قرآن میں ائمہ علیہم السلام کے نام کی تصریح نہ ہونے کی حکمت تحقیقی جائزہ – پہلا حصّہ

ائمہ اہلبیت علیہم السلام کے اسماء اور ان کی امامت و منزلت کی صراحت قرآن کریم میں کیوں نہیںہوئی ہے؟ فریقین کی کتابوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سوال عصر معصوم علیہ السلام میں بھی ہوتار ہا ہے۔ اور اس اہم سوال کا جواب ہمارے لئے انتہائی ضروری ہے۔ اس لئے کہ قرآن کریم تمام اسلامی فرقوں کے نزدیک دین اسلام کا قابل قبول اور قطعی سند کا عنوان رکھتا ہے۔ جو لوگ ائمہ معصومین علیہم السلام کی عصمت و امامت کے معتقد ہیں وہ اس سوال کے سامنے اپنا موقف واضح کرنے کا حق محفوظ سمجھتے ہیں اور اسلام و قرآن کی تعلیم کی روشنی میں مناسب جواب بھی رکھتے ہیں۔
سب سے پہلے: آراء و نظریات کا جائزہ
قرآن کریم میں ائمہ ؑ کے نام کی تصریح نہ ہونے کے بارے میں علماء و دانشوروں کے آثار و کتب کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ اس سلسلہ میں کوئی اتفاقی رائے نہیں ہے۔ اس بارے میں تین نظریات ہیں:
نظریہٴ اول:
اس گروہ کا خیال ہے کہ قرآن میں اہلبیتؑ کا نام اور ان کی امامت کا تذکرہ بطور صریح پایا جارہا تھا۔ لیکن پیغمبر ﷺ کی وفات کے بعد اور قرآن کی تدوین و جمع آوری کے وقت، تحریف کرکے اہلبیتؑ کا نام قرآن سے ساقط کردیا۔ فریقین میں اس نظریہ کے طرفدار بہت کم ہیں،ان کی دلیل صرف روایتیں ہیں جو سند اور دلالت دونوں اعتبار سے قابل بحث ہیں اوران کے مصادر بھی قابل اعتبار نہیں ہیں۔ اس نظریہ کی حمایت کرنےوالے منجملہ ابن شنبوذ بغدادی (محمد بن احمد المقری متوفی ۳۲۸ق) اہلسنت ہیں، جو آیہٴ شریفہ ’’وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللَّـهُ بِبَدْرٍ وَأَنتُمْ أَذِلَّةٌ‘‘(آل عمران ۱۲۳) کو اس طرح قرأت کرتے تھے۔ ’’و لقد نصرکم اللہ ببدر۔ بہ سیف علی و انتم أذلّۃ‘‘{ FR 296 }
ابن شنبوذ نے آیت کی تاویل اور اس کے مورد نزول کو تنزیل آیت سے ملادیا ہے، اور اس پر کوئی دلیل بھی قائم نہیں کی ہے، اسی طرح شیعہ علماء میں عظیم الشان محدث نوری علیہ الرحمۃ متوفی ۱۳۲۰ق، فرماتے ہیں: کتاب فصل الخطاب، کی تحریر کا مقصد یہ ہے کہ اس مطلب کو ثابت کیا جائے کہ قرآن میں اہلبیت کا نام آیا تھا اور تحریف کرکے ساقط کردیا گیا ہے اور وہ اس مطلب پر اپنی نویں دلیل میں لکھتے ہیں: خاتم الانبیاء حضرت پیغمبرﷺ کے تمام جانشینوں اور ان کی لخت جگر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا نام اور ان کے بعض اوصاف و خصوصیات کا ذکر گذشتہ تمام آسمانی کتابوں میں آچکا ہے۔ تو قرآن کریم میں بھی ان کے اسماء کا ذکر ہونا چاہئے کیونکہ قرآن دائمی کتاب ہونے کے ساتھ گذشتہ تمام کتابوں پر غالب ہے اور ترجیح رکھتی ہے۔{ FR 297 }
محدث نوری کی دلیل انتہائی قابل تامل ہے اور ایک دوسری بحث و گفتگو کا دروازہ کھولتی ہے۔ انھوں نے ناخواستہ طور سے حقیقت قرآن کے خلاف دلیل دے دی ہے۔ آپ ذرا غور فرمائیں اگر قرآن کریم گذشتہ تمام کتابوں پر غالب اور ترجیح رکھتی ہے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے جیسا کہ خود قرآن نے اشارہ کیا ہے۔
وَأَنزَلْنَا إِلَيْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْکِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ ۔{ FR 298 }
اور اے پیغمبر ہم نے آپ کی طرف کتاب نازل کی ہے حق کے ساتھ جو اپنے پہلے کی توریت اور انجیل کی مصدق اور محافظ ہے۔
تو گذشتہ کتابوں میں جو کچھ آیا تھا ان کے صحیح و غلط ہونے کا معیار خود قرآن کو ہونا چاہئے۔ قرآن کریم طے کریگا کہ ان میں کیا صحیح ہے کیا غلط، خود قرآن کے مطالب کو صحیح ثابت کرنے کے لئے گذشتہ کتابوں کو معیار نہیں مانا جائیگا۔ اور محدث نوری نے یہی کہا ہے۔ قرآن کے وظائف و ذمہ داریوں کو گذشتہ کتابوں کو معیار قرار دے کر ثابت کرنا چاہا ہے اور اس طرح تحریف قرآن کا حکم دے دیا کہ ’ائمہ کا نام قرآن سے ساقط کردیا گیا ہے۔ بزرگ مرتبہ شیعہ علماء فقہا، محدثین اس نظریہ کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔
نظریہٴ دوم:
اس گروہ کے افراد کا کہنا ہے کہ قرآن کریم میں نہ صرف اہلبیت علیہم السلام کا نام نہیں آیا ہے بلکہ قرآن میں ان کی امامت و قیادت کا تذکرہ خاص طور سےکیا عام طور سے بھی نہیں آیا ہے اور جو آیت اہلبیتؑ کے بارے میں عام طور سے یا حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں خاص طور سے نازل ہوئی ہے، وہ صرف ان کے فضائل و مناقب کو بیان کرتی ہے خدا نے ان کی امامت کا ذکر نہیں کیا ہے۔ یہ نظریہٴ جمہور اہلسنت کا ہے۔ جو سراسر باطل اور ناقابل قبول ہے۔

نظریہ سوم:
اس نظریہ میں علمی، دینی اور انصاف پسندی کی راہ اختیار کی گئی ہے دائرہ افراط و تفریط سے نکلتے ہوئے اعتدال کا راستہ اختیار کیا ہے۔ یہ شیعہ محدثین، مفسرین اور متکلمین کی اکثریت کا نظریہ ہے، یہ افراد اس بات کے قائل ہیں کہ ولو قرآن میں اہلبیت ؑ کا نام بطور صریح نہیں آیا مگر خداوند عالم نے اہلبیت پیغمبرؐ خصوصاً امیر المؤمنین علیہ السلام کی امامت و قیادت کے بارے میں متعدد آیتیں نازل فرمائی ہیں اور اسی طرح ان کے مناقب کا بھی تذکرہ کیا ہے اور پیغمبر اکرم ﷺآیات الہیہ کے بیان کرنے والے۔ ان کی تشریح کرنے والے اور معلم قرآن ہیں۔ اور آنحضرتؐ نے امت کے لئے واضح طور سے انھیں بیان بھی کیا ہے۔ اور اس قدر روشن و واضح بیان فرمایا ہے کہ اگر جہالت، دشمنی، تعصب کی عینک ہٹادی جائے تو یہ امت کے ہر فرد کے لئے واضح اور ظاہر ہوجائے۔ جیسا کہ بعض حدیث میں آیا ہے۔ اگر قرآن کو اس طرح پڑھیں جیسے نازل ہوا ہے تو ہمارا نام تلاش کرلیں گے۔ { FR 299 }
تیسرے نظریہ کی تین بنیاد ہے:
(۱) تحریف قرآن ناقابل قبول ہے۔
(۲) جن حدیثوں سے تحریف کی بو آتی ہے وہ بہت زیادہ معتبر نہیں ہیں۔ علماء و مفسرین نے ان حدیثوں کی وضاحت فرمائی ہے۔
(۳) خود آیتوں کی روشنی میں قرآن کی تفسیر اور اقوال معصومین سے تمسک کرنا ہے۔
فریقین کی معتبر کتابوں میں کچھ ایسی روایتیں ہیں جو اہلبیت علیہم السلام کے بارے میں قرآن کی کافی مقدار میں آیتیں نازل ہوئی ہیں جیسے حسب ذیل روایت ہے جو متعدد سندوں سے نقل ہوئی ہے۔
قرآن کریم کی آیتیں چار حصوں میں نازل ہوئی ہیں۔ قرآن کا ایک چوتھائی حصہ ہمارے بارے میں اور ایک چوتھائی حصہ ہمارے دشمنوں کے بارے میں —- الخ({ FR 300 })
اس کے علاوہ فریقین میں اس موضوع سے متعلق فراوان حدیثیں پائی جاتی ہیں۔ چند احادیث ملاحظہ ہوں:
(۱) ابن عباس کہتے ہیں: جتنی آیتیں حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہیں کسی ایک کے بارے میں نازل نہیں ہوئی ہیں۔ { FR 301 }
(۲) ایک اور حدیث ابن عباس سے نقل ہے: خداوند عالم نے قرآن کریم میں جہاں بھی ’’یا ایہاالذین آمنوا–‘‘ کہہ کے خطاب فرمایا ہے ان سب میں حضرت علی علیہ السلام ہی مقدم ہیں۔ خداوند عالم نے آنحضرت ﷺ کے اعوان و انصار کی متعدد مقامات پر سرزنش فرمائی ہے مگر حضرت علی علیہ السلام کے لئے تعریف و مدح اور نیکی ہی کا ذکر کیا ہے{ FR 302 }
(۳) حدیث میں ہے انبیاء علیہم السلام کی تمام کتابوں (صحیفوں) میں ولایت علی بن ابی طالب علیہما السلام کو بیان کیا گیا ہے، اور خداوند عالم نے ہر پیغمبرؐ کو حضرت محمدﷺ کی نبوت اور ان کے جانشین حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کے اقرار کرنے کے بعد مبعوث فرمایا ہے۔{ FR 303 }
قرآن کریم کی وہ آیتیں جو اہلبیت علیہم السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ان کی تفسیر پر نگاہ کیجئے تو پتہ چلتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومین علیہم السلام بھی اسی حقیقت کی تائید فرماتے ہیں کہ قرآن میں اہلبیتؑ کے نام کی صراحت (بصورت اسم) نہیں آئی ہے، ہاں آنحضرت ؐ ان آیتوں کی تفسیر و تشریح کا وظیفہ رکھتے تھے اسے آپ نے بیان فرمایا ہے اور آپؐ نے تصریح کردی ہے کہ فلاں آیت کس کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ بطور نمونہ مرحوم کلینی صحیح سند کے ساتھ ابوبصیر سے نقل کرتے ہیں:
’’آیت —أَطِيعُوا اللّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنکُمْ ۖ کے بارے میں امام جعفر صادق علیہ ا لسلام سے دریافت کیا تو فرمایا: یہ آیت علی، حسن و حسین علیہم السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے (اور اولی الامر سے مراد وہی حضرات ہیں) میں نے پوچھا: لوگ کہتے ہیں: حضرت علی ؑ اور ان کے اہلبیتؑ کا نام قرآن میں کیوں نہیں آیا ہے؟ فرمایا: ان لوگوں سے کہہ دیجئے: نماز کا حکم رسول اللہ پر نازل ہوا ہے مگر تین یا چار رکعتوں کی تعداد کا ذکر نہیں آیا ہے۔ آنحضرتؐ نے اسے لوگوں کے لئے بیان فرمایا ہے — (اسی طرح ولایت کا حکم قرآن کریم میں عام طور سے نازل ہوا ہے، اور پیغمبر اکرمؐ نے اس کی تشریح و تفسیر فرمائی ہے۔){ FR 304 }
دوسری حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل ہے: خداوندعالم نے حضرت پیغمبر اکرمؐ کو حکم دیا: لوگوں کے لئے ولایت کی تشریح کیجئے۔ جس طرح نماز، روزہ، زکاۃ حج کے احکام کی تشریح کرتے ہیں۔ جب یہ حکم نازل ہوا تو حضرت ختمیؐ مرتبت کے دل میں ایک حالت پیدا ہوئی اور فکر مند ہوئے کہیں لوگ اپنے دین سے پلٹ نہ جائیں اور آپ کی تکذیب نہ کرنے لگیں تو آپؑ نے بارگاہ احدیت میں عرض کی (اور اس سلسلہ میں مدد طلب کی) خداوند عالم نے وحی نازل فرمائی: اے رسولؐ جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے پہونچا دیجئے! پھر آنحضرتؐ نے لوگوں کے لئے امر ولایت کو آشکار کردیا —{ FR 305 }
یہی حدیث دیگر منابع و ماخذ میں اس سے زیاد\ہ وضاحت کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔ اور اہلسنت کے مصادر میں بھی اس طرح کی روایتوں کے نمونہ موجود ہیں کہ ولایت اہلبیت علیہم السلام کی تشریح و توضیح کا وظیفہ آنحضرت ﷺ کے سپرد کیا گیا ہے۔{ FR 306 }
مرحوم ابن طاؤس (رہ) بھی اس طرح کی حدیثوں کو کتاب تفسیر ’’ابوالعباس بن عقدہ‘‘ (کہ جو اب مفقود ہے) سے نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ابن عقدہ نے متعدد سندوں کے ساتھ اس معنی کو نقل کیا ہے۔{ FR 307 }
بہرحال امام جعفر صادق علیہ السلام کا جواب جدال احسن کی بنیاد پر قائم ہے یعنی مد مقابل جس چیز کو قبول کرتا ہے اسے آپؑ نے احتجاج و استدلال کے لئے مقدمہ قرار دیا ہے۔ اس لئے کہ لوگ اس بات کو قبول کرتے ہیں اور مانتے ہیں کہ نماز کے کلیات اور دیگر احکام کا ذکر قرآن میں تو ہے مگر اس کی تشریح و توضیح نہیں ہے اس کا کام آنحضرت ﷺ کے سپرد کیا گیا ہے اور آنحضرتؐ نے اس کے شرائط، قیود اور دیگر خصوصیتوں کو بیان فرمایا ہے — ائمہ علیہم السلام کا نام اور ان کی ولایت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے اگر راوی اس کے بعد اور سوال کرتا اور امام علیہ السلام سے دریافت کرتا کہ خداوند عالم نے تشریح و توضیح کا وظیفہ حضرت ختمی مرتبتؐ کو کیوں سپرد کیا ہے؟ تو امام علیہ السلام کا جواب جدال احسن کی کسی اور شکل میں ہوتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں