پیغام غدیر اسلامی اتحاد کا محور ہے

اگرچہ واقعہ غدیر آج چودہ سو سال سے زیادہ اپنا تاریخی سفر طے کر چکا ہے،مگر حقیقت غدیر ہر روزاور آنے والے دنوں میں ہر اس مسلمان کے لئے دینی عقیدہ اورآئین اسلام و قرآن اور آنحضرت ﷺ پر ایمان رکھنے اور سنت پر عمل کرنے کے تقاضوں کے لحاظ سے دنیا وآخرت میں کامیاب زندگی کی ضمانت کیلئے الہامی سند کی حیثیت رکھتی ہے۔
اس لئے دنیائے اسلام کو چاہئے کہ اس عظیم الشان دن کے حقائق وبلند پایہ مفاہیم اور نہفتہ تعلیمات کو نہ صرف فرزندان توحید بلکہ عالم بشریت تک پہونچائے تاکہ عظیم ترین انسانی آرزوؤں کو زندہ و تابندہ بنایا جا سکے۔ غدیر پر پردہ ڈالنا حیات بشریت پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے، اس لئے کہ انسانی معاشرے کی سعادت مندی کی طرف ابدی ہدایت الہی راہنما یعنی امیرالمومنین علیہ السلام کی امامت و قیادت ہی میں پوشیدہ ہے۔ اس لئے غدیر پر گفتگو ہر زمانہ کی ضرورت اور ہم سب کا وظیفہ ہے، اسے تاریخ کے کسی حصہ سے مخصوص نہیں کیا جا سکتا ہے ۔
یہ کہنا آسان ہے کہ ’’جو واقعہ صدیوں پہلے گذر چکا آج اس کے بارے میں بحث وگفتگو سے سوائے اختلافات پیدا ہونےاور فتنہ برپا ہونے کے کچھ حاصل نہیں ہونے والا ہے، اس لئے ایسی بحث نہ کی جائے جو اتحاد بین المسلمین کے خلاف ہو یا امت مسلمہ کا ایک دوسرے سے قریب ہو نے میں مانع ہو‘‘ لیکن اگر واقعی پیغام غدیر اوراسلامی معاشرے کی حقیقی وحدت پر غور کیا جائے تو غدیر ہی اسلامی اتحاد واتفاق کا محور و مرکز نظر آتا ہے۔
اس سلسلہ میں اگرچند حقائق پر توجہ دی جائے تو مسئلۂ امامت و غدیر کے بارے میں بحث وگفتگو نہ صرف موجب اختلاف نہ ہوگی بلکہ اس کے عظیم الشان اور بے پناہ فائدے ہیں جو کسی اور چیز سے مقایسہ نہیں کئے جا سکتے ہیں:
(۱) حقیقت اتحاد:
پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ حقیقت اورمفہوم اتحاد ہےکیا؟ دراصل دو الگ الگ عناوین کو ایک لفظ کے ذریعہ پیش کیا جاتا ہے جن سے ایک ہی معنی مراد لینا نا انصافی ہوگی، لہذا ان میں انتہائ دقت نظر اور غور و فکر کی ضروت ہے، انہیں ایک دوسرے پر قربان نہیں کر سکتے ہیں۔
الف – امت مسلمہ کا ایک پلیٹ فارم پر آنا اور وحدت کا تحفظ تاکہ اتفاق و یکجہتی کی فضا قائم رہے۔
ب- اصل دین و اسلام کا تحفظ۔
اس میں تو کسی کو کوئ شک و تردید نہیں ہو سکتی ہے کہ تمام امت مسلمہ کا وظیفہ ہے کہ اس دین حنیف کی حفاظت کرے اس کی نشرو اشاعت میں سعی وکوشش کرے اس سلسلہ میں تمام مسلمان اہم اور سنگین ذمہ داری رکھتے ہیں، اور چونکہ تمام مذاہب کے مسلمانوں کے لئے مشترک دشمن بھی ہیں جو اصل اسلام و قرآن اور مسلمانوں کو نابود کرنا چاہتے ہیں اس لئے سب کو متحد ہوکر دین و قرآن کی حفاظت میں سعی کرنی چاہئے۔ مگر اس کے معنی ہرگز یہ تو نہیں ہوتے کہ ہم پر جو دوسری اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس سے سبکدوش ہو جائیں اور دین اسلام کے مسلمہ اصول و حقائق کو بیان کرنے سے گریز کرنے لگیں،امت اسلامیہ کی وحدت کو اصل ہدف قرار دیتے ہوئے حقائق شرعیہ کو فرعی حیثیت دیکرقربان کر دیناخلاف عقل ہے۔بلکہ اگر اسلام اتحاد بین المسلمین کی دعوت دیتا ہےتو وہ تحفظ دین کے مقصد کی خاطر ہے تاکہ حقیقت دین واسلام باقی رہے ورنہ جب خود اسلام نہ ہوگا تو مسلمانوں کا اتحاد چہ معنی دارد؟نبی اکرم ﷺ کی تاریخ وسیرت اس حقیقت کی عکاس بھی ہے اوربہترین شاہد وتائید بھی ہے۔حضرت ختمی مرتبت ص جانتے تھے اور خبر بھی دے دی تھی کہ بنی امیہ علیہم اللعن حضرت علی علیہ السلام اور بنی ہاشم کے دشمن ہیں اور وہ امیر المومنین ع کی ولایت وسرپرستی ہرگز تسلیم نہیں کرینگے مگر اس کے باوجود آنحضرت ص نے حق بیان کرنے اور حقیقت آشکار کرنے سے گریز نہی فرمایا اور نہ ذرہ برابر کوتاہی فرمائی،بلکہ اپنے ۲۳ سالہ دوررسالت میں ہر مقام پر،مختلف عنوان سے اور ہر ہر صورت میں،کئ کئ بار ولایت علی بن ابی طالب علیھماالسلام کا اعلان فرماتے رہے اور لوگوں کو اس کی طرف توجہ دلاتے رہے، جبکہ آپ بطور قطع اس بات سے واقف تھے کہ ہنگام وفات سے ہی اس موضوع کے بارے میں اختلاف شروع ہو جائے گا اور یہ اختلاف امت کے اصحاب صغار نہیں کبار اصحاب میں رونما ہوگا اور تا ظہور امام مہدی علیہ السلام باقی رہیگا پھر بھی بیان فرمایا اور حق کو آشکار کیا، یہاں تک کہ روز غدیر خم دلوں سے ہر طرح کی تردید اور شک و شبہ دور کرنے کیلئے حضرت علی علیہ السلام کا دست مبارک بلند کر کے لوگوں کیلئے خلیفہ نصب کر دیا تاکہ سارے صحابہ اور ساری امت دیکھ لے کہ خدا کے رسولؐ نے اس ولایت و امامت کیلئے کس قدر تاکید واہتمام فرمایا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ حقائق کو بیان کرنا ہی اصل ہے ، کسی اور مسئلہ کو اہم بنا کر اسے قربان نہیں کر سکتے ہیں،حتی اگر اس کے بیان کرنے سے مسلمانوں میں دو گروہ بھی ایجاد ہو جاتے ہیں تبھی اسے پس پشت نہیں ڈال سکتے ہیں۔ تو اس کے یہ معنی بھی نہیں ہوتے کہ مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں رہے اور اپنے ہی وجود کو نابود کرنے پر اتر آئے ،بلکہ محکم دلائل و براہین کے ساتھ اپنے اپنے مکاتب فکر کے نظریات بیان کرتے ہوئے ایک دوسرے کو برداشت کرے اور ’’الذین یستمعون القول ویتبعون احسنه‘‘کی بنیاد پر حق بات کو تسلیم کرے اور دوسروں کو اس کی طرف دعوت بھی دے۔اوراسی کے ساتھ ساتھ اپنے مشترک دشمن سے بھی ہوشیار رہے۔امام حسین علیہ السلام کا قیام بھی اسی بات کی تائید کرتا ہے، آپ بخوبی واقف تھے قیام سے مسلمانوں میں دو گروہ ہو جائینگے اور شدید نزاع پیدا ہوگا، مگر بخاطر اتحاد بین المسلمین اصل حقیقت امر بہ معروف و نہی از منکر ،(کہ جس میں اسلامی آمر و ناہی کے مصداق کو بیان کرنا اور لوگوں کو اس کی طرف توجہ دلانا تھا جسے وہ بھول گئے تھے یا بھلا دیا تھا) سے غافل نہیں ہوئے۔
خود امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی سیرت اور روش بھی اسی مطلب کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ بعض لوگوں کے خیال کے مطابق طلحہ و زبیر اور معاویہ کو بیجا امتیاز فراہم کر کے جنگ جمل و صفین جیسے معرکوں کو ٹال سکتے تھے تاکہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف ایجاد نہ ہوتا اور ہزاروں مسلمان قتل ہونے سے محفوظ رہ جاتے لیکن امام علیہ السلام اصول اسلام اور حقائق شریعت کے تحفظ کی خاطر ہر گز اس بات سے راضی نہ ہوئےکہ حق کو پسِ پشت ڈال کر جمل و صفین جیسے معرکوں کو ٹال دیا جائے. علمی تحقیق اور کشف حقائق کے لئے اہل علم کے درمیان ہمیشہ اور ہر حال میں دروازہ کھلا رہا ہے اور کھلا رہے گا، ولایت و امامت اہل بیت علیہم السلام کا شعار دے کر نہ اقرار شہادتین کے فقہی آثار کا انکار کیا جا سکتا ہے ،اور نہ ہی اتحاد بین المسلمین کا نعرہ بلند کر کے اصول ایمان میں اختلافی پہلوؤں کےلازمی آثار سے صرف نظر کیا جا سکتا ہے۔
۲۔ امام برحق ہی کی قیادت میں وحدت ممکن ہے:
اسلام مسلمانوں کے درمیان اتحاد و ہم آہنگی کی بےپناہ تاکید کرتا ہے قرآن نے اس سلسلے میں کئ مقام پر اشارہ کیا ہے: ’’اذ کنتم اعداء فالف بين قلوبكم فاصبحتم بنعمته اخوانا‘‘ (آل عمران ۱۰۳)(تم لوگ اس وقت کو یاد کرو جب آپس میں دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے) ’’ولا تکونوا کالذین تفرقوا و اختلفوا من بعد ما جاء ھم البینات و اولئک لہم عذاب عظیم‘‘۔ (آل عمران ۱۰۵)(اور خبردار ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے تفرقہ پیدا کیا اور واضح نشانیوں کے آجانے کے بعد بھی اختلاف کیا ان کے لئے عذاب عظیم ہے )
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ
(حجرات ۱۰)
(مومنین آپس میں بالکل بھائی بھائی ہیں )
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعًا وَلَا تَفَرَّقُوْا
(آل عمران ۱۰۳ )
اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو۔
إِنَّ هَـٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ
( انبیاء۹۲)
’’بے شک یہ تمہارا دین ایک ہی دین اسلام ہے اور میں تم سب کا پروردگار ہوں لہذا میری ہی عبادت کیا کرو۔‘‘
قرآن کریم کی بے پناہ تاکید کے باوجود اس سے غافل نہیں ہوا جاسکتا ہے کہ وحدت کے لئے محور اور بنیاد ضروری ہے جب تک اسے متعین نہیں کیا جائے گا اختلاف و انتشار ناگزیر ہے۔اگراس مقام پر کوئی قرآن کریم کے امام ہونے کا دعوی کرے تو یہ تنہا امام بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہےاس لیے کہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق قرآن کریم کی مختلف تاویلیں، وجوہات ہیں جن کی بنا پر اس کے ایک ایک لفظ کو ایک تاویل پر حمل کر سکتے ہیں، اسی بنا پر ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ قرآن کریم با وجودیکہ آسمانی کتاب کو امام کے عنوان سے متعارف کراتا ہے:
وَمِنْ قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَىٰ إِمَامًا وَرَحْمَةً
(ھود ۱۷)
صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ
(اعلیٰ ۱۹)
مگر پھر بھی اس پر اکتفا نہیں کی بلکہ جناب ابراہیم کو امام ناطق کے عنوان سے پہچنوایا:
وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا
(بقرہ ۱۲۴)
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تنہا قرآن کو امام قرار نہیں دیا جا سکتا ہے جب تک کہ اس امام صامت کے ساتھ امام ناطق کو امام نہ مانا جائے تاکہ اختلاف کی شکل میں حق کو آشکار کرے اور وہ اہل بیت پیغمبر ہی ہیں جن کی لایق و منجانب اللہ قیادت وامامت کے سائے میں سعادتمند راستہ طے کیا جا سکتا ہے۔
۳۔ علمی بحث و گفتگو، اتحاد و اتفاق کا پہلا قدم ہے:
کتاب ملل و نحل میں شہرستانی لکھتے ہیں:
امت کے درمیان سب سے بڑا اختلاف مسئلہ امامت کا اختلاف ہے…(ملل و نحل ۱، ج ۲۴) اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ غیر علمی اور غیر منطقی بحثوں نے مسلمانوں میں شدت کا عناد اور دشمنی پیدا کی ہے. لیکن اگر علمی بحث و گفتگو کی روشنی میں ہر فرقہ دوسرے فرقے کے واقعی عقاید کی تہہ تک پہنچ جاے اور معلوم ہو جائے کہ اس کے عقائد کی بنیاد عقل و قرآن اور سنت پیغمبر ص پر قائم ہے توایک دوسرے کے درمیان دشمنی کم ہو سکتی ہے اور تعصب کو مٹایا جا سکتا ہے،دو فرقوں میں شدید ترین اور اہم ترین نفرت کا سبب ایک دوسرے کے عقائد سے نہ واقف ہونا ہے، یا اسے بغیر کسی دلیل و منطق کے خیال کرنا ہے۔ مثلا شیعوں کو ان کے عقیدہ ’’بداء‘‘ کی بنا پر کفر سے نسبت دینا ، اور’’ تقیہ‘‘ کی وجہ سے نفاق کا الزام دینا کیونکہ وہ اس عقیدہ و عمل کی حقیقت اور اصل مفہوم سے بے خبر ہیں، اور مسئلہ امامت و ولایت اہل بیت علیہم السلام بھی اسی طرح ہے۔
اگر اہل سنت مذہب امامیہ کے عقیدہ امامت اور اس کے شرائط وغیرہ کی بنا پر غلو کا الزام لگاتے ہیں تو اس کی اہم ترین وجہ علمی و منطقی طریقہ سے اسے درک نہ کر پانا ہے، یا صحیح طریقے سے خود ہم نےاس سے متعارف نہیں کرایا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جہاں جہاں صحیح اور علمی و اخلاقی طریقے سے حق ادا کیا ہے اس سلسلے میں بے پناہ کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں، اور فرقوں کے معزز افراد میں اتحاد و اتفاق کی فضا قائم ہوتی گئی اور یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا گیا جس کے چند نمونے ملاحظہ کئے جا سکتے ہیں :شیخ محمود شلتوت کا فتوی، اور ڈاکٹر محمد محمد فحام، شیخ محمد غزالی، عبدالرحمن نجار،استاد احمد، شیخ محمد ابو زہرہ ،استاد محمود سرطاوی، استاد عبد الفتاح عبد المقصود ،ڈاکٹر حامد حنفی، ڈاکٹر عبدالرحمن کیالی،استاد ابوالوفا غنیمی تفتازانی جیسے بزرگ محققین اور مفتیان عالم اسلام کی شخصیتیں نمایاں ہیں۔کیا علمی بحث و گفتگو کے نتیجے میں ہر طرح کی دشمنی وکینہ اور نفرتوں کو بالائےطاق رکھ دینے والوں میں علامہ شیخ محمد مرعی امین انطاکی، علامہ شیخ احمد امین انطاکی، ڈاکٹر محمد تیجانی سماوی، صائب عبدالحمید،استاد صالح الوردانی، استادمعتصم سید احمد سوڈانی مشہور مصری وکیل دمرداش عقالی،علامہ ڈاکٹر محمد حسن شحاتہ، شیخ محمد عبد العال، محمد شحادہ، اسعد وحید قاسم (فلسطینی طبیب) جیسےہزاروں کی تعداد میں ان سعادت مندوں کو فراموش کیا جا سکتا ہے !!؟؟؟
۴۔ پیغمبر ﷺکے بعد دینی مرجعیت کا تعین:
عہدہ امامت ایک الٰہی منصب ہے جو دینی و دنیوی دونوں اعتبارسے اہمیت رکھتا ہے اس کے علاوہ اس کے تاریخی پہلوؤں کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے ہیں۔اور فرض کر لیں کہ تاریخی اعتبار سے اس کا زمانہ گزر چکا ہے اور اب وہ ماضی کے پردے میں جا چکا ہے(بقول شخصےاب گڑے مردے اکھاڑنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے) یہ اس وقت صحیح ہوتا جب اس کا تعلق صرف تاریخ سے ہوتا، مگر جب وہ دین و ایمان سے تعلق رکھتا ہے تو اب ماضی کی داستان کہہ کر اس سے منہ نہیں موڑ سکتے ہیں،نہ صرف اس وقت اس کی ضرورت باقی ہے بلکہ تا قیامت ضرورت باقی رہے گی۔اس بنا پر اگر ہم امامت و ولایت کی بحث و گفتگو کرتے ہیں تو اس مقصد کی خاطر کہ ہمارا دینی مرجع کون ہے ؟ اور آج ہم دین کس سے حاصل کریں؟ نبی اکرم ﷺ کی واقعی سنت کس کے پاس ہے ؟ دین اور دین کے معارف ابو الحسن اشعری ،ابوالحسن بصری، ابن تیمیہ، فضل بن روزبہان اور دین کی فقہ ائمہ مذاہب اربعہ سے حاصل کریں؟!! جیساکہ اہلسنت اور وہابیوں کا عقیدہ یہی ہے۔ یا معصوم اور صاحب علم لدنی جیسے افراد جو سوائے اہل بیت پیغمبرﷺ کے کوئی دوسرا نہیں ہے جن کے سینوں میں پیغمبرﷺ کا علم و کمال پایا جاتا ہے، ان کی پیروی کریں۔
یہ ایک واضح حقیقت ہے جس پر قرآن کی آیتیں اور بے شمار روایتیں دلالت کرتی ہیں،اور مذہب امامیہ اسی پر تاکید اور شدت سے گامزن ہونے کے ساتھ دوسروں کو بھی اس کی تلقین و رہنمائی کرتا ہے کہ صاحب رسالت نبی اکرمؐ سے غیرمعمولی فاصلہ ہو جانے، اور مختلف مکاتب فکر کے وجود میں آ جانے، اور شدت کے ساتھ آراء ونظریات کے متصادم ہونے کے بعد، ہر مسلمان پر واجب ہےکہ حضرت پیغمبرؐ کی صحیح سنت اور اسلام کےحقیقی معارف تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ایسا راستہ اختیار کرے جو قابل اطمینان بھی ہو اور خدا و رسول کی طرف سے تائید شدہ بھی ہو۔ اسی لئے وفات پیغمبر ﷺکے بعد حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو امامت و ولایت کے لیے خلیفہ بلا فصل کے عنوان سے منصوب ہونا قرار دیتے ہیں، جس سے امور حکومت و سیاست میں اسلامی قیادت و رہبری کا خلا بھی پورا ہو جاتا ہے اور دینی مشکلات اور شرعی مسائل بھی حل ہو جاتے ہیں۔
اور اسی مطلب کی طرف تو مولائے کائنات نے نہج البلاغہ میں اشارہ فرمایا ہے:
فَاَيْنَ تَذْهَبُوْنَ وَأنّٰي تُؤْفَكُوْنَ وَالْاَعْلَامُ قَائِمَةٌ وَالْاٰيَاتُ وَاضِحَةٌ والْمَنَارُ مَنْصُوْبَةٌ فَاَيْنَ يَتَاهُ بِكُمْ وَكَيْفَ تَعْمَهُوْنَ وَبَيْنَكُمْ عِتْرَةُ نَبِيِّكُمْ وَهُمْ اَزِمَةٌ لِلْحَقِّ وَ أعلَامُ الدِّيْن وَالسُّنَةُ الْحَقِ
(نہج البلاغہ عبدہ، جلد ۲ ص ۱۹)
’’اے لوگو !کہاں جا رہے ہو ؟حق سے منحرف کیوں ہو رہے ہو پرچم حق بلند ہے اس کی نشانیاں آشکار ہیں ,جب کہ چراغ ہدایت کے راستے روشن ہیں، گمراہوں کی طرح کہاں چلے جا رہے ہو؟ کیوں سرگرداں ہو؟ جب کہ تمہارے نبی کی عترت تمہارے درمیان ہے، وہی لوگ رہبران حق پیشوایان دین اور سچائی و صداقت کی زبان گویا ہیں) اُنْظُرُوْا اَهْلِ بَيْتِ نَبِيَّكُمْ وَ التَّبِعُوْا اَثَرَهُمْ فَلَنْ يُخْرِجُوْكُمْ مِنْ هُدٰى…الخ”
(نہج البلاغہ عبدہ، جلد ۲ ص ۱۹)
(اے لوگو اپنے نبیؐ کے اہل بیتؑ کی طرف توجہ کرووہ جس مقام پر اپنے قدم رکھیں اسی جگہ تم بھی قدم رکھو وہ تمہیں راہ ہدایت سے باہر نہیں کریں گے ،ہلاکت وپستی کی طرف واپس نہیں لے جائیں گے، اگر وہ خاموش رہیں تو تم بھی خاموش رہو، اگر قیام کریں تو تم بھی قیام کرو،ان سے آگے نہ چلے جاؤ ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے ان سے پیچھے نہ رہ جاؤ ورنہ نابود ہو جاؤ گے،)
اَيْنَ الَّذِيْنَ زَعَمُوْا اَنَّهُمُ الرَّاسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ دُوْنَنَا كِذْبًا وَ بَغْيًا عَلَيْنَا..الخ”
(نہج البلاغہ عبدہ، جلد ۲ ص ۵۵)
کہاں ہیں وہ لوگ جو خیال کرتے ہیں کہ راسخون فی العلم ہیں اور ہم اہل بیت نہیں ہیں، لوگوں نے ہمارے خلاف جھوٹ، ظلم و ستم کی بنیاد پر ایسا دعوی پیش کیا ہے، خدا وند عالم نے ہم اہل بیت کو بلند کیا اور انہیں پست و خوار کیا، ہمیں عطا فرمایا انہیں محروم۔۔۔)
ہُمْ عَيْشُ الْعِلْمِ وَ مَوْتُ الْجَهْلِ يُخْبِرْكُمْ حِلْمُهْمَ عَنْ عِلْمِهِمْ وَظَاهِرُ هُمْ عَنْ بَاطِنِهِمْ وَصُمْتِهِمْ عَنْ حِكْمِ مَنْطِقِهِمْ….الخ‘‘
(نہج البلاغہ ، صبحی صالح خطبہ ۱۴۷)
(وہ ’’اہل بیت‘‘ علم و دانش کے رمز حیات اور جہل و نادانی کے راز مرگ ہیں،ان کا حلم ان کے علم کا، ان کا ظاہر ان کے باطن کا، ان کا سکوت ان کے نطق کا تمہیں خبر دیتا ہے، دین خدا کی مخالفت کرتے ہیں اور نہ ہی اس میں اختلاف کرتے ہیں)
یہ حقیقت ہے کہ خداوند متعال نے حضور اکرمﷺ کو تمام مسلمانوں کے لئے اسوہ حسنہ قرار دیا ہے، لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ پیغمبر اکرم کے بعد ایسے حالات ،مواقع پیش آئے ہیں جو عہد پیغمبرؐ سے بالکل مختلف تھے ان حالات میں مسلمان کسے اپنا آئیڈیل بنائے، اس لیے ضرورت تھی کہ پیغمبرؐ جیسا کرداروالا موجود ہو تاکہ وہ جہاں قدم رکھے امت بھی وہیں قدم رکھے، وہ جہاں سکوت اختیار کرے مسلمان بھی خاموش رہے، وہ جہاں قیام کرے مسلمان بھی ان کے ساتھ رہے،کہ اگر قاریان قرآن و حافظان قرآن اور شب زندہ دار لوگوں کے خلاف تلوار اٹھا لے تو اسے پیشانی پر سجدوں کے نشانات ،مؤمن کی ظاہری نشانیاں دھوکہ نہ دے سکیں۔ اسی طرح جب ایسازمانہ آجائے کہ اسلام کے نام سے یزید تمام اسلامی ممالک کاحاکم اسلامی کے عنوان سےتخت نشین ہو جائے تو ایسے وقت میں پیغمبرانہ کردار ہو جو انسانیت کے لیے تاقیامت أسوۂ حسنیٰ کا نمونہ پیش کر سکے جو تا قیامت ہر ایک کے لیے مشعل راہ ہو ،اس لئے ہر دور میں جانشینئ پیغمبرﷺ کے بارے میں بحث و گفتگو کی ضرورت ہے،تاکہ قرآن کو نیزوں پر بلند کرنے کے موقع پروہ قرآن ناطق بن کر سامنے آجائے، بحث امامت کی ضرورت ہے تاکہ یزید پلید کے مقابلے میں دین محمدی کو بچانے کے لیے وہ محمد ﷺجیسا کردار پیش کرسکے، وفات پیغمبرؐ کے بعد اس لیے گفتگوئ امامت کی ضرورت ہے تاکہ یہ روشن ہو جائے کہ خدا کی طرف سے دین کی زعامت کی صلاحیت کس کے اندر پائی جاتی ہے جو تاقیامت اسلامی معاشرے کی سعادت مندیوں کی طرف رہنمائی کر سکے، اور جب ایسا فرد متعین ہوجائیگا تب خودبخود امت بلکہ انسانیت اس کے پرچم تلے گھٹنے ٹیک دے گی اور اتحاد و یکجہتی کی فضا قائم ہو جائے گی تب نہ کوئی اختلاف ہوگا نہ انتشار۔
آؤ سب مل کر اسی سلسلے کے آخری متفق علیہ خلیفہ امام مہدی علیہ السلام کے ظہورکی دعا کریں اور خدا سے التجا کریں خدایا! وارث غدیر ، امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور پر نور میں تعجیل فرما اور ہم سب کو ان کے اعوان و انصار میں قرار فرما۔ آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں