قرآن میں ائمہ علیہم السلام کے نام کی تصریح نہ ہونے کی حکمت تحقیقی جائزہ – دوسرا حصہ

ایک اور سبب ہے:
بہرحال اس وضاحت کے سامنے یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ جب لوگوں کو قرآن کے کلیات کو بصورت تشریح آنحضرتؐ سے دریافت کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی تو حکم ولایت کی تشریح پیغمبرؐ سے اخذ کرنے میں کیا دقت ہے!!!؟؟ اس کا بھی ایک تاریخی پس منظر ہے جس کی طرف تفصیل و اجمال کی صورت میں اشارہ کرنا دائرہ تحقیق و تحریر سے باہر نکل جانے کا سبب ہوگا۔ اس بارے میں ایک اور اہم حقیقت کی طرف اشارہ کروں جس سے قطعی طور سے واضح ہوجاتا ہے کہ خدا نے قرآن کریم میں اہلبیت ؑ کے اسماء کی صراحت کیوں نہیں فرمائی ہے؟
اس سلسلہ میں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے قرآن میں اسمائے اہلبیت کی صراحت نہ ہونے کی دیگر حکمتوں میں سے ایک حکمت اور سبب اس امت مسلمہ کو امتحان و آزمائش میں مبتلا کیا جانا تھا جو آئندہ نسلوں کی سرنوشت میں بطور مستقیم دخالت رکھتا ہے۔ مگر اس مطلب کو واضح کرنے کے لئے چند باتوں کی طرف اشارہ ضروری ہے:
(الف)
خداوند عالم تمام افراد بشر کو فرداً فرداً اور تمام امتوں کو بصورت گروہ قطعی طور سے امتحان میں مبتلا کرتا ہے جس کے بارے میں قرآن کی متعدد آیتیں دلالت کرتی ہیں۔
(ب)
افراد و امتوں کے آزمائش کا طریقہ اور روش خدا نے الگ الگ قرار دیا ہے۔ بعض کو خشک مٹی کے ذریعہ جس میں ورح پھونک دی گئی۔ جیسے فرشتوں کا امتحان (سورہ حجر) بعض لوگوں کو سنیچر کے دن مچھلی کے شکار سے منع کرد\ینے کے ذریعہ آزمایا گیا کہ اس دن نہر کے کنارے مچھلیاں زیادہ آتی ہیں۔ یہ امتحان یہودیوں کا تھا۔{ FR 308 }
یا امت کو مکہ کی غیر ذی زرع سر زمین پر پتھروں کے گھر (خانہ کعبہ) کا حج کرنے کے حکم سے آزمایا جانا{ FR 309 } یا لوگوں کو جان و مال کی کمی اور بھوک کے خوف کے ذریعہ امتحان لیا جانا ۔\{ FR 310 }
(ج)
خداوند عالم نے اس امت کو آزمانے کے لئے اپنی سنت اور امتحان میں سے ایک امتحان یہ قرار دیا کہ وہ آنحضرت ﷺ کی کیسے اطاعت و پیروی کرتے ہیں — اور خدائے سبحان نے امت کو اس طریقہٴ امتحان میں قرار دینے کے لئے اور یہ کہ وہ اس امتحان سے راہ فرار اختیار کرنے کے لئے بہانہ تلاش نہ کرے اس کے مقدمات کو اس طرح قرار دیا ہے:
(۱) حضرت ختمی مرتبتؐ کی عظیم الشان منزلت و عظمت کو پہچنوایا اس کے لئے قرآن میں آیت نازل فرمائی:
لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ کَجَهْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُکُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ ﴿٢﴾{ FR 311 }
’’اپنی آواز کو پیغمبرؐ کی آواز پر بلند نہ کرو، اور جس طرح تم لوگ ایک دوسرے سے بلند آواز سے باتیں کرتے ہو اس طرح ان سے کلام نہ کرو ورنہ تمہارے اعمال نابود ہوجائیں گے اور تم نہیں سمجھتے ہو۔ اور وہ لوگ جو رسول اللہﷺ کے پاس اپنی آواز بلند نہیں کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو خدا نے تقویٰ کے ذریعہ آزمایا ہے اور ان کے لئے مغفرت اور عظیم اجر قرار دیا ہے۔
مذکورہ آیت آنحضرتﷺ کی قدر و منزلت کو سمجھانے کے لئے ہر مسلمان کے لئے کافی ہے اس میں کسی طرح کا ابہام یا قید و شرط نہیں ہے۔ یعنی اتنا عظیم الشان پیغمبرؐ ہے کہ خدا کو یہ ہرگز گوارہ نہیں ہے کہ کوئی اس کے پاس تیز آواز سے کلام کرے، اب یہ بات سب کے سمجھ میں آجانی چاہئے کہ جب بلند آواز سے کلام کرنے سے اعمال برباد ہوسکتے ہیں تو جوان کے کلام کو رد کرے، جو آنحضرتؐ سے بحث اور ان کی باتوں میں شک ظاہر کرے اس کے پاس ایمان و عمل نام کی کوئی چیز کیسے باقی رہ سکتی ہے-
(۲) صرف حضرت پیغمبر اکرمﷺ ہی کے حکم کے سامنے تسلیم ہونے کے لئے آیت نازل فرمائی:
مَا کَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُم مِّنَ الْأَعْرَابِ أَن يَتَخَلَّفُوا عَن رَّسُولِ اللَّـهِ وَلَا يَرْغَبُوا بِأَنفُسِهِمْ عَن نَّفْسِهِ ۚ { FR 312 }
اہل مدینہ اور وہ اعراب جو اطراف مدینہ میں رہتے ہیں ہرگزوہ رسول اللہﷺ کی مخالفت کا حق نہیں رکھتے اور نہ ہی ان سے روگردانی اختیار کرکے اپنی خواہش کے مطابق عمل کرسکتے ہیں۔
بلکہ دوسری آیت میں خداوند عالم پیغمبر اکرمؐ کے سامنے دل سے تسلیم ہونے اور صدق دل سے تصدیق کرنے کو ایمان کی نشانی قررار دے رہا ہے۔
فَلَا وَرَبِّکَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَکِّمُوکَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴿٦٥﴾{ FR 313 }
’’پس ہرگز ایسا نہیں ہے۔ تمہارے پروردگار کی قسم وہ لوگ اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک کہ آپ کو اپنے معاملات میں اپنا حاکم قرار نہ دیں اور جس چیز کے بارے میں آپ نے حکم دیا ہے اس سے متعلق اپنے دلوں میں کوئی خلش محسوس نہ کریں۔ اور آپ کے سامنے تسلیم محض ہوں۔
اس کے علاوہ قرآن میں اور بھی آیتیں ہیں جن میں آنحضرتؐ کی اطاعت و پیروی کے بارے میں خدا نے بغیر کسی قید و شرط اور بطور مطلق فرمان جاری کیا ہے:
وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاکُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ{ FR 314 }
اور اس کے بعد سورہ نساء کی آیت میں تو بطور کلی اعلان کرد\یا کہ رسولؐ کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے:
مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّهَ { FR 315 }
روایتوں میں بھی اس حقیقت کی تاکید کی گئی ہے۔ مرحوم کلینی نے کتاب کافی میں التفویض الی رسول اللہ والی الائمۃ فی امر الدین کے عنوان سے مستقل پورا باب قائم کیا ہے۔{ FR 316 }
جن میں دس حدیثیں وہ بھی صحیح سندوں کے ساتھ درج ہوئی ہیں۔ پس خلاصۃ کلام کہ خدا نے اپنے پیغمبرؐ کو بہترین اوصاف و کمالات سے آراستہ کرکے حد کمال تک پہونچایا اور پھر لوگوں کے امور کو ان کے سپرد کیا تاکہ یہ معلوم کرسکے کہ لوگ کس طرح ان کی پیروی کرتے ہیں۔ زرارہ امام باقر اور امام صادق علیہا السلام سے نقل کرتے ہیں: خداوند عالم نے امر خلق کو اپنے حبیب کے سپرد فرمایا تھا کہ یہ معلوم کرسکے کہ لوگ پیغمبرؐ کی کیسے اطاعت کرتے ہیں۔ اس کے بعد امام ؑ نے آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی۔ جو کچھ پیغمبرؐ تمہیں دیں لے لو اور جس چیز سے منع کریں اس سے باز آجاؤ۔{ FR 317 }
(۳) خود آنحضرت ﷺ نے اپنی سنت و سیرت کی پیروی کی تاکید فرمائی ہے اور ہر زمانہ میں قرآن سے متعلق اپنی بیان کردہ تفسیر و تشریح سے تمسک کرنے اور اسی کی اطاعت و پیروی کا حکم دیا ہے۔ اور امت میں اختلاف واقع ہونے کی پیشین گوئی اور اسے نافرمانی اور مخالفت کرنے سے ڈرایا ہے صحیح سند کے ساتھ نمونہ کے طور سے ایک روایت پیش خدمت ہے آنحضرت ﷺ سے نقل ہے۔ (عنقریب ایسے لوگ آنے والے ہیں جو تخت و سلطنت پر تکیہ لگائے ہوں گے اور جب میری حدیث درمیان میں آئے گی تو کہیں گے: ہمارے اور تمہارے درمیان خدا کی کتاب کافی ہے۔ اس میں جو حلال ہے اسے حلال اور اس میں جو حرام ہے اسے حرام قرار دیتا ہوں، (پھر پیغمبرؐ نے فرمایا) آگاہ ہوجاؤ! جن چیزوں کو اللہ کے رسولؐ نے حرام قرار دیا ہے وہ وہی چیز ہے جسے خدا نے حرام قرار دیا ہے۔{ FR 318 }
(د)
خداوند عالم نے اپنے رسولؐ کی اس پیروی و اطاعت میں احکام و دستورات اور ان کی بیان کردہ تشریح و توضیح کے درمیان کسی طرح کا فرق قائم نہیں کیا ہے اور قرآن و روایات میں کسی طرح کی حد بندی نہیں کی ہے، اس بارے میں احکام و دستورات خواہ اعتقاد سے مربوط ہوں یا غیر اعتقاد سے کسی طرح کا امتیاز نہیں رکھا ہے۔ اس لحاظ سے کوئی یہ عذر یا بہانہ نہیں کرسکتا کہ وہ کہے: فلاں مسئلہ اعتقادات سے متعلق ہے (مثلاً مسئلہ امامت و ولایت کہ جو مذہب شیعہ کے ارکان کا ایک حصہ ہے) اس لئے ضروری ہے کہ قرآن میں اسے بصورت نص بیان ہونا چاہئے۔ (اور یہ کہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ وہ ظاہر آیت میں کلی طور سے بیان ہو اور رسول اللہ اسے دیگر مسائل کی طرح تشریح و توضیح فرمائیں!!) اس طرح کے عذر و بہانہ کو شریعت کے کسی حصہ میں جگہ نہیں دی گئی ہے۔ بلکہ پیغمبر اکرمؐ کی مطلق پیروی اور اس پر بھرپور تاکید ہر طرح کی قید و شرط اور سرحدوں کو ختم کردیتی ہے۔
نتیجہ بحث :
قرآن میں ائمہ علیہم السلام کے اسماء کی عدم تصریح کا مسئلہ آج کی فکر نہیں ہے بلکہ خود زمانہ ائمہ میں بھی اس طرح کے سوالات ہوتے تھے۔ اس سوال کے جواب میں تین الگ الگ نظریات پائے جاتے ہیں۔ اور آیت و روایات سے جو اسناد و مدارک دستیاب ہیں ان کی روشنی میں تیسرا نظریہ قابل قبول صحیح ہے۔جو حسب ذیل باتوں پر مشتمل ہے۔
قرآن کریم میں اہلبیت علیہم السلام کو مخصوص اوصاف و کلی مفاہیم اور متعدد عنوان جیسے ’’اولوالامر، اھل الذکر—کے ساتھ متعارف کرایا گیا ہے۔ لیکن ان کے نام کی صراحت نہیں ہوئی ہے۔ آنحضرت ﷺ امت کے لئے انھیں بیان کرنے والے تفسیر کرنے والے، تشریح کرنے والے ہیں — اور اس کی حکمت یہ تھی کہ لوگ حضور اکرمؐ کی اطاعت و پیروی کے ذریعہ آل محمد علیہم السلام سے متعلق احکام و دستورات کی نسبت سے آزمائے جائیں، جبکہ آنحضرتؐ نے اس پیغام کو پہنچانے میں کسی طرح کی کوتاہی یا مسامحہ نہیں فرمایا۔ اس کے باوجود جمہور امت گذشتہ امتوں کی مانند امتحان میں ناکام ہوگئی۔
عجیب بات ہے نماز کے ارکان ،روزہ کے شرائط، زکات کے نصاب، حج کی تفصیلات ——- یہ تمام باتیں تمام مسلمان حضرت رسول خداؐ کی حدیثوں سے حاصل کرتے ہیں اور اس پر باقاعدہ عمل کرتے ہیں اور اس طرح کے سوالات نہیں کرتے ہیں لیکن جب اہل بیت علیہم السلام کی امامت و ولایت کا مسئلہ آتا ہے تو اس طرح کے سوالات کی بھرمار ہوجاتی ہے جبکہ سب جانتے ہیں نجات اہل بیت علیہم السلام کی پیروی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں