ولایت و برائت

یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ کسی بھی موضوع میں اضداد و تناقضات کو باہم یکساں مقام دے کر مثبت پہلو سے لباس حقیقت نہیں پنہایا جاسکتا خواہ وہ کسی شکل میں ہو جیسے عدل و ظلم، خیر و شر, اسلام نے ایک ہی کو حقیقت کا عنوان دے کر اہمیت دی ہے عدل پسندیدہ ہے ظلم ناپسند، خیر ممدوح ہے شر غیر ممدوح, مگر محبت و نفرت یہ وہ عنوان ہے جو اسلامی عقاید و تعلیمات اور معارف میں الفاظ اور معانی دونوں ہی شکل میں یکساں اور برابر مقام و منزلت رکھتا ہے۔ یہ اسلام کا مسلمہ اصول ہے اور اسلامی عقائد کا اصل رکن و ستون ہے جس کے بغیر نہ کوئی آدمی مسلمان بن سکتا ہے نہ کوئی مسلمان مؤمن ہو سکتا ہے۔ عقیدہٴ توحید اسلامی عقیدہ کا سب سے اہم اور پہلا عقیدہ ہے اس میں بھی اگر ’’لا الہ ‘‘ کی شکل میں نفرت و برأت ہے تو ’’الا اللہ‘‘ کے عنوان میں محبت و ولایت بھی جائگزین ہے۔
اگر عقیدہٴ نبوت میں ہر عنوان کا انکار اور صرف اللہ کا رسول ہونا ، نبی ہونا قرار دیا گیا ہے خواہ وہ ’’رسول اللہ‘‘ کی شکل میں ہو یا ’’وما محمد الا رسول‘‘ کی شکل میں ہو اس میں بھی نبی کو نبی اللہ تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ کسی جھوٹے مدعی نبوت کی محبت تو دور کی بات ہے اس کو رسولؐ ہونے کے علاوہ اسے کسی اور رشتہ کے عنوان سے اختیار کرلینا بھی اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے۔
اسی طرح اجر رسالت کے مطالبہ میں قرآن کریم نے ’’ الاالمودۃ ‘‘ کہہ کر سوائے آل محمد علیہم السلام کی محبت و مودت کے کسی اور کی محبت کو پسند نہیں کیا ہے — یہ دونوں مسلمہ اصول ایک دوسرے کی نسبت لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں اہل بیت علیہم الصلوۃ والسلام سے عقیدہٴ محبت و ولایت دینداری کا اصل رکن ہے تو دشمن خدا و رسول اور آل رسول علیہم السلام سے برائت کے بغیر محبت و ولایت بھی نا مکمل ہے۔ ولایت و برائت بارگاہ احدیت میں پرواز کے دوپر ہیں جو قربت کی منزلوں تک پہونچاتے ہیں۔
ولایت یعنی اللہ و رسولؐ اور اہلبیت طاہرین علیہم السلام سے محبت کے ساتھ انھیں اپنا حاکم و ولی اور اولیٰ بالتصرف تسلیم کرتے ہوئے ان کے تمام فرمان پر ایمان و اخلاص کے ساتھ عمل کرنا، اور برائت یعنی خدا و رسول اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے دشمنوں سے عدم وابستگی اور زبان سے الگ اور جدا ہونے کا اظہار اور عملی طور سے ان کے دین و آئین اور راہ و رسم سے دوری اور بیزاری اختیار کرنا ہے۔
عقیدہٴ ولایت و برائت کی اہمیت و منزلت کسی صاحب بصیرت اور اہل علم و دانش سے پوشید\ہ نہیں ہے اور نہ اسے کوئی نظر انداز کرسکتا ہے۔ اسلامی ماخذ و منابع اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کی پاکیزہ روایتوں میں اس کا بہت تفصیل سے تذکرہ آیا ہے یہ دونوں وظیفے (تولا و تبرّا) بند\ہٴ صالح، متقی اور حقیقی مؤمن کی روح ہیں۔ جس کے بغیر نیک عمل اور تقویٰ و ایمان کی کوئی قدر نہیں ہے، کیوں کہ اس کا براہ راست تعلق خدائے تعالیٰ اور اس کی خوشنودی اور اس کے حکم کی تعمیل سے ہے، یہ عمل ذاتی تسکین قلب یا کسی سے عداوت و دشمنی پر استوار نہیں ہے ہم جس حیثیت سے نماز، روزہ، حج کے وظیفہ کو انجام دیتے ہیں کہ غرض حکم خدا کی بجاآوری، خوشنودئ خدا، اور تقرب پروردگار کے سواء کچھ نہیں ہوتا اسی طرح اہلبیت علیہم السلام سے محبت ان کے دشمنوں سے برائت کی بنیاد امر پروردگار کی اطاعت اور تقرب خدا مقصد ہوتا ہے۔ جس کے بعد اجر و ثواب اور بہترین جزا و انعام کی امید قائم ہوجاتی ہے۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے چاہنے والے سے یہی فرمایا کہ جب ہم اہلبیتؑ سے محبت اور ہمارے دشمنوں سے دشمنی کی بنیاد طمع دنیا اور ذاتی کسی بغض و عناد پر نہیں ہے (بلکہ حکم خدا کی بجا آوری اور تقرب خدا ہے) تو روز قیامت تمہاری آنکھیں روشن ہونگی دل کو قرار آئیگا، ملائکہ استقبال کریں گے تم رسول اللہ ﷺ حضرت علی ابن ابی طالب حسن و حسین اور علی ابن الحسین علیہم السلام کے ساتھ محشور ہو گے۔
شیعہ عقائد میں عقیدہٴ ولایت اہلبیت برائت کے بغیر اور عقیدہٴ برائت بغیر ولایت و محبت اہلبیتؑ کے نا مکمل اور بے فائدہ ہے۔ , مگر بعض مصلحت اندیش عناصر اسلامی تعلیمات و معارف اہلبیتؑ سے نا واقف اور نا تجربہ کار مؤلفین و مقررین مسلمانوں میں نیا ماحول قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ اپنا ذوق و شوق اور سلیقہ کے اعتبار سے مذہب اہلبیت علیہم السلام کے اصول و اعتقادات پیش کررہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے۔ مذہب تشیع میں عقیدہٴ ولایت و برائت کی کوئی جگہ ہی نہیں ہے۔ وہ صدر اسلام کے مسلمانوں کے اختلافات کو اختلاف سمجھتے ہی نہیں ہیں۔
وفات پیغمبر ﷺ کے بعد حادثات کو نہ صرف معمولی انداز میں پیش کرتے ہیں بلکہ اسے بیان کرنے کی پابندی لگاتے ہیں اس پر یہ طرہ کہ صدر اسلام میں امیر المؤمنین علیہ السلام کے بعض صحابہ سے اختلافات ’’دوستانہ اختلافات‘‘ اور ’’گہرے روابط‘‘ کی شکل میں تھے۔ اگر یہ نزاع ’’دوستانہ اختلافات‘‘ تھے تو کوئی ذرا یہ بھی بتادے کہ اختلافات کی شکل کیا ہوتی ہے!!!؟؟؟ خاتم النبیین ﷺ کے جنازے کو تنہا چھوڑ کے اصحاب چلے گئے۔ رسول کریم ﷺ کے تمام ارشادات کو پس پشت ڈال کر داماد و برادر رسول ﷺ اور جگر گوشہٴ رسول ﷺ کو اکیلا فریاد کناں چھوڑ دیا آج تک نہ سنا نہ پڑھا نہ دیکھا کہ محبت میں کسی کے گلے میں رسی کا پھندہ ڈال کر کشاں کشاں لایا گیا ہو۔ کیا تلواروں کے سائے میں بیعت کا مطالبہ دوستانہ روابط کی بنیاد پر تھا!!! خانہٴ سیدہ جہاں نواسہ رسولؑ حسنین کریمین علیہما السلام موجود ہیں ان کے ساتھ گھر جلا دینے کی کوشش گہرے تعلقات کی بنیاد پر تھی؟! جگر گوشہٴ رسولؐ پر جلتا دروازہ کا گرایا جانا پسلی کا شکستہ ہونا، شکم مبارک پر وار کرنا، جناب محسن ﷺ کا سقط ہونا اور سیدہٴ عالم کا زندگی بھر کلام نہ کرنا، خلیفہٴ کو جواب سلام نہ دینا، اور ناراض ہوکر دنیا سے رخصت ہونا اور امیر المؤمنین ﷺ کا نہج البلاغہ میں اپنے مظلوم ہونے کا اعلان کرنا اور اکابرین کے غاصبانہ اقدامات کا برملا شکوہ کرنا اور اعوان و انصار کے فراہم ہونے کی صورت میں قیام کرکے اپنا حق چھین لینے کا اظہار فرمانا کیا یہ ساری باتیں دوستانہ اور اچھے تعلقات کی بنا پر تھیں اگر انھیں باتوں کو اچھے روابط کہتے ہیں تو لِللّٰہ کوئی اختلاف کا معنی بتادے کہ لوگ رسول اللہؐ اور کفار مکہ کے اختلافات کو بھی دوستانہ اختلاف بتانے لگے ہیں ، شیطان کا سجدہ نہ کرنے سے انکار بھی اللہ سے گہرے رشتہ کی بنیاد بتائی جانے لگے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ جب تک عقیدہ ولایت و برائت مستحکم نہیں ہوگا حق و باطل کی پہچان نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ اس کے رسول اور آل رسول پر ایمان لاتے ہوئے ان کے سامنے صحیح معنی میں تسلیم ہوجائیں اس میں فلاح ہے اور اصلاح بھی کیونکہ ولایت و برائت یہ دونوں عقیدہ انسان کو کامیابی سے سرفراز بھی کرتے ہیں اور ہدایت و رہنمائی بھی کرتے ہیں کہ یہی د\ونوں وظیفے امت مسلمہ کی نجات اور فلاح و بہبودی کا باعث بھی ہیں اور حق و باطل کے درمیان فرق قائم کرنے کا بہترین ذریعہ بھی ہیں۔
اللہ تعالیٰ حضرت علی ابن ابی طالبؑ اور ان کی پاکیزہ اولادؑ کی محبت اور ان کے دشمنوں سے برائت و اظہار بیزاری پر آخری سانس کا خاتمہ فرما اور روز قیامت موالیان آل محمد میں قرار فرما۔آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں