بارے میں کہے خداوند عالم بہشت
میں اُس کے لئے ایک گھر بناتا ہے۔“
۷۔ گذشتہ شماروں میں پہلی صدی کے شعراء مثلاً حسان بن
ثابت، قیس بن عبادہ انصاری جو حضرت امیر علیہ السلام کے خاص صحابی تھے، کے اشعار کا تذکرہ ہوا۔ ساتھ ہی حضرت امیر علیہ السلام کے اشعار لکھے گئے۔ پھر اُن حضرت علیہ السلام کے دشمن عمر و بن عاص متوفی ۴۳ کے قصیدہ جلجلیہ کا تذکرہ ہوا۔ (قصیدہ جلجلیہ کے تمام ۶۶ اشعار کا ترجمہ اور شرح آفتاب ولایت کے ۴۳۴ ان کے اردو اور ۱۴۳۵ھ کے انگریزی شمارہ میں لکھا جاچکا ہے) اسی طرح معروف شاعر سید حمیری کے
اشعار کا ذکر ہوا۔
– گذشته شماره یعنی ۱۴۴۳ھ میں صفحہ ۸ تا ۱۲ پر دوسری صدی کے شاعر کمیت بن زید اسدی متوفی ۱۲۶ھ کا ذکر
تفصیل کے ساتھ ہوا۔
اور اب ملاحظہ ہو دوسری صدی کے بقیہ شعراء کے
حالات اور ان کے اشعار ۔
جیسا کہ ہم نے گذشتہ شمارہ میں نقل کیا ہے کہ مرحوم علامہ امینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے دوسری صدی کے تین شعراء کا تذکرہ کیا ہے اور ہم نے ان میں سے کمیت بن زید اسدی کے اشعار کا تذکرہ کیا اور اب دیگر شعراء کا تذکرہ کریں گے۔
سید حمیری (۱۰۵ھ تا ۱۱/۳ یا ۱۷۸ یا ۱۷۹ھ) آپ کا نام اسماعیل بن محمد بن یزید بن وداع تھا۔ ابو ہاشم و ابو عامر کنیت تھی اور لقب ”سٹیڈ“ تھا۔ ابوالفرج اور دوسرے بہت سے مورخین نے ان کی نسبت زید بن ربیعہ مفرغ یا ابن مفرغ حمیری کے نوادگان کی طرف دیا ہے۔ حمیری وہ مشہور شاعر تھے جنہوں نے زیاد اور اس کی اولاد کے لئے ہجو لکھا ہے اور انہیں آل حرب سے انکار کیا ہے اور اسی وجہ سے عبداللہ بن زیاد نے انہیں قید کر لیا تھا اور ان پر سختیاں کیں لیکن معاویہ نے بعد میں انہیں آزاد کر دیا تھا۔
اخبار المیر ی میں لکھا ہے کہ سید کی ماں خدان، بصرہ کے ایک قدیمی محلہ سے تعلق رکھتی تھیں اور چونکہ سید کے والد نے اسی قبیلہ میں ایک مکان لیا تھا اور یزید بن ربیعہ بن مفرع حمیری کی بیٹی سے شادی کیا تھا۔ حمیری شاعر کی کوئی اولاد نرینہ نہ تھی۔ لہذا اصمعی وغیرہ نے سید کی یزید بن مفرغ کی جانب نسبت دینے میں غلطی کیا ہے کیونکہ سید اس کے نواسے تھے۔
I
مرزبانی نے معجم الشعراء میں سید حمیری کے ایک شعر کا تذکرہ کیا ہے جس میں انہوں نے خود اپنے نسب کو بیان کیا ہے۔
شعر کا ترجمہ یہ ہے:
ایک وقت مجھے نسبت دی جاتی ہے، میں ایک مرد جمیری ہوں میرے دادا رمین“ اور میرے ماموں ڈویزن ہیں پھر وہ ولا اور محبت جس کے ذریعہ قیامت میں امیدوار
الغدیر ۸۰/۴ ۸۱ بنقل از اخبار حمیری ص ۱۵۱ او غلافی ۷ / ۲۷۸
ہوں وہ ابوالحسن ہادی علیہ السلام کی محبت و ولایت ہے۔“
کیچڑ میں کنول یا کوئلہ کی کان میں ہیرا
یہ بڑی عجیب و غریب بات ہے کہ جب ہم سید حمیری کے والدین اور اُن کے مذہب و دین کی طرف توجہ دیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ والدین دشمن امیر المؤمنین علیہ السلام تھے اور اباضی مذہب تھے اور اُن کا مکان غرفہ بن ضبة ، بصرہ میں تھا اور سید حمیری کہا کرتے تھے:
اس مکان میں امیر المؤمنین کو بہت گالیاں دی گئی ہیں اور جب سید سے پوچھتے ہیں کہ آپ میں شیعیت کہاں سے آئی تو فرماتے : رحمت خداوند نے مجھے گھیر لیا۔ کیا خوب رحمت کا
گھیراؤ ہے۔
سید ہی کا بیان ہے کہ جب اُن کے والدین کو شیعہ ہونے کی خبر ہوئی تو انہیں قتل کرنے کا ارادہ کر لیا۔ سید وہاں سے بھاگ نکلے اور عقبہ ابن مسلم بنائی کے یہاں پہنچے اور تفصیل بتائی تو عقبہ نے سید کو اپنے گھر میں پناہ دی۔ سید وہیں رہے یہاں تک کہ ان
کے والدین کا انتقال ہو گیا تو اپنے گھر لوٹے اور وراثت ملی۔۳
۲
را باضی کسر همزه یعنی الف پر زیر لگا کر لکھا جاتا ہے۔ عبداللہ بن اباضی کے اصحاب کو اباضیہ کہا جاتا ہے۔ اُس نے مروان بن محمد کے زمانہ میں خروج کیا تھا اور یہ لوگ خارجی ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اُن کے مخالف کا فر ہیں اور یہ لوگ امیر المؤمنین علی علیہ السلام اور بہت سے اصحاب کو کافر جانتے تھے۔ (علامہ امینی) الغدیر ۸۱/۴ فارسی نقل از اغانی جلد ۲۳۰/۷ تالیف ابوالفرج ۔ راقم الحروف کو کتاب اغانی کے دیدار کی تمنا تھی ۔ الحمد للہ ۱۴۴۴ھ میں اربعین کے مواقعہ عتبات عالیات کی زیارت سے مشرف ہوا تو نجف الاشرف میں شارع الرسول پر مرحوم علامہ امینی کی قبر اور کتابخانہ کی زیارت کا شرف حاصل کیا اور وہیں کتاب اغانی کی تمام جلدیں بھی تھیں۔
اسی طرح مرزبانی نے اخبار السید“ میں اپنے اسناد سے اسماعیل بن مساحر سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں : ایک صبح میں سید کے ساتھ اُن کے گھر پر ناشتہ کر رہا تھا تو مجھ سے کہا: اس گھر میں امیر المؤمنین کو بہت گالیاں دی گئیں ہیں اور لعنت کی گئی ہیں میں نے پوچھا کس نے ایسا کیا ہے؟ کہا: میرے ماں باپ اباضی مذہب تھے۔ میں نے پوچھا پھر تم کس طرح شیعہ ہوئے؟ کہا: “رحمت حق مجھ پر برس پڑی اور مجھے بیدار و ہوشیار
کر دیا۔“
تذکر : خدا اور امام کے الطاف واکرام سید حمیری پر اُن کی آخری سانس تک نازل ہوتے رہے اور امام صادق علیہ السلام نے انہیں بہشت کی بشارت بھی دیا ہے۔ سید حمیری کی بد گوئی کرنے والے سے امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اگر
ان کا ایک قدم لڑکھڑاتا ہے تو دوسرا محکم ہوتا ہے۔
سید کا لقب
| 66
حمیری خاندان اہلبیت سے نہ تھے یعنی سید نہ تھے لیکن اُن کی ماں انہیں سید کہتی تھی اور امام صادق علیہ السلام نے بھی اس کی تائید کی۔ ابو عمر وکشی نے اپنی کتاب رجال کے صفحہ ۱۸۶ پر لکھا ہے کہ امام صادق علیہ السلام کی ملاقات سید حمیری سے ہوئی تو امام علیہ السلام نے فرمایا:
دو تمہاری ماں نے تمہیں سید نام دیا اور اس سیادت میں تم کامیاب ہوئے ، کیا کہنا۔ سید الشعراء ہو ”
یہ ہے:
اور پھر سید نے اس بارے میں یوں شعر کہا جس کا مفہوم
الغدیر، ج ۴، ص ۸۵ فارسی
میں حیرت و تعجب میں ہوں کہ سب سے زیادہ فقیہ وعالم نے ایک بار مجھ سے کہا: تمہارے خاندان نے تمہیں سید نام دیا انہوں نے سچ کہا ہے کیا کہنا تیرا، تو سید الشعراء ہے۔ اگر تم خاندان اہلبیت کی مدح کرو تو دیگر شعراء تمہارا مقابلہ نہیں کر سکتے کیونکہ وہ دولتمندوں اور اہل ثروت کی ستائش کرتے ہیں اور ان سے عطا چاہتے ہیں جبکہ تمہاری مدح اہلبیت کے بارے میں خالصانہ ہے۔ پس تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ ان کی مہر و محبت میں ایسے کامیاب رہو کہ انہیں کے ذریعہ اجر پاؤ۔ دنیا کے تمام شربت حوض احمد صلی السلام ( حوض کوثر) کے برابر
نہیں ہو سکتے۔ ۲
تذکر : سید حمیری کے مذہب کے سلسلہ میں بعض مورخین نے گمراہ کرنے کی کوشش کیا ہے اور انہیں کیسانیہ مذہب پر بتانے کی کوشش کی ہے لیکن ہمارے جید علماء جیسے شیخ مفید شیخ طوسی ، علامہ مجلسی رضوان اللہ علیہم اجمعین نے انہیں مذہب امامیہ پر بتایا ہے۔ خود امام صادق علیہ السلام کی خوشخبری اور بالخصوص سید کے اشعار اُن کے امامیہ مذہب ہونے کی تائید کرتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں